donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ahmad Jawed
Title :
   Sada Sanwara Hai Ashraf Ne Gesuye Uedu


سدا سنوارا ہے اشرفؔ نے گیسوئے اردو   


از ۔احمد جاوید   شیب پور‘ ہوڑہ۔


       جو لوگ تصنیف کے درد سے آگاہ ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ کلاممیں لذت اورمقبولیت پیدا نہیں ہو سکتی جب تک اس کے ایک ایک لفظ میں خونِ جگر کی چاشنی نہ ہو (حیاتِ سعدی ص۷۳؁)
          اشرف علی اشرفؔ کو تصنیف کے درد سے بہ خوبی آگاہ ہیںاور اس کی ترجمانی بھی اپنے اشعار میں یوں  کہتے ہیں :

وصال یار مرے درد کا علاج نہیں
یہ حرفِ شوق نہیں ‘خون ہے رگ جاں کا
میں غم پسند ہوں دل کیسے بے قرار نہ ہو
ہو دفن ذہین میں تو دل کا کاروبار نہ ہو

         اپنا شعری مجموعہ’’ صحیفۂ حیات ‘‘میں اشرف ؔ صاحب نے زندگی کے وہ تمام اسلوب اور ادبی نظریئے جو فن شاعری میں پنہا ہے اسکو اجاگر کرنے کی نہ صرف کامیاب کوششیں کیں بلکہ نہایت کامیاب بھی رہے۔

          جہاں تک شاعری کی اضاف کا سوال ہے وہاں انہوں نے مروج اصنافِ سخن‘ حمد‘ نعت‘ رباعی ‘قطعہ‘ ماہیہ‘ غزل اور نظم میں طبع آزمائی کی ہے۔

          تمام اصناف پر انہوں نے پورا پورا انصاف کر نے کی کوششکی ہے اور انہوں نے غزلوں کو اپنا اندازۂ سخن کے ذریعہ وہ تمام باتیں دل کی عمیق گہرائی سے کہہ گئے۔ بیشتر غزلیں انکی نہ صرف حقیقت پر مبنی ہے بلکہ دلائلِ احادیث اور نظریۂ خداوندی پر مرکوز ہیں۔ملاحظہ فرمائیے  :

نظر آنے لگا اب اسکا جلوہ ایک اک شئے میں
مگر اس دیدۂ بینا کی حیرانی نہیں جاتی
سنا ہے بخش دیتا ہے خدا ہر اک گنہ لیکن
یہ کیوں توبہ سے اس دل کی پشیمانی نہیں جاتی

 شروع شروع میں غزل حُسن و عشق کی باتوں تک ہی محدود تھی۔ تو اس کی دور اندیشی سمٹ کر رہ گئی تھی۔ اب اس کا دامن وسیع ہو گیا ہے اورآج یہ صورت ہے کہ حیات و کائنات کا کوئی موضوع نہیں جو کامیابی کے ساتھ غزل میں پیش نہ کیا جائے۔ معروف شاعر ندا فاصلیؔ نے اپنی کچھ غزلوں میں بیٹی کو محبوب بنایا ہے۔ جبکہ شاعر منور رانا نے اپنی ماں کو محبوب کا درجہ دیا ہے۔

    عموماً بیشتر شاعر پہلے پہل حسن و عشق اپنی غزلوں کو موضوع سخن بناتے ہیں مگر اشرف صاحب نے اپنی شاعری کا آغاز اپنی پہلی نظم ’’ پریمی کی موت‘‘ لکھ کر شروعات کی اور اس بات کو واضح کردیا کہ انسانی جذبات و احساسات کسی زندہ دل انسان میں خاموش نہیں ر ہ سکتے کسی نہ کسی طرح وہ اظہار کر ہی دیتا ہے تبھی تو کہتے ہیں :

جسم مر جانے سے انسان نہیں مرتے ہیں

طفلِ دنیا  جس کی ہستی سے بہت مسرور ہے

ہونٹ جم جانے سے اعلان نہیں مرتے ہیں

جس کو الفت میں ہر اک رنج و الم منظور ہے

نبض تھم جانے سے فرمان نہیں مرتے ہیں

جس کے آنچل میں نشاط زندگی مستور ہے

دل ٹھہر جانے سے ارمان نہیں مرتے ہیں

جس کے قدموں کے تلے رہنے پہ تو مجبور ہے

ایک شاعر حقیقت پسندی اور مستقل مزاجی سے آشنا نہ ہو خلوصیت اور جذبات کی سچائی  میں سادگی کی رحجان اندازۂ سخن میں نہ جھلکے تو اس کی شاعری میں تقویت و مضبوطی اور ہم آہنگی پیدا نہیں ہو سکتی جو قاری کے دل پر اثر انداز ہو۔ اور عام انسان شاعری کی تہہ میں غوطہ لگا کر ہیرے موتی و جواہر پانے کی کامیاب کوشش کریں گے۔

