donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Bazme Urdu Qatar
Title :
   Bazme Urdu Qatar Ke Zer Ahtemam Aik Sham Shad Akolvi Ke Nam

 

قطر کی قدیم ترین اردو تنظیم ’بزمِ اردو قطر

 

کے زیرِ اہتمام ’’ایک شام شادؔ آکولوی کے نام ‘‘اور

مشاعرہ


پاکستان سے جناب عباس تابشؔاور ہندوستان سے جناب حسنؔ کاظمی ،

جناب ابرار کاشفؔ و جناب سہیلؔ عثمانی کی شرکت

     قطر کی قدیم ترین اردو تنظیم بزمِ اردو قطر (قائم شدہ۱۹۵۹ئ؁)  نابغۂ روزگار شعراء و ادبا کے ساتھ 'ایک شام' منانے کا اہتمام سہ ماہی پروگرام کے طور پر کر رہی ہے۔  بزمِ اردو قطر نے اس سلسلے کی تیسری تقریب قطر میں تقریباً تین دہائیوں سے مقیم معروف شاعر و ادیب ، بزمِ اردو قطر کے صدر اور عالمی شہرت یافتہ تنظیم ’مجلس فروغِ اردو ادب‘ کے نائب صدر جناب شادؔ آکولوی کے ساتھ ایک شام اور خصوصی مشاعرے کا انعقاد ۱۹/ دسمبر ۲۰۱۵ئ؁ بروز  ہفتہ کی شام علامہ ابن حجر لائبریری، دوحہ میں کیا۔ پاکستان سے تشریف لائے عالمی شہرت یافتہ شاعر جناب عباس تابشؔ اور ہندوستان سے تشریف لائے  معروف شاعر جناب حسنؔ کاظمی، جناب ابرار کاشفؔ اور جناب سہیلؔ عثمانی مہمانانِ خصوصی کی حیثیت سے جلوہ افروز ہوئے۔ بزمِ اردو قطر کے سرپرستِ اعلیٰ اور معروف سماجی کارکن و تاجر جناب عظیم عباس نے اس پر وقار شام و مشاعرے کی صدارت فرمائی۔ مہمان شعراے کرام کے علاوہ انڈیا اردو سوسائٹی قطر کے بانی،  شاعرِ خلیج و فخرالمتغزلین جناب جلیلؔ نظامی، انڈیا اردو سوسائٹی قطر کے صدر و معروف شاعر و ادیب جناب عتیق انظرؔ اور پاک آرٹس سوسائٹی قطر کے جنرل سکریٹری و معروف سماجی کارکن جناب عدیل اکبر نے مہمانانِ خصوصی کی نشستوں کو رونق بخشی۔  

    پر وقار عشائیہ کے بعد تقریب کا آغاز ہوا۔ پروگرام کی نظامت کے فرائض بزمِ اردو قطر کے چیئرمین  و گزرگاہِ خیال فورم کے بانی  صدر جناب ڈاکٹر فیصل حنیف نے برجستہ جملوں اور شگفتہ فقروں کے ساتھ عمدہ انداز میں انجام دیے۔ جناب عامر عثمانی شکیبؔ کی تلاوتِ کلام اللہ سے با برکت آغاز ہوا ۔  ناظمِ تقریب جناب ڈاکٹر فیصل حنیف نے کثیر تعداد میں تشریف لائے  با ذوق سامعین و شعراے کرام اور مختلف تنظیموں کے نمائندو ں  اور ہندوستان پاکستان سے تشریف لائے شعراے کرام کا تہہِ دل سے استقبال کیا اور انڈیا اردو سوسائٹی قطر کے ذمہ داران کا بھی شکریہ ادا کیا جنھوں نے مہمان شعراء سے استفادہ کا موقع عنایت کیا۔

