donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Forum Desk
Title :
   Guzargahe Khayal Forum Ka Ilmi wa Adbi Mozakrah

 

گزرگاہِ  خیال فورم  کا اڑتسو اں ماہانہ

 

علمی و ادبی مذاکرہ  بعنوان بہ رنگِ دگر

 

رپورٹ: وزیر احمد وزیرؔ، نائب صدر گزرگاہ خیال فورم

    بین الاقوامی علمی و ادبی تنظیم گزگاہِ خیال فورم جس کی بنیاد  ۲۰۰۹ء میں دوحہ میں مقیم  اپنے پیشہ سے ماہر اقتصادیات اور اردو زبان کے خادم ،ادیب، نقاد اور محقق ڈاکٹر  فیصل حنیف نے رکھی۔آپ کی کاوشوں اور کوششوں کی بدولت یہ تنظیم  پچھلے تن  برس سے اپنی ماہانہ نشستیں  پورے تحمل  اور تسلسل کے ساتھ  باقاعد گی سے قائم کرتی رہی ہے۔جس سے دوحہ قطر میں مقیم  محبانِ اردو،شعرا،ادباء  مسلسل استفادہ کر رہے ہیں۔

    برّ صغیر کے عظیم شاعر و نثر نگار مرزا اسدللہ خاں غالبؔ  کی فلسفیانہ اور تخیلاتی شاعری کو سمجھنے کی غرض سے گزرگاہِ خیال فورم  ہر ماہ پابندی کے ساتھ غالب فہمی  نشست  منعقد کرتی ہے جس میں   غالبؔ کی غزلوں  اور  اشعار کی تفہیم  کی خاطر علمی مباحثہ منعقد کیاجاتا ہے-  فورم کی اولین نشست سے  لے کر آج تک کل سینتیس نشستیں منعقد ہو چکی ہیں جن میں غالب کی انسٹھ غزلوں پر مذاکرے ہو چکے ہیں۔گزرگاہِ خیال فورم پوری جہد اور دلجمعی کے ساتھ غالب کی بقیہ تمام غزلوں  کو بھی ان علمی نششتوں کے ذریعے  مکمل کر نے کا اِرادہ رکھتی ہے۔ گزرگاہِ خیال فورم اردو زبان کی ترقی اور عروج کے لیے  مستعدی کے ساتھ اپنے کامیاب سفر پر گامزن ہے  جس میں  ہمارے بیرون اور اندرون قطر رفقا کا بھرپور حصہ ہے-

    ستمبر ۲۰۱۵ء  میں  قطر کے ایک عالیشان چار ستارہ ہوٹل '' لا یتوال  '' میں  فورم نے شامِ غالب کا اِنعقاد کیا جس میں قطر کے نامور شعرا،اور دیگر کئی ادبی شخصیتوں نے شرکت کی۔شامِ غالب کی اہمیت کا محور  تین  اُمور پہ تھا،

اول: غالب کی پچاس غزلوں کا مختصر  جائزہ  جو مذاکرے کی شکل میں مکمل ہوچکی تھیں۔
دوّم: آج تک غالب کی جو تصاویر مدّاحوں کے نظر سے گزری ہیں  ،جو مورخین کے مستند حوالوں کی روشنی میں بنائی گئی تھیں ان میں مرزا غالبؔ  عمر رسیدہ دکھائی دیتے ہیں،اس کمی کو پورا کرنے کے لیے قطر میں مقیم  باکمال اور اپنے فن میں ماہر، بحیثیتِ  پالیٹیکلل کارٹونسٹ مصوّری کے فن  میں پورے دنیا میں دوسرے مقام پر فائز قابل مصوّر جناب شجاعت علی نے  گزگاہِ خیال  فورم کے بانی و صدر جناب ڈاکٹر  فیصل  حنیف کی ایما پر اپنی مصورانہ  فنکاری اور اپنی قوت متخیلہ کو بروے کار لا کر  مرزا غالبؔ کے عہد شباب کو، بمطابق حلیہ بیان ک کردہ از مولانا حالیؔ،  کینوس پہ اتار کر مرزا  کے مدّاحوں کے سامنے پش  کیا ، جس کا عکس اسٹج   پر پوری شام آویزاں رہا، اور محبان غالب ؔکی غالبؔ کی طرف فریفتگی کو مزید بڑھاتا رہا، ،بے شک یہ  فنکار کے فن کی  معراج  تھی۔

