donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Khalique Anjum
Title :
   Jasta Jasta

جستہ جستہ


خلیق انجم

 


بچپن ہی میں والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا تھا اور جب میں نے عملی زندگی میں قدم رکھا تو تین حضرات غیر معمولی اہمیت کے حامل رہے: پہلے دہلی کالج کے پرنسپل ایم. ایم. بیگ صاحب، دوسرے معروف تاریخ داں کنور محمد اشرف اور تیسرے کروڑی مل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر سروپ سنگھ۔ کنور محمد اشرف لندن میں مقیم تھے اور کروڑی مل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر سروپ سنگھ سے ان کے بڑے مراسم تھے۔ اشرف صاحب آزادی کے بعد جب جلاوطنی کے دن گزارکر ہندستان واپس لوٹے تو سروپ سنگھ صاحب نے اشرف صاحب کو بھی کروڑی مل کالج کے شعبۂ تاریخ میں مامور کرلیا۔ اس زمانے میں دہلی کالج اور کروڑی مل کالج میں یہ تینوں حضرات بہت مقبول تھے۔ میری خوش نصیبی تھی کہ مجھے ان تینوں کی غیر معمولی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ بیگ صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ کالج یا یونیورسٹی کے سالانہ امتحانوں میں جو طلبہ اچھے نمبروں سے پاس ہوتے تو فوری طور پر ان کا کالج میں بغیر کسی رسمی کارروائی کے تقرر کردیتے۔ میں نے ایم. اے. اردو فرسٹ کلاس نمبروں سے پاس کیا تھا، اس لیے بیگ صاحب مجھ پر بھی کرم فرمانا چاہتے تھے لیکن اتفاق سے کالج میں اس وقت کوئی جگہ نہیں تھی۔ اس دوران بیگ صاحب کی ڈاکٹر سروپ سنگھ سے کسی ڈنر میں ملاقات ہوگئی۔ دوسرے دن علی الصبح بیگ صاحب کا چپراسی میرے گھر آیا اور اس نے بتایا کہ بیگ صاحب فوراً مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ بیگ صاحب نے بتایا کہ کروڑی مل کالج میں تو اردو کی کوئی اسامی نہیں ہے لیکن رات کو میری ڈاکٹر سروپ سنگھ سے ملاقات ہوئی، انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ آپ کے لیے کچھ نہ کچھ کریں گے۔ میں ڈاکٹر سروپ سنگھ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ یہ میری خوش نصیبی اور ڈاکٹر سروپ سنگھ کی مہربانی تھی کہ انھوں نے موتی رام نام کے اپنے پی اے کو بُلاکر پوچھا کہ اس وقت ایسی کون سی کلاس ہے جس میں اردو کا استاد نہیں ہے۔ موتی رام نے بی اے سیکنڈ ایئر کلاس کی نشان دہی کی اور ڈاکٹر سروپ سنگھ صاحب نے مجھ سے کہا کہ جائیے، آپ اس کلاس کو آج ہی سے پڑھانا شروع کردیجیے۔ میں کلاس میں گیا اور پڑھانا شروع کردیا۔ یہ لمبی داستان ہے۔ غرض یہ کہ کروڑی مل کالج میں پارٹ ٹائم استاد کی حیثیت سے میرا تقرر ہوگیا اور بتایا گیا کہ مجھے ڈیڑھ سو روپے ماہوار تنخواہ ملے گی۔ اِس زمانے میں ڈیڑھ سو روپے ماہوار تو کچھ بھی نہیں ہے لیکن اُس وقت یہ رقم بہت بڑی تھی اور میرے لیے یہ بہت بڑی نعمت تھی۔ ڈاکٹر سروپ سنگھ نے کنور محمد اشرف سے میرا تعارف اس طرح کرایا کہ وہ بھی میرے اوپر بہت مہربان ہوئے اور اس طرح بہ حیثیت ایک اردو لکچرر میرے کیریئر کا آغاز ہوا۔
