donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Al Helal Maulana Abul Kalam Azad Ki Dawat



الہلال‘‘ مولانا ابوالکلام آزاد کی دعوت


احسان عالم

رحم خاں، دربھنگہ

 

    مولانا آزاد ایک بے پناہ عالم دین، مفسر قرآن ، بے باک خطیب ، مجاہد آزادی اور حساس ذہن کے مالک تھے۔ ملک کی آزادی کے لیے انگریزوں کے خلاف جنگ لڑنے والے مجاہد آزادی کے لئے وہ ایک حوصلہ مند سپہ سالار تھے ۔ مسلمانوں کی نئی نسل کو قدیم تاریخ اور تہذیب و تمدن سے روشناس کرانے والے ایک مورخ بھی تھے۔ انہوں نے زندگی کے آخری لمحوں تک ملک و قوم کی بے لوث خدمت کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ ہندوستان کے ایک سچے سپوت ہیں۔

    مولانا ابوالکلام آزاد آزادی و اتحاد کی پرجوش اور سرگر م داعی تھے ، اس راہ میں انہوں نے اپنے اور بیگانے سب کے طعنے سنے، قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں اور مال و متاع کی قربانی دی۔ کبھی آزادی و حریت کی آواز بلند کرنے اور ہندو مسلم اتحاد کی دعوت دینے سے باز نہ آئے ۔ وہ دار پر چڑھ کر بھی یہی نعرہ بلند کرتے اور صدائے حق دیتے رہے ۔ انگریزوں کا جبروتشدد ان کے عزم و ارادہ کوتبدیل نہ کرسکیں۔

    ’الہلال‘ کے ذریعہ مولانا نے انقلاب آزادی کا جوہر شورنعرہ بلند کیا تھا اس کی گونج ہندوستان کے باہر بھی سنائی دینے لگی ۔ اس کے نتیجہ میں پوری اسلامی دنیا کی قیادت سنبھالنے کی انہیں دعوت ملی ۔

    مولانا نے ’’الہلال‘‘ کے ذریعہ ملکی سیاست اور وطنی آزادی کا جو صور پھونکا اس سے انگریزوں کی تعمیر کردہ غلامی کے طلائی قصر کی بنیادیں ہل گئیں ، اور اہل ایمان بھی خواب غفلت سے بیدار ہوگئے۔ ان کے لہو میں گرمی و حرارت آئی اور ان کا جمود و تعطل حرکت و انقلاب میں بدل گیا ۔

    وہ ’’الہلال‘‘ کے صفحات میں اجہاد ، الجہاد فی فی سبیل الحریت کا نعرہ لگاکر مسلمانوں کو یہ بتاتے رہے کہ :

وہ دنیا میں اس لئے بھیجے گئے ہیں کہ ان زنجیروں کو جو خدا کی بندگی کے سوا انسانوں کی گردنوں میں نہیں ڈالی جاسکتی ہیں ، ٹکڑے ٹکڑے کردیں وہ اس لئے نہیں پیدا کئے گئے ہیں کہ غلامی کی سب سے بھاری زنجیر کو خود اپنی گردن کا زیور بنائیں۔   

 (’’الہلال‘‘ ۸؍ دسمبر ۱۹۱۲ئ)

    ۱۹۱۳ء میں مولانا آزاد مسلمانوں کو یہ تلقین کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ:۔
 ’’ایک چراغ جو روشن ہوکر پھر نہیں بجھتا وہ حریت صحیحہ کا چراغ ہے، مسلمان ہندوستان میں رہتے ہیں ، ہندوستان کی خدمت ان کا دینی فرض ہے۔ جس کی بجا آوری لازم ہے۔ انہوں نے جس جو ش و ایثار سے جنگ طرابلس ، بلقان اور مسجد کانپور کے معاملہ میں حصہ لیا تھا اس معاملہ میں بھی اسی طرح حصہ لیں ، انسانیت اور حق و عدہ کے پرستاروں کے لئے امتیاز ایں و آں نہیں ہے۔ مسلمانوں کا نصب العین خدمت عالم ہے ۔ وہ انسانیت کے خادم ہیں ان کے لئے خدا کی زمین کا ہر ٹکڑا مقد س اور اس کے بندوں کا ہر کردہ محترم ہے۔