سْوّم: گذشتہ چار دہائیوں سے دوحہ قطر میں مقیم معروف و معتبر شاعر،جن کی شاعری میں بلاغت،فصاحت،حسین تخیل کی وادیاں ،لفظیات کا جادو،جن کے کلام کو اردو دنیا کے ماہِرین، ادبائ، اور محققین نے سراہا ہے ،وہ  محبوب شاعر محترم جلیل ؔنظامی جنہیں لوگ ''شاعِرِ خلیج '' کے نام سے جانتے ہیں ،گزرگاہِ خیال فورم نے اُنہیں  اِس شامِ غالبؔ میں ''فخرِ المتغزّلین ''کے خطاب سے نوازا،اس انتخاب میں اردو دنیا کے دس ماہرین کی رائے شامل تھی۔

    ۲۵  دسمبر ۲۰۱۵ء غالب فہمی کی اڑتیسویں نشست  بمقام جلیلؔ  منزل  شام ٹھیک  7 بجے منعقد ہوئی،  جس میں غالبؔ کی غزلیں  

گلشن میں بند و بست بہ رنگِ دگر ہے آج
قمری کا طوق حلقۂ بیرونِ در ہے آج
آتا ہے ایک پارۂ دل ہر فغاں کے ساتھ
تارِ نفس کمندِ شکارِ  اثر ہے آج
اے عافیت! کنارہ کر، اے انتظام! چل
سیلابِ گریہ در پیِ دیوار  و  در  ہے آج

-----

لو ہم مریضِ عشق کے بیمار دار ہیں
اچھاّ اگر نہ ہو تو مسیحا کا کیا علاج!

زیرِ بحث تھیں۔

    نشست سے پہلے حاضرین کی خدمت میں عشائیہ پیش کیا گیا۔ پروگرام کی نظامت جناب ڈاکٹر فیصل حنیف نے اپنے خوبصورت اور منفرد انداز میں کی جس میں اُن کی عِلمیت اور مطالعہ کا اثر واضح تھا۔روایتی انداز  میں اسٹیج کی رونق اور شان میں اضافہ کی غرض سے مہمانان کی عزّت افزائی کی گئی۔سب سے پہلے صدارت کی مسند نشینی کے لیی انڈیا اردو سوسائیٹی کے بانی  صدر شاعر خلیج، فخرِ المتغزّلن   جناب جلیلؔ نظامی  کو  دعوت د ی گئی، ڈنمارک سے تشریف   لائے "تنظیم  برائے عالمی امن" کے چیئرمین جناب عابد علی کو مہمانِ خصوصی کی نشست کو رونق بخشنے کے لیے پکارا گیا- انگلستان  سے تشریف لائے، پیشے کے اعتبار سے  تاجر اور اردو ادب کے حوالے سے جانی مانی  شخصیت  شاعر جناب  احسان شاہد جن کی چھے کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں  تین  نثری اور تین شعری مجموعے  شامل  ہیں، کو  مہمانِ  اعزازی کی حیثیت سے پکارا گیا- جناب حیدر علی، ایک  اور معزز  شخصیت جن کا تعلق کینیڈاسے ہے اور دوحہ میں  حکومتی اِدارے میں اعلیٰ عہدے پہ فائز ہیں،  جنھیں  بے شمار ادبی محفلوں میں شرکت کا اعزاز حاصل ہے،انھیں  بھی مہمان ِاعزازی بنا کر اسٹیج کی رونق بڑھائی گئی-

    جناب جلیلؔ نظامی، جو دوحہ  اور دنیا بھر کے مشاعروں میں اپنے خاص اور دل کو چھو لینے والے ترنم کے لیے جانے جاتے ہیں، نے غالب کی  مذکورہ غزل  '' گلشن میں بندوبست بہ رنگِ دِگر ہے آج'' ا پنی خوبصورت  اور سحر انگیزآواز میں پیش کر کے  سامعین کو مسرور کر  دیا۔اس کے بعد  حاضرینِ محفل نے باری باری ہر شعر پر اپنے خیالات  کا اظہار کیا اور غالب ؔکی سوچ اور فکر کی گہرائی اور اشعار کی آفاقیت کو سمجھنے اور سمجھانے کی عمدہ کوشش کی۔