         اشرف صاحب کی سلیس اور عام فہم شاعری ایک عام قاری کے دل میں اس طرح اترتی جاتی ہے کہ وہ صحیفۂ حیات کو ضابطۂ حیات بنا کر اپنی زندگی کو سدھارنا پسند کریگا۔

          وہ کہتے ہیں :

فقط لفظوں کی گل کاری نہیں ہے

تم اگر بے وفا نہیں ہوتے

غزل مفہوم سے عاری نہیں ہے

ہم بھی تم سے خفا نہیں ہوتے

میں بندہ ہوں خدا کا سیدھا سادا

کوئی صورت نباہ کی ہوتی

میری فطرت میں عیاری نہیں ہے

آپ اور ہم جدا نہیں ہوتے

انگریزی ادب کا شاعر Shellyکا کہنا ہے کہ  :

"Poetry is mirror, which makes beautiful that which is distorted."
شاعری ایک ایسا آئینہ ہے جو خوبصورتی کو مزید ممتاز و شاہکار بنانے میں مدد کرتی ہے۔
           اشرفؔ صاحب کی شاعری بھی اس کے مترادف ہے آپ خود ہی دیکھ لیں :

محبوب کی نگاہ کی تنویر بن کے دیکھ
اس کے حسین خواب کی تعبیر بن کے دیکھ
مل جائے تجھ سے اوروں کو اک اور زندگی
آبِ حیات طرح تاثیر بن کے دیکھ

    قطعات ‘ رباعیات‘ نظمیں یا ماہئے ہوں ۔ ان کے تمام اشعار میں عصری زندگی کے ساتھ ساتھ بنیادی زندگی کو بھی فوقیت دینے میں ذرا بھی نہیں جھجھکے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے بیشتر اشعار خدائے لم یزل کی محبوبیت سے سرشار ہے  :

کہتے ہیں تاثیر بدل جاتی ہے
اک لفظ سے تحریر بدل جاتی ہے
کوشش تو کرو نام خدا کا لے کر
تدبیر سے تقدیر بدل جاتی ہے

حتیٰ کہ ماہئے میں انہوں نے کوئی خاص اثر نہیں چھوڑا۔ پھر بھی وحدانیت کے پرچم کو یوں بلند کیا ہے کہ   :

وہ مالک و رازق ہے
بحر ہو یا بر ہو
ہر شئے کا وہ خالق ہے

کونین کے حاصل ہیں
آپ دوعالم ہیں
قرآن کے حامل ہیں

    اشرف علی اشرفؔ اپنی غزل گوئی میں کسی مخصوص نظر یئے کا حامل دیکھائی نہیں دیتے بلکہ نظامِ حیات میں جس عناصر کی ضرورت پڑتی ہے انہوں نے اپنے اشعار کے ذریعہ اسے اجاگر ضرور کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے  :

جو زندگی کو ہم ڈھال لیں قرینوں میں
تو کام برسوں کا کر سکتے ہیں مہینوں میں

راس آتی بھلا پھر خوشی کس طرح
جب غموں سے مری دوستی ہو گئی

کہاں وفا سے انہیں ہمکنار ہم نے کیا
غلط کیا کسی پتھر سے پیار ہم نے کیا

ہمار عزم تھا اشرفؔ بہت جواں مضبوط
کہ پھول زار کو خود خار ہم نے کیا

المختصر اشرف علی اشرفؔ ایک زندہ دل وفا شعار منکسرالمراج رحمدل اور مخلص انسان ہیں اور یہ کہنا درست ہوگا کہ ان کا مجموعہ’’ صفیحۂ حیات‘‘ ان تمام چیزوں کی آمیزش ہے اللہ رب العزت سے ہم دعا گو کہ اللہ تبارک تعالی انہیں صحت کامل عطا فرمایئے۔اور مزید صحیفوں کے ذریعہ ہم لوگوں کو نہ صرف لطف اندوز کریں بلکہ ہموار راستوں کی نشاندہی بھی۔ ان کے چند اشعار سے میں اپنی بات ختم کر رہا ہوں۔

سدا سنوارا ہے اشرف ؔ گیسوئے اردو
رہے خیال یہ گیسو ادھر ادھر نہ اڑے

تو آئے شہر میں اور آنے کی خبر نہ اڑے
یہی ہے خوف ترے عاشقوں کا سر نہ اڑے

نوازش کرم شکریہ مہربانی
ترے دم سے قائم ہے یہ شادمانی

ملنے جلنے کا سلسلہ رکھئے
لب پہ سب کے لئے دعا رکھئے

AHMED JAWED 22/2, DHARMODAS KUNDU LANE. SHIBPUR, HOWRAH-2 (W.B.) Email : ahmedjawed15@gmial.com
Mobile :9831516136


**********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 775