    مولانا نے آزادی کا صور پھونک کر ہندوستان کے مسلمانوں کو غلبہ حق کا یقین اور آزادی کے متوالوں کو فتح و کامرانی کی نوید سنائی۔ یہ ان کے الفاظ کا جاد واور تحریروں کا سحر تھا جس نے طرابلس کے مسلمانوں کے لئے ہندوستان کے مسلمانوں کے دلوں میں تڑپ پیدا کرد ی ۔ ترک شہیدوں کے لئے ان کی آنکھوں سے خون کے آنسو رواں کر دیئے۔ کان پور کی مسجد کے انہدام پر مسلمانوں کے ہر ہر گھر کو ماتم کدہ بنا دیا۔

 اور یہ آواز فلک شگاف بھی ’’الہلال‘‘ کے اداریہ ہی کی تھی جس کے مخاطب تمام اہل وطن تھے :۔
میں وہ صور کہاں سے لائوں جس کی آواز چالیس کڑور دلوں کو خواب غفلت سے بیدار کر دیتے ہیں اپنے ہاتھوں میں وہ قوت کیسے پیدا کروں کہ ان کے سینہ کو بی کے شود سے سرگستگان خواب موت ہوشیا ر ہوجائیں ، آہ! کہاں ہیں وہ آنکھیں جن کو درد ملت میں خونباری کا دعویٰ ہے۔ کہاں ہی وہ دل جن کو زوال امت کے زخموں پر ناز ہے۔ کہاں ہیں وہ جگر جو آتش غیر و حمیت کی سوزش سے لذت آشنا ہوں۔ اور پھر آہ ! کہاں ہیں اس برہم شدہ انجمن کے ماتم گسار اس برباد شدہ قافلے کے نالہ ساز، اس برہم شدہ انجمن کے ماتم گسار اس پر بادشدہ قافلے کے نالہ ساز، اس صف تام کے فغاں سنج اور اس کشتی طوفاں کے مایوس مسافر جن کی موت و حیات کے آخری لمحے جلد جلد گذر رہے ہیں اور وہ بے خبر ہیں یا خاموش روتے ہیں یا مایوسی سے چپ و راست نگراں، مگر نہ ان کے ہاتھوں میں اضطراب ہے نہ پائوں میں حرکت ، نہ ہمتوں میں اقدام، نہ ارادوں میں عمل کا ولولہ ، دشمن شیر کے دروازوں کو توڑ رہے اور اہل شہر رونے میں مصروف ہیں۔ ڈاکوئوں نے قفل توڑ دیئے ہیں اور گھر والے سوئے ہوئے ہیں۔ لیکن اے رونے کی ہمت اور مایوسی کو زندگی سمجھنے والو یہ کیا ہے کہ تمہارے گھر میں آگ لگ چکی ہے ، ہوا تیز ہے اور شعلوں کی بھڑک سخت ہے، مگر تم میں سے کوئی نہیں، جس کے ہاتھ میں پانی ہو، پھر اگر اس وقت کے منظر تھے تو کیا نہیں سننتے کہ وقت آگیا ہے، اگر تم کشتی کے ڈوبنے کا انتظار کر رہے تھے تو کیا نہیں دیکھتے کہ اب اس میں دیر نہیں۔ ‘‘  