    حققت  تو یہ ہے کہ جب کوئی مرزا غالبؔ کی شاعری کو  سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی کیفیت ایسی ہوتی ہے جیسے کوئی  اچانک اندھیرے کمرے  کا   دروازہ کھول دیتا ہے اور  سورج کی روشنی  پوری رفتار سے کمرے میں  پھیل جاتی ہے،وہ کمرے کے ہر کونے کو منوّر کر تی ہے اور  اس میں چھپی ہر چیز   نمایاں ہو جا تی ہے۔ پر تو کار غالب جب  مرزا  کے شعر کی صورت دل و دماغ پہ پڑتا ہے تو جہاں دماغ کو منور کرتا ہے وہاں دل کے ذریعے رگوں میں بھی نور بھر دیتا ہے-

    فورم کی گزشتہ کئی نشستوں  سے یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے  کہ مذاکرہ میں شامل غزلوں پہ مقامی شعرا   اپنی تضمین کہتے ہیں۔مظفر نایابؔ  جو دوحہ کے مشاعروں میں دینی سوچ وفکر کے حامی جانے جاتے ہیں، نے حسبِ روایت غالب کے مصر عوں پہ اپنی سنجیدہ تضمین  پیش کی۔اِن اشعار سے آپ  کو اُن کے  احساسات  کا اندازہ  ہوگا جنہیں سامعین نے خوب سراہا،    

صیاد دیکھ غنچہ بھی سینہ سپر ہے آج
’’گلشن میں  بند و بست  برنگِ  دِگر ہے آج‘‘
یہ کون باغباں کی ہے مسند پہ جلوہ گر
’’قْمری کا طوق حلقۂ بیرونِ در ہے آج‘‘
بہہ جائے قصرِ دل نہ کہیں اُس میں الحذر
’’سیلابِ گریہ درپئے دیوار و در ہے آج‘‘

    دوحہ کے معروف شاعر اور بزمِ اردو قطر کے جنرل سیکریٹری  جناب اِفتخار راغبؔ  جنہیں  قطر کے علاوہ ہندوستان  اور بیرونی ممالک میں بھی کئی مشاعروں میں  شرکت  کا شرف حاصل ہے،   غالب فہمی کی نشستوں میں  غالب کی غزلوں پہ بڑی عمدہ  اور خوبصورت  مزاحیہ تضمین کہتے ہیں۔اس  بار بھی اپنی روایت کو قائم  رکھتے ہوئے اپنی تضمین  محفل کے سماعتوں کے نذرکی-

یہ دستِ  باغباں  میں تِرنگا   ہی  ہے  مگر
’’گلشن میں  بند و بست  برنگِ  دِگر ہے آج‘‘
کہتے ہیں اہلِ دل اِسے راغبؔ سہاگ رات
’’تارِ نفس کمندِ شکارِ نفس ہے آج‘‘

       غزلوں کے مکمل مذاکرے کے بعد  نشست کا  دوسرا مرحلہ  خاص اہمیت کا حامل تھا   جس میں انگلستان سے تشریف  لائے شاعر اور ادیب  جناب احسان شاہد کے تیسرے شعری مجموعہ کلام  "رہتا ہے مر ے ساتھ"کی رونمائی  نشست میں شامل معزز ہستیوں کے ہاتھوں عمل میں آئی-
تیسرا مرحلہ مشاعرے کا تھا۔ سب سے پہلے  دوحہ کے مقامی  مترنم شاعر گزرگاہ خیال فورم کے نائب صدر وزیر احمد وزیرؔ  کو دعوتِ سخن کے دی گئی - انہوں نے اپنی غزل پیش کی اور سامعین سے خوب دادو تحسین وصول کی۔جن کے یہ اشعار  قابل ستائش ہیں:

ِاس سے پہلے مجھے درپیش مسائل تھے بہت
ِاس   سے    پہلے  میں  کبھی  اتنا   پریشان   نہ  تھا

مجھ کو لوٹا ہے رقیبوں نے منظم ہو کر
میں   اکیلا   تھا    میرا    کوئی     نِگہبان     نہ   تھا

داغ     دل  پر   لیے   دامن   کو    بچایا    ہم  نے
وہ   بھی  رُسوا   نہ  ہوا   میں  بھی   پشیمان  نہ  تھا

    اس کے بعد   جناب مظفر نایابؔ  کو  دعوت سخن دی گئی اور اُنہوں نے  اپنا کلام سامعین   کے ذوق  کی نذر کیا۔اُن کے یہ اشعار قابلِ غور ہیں:

شکن جبین پہ آئے  تو کوئی بات بنے
اگر گلوں کا تبسم شکن شکن میں رہے

چمن  چمن  میں  ہماری   بہار  تھی  بے  شک
کہ ہم  بہار کی صورت  چمن  چمن  میں  رہے

وہ   جیسے  شمس   میں    ہے   طاقت   و  توانائی
انہیں  صفات  کا  پر تو  کرن  کرن  میں  رہے

    جناب  اِفتخار راغبؔ،  جن کے بغیر دوحہ کے مشاعرے اپنی تکمیل کو پہنچنے سے قاصر ہوتے ہیں، نے اپنی غزلیں  سامعین کی نذر کی:

روٹھ جائے گی نظر آنکھوں سے
مت بہا خونِ جگر آنکھوں سے

ایک اندھے کی نصیحت راغبؔ
پیار کرنا ہے تو کر آنکھوں سے

-----

لے جائے جہاں چاہے ہوا ہم کو اڑا کر
ٹوٹے ہوئے پتوں کی حکایت ہی الگ ہے

پردیس   میں  رہ  کر   کوئی  کیا   پاؤں  جمائے
گملے  میں  لگے  پھول  کی  قسمت  ہی  الگ ہے

باہر سے تو لگتا ہے کے شاداب ہے گلشن
اندر سے ہر اک پیڑ کی حالت ہی الگ ہے

جتنا ہے ثمر جس پہ وہ اتنا ہے خمیدہ
پھل دار درختوں کی طبیعت ہی الگ ہے

کس کس کو بتاؤں کہ میں بزدل نہیں راغبؔ
اس  دور  میں   مفہومِ  شرافت  ہی  الگ   ہے

    مجلس فروغ اردو ادب کے صدر جناب فرتاش سید جن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں-  قطر کے مشاعروں میں ان کی شرکت باعث فخر ہوتی ہے- تحت الفظ میں اپنے با  اثر انداز میں   غزل کی ادائیگی کا ان کا اپنا الگ رنگ ہے۔معیاری شاعری،لفظیات کا حسن اور شعر میں روانی کے حامل ،اپنے روایتی انداز میں  غزل پیش کی اور سامعین  سے خوب داد و تحسین  وصول کی، نمونہ کلام پشں ہے:

ہم وفادار ہے اور اس سے زیادہ کیا ہوں
بس ترے یار ہے اور اس سے زیادہ کیا ہوں

میں اکیلا  ہوں مری جان کے دشمن افلاک
ایک، دو، چار، ہیں اور اس سے زیادہ کیا ہوں

ایک ہی سچ نے ہمیں ایسا کیا سر افراز
بر سرِ دار ہیں اور اس سے زیادہ کیا ہوں

نام سنتے ہی مرا آگ بگولا ہو جائیں
مجھ سے بیزار ہیں، اور اس سے زیادہ  کیا ہوں

عمر بھر بات پہ قائم رہے فرتاشؔ کہ ہم
اہل کردار ہیں، اور اس سے زیادہ کاک ہوں

-----

نخلِ ممنوعہ کے رْخ دوبارہ گیا، میں تو مارا گیا
عرش سے فرش پر کیوں اُتاراگیا، میں تو مارا گیا

 جو پڑھا تھا کتابوں میں وہ اور تھا، زندگی اور ہے
میرا ایمان سارے کا سارا گیا، میں تو مارا گیا

 غم گلے پڑ گیا، زندگی بجھ گئی،عقل جاتی رہی
عشق کے کھیل میں کیا تمھارا گیا، میں تو مارا گیا

 مجھ کو گھیرا ہے طوفان نے اِس قدر، کچھ نہ آئے نظر
میری کشتی گئی ،یا کنارہ گیا، میں تو مارا گیا

 مجھ کو تو ہی بتا! دست و بازو مرے کھو گئے ہیں کہاں
اے محبت! مرا، ہر سہارا گیا، میں تو مارا گیا

عشق چلتا بنا، شاعری ہو چکی، مے میسر نہیں
میں تو مارا گیا، میں تو مارا گیا، میں تو مارا گیا

 مدّعی، بارگاہِ محبت میں فرتاشؔ تھے اور بھی
میرا ہی نام لیکن پکارا گیا، میں تو مارا گیا

