donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abdul Moqeet Abdul Qadeer
Title :
   Jungle Ki Kahani

 

جنگل کی کہانی 
 
عبدالمقیت عبدالقدیر ، بھوکر
 
آج جنگل کی گھنی جھاڑیوں کے پیچھے بھیڑیے اور جھنڈ کے کچھ آزاد طبیعت نر مل کر خفیہ میٹنگ میں مصروف تھے۔بھیڑیوں کا ارمان تھا کہ کاش وہ ان ہرنوں کو بھی ہضم کر لیں مگر ان کی مکاری نے انھیں باز رکھا۔ تمام ہرن کافی تگڑے پھرتیلے تھے ۔ بھیڑیوں کی ہڈیاں نکلنے لگی تھیں کافی عرصہ سے وافر خوراک نہ ملنے کی وجہ سے بھیڑیے مردار جانور اور چوہے کھاکر جی رہے تھے جو بڑی مشکل سے ہاتھ آتے۔ تمام بھیڑیے اپنے بزرگوں سے سنتے آئے تھے کہ پہلے ایسا نہیں تھابھیڑیے من پسند ہرن کا شکار کر سکتے تھے مگر جب سے ہرنوں نے تہذیب کا درس پڑھا بھڑیوں کی نسلیں بھوکی رہنے لگی اب حالت یہ تھی کہ جب کوئی بھیڑیا مرجاتا تب انکے پاس اپنے ساتھی نعش چبانے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔آخر کار کافی مشقتوں کے بعد بھیڑیوں نے حالات سے نمٹنے کی خاطر آزاد طبیعت ہرنوں سے ساز باز کرنے کی کوشش شروع کردی جو آج رنگ لاتی دکھائی دینے لگی۔ 
 
جب سے ہرنوں نے تہذیب کا درس پڑھا وہ کافی متمدن ہونے لگے تھے ۔ ہرنوں میں کافی ہرن ایسے بھی تھے جنھیں مجبوراً تہذیب کا درس پڑھنا پڑاتاکہ وہ اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں۔ یہ آزاد طبیعت کے مالک ان ہرنوں کو ہمیشہ سے ہی تہذیب کے اصول اپنے اوپر زیادتی لگتے تھے۔ مگر تمام جھنڈ کے اتحاد، سربراہ نر کی طاقت اور جنگل کے بھیڑیوں کے ڈرنے انھیں جھنڈ میں رہنے کے لیے مجبور کر دیا تھا۔جب سربراہ ہرن اپنے آخری وقت کو پہنچ جاتا تو اپنی ذمہ داری اپنے قبیلے کے بہترین ہرن کو دے دیتا۔ آگے چل کر سربراہی وراثت میں تبدیل ہوگئی ۔ سربراہ مرنے سے قبل اپنے خاندان کے قابل ہرن کو ذمہ داری سونپ دیتا۔ آہستہ آہستہ ناکارہ ہرن بھی سربراہ بن جاتے۔ جن کے اطراف چاپلوس ہرنوں کی بھیڑ لگی رہتی۔مگر اب بھی سارے جنگل میں ہرنوں کے گروہ کا دبدنہ صرف قائم تھا بلکہ کسی میں ان سے ٹکر لینے کی ہمت نہ تھی۔ لیکن گروہ میں موجود آزاد روش ہرنوں کو تہذیب کا درس اور اتحاد گوارہ نہ تھا۔
 
کسی طرح ان آزاد طبیعت نروں کے مزاج کا پتہ بھیڑیوں کو چل گیا تبھی سے بھیڑیے ان کے ساتھ ساز باز کرنے کی سوچ رہے تھے ۔ آج انھیں یہ موقع مل گیا۔جھاڑیوں کے پیچھے کافی دیر تک میٹنگ کرنے کے بعد ہرن اور بھیڑیے لوٹ گئے۔ جھنڈ کا سربراہ نر جو آزاد طبیعت نروں کے لیے کچھ پریشان ہورہا تھا جب اسے پتہ چلا کہ ہرن لوٹ آئے ہیں تو اسے نے بنا کسی پوچھ تاچھ کے اطمینان کا سانس لیا ۔
 