(۲)
جب انجمن ترقی اردو (ہند) میں جنرل سکریٹری کی حیثیت سے میرا تقرر ہوا تو ڈاکٹر سروپ سنگھ اور کنور محمد اشرف صاحب نے میری بہت مدد کی۔ چوں کہ انجمن کی عمارت کا سنگِ بنیاد اس وقت کی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے 23 مارچ 1968 کو رکھا تھا، اس لیے انجمن کی مجلسِ عاملہ میں طے یہ پایا کہ اب انجمن کی عمارت ’اردو گھر‘ کی رونمائی موجودہ وزیرِ اعظم ہی کے ہاتھوں کرائی جانی چاہیے۔ اُس زمانے میں مرارجی ڈیسائی ہندستان کے وزیرِ اعظم تھے۔ کنور محمد اشرف صاحب کے مرارجی ڈیسائی سے بہت گہرے مراسم تھے۔ کنور صاحب سے درخواست کی گئی کہ وہ مرارجی سے اس سلسلے میں خود جاکر درخواست کریں۔ کنور صاحب مجھے لے کر مرار جی کے پاس گئے اور ان سے عمارت کی رونمائی کی درخواست کی۔ مرارجی نے اس سلسلے میں بہت سارے سوالات کیے، خاص طور سے مجھ پر ان کی بہت توجہ رہی۔ بیشتر سوال وہ مجھ سے ہی کرتے رہے۔ اتنے بڑے آدمی سے گفتگو کرنے کا میرے لیے یہ پہلا موقع تھا۔ مرارجی صاحب نے جو جو سوال کیے میں ان کے مناسب جواب دیتا رہا۔ یکم نومبر 1977 کو انجمن کی عمارت ’اردو گھر‘ کی رونمائی ہوئی، اس موقعے پر انجمن کے صدر آنند نرائن ملّا صاحب نے بڑی شائستہ زبان میں اپنی تقریر کی۔ یہ تقریر سنتے ہوئے مرارجی کے ماتھے پر بَل پڑتے گئے۔ جلسے کے آخر میں جب مرار جی ڈیسائی صاحب سے تقریر کی درخواست کی گئی تو انھوں نے اپنی تقریر کا آغاز انتہائی ترش لہجے میں کیا۔ انھوں نے پہلی بات یہ کہی کہ اردو پاکستان کی زبان ہے، یہ تو مسلم لیگ نے ایک مصنوعی زبان بنائی تھی۔ ملّا صاحب کی زبان بھی ایسی ہی مصنوعی ہے جس کا ہندستان سے کوئی تعلق نہیں۔ جلسے میں ہندستان اور پاکستان کی بڑی بڑی شخصیتیں موجود تھیں، انھیں مرارجی کی تقریر بالکل پسند نہیں آئی۔
(۳)
ایک دفعہ اردو کے مسائل سے متعلق انجمن ترقی اردو (ہند) کا وفد ایک میمورنڈم لے کر نرسمہا راؤ سے ملنے گیا۔ نرسمہا راؤ اس وقت غالباً وزیرِ تعلیم تھے۔ ہم پندرہ بیس منٹ تک کمرے کے باہر بیٹھ کر ان کا انتظار کرتے رہے۔ جب وفد کمرے میں داخل ہوا تو نرسمہا راؤ اپنے کمرے میں بچھے ہوئے ایک صوفے پر نیم دراز تھے۔ انھوں نے بیٹھے بیٹھے ہی ملّا صاحب کی طرف ہاتھ بڑھا دیا اور فرمایا کہ مجھے آپ کا میمورنڈم مل گیا ہے، جن مسائل کا اس میمورنڈم میں ذکر کیا گیا اُن کا مجھے پہلے سے علم ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ اردو کے مسائل کے بارے میں کوئی نئی بات نہیں کہی گئی ہے۔ یہ سب باتیں تو میں سنتا ہی رہتا ہوں۔ ہم سب وفد کے رکن کھڑے رہے اور نرسمہا راؤ کا حسنِ اخلاق ملاحظہ ہو کہ انھوں نے ایک ایسے وفد کو جس میں آنند نرائن ملّا، مالک رام، یوسف حسین خاں اور علی سردار جعفری صاحبان جیسی شخصیتیں شامل تھیں، بیٹھنے تک کے لیے بھی نہیں کہا۔ جب اپنی بات کہہ کر ہم لوگ رخصت ہونے لگے تو ملّا صاحب نے نرسمہا راؤ سے رخصت ہونے کی اجازت مانگی۔ نرسمہا راؤ نہ جانے کیوں خاصی بدتمیزی کے موڈ میں تھے، انھوں نے ایک دفعہ بھی نہیں کہا کہ آپ بیٹھیے، تشریف رکھیے، بلکہ بیٹھے بیٹھے ہی ملّا صاحب کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔
(۴)
میں جب انجمن ترقی اردو (ہند) میں آیا تو اس وقت انجمن کی مالی حالت خاصی خستہ تھی۔ انجمن کے لان میں ایک بہت بڑا کمرہ تھا جس پر چھت کے طور پر ٹین کی چادریں پڑی ہوئی تھیں۔ کمرے میں سیمنٹ کی بوریاں رکھی ہوئی تھیں۔ میں نے اسی سیمنٹ کے کمرے کو اپنا کمرہ بنالیا جس میں ’ہماری زبان‘، ’اردو ادب‘ اور کچھ اور سیکشنوں کے ذمے دار لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ بنی۔ ایک دن اچانک اتنی زور کی بارش ہوئی کہ ٹین کی چادروں سے پانی ٹپکنے لگا اور یہ سیمنٹ کی بوریاں پانی سے بھیگ گئیں اور اتنی جم گئیں کہ کسی کام کی نہ رہیں۔ اس زمانے میں سیمنٹ بالکل نایاب تھی۔ پنڈت آنند نرائن ملّا صاحب نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے تقریباً تین سو بوریاں حاصل کرلیں جن سے تعمیر کا کام دوبارہ شروع ہوسکا۔ انجمن تعمیر کے سلسلے میں بہت بڑے مالی بحران میں مبتلا تھی۔ مجھ سے پہلے کے سکریٹری محترم آلِ احمد سرور نے تعمیر کے لیے رقم جمع کرنے کے سلسلے میں ایک مہم شروع کی جس کے لیے فارم چھپواکر اہم اردو والوں کو بھیجے گئے، مگر افسوس ہے کہ بہت کم اردو والوں نے یہ فارم واپس کیے۔ میں نے جب مختلف شہروں کا دورہ کیا اور مختلف اردو والوں سے ان فارموں کے بارے میں دریافت کیا تو بیشتر لوگوں نے اس بارے میں بے اعتنائی کا ثبوت دیا۔ حالاں کہ کچھ شہروں میں مجھے بتایا گیا کہ اردو گھر کی تعمیر کے لیے خاصی رقم جمع کی گئی۔ بہرحال اردو گھر کی تعمیر کمیٹی نے مجبوراً فیصلہ کیا کہ تعمیر کمیٹی کے چیئرمین کرنل بشیر حسین زیدی ایک وفد لے کر مختلف شہروں کا دورہ کریں گے۔ چناں چہ زیدی صاحب مجھے لے کر بمبئی کے لیے روانہ ہوگئے۔ مگر وہاں سے ہم دونوں ناکام واپس ہوئے۔ اس سلسلے میں ایک اہم واقعہ قابلِ ذکر ہے۔ زیدی صاحب مجھے اپنے ایک دوست کے پاس لے گئے اور ان سے اردو گھر کی تعمیر کے سلسلے میں بات کی۔ یہ سیاسی آدمی تھے اور زیدی صاحب کی بیگم قدسیہ کو انھوں نے بہن بنارکھا تھا۔ انھوں نے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ آپ لوگ ایسے وقت آئے ہیں جب کہ میں اندرا جی کا معتوب ہوں، اس لیے کوئی بہت بڑی رقم تو نہیں دے سکتا لیکن یہ بھی ممکن نہیں کہ بہنوئی کو خالی ہاتھ جانے دوں اور وہ صاحب پانچ ہزار روپے لے کر آئے جس سے اردو گھر کی تعمیر میں بڑی مدد ملی۔


جستہ جستہ،ڈاکٹر خلیق انجم کا مضمون جو ہماری زبان ٨-١٤ جنوری ٢٠١٥ میں شائع ہوا تھا


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 677