 (الہلال)
    ’’الہلال‘‘کے ذریعہ مولانا جو دعوت دے رہے تھے اس کو خصوصی مخاطب مسلمان تھے کیونکہ سیاسی اور شعوری طور پر سب سے زیادہ دبی پچھرے ہوئے تھے۔ ایک طرف علی گڑھ کی سیاسی تحریر انہیں سرکار برطانیہ سے قریب کر رہی تھی اور دوسری طرف مسلم لیگ صرف ڈیلی گیشن اور میمورنڈم کی جماعت بن کر رہ گئی تھی جو مولانا کے معیار پر مسلمانوں کی بیداری، سرفرازی اور اصلاح عقائد و معاشرت سے قاصر تھی۔ اس لئے مولانا مسلم لیگ سے غیر مطمئن اور اپنی علاحدہ تحریک و جماعت چلانا چاہتے تھے ۔ دور اول میں مشترکہ قومی تحریک مولانا کا ذہن نہ تھا ۔ وہ مسلمانوں کو الگ سے منظم اور تیار کرکے میدان جہاد حریت وطن میں اتارنا چاہتے تھے۔ تاکہ مسلمانوں کی انفرادیت بھی باقی رہے اور وہ کسی بڑے انبوہ میں اپنی شناخت کے بغیر گم ہوجائیں۔ اس لئے مولانا مسلمانوں کو قرآن کی زبان میں دینی دعوت دے رہے تھے ۔ یہی وجہ ہے ’’الہلال ‘‘ کے اداریوں میں زیادہ تر استدلال قرآن مجید کی آیات سے ہے ۔

    مولانا نے ’’الہلال‘‘ میں لکھا ہے:۔

آپ پوچھتے ہیں کہ آج کل ہندئوں کے دو پولیٹیکل گروہ موجود ہیں، آپ ان میں سے کسی کے ساتھ ہیں۔ گذارش ہے کہ ہم کسی کے ساتھ نہیں، بلکہ خدا کے ساتھ ہیں۔ اسلام اس سے بہت ارفع و اعلیٰ ہے کہ اس کے پیروئوں کو اپنی پولیٹیکل پالیسی قائم کرنے کے لئے ہندئوں کی پیروی کرنی پڑے ۔ مسلمانوں کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی شرم انگیز سوال نہیں ہوسکتا کہ وہ دوسروں کی پولیٹیکل تعلیموں ے آگے جھک کر اپنا راستہ پیدا کریں ۔ ان کو کسی جماعت میں شامل ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ خود دنیاکو اپنی جماعت میں شامل کرنے والے اور اپنی راہ پر چلنے والے ہیں اور صدیوں تک چلا چکے ہیں ۔ وہ خدا کے سامنے کھڑے ہوجائیں تو ساری دنیا ان کے آگے کھڑی ہوجائی گی۔
    اور سنئے :َ

    بس ’’الہلال ‘‘ کی اور تمام چیزوں کی طرح پالٹکس میں بھی یہی دعوت ہے کہ نہ تو گورنمنٹ پر بے جا اعتماد کیجئے اور نہ ہندوئوں کے حلقہ درس میں شریک ہوئیے۔ صرف اس پر چلئے جو اسلام کی بتلائی ہوئی ، صراط مستقیم ہے ۔پس مسلمانوں کو فرض ہونا چاہئے کہ وہ جائز آزاد کے حصول کے لئے کوشش کریں اور پارلیمنٹری حکومت اپنی جب تک نہ مل جائے، اپنے مذہبی اصول کی خاطر چین نہ لے۔ ‘‘  

 (الہلال، ۸؍ ستمبر ۱۹۱۲ئ)

    مولانا اس بات کے لئے بہت فکر مند تھے کہ جنگ آزادی میں مسلمانوں کا نہ صرف بھرپور حصہ ہونا چاہئے بلکہ وہ جہاد حریت کے داعی و قائد بنے۔ ’’الہلال‘‘ ۷؍ مئی ۱۹۱۳ء کی اشاعت میں یا قومنا اُجیبو داعی اللہ‘‘کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں:۔

آہ! کاش مجھے وہ صورِ قیام قیامت ملتا جس کو میں لے کر پہاڑوں کی بلند چوٹیوں پر چڑ ھ جاتا۔ اس کی ایک صدائے رعد آسائے غفلت شکن سے سرگشتگان خواب ذلت و رسوائی کو بیدار کرنا اور چیخ چیخ کر پکارتا تھا کہ اٹھو، کیونکہ بہت سو چکے اور بیدار ہو کیونکہ اب تمہارا خدا تمہیں بیدار کرنا چاہتا ہے۔ پھر تمہیں کیا ہوگیا ہے دنیا کو دیکھتے ہو پر اس کی نہیں سنتے ۔ جو تمہیں موت کی جگہ حیات زوال کی جگہ۔ عروج اور ذلت کی جگہ عزت بخشنا چاہتا ہے۔ ‘‘      