جنگل کی سرحد پر بھیڑیوں اور جنگلی کتوں میں جنگ چل رہی تھی ۔ کچھ بھیڑیے ہرنوں کے سردار کے پاس آکر مدد کی درخواست کرنے لگے۔ ہرنوں کے سردار نے کچھ جیالے بہادر ہرنوں کو محاذ کی جانب بھیجا ۔ جب جنگلی کتوں کو خبر ہوئی کہ ہرن ان سے لڑنے آرہے ہیں تو وہ دل ہی دل میں وحشت زدہ ہوگئے انھیں برسوں سے ہرنوں کے ذریعے کھائی جانے والی شکستیں اور ہرنوں کے سنیگوں کے زخم یاد آنے لگے ۔ چنانچہ جنگلی کتوں نے بھیڑیوں سے معافی مانگ لی اور اتحاد کرلیا۔ بھیڑیے جنھوں نے ہرنوں کو مدد کے لیے بلایا تھا ان کے ذہن میں سازش پنپنے لگی جنگلی کتوں کو ساتھ لے کر انھوں نے ہرنوں کہ دستے پر حملہ بول دیا ۔ دلیر ہرن لڑنے مصروف ہوگئے ۔ جب بھیڑیوں اور کتوں کو اپنی ہار یقینی لگنے لگی تب انھوں نے دلیر ہرنوں کی جانب پیش کش کی کہ ہماری تعداد تم سے بہت زیادہ ہم تمھیں زندہ نہیں جانیں دیں گے مگر ہم تم سے نہیں لڑنا چاہتے ۔ اگر تم اپنے سربراہ کو ہمارے حوالے کردو تو ہم تمھیں کچھ نہیں کریں گے۔ ہرنوں کی جماعت جو کافی تھک چکی تھی اس 
 
نے یہ پیش کش قبول کرلی جن ہرنوں نے اس پیش کش کو ٹھکرایا وہ جنگلی کتوں اور بھیڑیوں کی خوراک بن گئے۔ ان کے ساتھی انھیں درندوں کے پیٹ میں جاتے دیکھ رہے تھے مگر ان کی مدد نہیں کی۔ جنگجو دستہ جب واپس اپنے جھنڈ کی طرف لوٹا تو اپنے سربراہ کو عہدے سے برطرف ہوجانے کے لیے کہا ۔ سربراہ اپنے آبا کی طرح بہادر نہیں تھا اور نہ ہی دوسرے ہرنوں کے دل میں اسکا وہ مرتبہ باقی رہا جو اس سازش سے نمٹنے کے کام آ سکے ۔ اس کے دل میں بھی منصب کی چاہ نے گھر کر لیا تھا۔ آزاد طبیعت نر جو موقع کی تلاش میں تھے وہ نہ صرف سربراہ کے مخالف ہوئے بلکہ تہذیب کے درس کو بھی ختم کرنے کی مانگ کرنے لگے۔ آخر کار حسب منصوبہ سربراہ کو بھیڑیوں کے حوالے کردیا گیا۔ 
 
بھیڑیے جان چکے تھے کہ اب ہرنوں کا اتحاد ختم ہوچکا ہے اس لیے انھوں نے ہرنوں کے سامنے غرایا کہ اگر اپنی جان پیاری ہے تو جنگل کے اس حصے کو چھوڑ کر اپنے لیے نیا مقام تلاش کرلو ورنہ ہمارے غلام بن کر رہو۔ غرض ہرنوں کا جھنڈ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں منقسم ہوکر علحدہ علحدہ مقامات پر چلا گیا جو باقی رہے گئے وہ بھیڑیوں کے رحم و کرم کے محتاج ہوگئے ۔جو بوڑھے ہرن باقی رہے گئے وہ جھنڈ کو اپنے اسلاف کی یاد دلانے کی کوشش کرتے ۔ ماضی اور حال دیکھ کر خون کے آنسوروتے جن ہرنوں نے اپنے سربراہ کو بھیڑیوں کے حوالے کیا وہ اپنی غلطی جان چکے تھے ۔ مگر اب بہت دیر ہوچکی تھی نہ ان کے پاس اب اتحاد باقی رہا نہ تہذیب کے اصول باقی رہے جو انھیں دوبارہ جنگل کا راجہ بنا سکتا تھا۔
 
دور ایک ٹیلے کے نیچے بنی غار میں اپنے بزرگ کے زبانی یہ ساری داستان سن کر ننھے ہرن ایک زبان ہوکر کہنے لگے’’ اے بزرگوار آپ غم نہ کریں انشاء اللہ ہم دوبارہ تہذیب کو نافذ کریں گے ۔ اپنے منتشر ومنقسم قبیلے متحد کریں گے۔ آپ ہمیں تہذیب کا وہ درس پڑھائیں‘‘اس کے بعد تمام کم عمر ہرن غاروں کی پناہ میں تو کبھی جنگل کی سرحدوں پر ملکر اپنے بچے ہوئے بزرگوں سے تہذیب کا درس سیکھنے لگے۔ بھیڑے اور جنگلی کتے ہمشہ ان کا پیچھا کرتے رہتے ۔ جنگل کے دوسرے جانور، پرندے سبھی ہرنوں کی اس نئی نسل پر نظر رکھنے لگے اور انکی ہر حرکت کی خبر بھیڑیوں اور جنگلی کتوں تک پہنچاتے ۔ اکثر جنگلی کتوں اور بھیڑیوں کے ساتھ نئی نسل کے ہرنوں کی مد بھیڑ ہوتی رہتی مگر انکی تہذیب نے انہیں کبھی ناامید ہونے یا ہا رماننے کا درس نہیں دیا تھا۔ 
 
*****************
Comments


Login

You are Visitor Number : 747