donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Forum Desk
Title :
   Saleha Abid Hussain Ka Fiction Hamari Adbi Tareekh Ka Aham Sarmaya Hai- Shamoyel Ahmad

شعبۂ اردو ،پٹنہ یونیورسٹی میں معروف ادیبہ صالحہ عابد حسین پر یادگار عظیم الشان دوروزہ سمینار کا انعقا د


یہ سیمینار صالحہ فہمی میں ایک نئے دور کا آغاز کرے گا۔اسلم جمشید پوری  

 
    صالحہ عابد حسین کا فکشن ہماری ادبی تاریخ کا اہم سرمایہ ہے۔شموئل احمد

پٹنہ
    قومی کائونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے تعاون  اور بہار اردو اکادمی ،پٹنہ کے اشتراک سے شعبۂ اردو پٹنہ یونیورسٹی میں ایک عظیم الشان اور یادگار سیمینار کا انعقاد کیا گیا ،جس میں معروف ادیبہ اور گم کردہ خاتون افسانہ نگار صالحہ عابد حسین کی حیات اور ادبی خدمات پر گفتگو کرتے ہوئے ادیبوں اور دانشوروں نے ان کو خراج عقیدت پیش کیا اور ان کی ادبی خدمات کا کھل کر اعتراف کیا۔


    سیمینار کا افتتاح مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر اعجاز علی ارشد نے کیا اور اپنے افتتاحی خطبہ میں فرمایا کہ صالحہ عابد حسین فکر ی اور فنی طور پر قارئین کو متاثر کرنے والی ادیبہ تھیں ،جو عصری مسائل کے ساتھ نسائی حسیت کی وجہ سے بھی قابل مطالعہ فن کارہ ہیں،جس کا احساس ان کا صرف ایک ناول ’’ساتواں آنگن ‘‘ پڑھ کر ہو جاتاہے۔ان کے افسانے ،ناول اور سوانح عمری اردو ادب کے بیش بہا خزانے ہیں۔


