donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar Urdu Academy Ki Anokhi Pahal Academy Aap Tak


بہار اردو اکادمی کی ایک انوکھی پہل اکادمی آپ تک

 

 

ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج،دربھنگہ

 ای میل: rm.meezan@gmail.com

Mob.-09431414586


    ملک کی بیشتر ریاستوں میں اردو اکادمیوں کا قیام عمل میں آچکا ہے اور جہاں کہیں اب تک اردو اکادمی قائم نہیں ہوسکی ہے ، وہاں اردو آبادی اس کے لئے جدو جہد کر رہی ہے۔ بالخصوص جمّوں و کشمیر ریاست ، جہاں اردو سرکاری زبان ہے ، وہاں اب تک اردو اکادمی وجود میں نہیں آسکی ہے۔ اگرچہ وہاں ایک کلچرل اکادمی کام کر رہی ہے اور اس کے ذریعہ ہی کشمیری ، ڈوگری کے ساتھ ساتھ اردو کے فروغ کے لئے کام کئے جاتے ہیں۔ لیکن چند ریاستوں کی اکادمیاں اپنی کارکردگی کی وجہ سے ہمیشہ سرخیوں میں رہتی ہیں۔ ان میں دہلی ، بہار، اترپردیش ، کرناٹک ، مغربی بنگال اور ہریانہ کی اکادمیاں قدرے فعال ہیں اور ان میں بھی دہلی اردو اکادمی کو اولیت حاصل ہے کہ دہلی اردو اکادمی نہ صرف ادباء شعرا کو انعامات دیتی ہیں اور انہیں مسودوں کی اشاعت کے لئے مالی تعاون دیتی ہیں ، بلکہ پرائمری سطح پر اردو کی تعلیم کے لئے اساتذہ کا انتظام بھی کرتی ہے۔ جبکہ دیگر ریاستوں کی اردو اکادمیاں تعلیم کے شعبے میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھاتیں ۔ البتہ حال میں کرناٹک اردو اکادمی کی فعال و متحرک سکریٹری ڈاکٹر فوزیہ چودھری کے ذریعہ تعلیمی بیداری کے لئے بھی کام کئے جارہے ہیں جو قابل تحسین ہیں۔ جہاں تک بہار اردو اکادمی کا سوال ہے تو اس کے دائرۂ کار میں تعلیمی نظم نہیں آتا۔ اس لئے اکادمی اپنے دور آغاز سے ہی صرف اردو ادب کے فروغ کے لئے کام کرتی رہی ہے۔اکادمی ادباء و شعرا کے مسودوں کی اشاعت ، مطبوعہ کتابوں پر انعامات ، معذور ادیبوں کی مالی معاونت، سمینارو سمپوزیم اور مشاعرہ کے ساتھ ساتھ ایک ادبی جریدہ ’’زبان و ادب‘‘ کی اشاعت کا کرتی رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ جریدہ کی اشاعت کا مقصد کسی نہ کسی طور پر زبان کافروغ ہی ہے کہ اس میں ریاست کے نئے لکھنے والوں کی تحریریں شائع کی جاتی ہیں، جن سے نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں اکادمی نے اپنا ایک منفرد اور تاریخی پروگرام شروع کیا ہے۔ میرے خیال میں بہار اردو اکادمی ملک کی ایسی پہلی اکیڈمی ہے جس نے اپنا ’’اکادمی آپ تک ‘‘ پروگرام شروع کیا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ یہ پہل مشتاق احمد نوری کے ذہن کی اختراع ہے۔ واضح ہو کہ نوری صاحب بہار انفارمیشن سروس سے سبکدوش ہوئے ہیں اور اس سے پہلے بھی وہ نوّے کی دہائی میں اکادمی کے سکریٹری رہ چکے ہیں۔ ان کا وہ دور بھی انقلابی تھا۔ مگر اس بار انہوں نے جو ’’اکیڈمی آپ تک ‘‘ کی شروعات کی ہے ، اس پروگرام کی نوعیت قدرے مختلف ہے ۔ اس کے تحت اکامی کے سکریٹری جناب مشتاق احمد نوری اور ان کے معاونین کسی خاص شہر کا رُخ کرتے ہیں اور وہاں کے ایسے بزرگ شعرا ء و ادباء کو اعزاز بخشتے ہیں جو عمر کے لحاظ سے اکادمی کے پٹنہ دفتر تک آنے کی یا تو قوت نہیں رکھتے یا پھر اکادمی کی ان تک نگاہ نہیں پہنچتی ۔ چونکہ مشتاق احمد نوری خود ایک تخلیقی فنکار ہیں کہ وہ اردو کے نامور افسانہ نگار ہیں ۔ ان کو اکادمی کے وائس چیئرمین سلطان اختر جیسے نامور شاعر اور پروفیسر اعجاز علی ارشد جیسے معتبر ناقد و ادیب کی سرپرستی حاصل ہے۔ اتنا ہی نہیں ان دنوں محکمۂ اقلیتی فلاح و بہبود جس کے ماتحت اکادمی ہے، اس کے وزیر پروفیسر عبد الغفور صاحب بھی اردو کے پروفیسر ہیں اور زبان و ادب کے فروغ کے تئیں سنجیدہ ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس محکمہ کے پرنسپل سکریٹری عامر سبحانی جیسے دانشور آئی اے ایس ہیں ، جنہیں اپنی لسانی شناخت بہت ہی عزیز ہے۔ شاید اس لئے ان دنوں بہار اردو اکادمی نے کئی ایسے فیصلے لئے ہیں جو زبان و ادب کے فروغ کے لئے عصائے موسیٰ ثابت ہو سکتے ہیں۔ میرے خیال سے حال میں بہار اردو اکادمی کی جو تشکیل نو ہوئی ہے ، اس کے ممبران بھی اپنے اپنے شعبے کے شہرت یافتہ اور تجربہ کار ہیں۔ مثلاً علیم اللہ حالی ، ڈاکٹر سید احمد قادری، ڈاکٹر شکیل احمد وغیرہم دنیائے ادب میں اپنی مستحکم شناخت رکھتے ہیں، جبکہ نئی نسل کی نمائندہ کے طور پر ڈاکٹر زرنگار یاسمین کی شمولیت بھی قابل تحسین ہے کہ نئے ذہن کی زرخیزی کا فائدہ بھی اکادمی کو مل رہا ہے۔ اکادمی کے خازن کے طورپر پروفیسر جاوید حیات صدر شعبہ اردو، پٹنہ یونیورسٹی اہم فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ اکادمی نے جو اپنا ایک انوکھا پروگرام ’’اکیڈمی آپ تک‘‘ شروع کیا ہے ، وہ کئی لحاظ سے قابل تحسین ہے اور دوسری اکادمیوں کے لئے قابل تقلید بھی ۔ اس پروگرام کے تحت کسی خاص شہر کے تین شعرا ء و ادباء کا انتخاب کیا جاتا ہے ۔ پھر ان کے فکر و فن پر دیگر نامور قلمکاروں سے مقالے تحریر کروائے جاتے ہیں اور جب متعینہ تاریخ پر یہ پروگرام منعقد ہوتا ہے تو تین دیگر ادیب و شاعر کو مقالے پر تبصرے کی دعوت دی جاتی ہے۔ اکادمی جن تین ادباء و شعراء کا انتخاب کرتی ہے انہیں ایک مومنٹو ، ایک شال اور اکیس ہزار نقد بطور انعام دیتی ہے۔ اسی دن انعامی اور مقالہ خوانی و تبصراتی اجلاس کے بعد مقامی شعرا ء پر مشتمل مشاعرے کا اہتمام کرتی ہے اور ان سب پروگرام کی ڈیجیٹل ویڈیو گرافی کرائی جاتی ہے اور بقول سکریٹری مشتاق احمد نوری اس ریکارڈنگ کو اکادمی اپنے آرکائیو میں رکھے گی تاکہ آنے والی نسلیں جب چاہیں ، ان شعرا ء کی تخلیق اور ان کی آواز سے آشنا ہو سکیں۔ بلاشبہ یہ ایک تاریخی قدم ہے ۔ اب تک اکادمی نے یہ خصوصی پروگرام دو شہروں میں منعقد کیا ہے ۔ پہلا پروگرام گوتم بدھ کے شہر عرفان و آگہی بودھ گیا میں منعقد ہوا تھا اور وہاں حضرت ناوکؔ حمزہ پوری ، حضرت فرحت قادری اور پروفیسر شاہد احمد شعیب کو اعزاز بخشا گیا اور پھر مقامی شعرا پر مشتمل مشاعرہ بھی منعقد ہوا جس میں تقریباً بیس شعرا نے اپنے کلام پیش کئے۔ ناوک ؔحمزہ پوری پر حفیظ الرحمن خان نے مقالہ پڑھا جبکہ پروفیسرمحفوظ الحسن نے تبصرہ کیا۔فرحت قادری پر احمد صغیر نے مقالہ خوانی کی اور سید احمد قادری نے تبصرہ کیا۔ اسی طرح شاہداحمد شعیب پر پروفیسر افصح ظفر نے مقالہ پڑھا اور پروفیسر حسین الحق نے تبصرہ پیش کیا۔


