donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Maulana abul Kalam Azad Ki Urdu Zaban Se Wabastagi


ڈاکٹر احسان عالم

الحرا پبلک اسکول، دربھنگہ


مولانا ابوالکلام آزاد کی اردو زبان سے وابستگی


    مولانا ابوالکلام آزاد اپنے دور کے بلکہ بیسویں صدی کے ایک ایسی نابغۂ روزگار شخصیت کے حامل تھے جو انسانی زندگی و سماج کے مختلف پہلوئوں پر ہمہ گیر اور ہمہ جہت نگاہ رکھتے تھے۔ ان میں بہت ساری خوبیاں اس طرح جمع ہوگئی تھیں کہ یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل کام ہے کہ ان میں کو ن سی خوبی سب سے اہم ہے۔ مولانا کی خصوصیت اور ان کا کمال یہ تھاکہ وہ کسی بھی نظریہ کو اپنانے یا کسی بھی فکر کی دعوت دینے سے پہلے اسے عقل و فہم کی کسوٹی پر پرکھ کر اور عقل کے میزان پرتول کر دیکھ لیتے تھے۔ پھر کسی فکر کی دعوت دیتے۔ انہوں نے جس فکر اور جس نظریہ کو اپنایا ،کبھی اس سے پیچھے نہیں ہٹے،وہ آگے بڑھنا چاہتے تھے۔ پیچھے کی طرف مرنا ان کی فطرت میں نہیں تھا ۔ان کی پیدائش مکہ مکرمہ میں ہوئی ۔ زندگی کے شروعاتی دور مکہ کی سرزمین پر گذارے۔ ان کی مادری زبان عربی تھی۔ اس کے باوجود انہوں نے اردو زبان کو جس طرح گلے لگایا اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ چنانچہ اردوزبان کے مناسب حق کے لئے ان کا آزادی کے پہلے جو موقف تھا ،آزادی کے بعد آخر عمر تک اس پر قائم رہے۔ انہوں نے اپنی تحریروں ، عوامی خطابوں اور ایوان حکومت میں اس کا برملا اظہار کیا۔ ۱۹۳۷ء میں آپ نے ہندوستانی عوام سے خطاب کرتے ہوئے تاریخی شواہد کی روشنی میں یہ ثابت کیا کہ اردو زبان ہی ملک کی ایسی زبان ہے ،جو سترہویں صدی کے آخر میں قومی سطح پر ابھر کر سامنے آئی اور صرف اردو ہی کو قومی زبان کی حیثیت سے عوام ، خواص اور حکام نے تسلیم کیا۔ یہ اور بات ہے کہ مختلف وقتوں میں اسے الگ الگ ناموں سے یاد کیا گیا۔

    اردو رسم الخط کا مسئلہ بھی مولانا کی توجہ سے محروم نہ رہا۔ اردو ہندی کے تنازع میں جب ایک حلقہ کی طرف سے ناگری رسم الخط اختیار کرنے کا مشورہ دیا جانے لگا، اردو رسم الخط کی تبدیلی پر پر زور بحث کی جانے لگی، تو مولانا اس کی سخت مخالفت کی اور واضح کیا کہ اگر اردو رسم الخط بدلا گیا، تو اردو کا وجود ہی مٹ جائے گا۔ مولانا کے نزدیک اردو رسم الخط کی ایک تاریخ ہے ،اس کی ایک روایت ہے، اس کے بعض خصائص ہیں ،جو اس کے خصوصی فارسی رسم الخط میں ہی نمایاں ہوسکتے ہیں۔ مسلمانوں کے ذوق جمال اور حس لطیف کا اس کے ذریعہ اظہار ہوتا ہے، کیونکہ کسی زبان کا رسم الخط اس کے بولنے والوں کی تہذیب کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کے نزدیک رسم الخط کی بعض خامیاں اور مشکلات جس کا ہوا کھڑا کر اس کو بدلنے کی مانگ کی جارہی تھی ،کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اگر مان بھی لیا جائے کہ اس رسم الخط میں بعض خامیاں ہیں، تب بھی اس کی خوبیاں اس کی خامیوں سے بہت زیادہ ہیں۔اس لئے یہ مطالبہ محض جاہلانہ مطالبہ ہے۔

    مولانا کی سخت ترین مخالفت ہی نے اردو کے دشمنوں کے لئے کوئی راہ رسم الخط کو بدلنے کی نہ چھوڑی۔ اگر خد انخواستہ رسم الخط بدل دیا گیا ہوتا توآج اردو زندہ نہ رہتی۔ مولانا نے اردوکی ترقی کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔ اردو کی ترقی کے سلسلے میں ان کی نگاہ ہر چھوٹی بڑی چیز پر رہتی تھی۔ مولانا نے اردو داں طبقہ کو اردو ٹائپ او ر طباعت کی طرف توجہ دلائی تاکہ تیز رفتاربرقی ترقی کے دور میں اردو پیچھے نہ رہ جائے۔

    ۱۰؍ فروری ۱۹۵۸ء کو دہلی کے پریڈ گرائونڈ میں انجمن ترقی اردو کی اردو کانفرنس سے بحیثیت وزیر تعلیم اپنی زندگی کی آخری تقریر کی۔ اس جلسہ کا افتتاح خود وزیر اعظم نہرو نے  کیا تھا، اس موقع پر مولانا نے دس منٹ تک حاضرین کو خطاب کیا اور نہایت صاف گوئی سے اردو زبان کے مسائل سے عوام کو واقف کراتے ہوئے فرمایا:

’’آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان کی زندگی میں اردو کی جو واقعی جگہ ہو ملنی چاہئے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اردو کی کیا جگہ ہے؟ اس کی وہی حیثیت ہے جو دوسری زبانوں کی ہے ۔ اردو ایک ایسی زبان ہے جو کثرت سے بولی جاتی ہے۔ نہ صرف شمال بلکہ جنوب میں بھی‘‘۔

 (آزاد کی تقریریں ، ص:۲۳۷)

    اردو کا واقعی اور حقیقی مقام وہی ہے جس کی طرف مولانا نے اشارہ کیا۔ لیکن افسوس کے ابھی تک حکومت ہند نے اس زبان کو اس کا واجبی حق نہیں دیا۔ آج بھی آزاد ہندوستان کے معمار اور ملک کے اولین وزیر تعلیم کی روح حکومت ہند سے یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ اردو کا وہ حق اسے دو جس کی وہ مستحق ہے۔

  (مطبوعہ ’’الہدیٰ‘‘ دربھنگہ، جنوری ۲۰۱۴ئ)


٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 823