donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Prof. Mohsin Usmani Nadvi
Title :
   Rasekhul Aqeedgi Aur Tajaddud Pasandgi Ki Kashmakash

 

 

راسخ العقیدگی اور تجدد پسندی کی کشمکش


پروفیسر محسن عثمانی ندوی


فکر کی منجمد سطح کو پگھلانے والی اور انسان کو سوچنے پر مجبور کرنے والی کتابیں بہت کم لکھی جاتی ہیں۔ فکر انگیز معنی خیز اور خیال افروز کتابیں وہ لکھتے ہیں جن کا ذہن روایت سے ہٹ کر سوچتا ہے۔ تحقیقی کام کرنا آسان ہے کہ اس کے لیے کسی خاص موضوع پر متعلق مراجع اورمصادر کا دیدہ ریزی کے ساتھ مطالعہ کرلینا کافی ہے لیکن روایات کے ناقابل تسخیر حصار سے باہر آنا اور حق کے راستہ سے منحرف نہ ہونا وہ مفکرانہ عمل ہے جو بہت کم لوگوںکو نصیب ہوپاتا ہے راسخ العقیدگی کے ساتھ جدت افکار کی نعمت میں حصہ کم لوگوںکو حاصل ہوتا ہے۔ اکثر لوگ جدت افکار کے بجائے تجدد پسندی کا اور انحراف کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مفکرانہ عمل وہ پل صراط ہے جس پرکامیابی کے ساتھ گذرنا اور غلطی سے بچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی کے بعض خیالات کو راسخ العقیدگی کے ساتھ کامیاب مفکرانہ عمل کا نمونہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر اپنے عہد میں ذہنوں میں راسخ فکر کے علی الرغم انہوںنے یہ لکھاکہ جہاں کوئی حدیث ایسی سامنے آئے جو کسی مسلک کے فقہی فتویٰ کے خلاف ہو وہاں حدیث کو ترجیح حاصل ہوگی اور یہ کہ شریعت کے کسی فقہی دبستاں کا پیرو اگر اپنے مطالعہ اور تحقیق سے دوسرے مسلک کے فتویٰ کو زیادہ صحیح سمجھتا ہے تو دوسرے دبستاں کا اتباع کر سکتا ہے۔ مسلک کے سلسلہ میں ان کے خیال میں تصلب اور تشدد درست نہیں ہے۔ راسخ العقیدگی کے ساتھ ساتھ صحیح مفکرانہ عمل کی یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا سید سلیمان ندوی اور مولانا ابوالحسن علی ندوی ان سب کے تیار کردہ لٹریچر کو ہم راسخ العقیدگی کے خانہ میں رکھ سکتے ہیں۔ اس فرق کے ساتھ کہ موخر الذکر کے یہاں تاریخی شعور، مغرب سے واقفیت، عصری آگہی اور غلبہ اسلام کے لیے بیداری کی کوشش کا اضافی عنصر پایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو جامعیت عطا کی تھی وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوپاتی ہے ان کے یہاں کسی انحراف کے بغیر مفکرانہ عمل نظر آتا ہے۔ ان کے گلدستۂ فکر میں کہیں کانٹے نہیں ہیں۔ خاص طور پر ان کی کتاب ’’ انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر‘‘ ان کے مفکرانہ عمل کی نمائندہ کتاب ہے۔