    غالب فہمی کی نشستوں میں پیش  پیش رہنے والے ، اردو ادب کے  تنظیموں میں    اپنا ایک خاص مقام رکھنے والے، نثر نگار،شاعر اور بزمِ اردو قطر کے صدر جناب  شاد ؔآکولوی کو اپنا کلام پیش کرنے کی دعوت دی گئی- اُنہوں نے اپنی   ایک  رومانی غزل سامعین کی سماعتوں کی نذر کی۔اُن  کے ان اشعار میں  جوانی کی اٹکھیلیاں، اور دورِحاضر کی حقیقت  آفاقی پہلو لیے ہوئے واضح ہوتی ہے-

دل  کے  ارمان  کب  نکلتے  ہیں
آپ  آئے  نہیں  کہ  چلتے  ہیں

آئینے   جھوٹ   تو   نہیں  کہتے
آپ  کیوں  آئینے  بدلتے   ہیں

وقت کے ساتھ ساتھ ہم انساں
کیسے     تیور      سدا     بدلتے     ہیں

رات  کی  تیرگی  میں  جانِ  خلوص
تیری  یادوں  کے  دیپ  جلتے  ہیں

شادؔ   اُن    کا   تو   بس    خدا    حافظ
لوگ   جو  مقتلوں   میں  پلتے    ہیں

"جانِ خلوص" کی نادر  ترکب  پر جناب شاد کو خوب داد ملی-
    ناظِم مشاعرہ  کی دعوت پہ لبیک کہتے ہوئے  مہمان شاعر جناب  احسانؔ شاہد نے اپنی عمیق سوچ  کی شاعری سے  اور نعتِ  رسولؐ مقبول سے  سامعین کو  مسحور  کیا اور مشاعرہ اپنی مست روی  سے آگے بڑھتا رہا:

نعت

طیبہ   سے   کبھی  آنکھ   ہٹائی   ہی   نہیں   ہے
یوں  پیاس  کسی  نے  بھی   بجھائی   ہی  نہیں  ہے

اُلفت  سے  گلے  سب کو  لگا ئیں  گے  جہاں  میں
نفرت  میرے  آقا   نے  سکھائی  ہی  نہیں  ہے

ظلمت   کے   مٹانے    کو   یہاں  اور  کسی   نے
یوں   جوت   محبت   کی   جگائی   ہی   نہیں   ہے

غزل

وہ  بھول  کر  بھی  میری  طرف  دیکھتا  نہیں
رہتا   ہے   میرے   ساتھ   مگر  بولتا   نہیں

کیا  خاک  لے  کے  دل  کی  تمنا  کو جائیں ہم
اُس   کی   گلی  میں  کوئی  ہمیں   پوچھتا  نہیں

دل  کی   دوا   کو  لینے  کہیں  اور  جائیے
دل  کی  دوا   تو   کوئی  یہاں   بیچتا   نہیں

جس  کے  لیے   زمانے   کو  دشمن  بنا لیا
شاہدؔ   وہ شخص  اب بھی  میرا  آشنا  نہیں

    اپنی شاعری  کی معنویت سے  اور اپنے  مخصوص اور خوبصورت ترنم سے  یاد کیے جانے والے  ،  مشاعرے کے آخری شاعر  شاعِر خلیج،فخرِالمتغز ّلین، جناب جلیلؔ نظامی کو   دعوتِ کلام  دی گئی اور اُنہوں نے اپنی   مرصع غزلیں  ایک تحت میں اور ایک  ترنم میں پیش کر کے سامعین کے    ذوق کی تشنگی بجھائی۔عْموْماً اُن کا ہر شعر اپنی  لفظیات  میں  پوری کائینات  کو سمیٹے رکھتا  ہے:

کنارے   تاج   کے   رقصاں  جسے   پانی   میں  دیکھا  ہے
اُسے    ہم   نے   پریشاں  تیری   پیشانی   میں   دیکھا   ہے

ڈرا تا    ہے   اُسے    ناداں    زمانہ  موج   و  طوفاں   سے
وہ جس نے  خواب  ہی  ساحل کے  طغیانی  میں دیکھا  ہے

جو   منظر   اہلِ  ِ بینش  آج   دنیا   کو   دِ کھا تے    ہیں
میری آنکھوں  نے  اُس  کو  دورِ  نادانی  میں  دیکھا  ہے