    افتتاح کے بعد سیمینار کے کنوینر ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے مہمانو ں کا استقبال پھولوں سے کیا اور سیمنار کے موضوع کا تعار ف کراتے ہوئے کہا کہ اردو میں خواتین ادیبوں کی خدمات پہ جو کام ہوئے ہیں ان میں صالحہ عابد حسین کا نام تو ملتا ہے مگر ہماری نظر سے کوئی ایسا کام نہیں گذرا جو اس عظیم ادیبہ کی تمام خدمات کا تفصیلی احاطہ کرتا ہو یا اس کے شایان شان ہو۔۲۰۱۳ء میں اس مشہور ادیبہ کو پیدا ہوے ایک سو سال ہو گئے،مگر نہ تو ان کو تحریری طورپہ یاد کیا جا رہا ہے اور نہ تقریر ی محفلوں میں انہیں خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔ا س لیے ان کی پیدائش صدی کے موقعے پر ۲۲ اور ۲۳ فروری ۲۰۱۴ء کو شعبۂ ارد و،پٹنہ یونیورسٹی میں اس قومی سیمینا ر کا انعقاد کرکے صالحہ عابد حسین کو سمجھنے اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔انہوں نے اس معروف ادیبہ کا تعارف کراتے ہوئے مزید کہا کہ صالحہ عابد حسین کا ا،صل نام مصداق فاطمہ تھا۔آپ کے والد خواجہ غلام الثقلین اپنے وقت کے جید عالم ،مصلح اور مشہور رسالہ عصرجدید کے ایڈیٹر تھے۔کئی بلندپایہ کتابیں بھی ان کی یادگار ہیں۔جبکہ والدہ مولانا حالی کی پوتی تھیںاور بڑا اچھا ادبی ذوق رکھتی تھیں۔ایسے علمی ادبی گھرانے میں صالحہ نے اگست ۱۹۱۳ ء میں آنکھیں کھولیں اور اپنے ادبی سفر سے اس گھرانے کو مزید روشن کیا۔ان کی متعدد تصانیف دنیا کے سامنے آئیں۔انہوں نے افسانے ،ڈرامے،سفرنامے،سوانح کے علاوہ تنقیدی مضامین کا بھی ایک قابل قدر ذخیرہ چھوڑا ہے۔مگر سب سے زیادہ شہرت انہیں ناول نگاری کی بدولت حاصل ہوئی۔عذرا،ان کا پہلا ناول تھا جو ۱۹۴۰ء کے لگ بھگ لکھا گیا اور پھر اس کے بعد ان کے ناول یکے بعد دیگرے شایع ہوتے رہے۔آتش خاموش،قطرے سے گہر ہونے تک،راہ عمل ،یادوں کے چراغ،اپنی اپنی صلیب اور گوری سوئے سیج پروغیرہ ان کے معروف اور مقبول ناول رہے ہیں۔ان کے کئی افسانوی مجموعے بھی شایع ہوئے مثلاً نقش اول،ساز ہستی،نونگے،نراس میں آس وغیرہ ۔ ان کے تمام ناول اور افسانے اخلاقی،معاشرتی اور اصلاحی نقطۂ نظر کی غمازی کرتے ہیں۔وطن پرستی کے جذبات،انسانیت کی خدمت،اصلاحی و اخلاقی اصول و نظریات کے ساتھ ہی قوم پروری اور انسان دوستی کے اہم تصورات ان کی تخلیقا ت میں نمایاں طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔اس اعتبار سے صالحہ عابد حسین کا رشتہ ابتدائی خواتین کے مقصدی ناولوں سے جا ملتاہے۔مگرحیرت کی بات ہے کہ ان کی پیدائش کے سو سال مکمل ہونے پر بہت کم لوگوں کو ان کی قدر شناسی کا خیال آیا۔ایسے میں شعبۂ اردو پٹنہ یونیورسٹی نے قومی سطح کا سیمینار منعقد کرکے اس اہم ادیبہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کا لائق ستائش فیصلہ کیاہے۔ہم نے کوشش کی ہے کہ اس میں فکشن کے بعض اہم ناقدین کے ساتھ ساتھ وہ نوجوان مصنفین بھی بڑی تعداد میں شرکت کریں جن پر مستقبل میں اردو زبان وادب کے تحفظ اور فروغ کی ذمہ داری ہے۔ہمیں باہر سے آئے تمام مہمانوں اور نوجوان شرکاء کے ساتھ ادب سے شعف رکھنے والے سامعین کا استقبال کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس سیمنار سے انہیں اردو ادب کی ایک گم کردہ شخصیت سے شناسائی کا بہتر موقع حاصل ہوگا۔


افتتاحی اجلاس کے صدر اور معروف فکشن نگار شموئل احمد نے صالحہ عابد حسین کے حالات زندگی اور ان کی افسانوی خدمات کی تفصیل پیش کرتے ہوئے ان گوشوں کا بھی انکشاف کیا جنہیں اردو دنیا فراموش کر چکی تھی۔انہوں نے کہا کہ صالحہ کی اردو کے علاوہ انگریزی سے بھی اچھی واقفیت تھی۔وہ رابندر ناتھ ٹیگور اور شرت چند سے متاثر تھیں۔انہوں نے صالحہ کے چند افسانوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کی فنکاری کی بھی داد دی۔مہمان خصوصی اور ماہنامہ تحریر نو ممبئی کے مدیر جناب ظہیر انصاری نے بھی صالحہ کے افسانوں اور ناولوں کے حوالے سے اہم باتیں کیں،اور خوشی کا اظہار کیا کہ پٹنہ یونیورسٹی نے معروف ادیبوں کے بجائے ایسی ادیبہ کو موضوع گفتگو بنایا جن کو تاریخ ادب کے ناقدین نے تمام تر خدمات اور خوبیوں کے باوجود فراموش کر دیا تھا۔مہمان اعزازی پروفیسر توقیر عالم،پرووائس چانسلر مولانا مظہر الحق عربی وفارسی یونیورسٹی نے صالحہ عابد حسین کی ادبی خدمات کے چند اعلیٰ نمونے پیش کیے اوران کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ صالحہ نے ۵۰ سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان پاس کیا حالانکہ افسانہ نگاری  اور ناول نگاری میں انہوں نے اس سے کافی پہلے وہ مقام حاصل کر لیاتھا جو عام طور پر لوگ برسوں علم حاصل کرنے کے بعد کرتے ہیں۔انہوں نے اس بات کی ستائش کی کہ محترمہ صالحہ نے انہیں افسانہ نگار نہ گردانے جانے پر باضابطہ احتجاج درج کرایا تھا۔انہوں نے صالحہ کے ۶ افسانوی مجموعے اور ۹ ناولوں کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے عورتوں کی بے بسی اور بے کسی کو موضوع بنایا اور عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتی رہیں۔سیمینار کے اس پہلے سیشن سے اردو اکادمی کے فعال سکریٹری امتیاز احمد کریمی نے بھی خطاب کیا۔انہوںنے سیمینار کے انعقاد کے لیے ڈاکٹر اشرف جہاں اور ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کی ستائش کی اور اعلان کیا کہ سیمینار کی طرح پڑھے گئے مقالات کی اشاعت میں بھی اردو اکادمی اپنا تعاون دے گی۔اس سیشن میں شکریے کا فریضہ صدر شعبہ ڈاکٹر اشرف جہاں نے انجام دیاجبکہ نظامت ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے کی۔


