donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ahmed Nisar
Title :
   Purani Filme , Pur Asar Ashaar


پرانی فلمیں، پر اثر اشعار


تحقیق و تحریر  :  احمد نثارؔ


 

    ہندی سنیما یا بالی وڈ میں جب فلمیں بنتی ہیں، ان کو زبانوں کے زمروں میں ڈالنے کے مواقع دو جگہ پر ہوتے ہیں۔ ایک فلم کا نام رجسٹر کرنے کی جگہ اور دوسرا فلم سینسر بورڈ میں سرٹیفکیٹ کے لیے درخواست دینے کی جگہ۔ان دونوں جگہوں پر آپ اپنے فلم کی زبان کو درج کروا سکتے ہیں۔

    پرانی ہندوستانی فلمیں، خواہ انہیںسینسر بورڈ کی جانب سے اردو فلمی سرٹیفکیٹ ملا ہو کہ ہندی، ان میں استعمال شدہ ادب جس کو فلمی ادب کہا جائے تو بے جا نہ ہوگاسماج پر اپنی گہری چھاپ چھوڑ ا ہے۔ فلمیں کلکتہ ، مدراس میں بنیں اور ممبئی میں بھی۔ کولکتہ میں تاریخ اور سماج پر یاد گار فلمیں بنیں تو ممبئی میںزیادہ تر سماجی موضوعات پر بنیں۔

    سینسار بورڈ سے جاری شدہ سند یا سرٹیفکیٹ پر فلم کی زبان کی جگہ اردو بھی ہوا کرتی تھی۔ اب وہ سلسلہ نظر نہیں آرہا ہے۔ غالباً پروڈیوزرس کا دھیان اس طرف نہیں جارہا ہے۔ بس فلموں میں ٹائٹل کی جگہ مشکل سے فلموں کے نام اردو زبان میں نظر آتے ہیں، اس کو بھی غنیمت سمجھا جانے کا دور ہے۔  

    1980ء تک بنی فلموں میں کچھ فلمی بینر یا فلم بنانے والی کمپنیاں ایسی بھی تھیں، تھئیٹروں میں جب فلم شروع ہوتی تو سکرین پر ان اشعار میں سے کسی نہ کسی شعر کو ضرور پیش کیا کرتی تھیں۔ ان اشعار کا پیش کرنا اس فلم کی بینر پر منحصر ہوا کرتا تھا۔ جیسے کہ شعر کی بنیاد پر لوگ سمجھ جاتے تھے کہ یہ بینر فلاں کمپنی یا مالک کا ہے۔ گویا کہ یہ اشعار ان کمپنیوں کے ٹریڈ مارک، لوگو یا پھر سلوگن یا نعرہ ہوا کرتے تھے۔

    محبوب پروڈکشنس کے بینر پر بننے والی فلموں میں، فلموں کی شروعات کے وقت بینر کے ساتھ یہ شعر ضرور پیش کیا جاتا تھا۔1945کی فلم ہمایوں،  1947 کی فلم  اعلان ۔  1957 کی فلم مدر انڈیا اس کی مثال ہیں۔

فلم پروڈیوزر ین۔اے۔کریم نے شکیل پکچرس کے بینر میں 1973ء میں میرے غریب نواز، 1979 ء میں سلطانِ ہند بنائی۔ شُشیل اینٹرپرائزیس نے 1981 ء میںفلم خواجہ کی دیوانی بنائی۔ آفتاب پکچرس ، سلیم کی فلم مہندی۔ ان فلموں کی شروعات میں یہ شعر پیش کیا گیا تھا۔

1975

میں بنی فلم دیارِ مدینہ،فلم فیلڈ پروڈکشنز، نے اپنی فلم کو اس بند سے شروع کیا ہے۔

قسمت میں میری چین سے جینا لکھ دے
ڈوبے نہ کبھی میرا سفینہ لکھ دے
جنت بھی گوارا ہے مگر میرے لیے
اے کاتبِ تقدیر مدینہ لکھ دے

1990

میں رتن موہن کی فلم ہاتم طائی بنی۔ اس فلم کی شروعات اس شعر سے ہوتی ہے۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

اسی طرح کئی فلموں میں یہ شعر بھی پیش کرتے ہوئے دیکھا گیا ؛

فانوس بن کی جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے

اب یہ اشعار تاریخی یا،  یادگار اشعار بن کر رہ گئے ہیں۔ کئی اشعار کے خالق یا شاعر کے نام کا بھی پتہ نہیں مگر عوام کی زبان پر مقبول ضرور ہیں، اور آج بھی اردو اور فلمی ادب و ثقافت میں اپنا مقام بنائے رکھے ہیں ۔

٭٭٭٭

تحریر  :  احمد نثارؔ
Email : ahmadnisarsayeedi@yahoo.co.in

 

Comments


Login

  • Nisar Ahmed Syed
    28-01-2016 08:17:52
    حضرات، یہ اشعار بھی کافی مشہور تھے۔۔۔
    ØŽ
    نورِ حق شمعِ الٰہی کو بجھا سکتا ہے کون
    جس کا حامی ہو خدا اُس کو مٹا سکتا ہے کون

    ØŽ
    مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
    وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
You are Visitor Number : 1058