ہزاروں   زخم   کھا  کر  بھی  دھڑ کتا   ہے   دلِ  وحشی
غضب  کا   حوصلہ   اِس  دشمنِ   جانی   میں  دیکھا  ہے

تصور  میں  بھی  تجھ  سے  مجھ  کو   گھل  مِلنے  نہیں  دیتی
حیا    کو   اُس   جگہ  بھی  تیری  دربانی   میں   دیکھا   ہے

لبوں   سے  چِھن  گئی  سرخی، اُڑی  رخسار  سے   رنگت
جلیلؔ  اُس  شوخ   کو جو  تم  نے  حیرانی  میں  دیکھا  ہے

-----
    
بر  سرِ  عام    میرا    حالِ   زبوں     پوچھتے     ہیں
بات  گھر کی تھی  وہ   بازار  میں  کیوں  پوچھتے  ہیں

کیا    بتاؤں    میں  ا نہیں    آپ    بتائیں  مجھ  کو
بھول   جاؤں   کہ   تجھے   یاد   رکھوں،   پوچھتے  ہیں

سرمئی   شام   کی   بانہوں  میں  سمٹتے   سائے
زلف  کا خم،   تیری  چِتون  کا  فْسوں  پوچھتے  ہیں

آبلے  پاؤں  کے  تکتے   ہیں  بڑی  حیرت   سے
مجھ  سے  جب  نام  میرا  اہلِ جنوں   پوچھتے  ہیں

آرزو  مند   وہی    ہیں   میری   بربادی    کے
جو   میری   خیریتِ   سوزِ دروں  پوچھتے   ہیں

خواہشیں  ختم   ہوئی  بھیڑ  میں  گم   ہونے  کی
اب  تو  سنّاٹوں  سے  ہم  راہِ  سکوں  پوچھتے   ہیں

قدر دانی   کو  جلیلؔ   اہل  نظر  بھی  اب   تو
فن  نہیں  دیکھتے  فنکار  کا خوں  پوچھتے  ہیں

    فورم کی نشست کا چوتھا اور آخری مرحلہ  اسٹیج پہ مسند نشیں مہمانان کا  نشست کے حوالے سے  اظہارِخیال  کا تھا،سب سے پہلے کینیڈا  سے تشریف لائے  جناب  حیدر علی نے  اپنے روشن خیالات   مختصر سے  جملوں میں  سامعین  کے گوش گزار کیے۔برطانیہ سے  آمد شدہ شاعر و ادیب جناب  احسان شاہدؔ نے اپنی کتاب کی رونمائی پر  گزر گاہِ  خیال فورم کا شکریہ ادا کِیا  اور دوحہ قطر کے ادبی ماحول   اور نشست کی کا میابی  پر اپنی خوشی کا اِظہار مختصر اور جامع الفاظ میں کیا۔ ڈنمارک  سے  تشریف آوردہ   سماجی شخصیت اور مہمانِ خصوصی  جناب عابد علی عابد نے  نشست کے مقصد کو سمجھتے  ہوئے اور اِس سے مستفید    ہونے کی ضمانت پیش کی۔آپ   کا پیغام معاشرے میں امن و سکون   قائم  کرنے کی  جدوّ جہد اور کوشش  پر مبنی تھا   اس نشست  کے ضِمن  سے اُن کا یہ خیال کہ  یہاں سے میں امن و آشتی کا  ایک ایسا پودا اپنے ساتھ لے کر جا رہا ہوں جو   عالمی امن کے کیاری میں اپنی جڑیں  مضبوطی سے گاڑ لے گا۔ اسٹیج پر جلوہ افروز  نشست کے صدر  جناب جلیلؔ نظامی نے  نشست کی بھر پور کامیابی پہ  گزرگاہِ خیال فورم کے منتظمین کو دِلی مبارکباد پیش کی  چونکہ اس نشست کی میزبانی آپ کے ذمہ اور اس  کا اِنعقاد  آپ کے دولت کدہ  پہ تھا  ، اپبنے تاثرات کا اِظہار کچھ اس طرح کیا  کہ مجھے اس بات پر ناز ہے کہ اس طرح کی معیاری ادبی نشستوں کے لئے فورم نے مجھے خدمت کا نادر موقع عطا کیا۔

نشست کے اِختتام پر  فورم کے بانی و صدر جناب  ڈاکٹر فیصل حنیف نے تمام  مہمانان ،شعرا  اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور  نشست کی اختتام کا اعلان کیا۔

******************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 824