    افتتاحی اور اختتامی اجلاس کے علاوہ سیمینار میں کل پانچ اجلاس منعقد  ہوئے اور تقریباً ۵۰ مقالے پڑھے گئے۔پہلا اجلاس ۲۲ فروری کو ایک بجے دن میں شروع ہوا ،جس کی صدارت ڈاکٹر اسلم جمشید پوری اور ڈاکٹر ممتاز احمد خان نے کی  اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر ابو بکر رضوی نے انجام دیے۔اس سیشن میں ڈاکٹر سید شاہ حسین احمد (ویر کنور سنگھ یونیورسٹی ،آرہ) ڈاکٹر محبوب اقبال (بہار یونیورسٹی ،مظفرپور) ڈاکٹر مظہر کبریا(جے پرکاش یونیورسٹی ،آرہ)ڈاکٹر نسیم احمد نسیم (بتیا) ڈاکٹر ثریا جبیں (مظفرپور)نورالسلام ندوی،عندلیب عمر اور افشاں بانو نے مقالات پیش کیے۔


    لنچ کے وقفہ کے بعد اس سیمینار کا دوسرا اجلاس شروع ہوا ،جس کی صدارت کا فریضہ معروف ادیب شوکت حیات نے انجام دیا اور نظامت ڈاکٹر نسیم احمد نسیم نے کی۔اس اجلا میں جن مہمانوں نے مقالات پیش کیے ان میں ڈاکٹر فرزانہ اسلم (مگدھ یونیورسٹی) ڈاکٹر ابوبکر رضوی(ٹی پی ایس کالج ،پٹنہ)مولانا سجاد ندوی(گیا) ڈاکٹر مسرت جہاں(مگدھ مہیلا کالج)رحمت یونس(جے این یو)ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق(حاجی پور)محمد تفضل حق(کلکتہ) اورمحمد اسلام کے نام شامل ہیں۔
    ۲۳ فروری کو صبح دس بجے سیمینار کے تیسرے اجلاس کا آغاز ہوا ،جس کی مجلس صدارت میں ڈاکٹر اشرف جہاں اور ڈاکٹر ریحانہ سلطانہ شامل تھیں جبکہ نظامت کی خدمت ڈاکٹر محبوب اقبال نے ادا کی۔اس سیشن میں ڈاکٹر ممتاز احمد خان(بی آر امبیدکر یونیورسٹی)،ڈاکٹر حامد علی خاں(آراین کالج،حاجی پور)پروفیسر صفدر امام قادری(کالج آف کامرس،پٹنہ)ڈاکٹر زرنگار یاسمین،ڈاکٹر شارقہ شفتین،شفیعہ جمیل،محمد اسلم اور محمد احمر رضوی نے مقالات پیش کیے۔اس اجلاس سے پٹنہ کالج کے پرنسپل پروفیسر نول کشور چودھری نے بھی خطاب کیا اور اپنے کالج کے کیمپس میں اس یادگار سیمینار کے انعقاد پہ مسرت کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے اپنی اور کالج کی جانب سے بہار اور بہار کے باہر سے آئے تمام مہمانوں کا خیرمقدم کیا۔