    جناب ڈاکٹر فیصل حنیف نے جناب شادؔ آکولوی کی شاعری پر  عمدہ اشعار کے انتخاب کے ساتھ پرمغز  مضمون پیش کیاجسے حاضرین نے خوب سراہا۔ آپ نے فرمایا کہ شادؔ صاحب کی شاعری میں فکر، اندازِ بیان، شوخی، متانت، ہم آہنگی، صداقت، مقصدیت، اصلیت اور آفاقیت سب کچھ موجود ہے۔ شادؔ آکولوی کا سارا کلام صاف،  لطیف و شیریں ہے جو کسی بھی ادبی محفل کو چار چاند لگا سکتا ہے۔

    بزمِ اردو قطر کے رابطہ سکریٹری جناب وزیر احمد وزیرؔ نے جناب شادؔ آکولوی کی غزل اپنے دلکش ترنم میں پیش کی۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

دل کے ارمان کب نکلتے ہیں
آپ آئے نہیں کہ چلتے ہیں

رات کی تیرگی میں جانِ خلوص
تیری یادوں کے دیپ جلتے ہیں

آئینے جھوٹ تو نہیں کہتے
آپ کیوں آئینے بدلتے ہیں

    بزمِ اردو قطر کے نائب صدر جناب مقصود انور مقصودؔ نے جناب شادؔ آکولوی کو منظوم خراجِ تحسین پیش کیا:

بزمِ اردو قطر کی جانب سے
شادؔ کے نام شام کرتے ہیں

شخصیت تیری ہے عزیز اتنی
سب ترا احترام کرتے ہیں

شادؔ تو اپنے اس تخلص سا
زندگی میں رہے ہمیشہ شاد

فکر و فن کی تری حسیں دنیا
سب کے دل میں رہے سدا آباد

    بزمِ اردو قطر کے جنرل سکریٹری جناب افتخار راغبؔ نے بھی جناب شادؔ آکولوی کو منظوم خراجِ تحسین پیش کیا:

ہر لمحہ شاد شاد محمد رفیق شادؔ
رکھتے نہیں عناد محمد رفیق شادؔ

ذرّے بھی مثلِ مہرِ درخشاں چمک اٹھیں
دیتے ہیں ایسی داد محمد رفیق شادؔ

شکوہ نہیں کسی سے بھی دشمن ہو یا کہ دوست
رکھتے ہیں سب کو یاد محمد رفیق شادؔ

تنویرِ اعتبار، مجسّم خلوص و انس
تصویرِ اعتماد محمد رفیق شادؔ

راغبؔ ہے کون اہلِ محبت کا ہم نوا
ہیں دشمنِ فساد محمد رفیق شادؔ

    قطر کے معروف نثر نگار جناب ڈاکٹر عطاء الرحمن صدیقی ندوی نے ایک بھرپور مضمون بعنوان ’’شادؔ، شخصیت، شاعری اور خدمات‘‘ پیش کیا اور صاحبِ شام جناب شادؔ آکولوی کے فن اور شخصیت کے مختلف گوشوں پر روشنی بکھیری۔ آپ نے شادؔ صاحب کے کئی معروف اشعار بھی پیش کیے ۔  اس کے بعد معروف مترنم جناب عبد الملک قاضی نے جنابِ شادؔ کی ایک غزل اپنے مخصوص انداز میں پیش کی اور حاضری سے خوب داد و تحسین وصول کی:

بلندی منزلوں کی عزم سے بڑھ کر بناتا ہوں
نشانِ راہ خورشید و مہ و اختر بناتا ہوں

زمانہ چل رہا ہے اک طرف اک سمت ہے میری
نئی راہیں میں اوروں سے ذرا ہٹ کر بناتا ہوں

مرے شاہیں صفت بچے حدِ پرواز تک پہنچیں
کچھ اِس انداز سے میں ان کے بال و پر بناتا ہوں

مری غزلوں کا اک اک شعر گویا اک سپاہی ہے
’’میں کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بناتا ہوں‘‘

