donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Allama Iqbal Ki Shaerana Infaradiat


علامہ اقبال کی شاعرانہ انفرادیت


احسان عالم

ریسرچ اسکالر

ایل۔ایم۔این۔یو، دربھنگہ

 

    بہت سے دانشور اس سرزمین پر آئے ۔ ان میں چند ایسے نقوش چھوڑے جنہیں دنیا لمبے عرصے تک یاد کرے گی ۔ ایسے ہی دانشوروں میں ایک نام علامہ اقبال کا ہے جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ مردہ دلوں میں روح ڈالنے کا کام کیا۔ بہت سے دانشور ان کو شاعر مشرق تصور کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقبال غیر منقسم انسانیت کا شاعر ہے۔ ان کا کلام آفاقی اور کائنات گیر ہے۔

    اقبال کو ہندوستان کی سرزمین سے بے پناہ محبت تھی ۔ وہ اس کے پہاڑوں، دریائوں، سرسبز و شاداب وادیوں سے والہانہ محبت کا جذبہ رکھتے تھے ۔ اس کے شاہد ان کے کلام میں بکھرے پڑے ہیں شری رام چندر جی پر انہوں نے نظم لکھا ہے جس میں انہیں ’’چراغ ہدایت‘‘ اور ’’امام ہند‘‘ بتلایا ہے۔ نظم نیا شوالہ میں وطن سے عقیدت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:۔

شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے

    اس نظم میں وطن سے محبت کا اظہار کافی بلندیوں پر ہے۔ سرزمین ہند سے علامہ اقبال کو ایک خاص عقیدت نظر آتی ہے۔

    ادبیات عالم میں انسان وحدت اور عظمت کا سب سے بڑا نقیب ہے۔ اقبال خدائے واحد کی اشرف مخلوق انسان کو واحد اور ناقابل تقسیم تصور کرتے ہیں۔ ’’سرگذشت آدم‘‘ کے چند اشعار پیش خدمت ہیں:۔

ملا مزاج تغیر پسند کچھ ایسا
کیا قرار نہ زیر فلک کہیں میں نے
نکالا کعبہ سے پتھر کو مورتوں کو کبھی
کبھی بتوں کو بنایا حرم نشیں میں نے

    انسانیت کا شاعر صرف ایک وطن میں قید نہیں رہ سکتا ہے۔ اس شعر میں ’’کاپرنکس‘‘ کے اجتہاد کا ذکر ہے:۔

ڈرا سکیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں
سکھایا مسئلہ گردش زمیں میں نے

    اس شعر میں مشہور و معروف سائنسداں نیوٹن کی قوت کشش کی تھیوری علامہ اقبال کے سامنے ہے:۔

کشش کا راز ہویدا کیا زمانے پر
لگاکے آئینۂ عقلِ دوربین میں نے

    اپنے دور میں سائنسی ترقی کے دور کو علامہ اقبال اس شعر میں پیش کرتے ہیں:۔

کیا اسیر شعاعوں کو برق مظفر کو
بنادی غیرت جنت میں سر زمیں میں نے

    اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ نوع انسان کے کمالات پر خواہ وہ مذہب کی دنیا پر ہو، سائنسی کمالات ہوں، رنگ و نسل سب پر علامہ اقبال کی نظر ہے۔ اقبال کی نظر مشرق و مغرب کے علوم و اکتسابات پر بہت گہری ہے۔ جس چمن میں کہیں کوئی خوشنما پھول نظر آیا علامہ اقبال نے اسے اپنے شعری پیکر میں ڈھال دیا ۔

    اردو اور فارسی شاعروں سے علامہ اقبال نے بہت کچھ سیکھا۔ ہندوستان کی قدیم تہذیب اور ادب سے اقبال نے بہت کچھ اخذ کیا۔ اپنے مطالعۂ فکر سے انہوں نے علوم وادب کے جواہر پاروں کو اس انداز سے نکالا جیسے ایک غوطہ خور سمندر سے موتی نکال لاتا ہے۔ اس نے اردو شاعری کے فکری افق کو بلندیٔ پرواز عطا کیا۔

    علامہ نے کئی مغربی ممالک کا سفر کیا او روہاں کے علوم و ادبیات کا مطالعہ کیا اور اس مطالعہ کے ذریعہ بہت سے اثرات کو اخذ کیا۔ کئی مغرب شعراء کی نظموں کے مرکزی خیالات و تاثرات اور اردو نظم کے پیرائے میں اس انداز سے ڈھالا کہ علم داں کو بھی یہ محسوس نہ ہوا کہ اس میں کوئی اجنبیت ہے۔ مثال کے طور پر بانگ درا میں بچوں کے لئے ایک نظم انہوں نے ’’بچے کی دعا‘‘ کے عنوان سے لکھی ہے جو انگریزی شاعری سے لیا گیا ہے ۔ اس کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے :۔

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

    اگر شاعر اس کا اعلان و اعتراف خود نہیں کرتے کہ میں نے یہ نظم انگریزی شاعر سے لیا ہے تو کسی کو اس کا گمان بھی نہیں ہوتا ۔ ان کے اس اعلان سے ان کی شاعرانہ عظمت کی تصدیق ہوتی ہے۔

    علامہ اقبال نے قدرت کے حسین مناظر کی تصویر کشی سے بھی کام لیا ہے۔ آسمانوں، ستاروں، کہساروں، صحرائوں، لالہ زاروں، ندیوں اورمرغ زاروں کی منظر کشی پر ان کی شاعری رقص کرتی نظر آتی ہے ۔ وہ اکثر قدرت کے مناظر سے گفتگو کرتے ہیں ۔ شاعر قدرت کا ہمراز ہے ۔ شعر کے آئینے میں منظر کشی کے چند نمونے پیش ہیں:۔

برگ گل پہ رکھ گئی شبنم کا موتی باد صبح
اور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن
سورج کے جاتے جاتے شام سیہ قبا کو
طشت افق سے لے کر لالے کے پھول سارے

    شاعر مذہب کی بندھنوں سے آزاد ہوتا ہے۔ علامہ اقبال کو لوگ مذہبی شاعر تصور کرتے ہیں جب کہ ایسی بات نہیں ہے۔ خواہ وہ علامہ اقبال کی شاعری ، ملٹن یا ورڈز ورتھ کی شاعر ہو ۔ سب نے بنی نوع انسانیت کے فلاح و بہبود پر زور دیا ۔ جب بھی انسانیت نے خطرہ محسوس کیا اقبال نے فلسفہ عشق پر زور دیا۔ ان کے مطابق عشق میں مذہب کی کوئی قید نہیں:۔

اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمان
نہ تو مرد مسلماں بھی کافر زندیق

    موجودہ دور میں جب انسان اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوچکا ہے ، خود غرضی، بے ایمانی اور بے دردی نے وبائی شکل اختیار کر رکھی ہے ، ویسے حالات میں اقبال کی شاعر کے منفرد اظہار خیال پر غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت بھی ہے۔

                    (مطبوعہ روزنامہ ’’پندار ‘‘ پٹنہ، ۲۰؍ اپریل ۲۰۱۵ئ)

 ************************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1184