    سیمینار کا چوتھا اجلاس ساڑھے بارہ بجے دن میں شروع ہوا ،جس کی صدارت کے فرائض ڈاکٹر جاوید حیات اور ڈاکٹر عاصم شہنواز شبلی نے انجام دیے اور نظامت نورالسلام ندوی نے کی۔اس اجلاس میں جن مندوبین نے اپنے خیالات اور مقالات سے سامعین کو محظوظ کیا ان کے نام یوں ہیں: ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری(میرٹھ) ڈاکٹر منظر اعجاز (اے این کالج)ڈاکٹر عبدالحنان سبحانی(سہرسہ)ڈاکٹر حسن مثنی (رانچی) ڈاکٹر محمد عرفان(مغل سرائے)ڈاکٹر فرحت یاسمین(پٹنہ)شفقت نوری،محمد منہاج الدین،شہناز بانو،شاذیہ کمال(پٹنہ)۔


    سیمینار کاآخری اجلاس ظہرانے کے بعد تین بجے دن میں شروع ہوا جس کی مجلس صدارت میں پروفیسر ابو منور گیلانی اور پروفیسر صفدراما قادری شامل تھے اور نظامت کا فریضہ انجام دے رہی تھیں رحمت یونس۔اس آخری تکنیکی اجلاس میں ڈاکٹر عاصم شہنواز شبلی(کلکتہ یونیورسٹی)،جناب ظہیر انصاری(ممبئی)ڈاکٹر ریحانہ سلطانہ(گوتم بدھ یونیورسٹی،نوئیڈا) ڈاکٹر توقیر عالم توقیر،(پٹنہ)ڈاکٹر الفت حسین(سیوان) ڈاکٹر ایم عظیم اللہ،عفت ممتاز،ایمن عبید،رضوانہ پروین،اور نجم الحسن عارض نے مقالات پیش کیے۔


    اس اجلاس کے اختتام کے ساتھ ہی سیمینار کا اختتامی اجلاس شروع کر دیا گیا ،جس میں معروف ادیب ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری ،ڈاکٹر حسن مثنی،پروفیسر ابومنور گیلانی،ظہیر انصاری اور صفدرا مام قادری کے علاوہ سمینار کے کنوینر ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری نے دونوں دنوں کے سیمینار پہ اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سیمینار اپنی نوعیت کا منفرد اور تاریخی سیمینار ثابت ہو اہے،جس میں صالحہ عابد حسین کی فکر ،تانیثیت اور خواتین کی خدمات کو سمجھنے کی ایماندارانہ کوشش ہوئی ہے۔ انہوںنے سیمینار میں طلباء وطالبات اور ریسرچ اسکالر کی شمولیت کو قابل تحسین بتایا۔ معروف صحافی اور ادیب حسن مثنیٰ نے طلباء وطالبات کو مقالہ لکھنے اور پیش کرنے کے ہنر سے واقف کرایا۔ پروفیسرابو منور گیلانی نے کہاکہ صالحہ عابد حسین فکشن کی دنیا کا بہت بڑا نام ہے مگر اس کو نظر انداز کیاگیا۔ ان کی تخلیقات پڑھ کر محسوس ہوتاہے کہ ’’ میں نے جاناکہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘ ایسی شخصیت پر یہ سیمینار اس اردو ادیبہ اور فکشن نگارکو سمجھنے میں سنگ میل ثابت ہوگا۔ سیمینار کے آرگنائزنگ سکریٹری ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے اپنی رپورٹ پیش کی اور دوروزہ سیمینار کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے بتایاکہ اس میں قومی سطح کے ادیبوں اور دانشوروں کے ساتھ ساتھ ریسرچ اسکالر اور طلباوطالبات کے تقریباً پچا س مقالات پڑھے گئے۔ انہوںنے تمام مہمانوں کا صمیم قلب سے شکریہ ادا کیااور کہاکہ عنقریب تمام مقالات کو کتابی شکل دی جائے گی۔ صدر شعبہ اردو ڈاکٹراشر ف جہاں نے کہاکہ دردوغم صرف عورتوں کا مقدر نہیں،قربانیاں صرف عورتوں نے نہیں ، مردوں نے بھی دئے ہیں۔ صالحہ نے بھی دردوغم ،قربانیوں اور احتجاج کیلئے صرف عورتوںکو ذمہ دارقرارنہیںدیا، اس طرح کے نتائج نکالنا غلط ہے۔ مرداور عورت دونوں احساسات وجذبات کے اعتبار سے یکساں ہیں، سماج دونوں کیلئے ہے۔ ڈاکٹر صفدر امام قادری نے اپنے خطاب میں کہاکہ شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی کا یہ سمینار اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب ہے۔ انہوںنے انتظامیہ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہاکہ جس سلیقہ سے یہ پروگرام مرتب کیاگیا اور آخری اجلاس تک شرکاء  جس دل جمعی اور انہماک کے ساتھ جمے رہے ، یہ اس بات کی علامت ہے کہ اردو زندہ ہے اوربہار اس کا مرکز ہے۔ انہوںنے شہاب ظفر اعظمی کی ستائش کرتے ہوئے کہاکہ آپ واقعتاً ’شہاب‘ ہیں۔ اس یونیورسٹی سے لکھنے پڑھنے والوں کی ایسی ہی کھیپ تیار کیجئے جو آسمان ادب پر شہاب ثاقب بن کر چمکے اور دمکے۔  اس موقع پر طلباء وطالبات کو معروف صحافی اور ادیب ظہیر انصاری اور ابو منور گیلانی کے ہاتھوںسرٹیفکٹ سے بھی نوازاگیا۔