   (الہلال، ۷؍ مئی، ۱۹۱۳ئ)

مولانا آگے فرماتے ہیں:۔

    اگر تم کہو کہ تاریخ ہند میںہمارے لئے بھی ایک شرف و عظمت کا باب ہوگا تو تم خامو ش رہو اور مجھ سے کہو کہ میں اسے پڑھ دو ں ، بے شک ایک باب ہوگا، مگر جاننے ہو کہ اس میں کیا ہوگا۔ اس میں لکھا ہوگا کہ ہندوستان ملک کی ترقی اور ملک کی آزادی کی راہ میں بڑھا۔ ہندئوں نے اس کے لئے اپنے سروں کو ہتھیلی پر رکھا۔ مگر مسلمان غاروں کے اندر چھپ گئے ، انہوں نے پکارامگر انہوں نے اپنے منہ اور زبان پر قفل چڑھا دیئے ۔

                 (الہلال ، ۱۸؍ دسمبر ۱۹۱۲ء ، جلد:۱، ۸؍ محرم الحرام، ۱۳۳۱ ہجری ص:۶ )

    اور اب دیکھئے مولانا کی فراست، مستقبل کا نقشہ کس طرح صاف اور واضح دیکھ رہی ہے:۔
’’جو ہونے والا ہے اس کو کوئی قوم اپنی نحوست سے نہیں روک سکی۔ یقینا ایک دن آئے گا جب کہ ہندوستان کا آخری سیاسی انقلاب ہوچکا ہوگا۔ غلامی کی دوبیٹریاں کو خود اس نے اپنے پائوں میں ڈالی ہیں۔ بیسویں صدی کے ہوائے حریت کی تیغ سے کٹ کر گر چکی ہوں گی اور وہ سب ہوچکے گا جس کا ہونا ضرور ہے۔ فرض کیجئے کہ اس وقت ہندوستان کی ملکی ترقی کی ایک تاریخ لکھی گئی تو آپ کو معلوم ہے کہ اس میں ہندوستان کے ۷۰ کڑور انسانوں کی نسبت کیا لکھا جائے گا۔ اس میں لکھا جائے گا کہ ایک بدبخت اور زبوں طالع قوم جو ہمیشہ ملک کی ترقی کے لئے ایک روک ، ملک کی فلاح کے لئے ایک بدقسمتی راہ آزادی میں سنگ گراں ، حاکمانہ طمع کا کھونا، دست اجانب میں بازیچہ لعب ، ہندوستان کی پیشانی پر ایک گہرا زخم اور گورنمنٹ کے ہاتھ میں ملک کی امنگوں کو پامال کرنے کے لئے ایک بہترین پتھر بنی رہی ۔ پھر اس میں لکھا جائے گا کہ یہ حالت اس قوم کی تھی جو آہ ، نم آہ، کہ مسلم تھی جو اپنے ساتھ انسانی شرف و جلال کی ایک عظیم ترین تاریخ رکھتی تھی۔ جس کو دنیا کی خلافت و وراثت دی گئی تھی۔ جو دنیا میں اس لئے بھیجی گئی تھی تاکہ انسانی استبدار و استبعاد زنجیروں سے بندگان الہٰی کو آزاد کرائے۔ ‘‘

 (حوالہ سابق، ۱۸؍ دسمبر ۱۹۱۲ء ، جلد ۱، ص:۵(۴۹۵)

