donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Syed Ahmad Qadri
Title :
   Ajmal Fareed Marhoom Khulooso Mohabbat Ke Paikar They


 اجمل فرید مرحوم خلوص ومحبت کے پیکر تھے


ڈاکٹر سیّد احمد قادری

          بھائی اجمل فرید صاحب کا اس طرح اچانک چلے جانے سے سینکڑوں لوگوں کی  آنکھیں نم ہو گئی ہیں ، دل افسردہ ہو گیا ہے اور جزبات پر قابو پانا مشکل ہو رہا ہے ۔ جن لوگوں کو ان سے ملنے کا شرف حاصل ہوا ہے ، وہ اس بات سے بخوبی واقف ہونگے کہ مرحوم اجمل فرید بے حد نیک ، ملنسار اور مخلص انسان تھے ۔ ان سے جو بھی ایک بار ملتا ، وہ ان کا گرویدہ ہوجاتا  ۔ اتفاق سے مجھے ان سے کئی بار ملنے مو قع ملا  اور ہر بار میں نے انھیں اسی طرح خلوص و محبت کا پیکر پایا ۔ شخصیت کے اعتبار سے تو وہ باوقار تھے ہی ، بطور صحافی بھی انھوں نے اپنا ایک خاص نقش چھوڑا ہے ۔ اپنے والد جناب سید عمر فرید کے قائم کردہ اخبار ـ’’قومی تنظیم‘‘ کو انھوں نے اپنی انتھک محنت ، لگن، خلوص اور جزبے سے بلندی تک پہنچا کر ایک شاندار مثال پیش کی ہے ۔ یہ کارنامہ مرحوم اجمل فرید نے اس وقت انجام دیا ، جب ان دنوں بہار کے ’’صدائے عام ‘‘ اور ’’سنگم‘‘ جیسے روزناموں کو عروج حاصل تھا ۔ اجمل فرید مرحوم نے رات دن جنون کی حد تک محنت کیا اور پورے بہار میں اپنے اداریوں ، تبصروں ، کالموں اور منتخب خبروں سے اپنے اس اخبار کے وجود کا احساس کرا دیا ۔ بلا شبہ یہ ان کی کوششوں کا ہی نتیجہ تھا  کہ  ’’قومی تنظیم‘‘  کے سامنے دوسرے کئی اخبارات کی چمک دمک  دھیرے دھیرے ماند پڑ گئی ۔’’قومی تنظیم‘‘ بہار کے دور دراز علاقوں میں پہنچانے کا اپنے عزم کو آخر کار انھوں نے پورا کیا ۔ ۔ مرحوم اجمل فرید نے اپنے اس اخبار میں جس طرح بہار کے ملّی مسائل کو فوقیت دی اور بہار کے مسلمانوں کے مسائل کو ترجیح دیتے ہوئے پیش کیا ہے ، اس سے بہار کے عام مسلمان اس اخبار کو اپنا ہمدرد اور اپنی آواز سمجھتے ہیں ۔

    گزشتہ  17  نومبر  2013 کو اورنگ آباد  میں’’چراغ ادب ‘‘ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ایک تقریب میں ان سے  بہت تفصیلی ملاقات اور گفتگو ہوئی تھی ، جس کی یادیں ابھی دھندلی بھی نہیں پڑی ہیں ۔ کس خلوص و محبت سے وہ مجھ سے ملے تھے اور شکایت کی تھی کہ آپ پٹنہ آتے ہیں ، لیکن ملاقات نہیں ہوتی۔ میں نے اپنی مجبوری بتائی تھی کہ اب پٹنہ جانا کم ہوتا ہے اور کبھی گیا بھی تو صبح گیا اور شام میں واپس ہو جا تا ہوں ۔ اورنگ آباد کی اس تقریب میں وہ مہمان خصوصی تھے اور ان ہی کے ہاتھوں مجھے میری ادبی اور صحافتی خدمات پر ’’ چراغ ادب ‘‘ کی مجلس انتظامیہ نے پروفیسر عبدالمغنی ایوارڈ دلوایا تھا ۔ مجھے یہ دیکھ کر اچھا لگا تھا کہ ایک صحافی کے ہاتھوں مجھے  یہ ایوارڈ دیا گیا ۔ میں عام طورپر سیاست دانوں سے ایوارڈ نہیں لیتا ہوں ۔

   افسوس صد افسوس کہ اردو زبان اور اردو صحافت سے ایسی محبت کرنے والا اردو کا ایک درخشندہ ستارہ اچانک ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا ، جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے ۔ اللہ پاک انھیں جوار رحمت میں جگہ دے  اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا ہو ۔    ؎  

  موت اس کی ، جس کا زمانہ کرے افسوس ۔۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 555