    دوسرا پروگرام حضرت نظام کشمیری ؒ، حضرت مولانا ثمرقندیؒ ، ودیا پتی اور ملاابوالحسن کی جائے سکون و دانشوری دربھنگہ میں منعقد ہوا ۔ یہاں جناب ذکی احمد، پروفیسر اویس احمد دوراںؔ اور پروفیسر عبد المنان طرزی جیسے بزرگ شعراء کو انعام و اکرام سے نوازا گیا۔ ان تینوں شعرا ء پر بالترتیب ڈاکٹر مشتاق احمد ، عطا عابدیؔ اور احتشام الحق نے مذکورہ شعرا کے فکر و فن پر مقالات پیش کئے ۔ جبکہ پروفیسر شاکر خلیق، پروفیسر رئیس انور اور مجیر احمد نے تبصرہ پیش کیا۔ شام میں مشاعرے کا بھی انعقاد ہوا جس میں تقریباً بیس شعراء نے اپنے کلام پیش کئے۔ ظاہر ہے کہ اکادمی کے ارباب حل و عقد کے لئے یہ ایک مشکل ہے کہ وہ پہلی قسط میں شعرا ء کے انتخاب میں کون سا نسخہ اپنائیں۔ کیونکہ بہار ادبی لحاظ سے زرخیز ہے اور ہر چھوٹے بڑے شہر میں مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کرنے والے بزرگ اور نئی نسل کے قلمکار موجود ہیں ۔بقول مشتاق احمد نوری سکریٹری کہ کسی شہر میں اگر ایک مٹھی چنا پھینکا جائے تو وہ کسی نہ کسی شاعر کے سر پر ہی گرے گا۔ ایسی صورت میں بہار اردو اکادمی نے عمر کو پیمانہ بنایا ہے اور پہلی قسط میں وہ ۷۵ سال کی عمر کے اوپر کے ادباء و شعراء کو اس پروگرام کے تحت نوازنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میرے خیال میں یہ نسخہ مناسب ہے کہ خصوصی طور پر شعرا کے انتخاب میں بڑی مشکل ہوسکتی تھی ۔ کیونکہ عصر حاضر میں اردو کا ایک سیاہ پہلو یہ بھی ہے کہ اردو کے بہتیرے ایسے شاعر بھی ہیں جو لوازمات شاعری کی واقفیت تودور رہی ،حروف تہجّی بھی صحیح سے نہیں لکھ سکتے مگر وہ صاحب مجموعہ بنے بیٹھے ہیں کہ بہت سی فیکٹری میں غزل و نظم بھی تیار ہونے لگی ہے اور گلوبل مارکٹ میں یہ تجارت بھی فروغ پارہی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے انقلابی دور میں ایسے نام نہاد شعرا ء کی ہنگامہ آرائی قدرے زیادہ ہی ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ موجودہ سکریٹری اور دونوں وائس چیئرمین ریاست کی ادبی تاریخ بالخصوص عصری منظر نامے سے خوب خوب واقف ہیں ۔ اس لئے ایسے فنکاروں کا ہی انتخاب کیا جائے گا جو واقعی اپنے خون جگر سے شجر ادب کی آبیاری کر رہے ہیں۔ بہار اردو اکادمی اس پروگرام کے دیگر شرکاء مثلاً مقالہ نگار ، تبصرہ نگار اور شعرا ء کو بھی معاوضہ دیتی ہے ۔ یہ بھی قابل تحسین ہے۔ جبکہ اکادمی کی جانب سے سامعین کی ضیافت بھی کی جاتی ہے۔ غرض کہ ادکامی کے اس پروگرام کے منجملہ شرکاء کے حصے میں کچھ نہ کچھ ضرور آتا ہے، یہ بھی اکادمی کے ارباب حل و عقد کی دور اندیشی ثابت ہورہی ہے کہ ہم اس سچائی سے انکار نہیں کر سکتے کہ آج اردو آبادی اپنی زبان کو کچھ دینے سے زیادہ اس سے لینے کی چاہت رکھتی ہے۔ ورنہ جس ریاست میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہو اور حکومت کی طرف سے طرح طرح کی مراعات حاصل ہوں، اس ریاست میں جغرافیائی اعتبارسے دنوں دن اردو کی بستیاں سمٹتی جارہی ہیں۔ بالخصوص ان گھرانوں سے اردورخصت ہورہی ہے جہاں کبھی ہر شام اردو کی بقا کے چراغ روشن کئے جاتے تھے۔ بہر حال، اکادمی کی یہ انوکھی پہل ’’اکادمی آپ تک ‘‘ ریاست کے مختلف حصوں میں اپنی موجودگی کا احساس کرائے گی کہ ماضی میں بہار اردو اکادمی پٹنہ کی ادبی سرگرمیاں پٹنے تک محدود تھیں۔ البتہ انعامات و اکرامات کی رقمیں تو پہلے بھی بینک ڈرافٹ کے ذریعہ ان لوگوں تک پہنچ ہی جاتی تھیں جن خوش قسمتوں کا انتخاب ہوتا تھا۔ لیکن اس پہل سے جب بہار اردو اکادمی کا قافلہ شہر در شہرپہنچے گا تو ایک نئی فضا سازگار ہوگی اور اکادمی کے ارباب حل و عقد مقامی لسانی مسائل سے بھی روبرو ہوں گے۔ البتہ ابھی تک ان دونوں شہروں میں شعرا کو ہی نوازنے کا فریضہ ادا کیا گیا ہے، ممکن ہے کہ پہلے دور میں بزرگ شاعروں اور پھر اس کے بعد نثرنگاروں کی باری آئے گی۔ بالخصوص فکشن اور صحافت کے شعبے میں اپنی مستحکم شناخت رکھنے والوں کو بھی اکادمی کی اس نئی پہل سے فیضیاب ہونے کا موقع ملے گا کہ بقول مشتاق احمد نوری سکریٹری یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔


********************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 576