          آگے مولانا ’’الہلال‘‘ کے اداریہ میں مسلم قوم کو جھنجھور کر فرماتے ہیں:۔
’’غفلت اور سرشاری کی بہت سی راتیں بسر ہوچکیں۔ اب خدا کے لئے بستر مدہوشی سے سر اٹھاکر دیکھئے کہ آفتاب کہاں تک نکل آیا ہے، آپ کے ہم سفر کہاں تک پہونچ گئے ہیں اور آپ کہاں ٹھہرے ہیں؟ یہ بھولئے کہ آپ اور کوئی نہیں بلکہ مسلم ہیں اور اسلام کی آواز آ پ سے آج بہت سے مطالبات رکھتی ہے۔ یاد رکھئے کہ ہندئوں کے لئے ملک کی آزادی کے لئے جد وجہد کرنا داخل حب الوطنی ہے، مگر آپ کے لئے ایک فرض دینی اور داخل جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘       

 (الہلال ۱۸؍ دسمبر، ۱۹۱۲ئ)

    مسلمان جو وہم میں پڑے ہوئے ہیں کہ حال زار کو دیکھ کر مولانا آزاد جذباتی ہواٹھتے ہیں اور یوں فرماتے ہیں:۔

’’اے اخوان غفلت شعار! نہیں معلوم اب تک آپ کس وہم میں پڑے ہیں۔ یہ مقتل سیاست ہے، یہ مشہد آزادی و حریت ہے ۔ آپ کا سی سالہ میدان لہو و لعب نہیں ہے اگر آپ مشکلوں سے گھبراتے ہیں تو آپ کے لئے بہتر جگہ پھولوں کی سیج ہے، یہ آپ سے کس کمبخت نے کہا ہے کہ اس خار زار میں قدم رکھئے؟ یہاں آئیے گا تو قدم قدم پر کانٹے ملیں گے۔ ہر لمحے مصائب کا نزول ہوگا آپ مشکلات سے گھبرارہے ہیں ۔ حالانکہ یہاں تو جانوں اور زندگیوں کی قربانی کا سوال درپیش ہے۔ یہاں ہوس پرستوں کا گذر نہیں۔ اس میدان کے مرد و مجاہدین حق پرست ہیں۔

    سیاست کی جنبسش اتنی سست نہیں ہے کہ چند تجویزیں گھڑ کر اور شکرئیے کے سجدے کرکے اپنے عیش کدوں میں چھپ جائیے گا اور وہ آسمان سے ڈھوندتی ہوئی آپ کے سامنے آموجود ہوگی۔ آپ سے کوئی نہیں کہتا کہ آئیے، لیکن آنے کا ارادہ ہے تو اپنے دل و جگر کی طالب کو ٹٹول لیجئے اس طریق عشق کی شرطیں آپ کو معلوم نہیں۔‘‘

 (الہلال ، ۱۸؍ دسمبر ۱۹۹۲ء ، ص:۱۰)

    مولانا آزاد کا یہ تاریخی کارنامہ ہے کہ انہوں نے مذہب کی راہ سے سوئے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کو پکار کر جگادیا اور ان کے اندر جوش جہاد حریت بھردیا، مولانا کا یہ بھی تاریخی کارنامہ ہے کہ ہندو مسلمانوں کی الگ الگ تحریک آزادی کا یکجا کرکے مشترکہ ترقی سیاست کی بنیاد رکھی اور اس کے لئے ہندو مسلم اتحاد پر سب سے زیادہ زور دیا ۔ خلافت اور سوراج کی تحریکیں مل کر ندی کا دھارا بن گئیں۔ مشترکہ تحریکِ آزادی میں ہندو مسلمانوں کو کندھے سے کندھا ملاکر چلنا اور برٹش سامراج سے لڑنا سکھا دیا۔

    مولانا آزاد نے اس درد کے ساتھ آواز دیا کہ بلا تفریق مذہب و ملت لوگ ایک دوسرے سے کندھے سے کندھا ملاکر ہندوستان کی آزادی میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ اور ’’الہلال‘‘ کی تحریروںنے وہ دن بھی دیکھا ، جس کا انتظار اسے ایک زمانہ دراز سے تھا۔

 

(مطبوعہ روزنامہ ’’پندار‘‘ پٹنہ ، ۱۱؍ نومبر ۲۰۱۴ئ)


٭٭٭


Ahsan Alam
Moh: Raham Khan, P.O. Lalbagh, Darbhanga
Mob: 9431414808
E-mail. ahsanalam16@yahoo.com

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 840