سیمینار میںممبئی ،دہلی،یوپی،بنگال،جھارکھنڈ اور بہار سے مخصوص مندوبین ،دانشور اور اساتذہ کے علاوہ ممتاز فکشن نگارڈاکٹر شوکت حیات ، شموئل احمد، مشتاق احمد نوری،کلیم الرحمٰن،اشرف امام،ڈاکٹر ایم عظیم اللہ ، شعیب رضا کاظمی، ارمان نجمی،نول کشور چودھری،الفت حسین،محمد ذاکر،جمیل اختر،عرفان احمد،ڈاکٹر سرورعالم ندوی،ڈاکٹر سعید عالم،صادق حسین،شمیم قاسمی، شکیل سہسرامی،ڈاکٹر توقیر عالم،  ابوالحیات،مشتاق احمد مشتاق ،اسماعیل حسن،شمیم گوپال گنجوی،پرویز عالم،قیصر رضا،سعدیہ افروز،قیصر امام ،آصف احمد، ڈاکٹرضمیر رضا، ڈاکٹر تمنا، محمد فیاض عالم ،شبنم ،فرحت یاسمین وغیرہ نے شرکت کی۔ ان کے علاوہ مختلف یونیورسیٹیوں کے اساتذہ، ریسرچ اسکالر ، طلباء وطالبات اور محبان اردو بھی کثیر تعداد میں شامل ہوئے۔ دوروزہ قومی سیمینار بہت کامیاب اور بامقصد رہا۔ شرکاء نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ یہ سیمینار صالحہ عابد حسین کی حیات وخدمات، فکروفن اور ان کی علمی وادبی کارناموں کو سمجھنے ، جاننے اور پڑکھنے کے سلسلے میں نہایت ہی مفید اور معاون ثابت ہوا۔ اس سے صالحہ کی زندگی اور فن کے  نئے پہلووا ہوئے۔صوری اور انتظامی اعتبار سے بھی یہ سیمینار بہت دنوں تک یاد کیا جائے گاکہ شعبے کی دیواروں کومصنفہ کی کتابوں کے اقتباسات سے جس طرح سجایا گیاہے ،وہ اسے ایک پکچر گیلری کی صورت عطا کرتاہے،اس کے لئے آرگنائزر اور یہاں کے فعال طلبہ کی بھی ستائش ہونی چاہیے۔ صالحہ عابد حسین کی صدسالہ تقریب کی مناسبت سے بلا شبہ یہ سیمینار ایک تاریخی اور انفرادی نوعیت کا حامل ہے۔ 


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments


Login

You are Visitor Number : 1020