    ناظمِ تقریب جناب ڈاکٹر فیصل حنیف نے جناب شادؔ آکولوی  کو دعوتِ کلام دی اور آپ نے اپنے چند قطعات و مختلف غزلوں سے اشعار پیش کیے اور باذوق سماعتوں کو خوب محظوظ کیا اور خوب داد وصول کی۔ چند اشعار آپ بھی سنیے اورسر دھنیے:

اک ظلم کی سوغات بتا ہے کتنی
یہ تیری سیہ رات بتا ہے کتنی

مظلوم کی اک آہ جلا کر رکھ دے
ظالم تری اوقات بتا ہے کتنی

جو دوسروں کے اثر سے نجات پا نہ سکے
وہ زندہ رہ کے مقامِ حیات پا نہ سکے

لہو خلوص کا شامل نہ تھا رفاقت میں
تو دوستی کے تقاضے ثبات پا نہ سکے

نئی دوستی کے فسانے بہت ہیں
مگر دشمنی کو بہانے بہت ہیں

سلامت رہے شادؔ روشن ضمیری
تو محنت کے دو چار آنے بہت ہیں

اگر ہے امن کی خواہش، ہٹائو
ہمارے گھر سے پہرے دار اپنے

پرندے پھڑپھڑا کر گر رہے ہیں
سنبھالو گنبد و مینار اپنے

درد کو ناحق نہ یوں الزام دے
درد ہی شاید دوا کا کام دے

وہ لمحہ شادؔ مری زندگی کا حاصل ہے
جو ذہن و دل کو نیا انقلاب دتیا ہے

احباب میرے چہرے سے پڑھتے ہیں حادثے
گویا کہ حادثوں کا میں اخبار ہو گیا

رکھی ہے تونے میرے لیے قبر کی زمین
ترے طفیل میں بھی زمیں دار ہو گیا

    جناب شادؔ آکولوی کے بعد ناظمِ مشاعرہ نے ہندوستان سے تشریف لائے مہمان مترنم شاعر جناب سہیلؔ عثمانی کو دعوتِ غزل دی اور آپ نے اپنے سحر انگیز ترنم اور دلپذیر شاعری سے سامعین کو مسحور کر دیا:

ہم اپنے غموں کو خوشی کہہ رہے ہیں
جو تم چاہتے ہو وہی کہہ رہے ہیں

یہ آنکھیں تمھاری ہیں قاتل ہماری
مگر ہم انھیں زندگی کہہ رہے ہیں

جب تصور میں آپ آتے ہیں
ہم کہاں ہیں یہ بھول جاتے ہیں

اپنا چہرہ بھی کھو چکے ہیں جو
وہ ہمیں آئینہ دکھاتے ہیں

    ہندوستان ہی سے تشریف لائے دوسرے مہمان خوش فکر و معروف شاعر جناب ابرار کاشف نے اپنی متعدد غزلوں سے منتخب اشعار پیش کیے:

تم ایک پل کو بھی تنہا نہ چھوڑنا مجھ کو
میں اپنے پاس رہوں گا تو مارا جائوں گا

وہ دیکھتا ہے تصور کی آخری حد تک
مگر میں حدِ تصور کے پار دیکھتا ہوں

اسی لیے تو مرے لوگ ہیں خفا مجھ سے
میں دشمنوں کی بھی آنکھوں میں پیار دیکھتا ہوں

ندی تو چاہتی ہے گائوں کی کھیتی ہری کر دے
مگر دریا سمجھتا ہے مرا اپمان کرتی ہے

اب کے منافقین میں میرا بھی نام تھا
یہ بھی منافقین سے دیکھا نہیں گیا

 
    ہندوستان سے تشریف لائے ایک اور مہمان شاعر جناب حسنؔ کاظمی نے اپنے مخصوص انداز میں اپنی عمدہ غزلوں سے منتخب اشعار پیش کیے:

روز تنہائی میں آواز کے پتھر سے کوئی
شاخِ مژگاں سے پرندوں کو اڑا دیتا ہے

اپنا چہرہ کوئی کتنا ہی چھپائے لیکن
وقت ہر شخص کو آئینہ دکھا دیتا ہے

دل میں ترے خیال کی تابندگی رہے
سانسوں کی رہگزر میں نئی روشنی رہے

غالبؔ سے فکر لیجیے اقبالؔ سے خیال
لہجے میں آب و تاب مگر لکھنوی رہے

    انڈیا اردو سوسائٹی قطر کے صدر  و معروف شاعر جناب عتیق انظرؔ نے بھی اپنی منتخب غزلوں سے سامعین کو خوب محظوظ کیا:

دیکھ لیں آنکھ اٹھا کر تو محبت سمجھو
دیکھ کر آنکھ جھکا لیں تو قیامت سمجھو

دردِ دل سب کے مقدر میں کہاں ہوتا ہے
درد پر ناز کرو درد کو دولت سمجھو

میں اپنے سر سبھی الزام لوں گا
مگر ہر دم اسی کا نام لوں گا

میں جس کے واسطے جاں دے رہا ہوں
اسی کے ہاتھ سے انعام لوں گا

    اب باری تھی انڈیا اردو سوسائٹی قطر کے بانی، شاعرِ خلیج و فخر المتغزلین جناب جلیلؔ نظامی کی۔ آپ نے کئی غزل تحت الفظ و ترنم میں پیش کیں۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

اس طرح کیجیے اندیشۂ فردا سے گریز
مصلحت کرتی ہے جس طرح شناسا سے گریز

آخرش ڈھونڈ لیا درد کا درماں ہم نے
چارہ سازوں سے کنارہ دمِ عیسیٰ سے گریز

کون کہلائے گا پھر قیس کا سجادہ نشیں
جب جلیلؔ آپ بھی کرنے لگے صحرا سے گریز

تصور میں بھی تجھ کو مجھ سے گھل ملنے نہیں دیتی
حیا کو اس جگہ بھی تیری دربانی میں دیکھا ہے

غیر بے زار خفا آپ وہ نالاں مجھ سے
مطمئن پھر بھی نہیں گردشِ دوراں مجھ سے

آشیاں پھونک دیا ہم نے گلوں کی خاطر
اور کیا چاہتے ہیں اہلِ گلستاں مجھ سے

ہر بلا دست درازی سے کرے گی توبہ
تم لپٹ جائو اگر ہوکے پریشاں مجھ سے

شہر میں صورتِ دیوارِ تماشا ہوں جلیلؔ
اشتہاروں کی طرح لوگ ہیں چسپاں مجھ سے

    آخر میں پاکستان سے تشریف لائے عالمی شہرت یافتہ ہر دلعزیز شاعر جناب عباس تابشؔ نے تقریباً ایک گھنٹا تک مسلسل اپنا منتخب کلام پیش کیا اور ہر شعر پر سامعین نے خوب داد و تحسین کی بارش کی۔ چند اشعار آپ کی نذر:

یہ تم جو مجھ سے محبت کا مول پوچھتے ہو
تمھیں یہ کس نے کہا پیڑ چھائوں بیچتے ہیں

وہ پہلے کاٹتے ہیں پائوں چلنے والوں کے
پھر اُس غریب کو لکڑی کے پائوں بیچتے ہیں

اب تو مل جائو کہ بے کار ہوئے جاتے ہیں
ہاتھ چھونے کے بغیر آنکھ زیارت کے بغیر

کس طرح ترکِ تعلق کو میں سوچوں تابشؔ
ہاتھ کو کاٹنا پڑتا ہے چھڑانے کے لیے

میں نے حساب کرنے کی عادت ہی چھوڑ دی
اب میری زندگی میں خسارہ نہیں رہا

تو خدا ہونے کی کوشش تو کرے گا لیکن
ہم تجھے آنکھ سے اوجھل نہیں ہونے دیں گے

آب و دانہ بھی نہیں اور پرندہ خوش ہے
میں اسے دیکھ کے خوش ہوں کہ یہ کتنا خوش ہے

اچھے لگتے ہیں مجھے شور مچاتے بچے
ان کو خوش دیکھ کے لگتا ہے کہ دنیا خوش ہے

عشق کرنا کوئی آسان نہیں ہے تابشؔ
ایک ہی شخص سے اور ایک ہی معیار کے ساتھ

یہ وہی تنہائی ہے جس سے دہل جاتا تھا دل
یہ وہی تنہائی ہے اب جس سے بہلاتا ہوں میں

اگر میں پوچھتا بادل کدھر کو جاتے ہیں
جواب میں کوئی آنسو بہایا کرتا تھا

تجھ سے نہیں ملا تھا مگر چاہتا تھا میں
تو ہم سفر ہو اور کہیں کا سفر نہ ہو

رات کو گھر سے نکلتے ہوئے ڈر لگتا ہے
چاند دیوار پہ رکھا ہوا سر لگتا ہے

اس زمانے میں غنیمت ہے غنیمت ہے میاں
کوئی باہر سے بھی درویش اگر لگتا ہے

اپنے شجرے کی وہ تصدیق کرائے جاکر
جس کو زنجیر پہنتے ہوئے ڈر لگتا ہے

ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابشؔ
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے

    اظہارِ خیال کرتے ہوئے صاحبِ شام و مہمانِ اعزازی جناب شادؔ آکولوی نے بزمِ اردو قطر کے تمام ذمہ داران ، سرپرستِ اعلیٰ جناب عظیم عباس و انڈیا اردو سوسائٹی کے ذمہ داران و تمام شعراء کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا۔ مہمانِ خصوصی جناب عدیل اکبر نے جناب شادؔ آکولوی سے اپنی وابستگی اور بزمِ اردو قطر سے اپنے لگاو کا ذکر کیا اوراپنی شگفتہ اندازِ بیان اور کئی دلچسپ واقعات کا ذکر کرکے سامعین کے چہروں پر مسکراہٹ کی لہر دوڑا دی۔ صدرِ اجلاس جناب عظیم عباس نے جناب شادؔ آکولوی سے اپنے دیرینہ تعلق کا ذکر کیا اور ان کے آبائی وطن آکولہ میں ان کی خدمات و مقبولیت کا بھی تذکرہ بڑے پر اثر انداز میں کیا۔مشاعرے میں پیش کیے گئے کلام کی بھی خوب پذیرائی کی اور خصوصاً جناب عباس تابشؔ صاحب کی مقبولِ عام شاعری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ عام طور سے بڑے شعرا کے کلام عام آدمی کو سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے لیکن جناب عباس تابشؔ کی شاعری سے ہر کوئی یکساں طور پر محظوظ ہوجا تا ہے۔ آپ نے بزمِ اردو قطر کے ذمہ داران کو اس کامیاب اور یادگار تقریب و مشاعرے کے انعقاد پر مبارک باد پیش کی۔

    بزمِ اردو قطر کے جنرل سکریٹری جناب افتخار راغبؔ نے انڈیا اردو سوسائٹی کے ذمہ داران و تمام مہمان شعرا کا شکریہ ادا کیا۔ آپ نے جنا ب عظیم عباس کی تشریف  آوری  اور خصوصی تعاون کے لیے بزم کی جانب سے شکریہ ادا کیا۔ مختلف ادبی  تنظیموں کے ذمہ داران اور کثیر تعداد میں موجود باذوق سامعین کا بھی دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا۔

 
رپورٹ: افتخار راغبؔ
جنرل سکریٹری ، بزمِ اردو قطر


***************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 639