ہمارے یہاںمفکرانہ عمل کی تاریخ قدیم ہے اور مفکرانہ عمل وہ ہوتا ہے جس کی تشکیل روایت سے ہٹ کر ہوتی ہے اور ایسا ہر عمل مختلف فیہ بن جاتا ہے۔کچھ لوگ اسے حق سے ہم آہنگ سمجھتے ہیں اور کچھ لوگ اسے جا دہ حق سے منحرف قراردیتے ہیں۔ مفکرانہ عمل ایک طرح کا اجتہاد ہے جس میں صحت اور غلطی دونوں کا احتمال پایاجاتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں مجتہدانہ فکر کے ساتھ تجدد پسندانہ مزاج رکھنے والے بہت سے لوگ گذرے ہیں جن کا احاطہ ایک مضمون میں ممکن نہیں۔ ہم برصغیر کی تاریخ میںمجتہدانہ فکر رکھنے والے جو لوگ گذرے ہیں اور جن سے شدت کے ساتھ اختلاف بھی کیا گیا ان کا مختصر جائزہ بھی نہیں لے سکتے کیونکہ تفصیل ایک پوری کتاب کا اور کم از کم ایک طویل مقالہ کا تقاضہ کرتی ہے۔ سر سید احمد خاں کے زمانہ میں ہندوستان کی ملت اسلامیہ تیزی کے ساتھ مائل بہ زوال تھی۔ ایک ترقی یافتہ تمدن اور سائنس اور صنعت کے عہد کی ایجادات کے مقابلہ میں زوال پذیر تمدن کے ذریعہ اور کہنہ اور قدیم آلات اور اسلحہ کے ساتھ مسلمانوں کی مقاومت کی تمام کوششیں شکست سے دوچار ہوچکی تھیں۔ ایسے زمانہ میں سرسید نے مسلمانوں کو مقابلہ اور مقاومت کے محاذ سے ہٹاکر جدید تعلیم کے ہتھیار سے مسلح کرنے کی کوشش کی۔ انہوںنے ملت اسلامیہ کو اٹھانے اور ان میں بیداری کا صور پھونکنے کے لیے تعلیم کا ذریعہ اختیار کیا۔ سر سید احمد خاں کی یہ فکر ایک مجتہدانہ فکر تھی۔ یہ ایک مفکرانہ عمل تھا جس سے اختلاف کی گنجائش بھی موجود ہے کیونکہ اس فکر کے نتیجہ میں ایک حلقہ میں تحریک آزادی سے دوری بھی اختیار کی گئی۔ کیونکہ تحریک آزادی کی نوعیت بھی مقابلہ کی تھی۔ مصر کے مشہور ادیب ڈاکٹر احمد امین نے اپنی کتاب زعماء الاصلاح میں سر سید کو ایک عظیم مصلح کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ اور یہ واقعہ ہے کہ وہ ایک مصلح تھے۔ ان کے اصلاحی کاموں کے اور بھی کئی پہلو ہیںجن سے ان کے تجدیدی فکر کا اندازہ ہوتا ہے۔ لیکن کار تجدید جب تجدد بن جاتا ہے تو مشکل پیش آتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ راسخ العقیدگی سے سرسید کا ٹکرائو مذہبیات کے میدان میں ہوا۔ سر سید احمد خاں نے معجزے کے تصور کی نفی کی اور انہوں نے اسے استعاراتی اور اشاراتی اندازِ بیان قراردیا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ قوانین طبیعت غیر تغیر پذیر ہیں۔ وہ واقعہ معراج کا بھی انکار کرتے ہیں۔ معراج ان کے نزدیک نہ جسمانی تھی اور نہ روحانی تھی بلکہ محض ایک خواب تھی۔ ان کی مغربی تہذیب سے حد سے بڑھی ہوئی تاثر پذیری بھی نقد اور اعتراض کا موضوع رہی ہے، وہ مغرب کے انسانوں کو تہذیب وثقافت کے اعتبار سے انسان اور مشرق کے انسانوں کو حیوان قراردیتے تھے۔ احادیث کے مجموعے کے بارے مین بھی ان کے شکوک وشبہات علماء کے نزدیک باعث اعتراض تھے، اور بھی باتیں ہیں جن سے علماء کے طبقہ کو اختلاف تھا۔ لیکن ان سب کے باوجود انہوں نے جو کچھ کیا وہ مسلمانوں کی اصلاح اور بیداری کے لیے کیا۔ وہ ملت کا درد رکھتے تھے۔ اور اس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے سیرت طیبہ پر مستشرقین کے اعتراضات کا جواب دیا۔ سرولیم میور نے اسلام کے خلاف اعتراضات کی باڑھ شروع کردی تھی۔ انہوں نے اعتراضات کا جواب دیا۔ اس کا ایک اہم اعتراض تعدد ازواج پر تھا۔ سر سید احمد خاں نے جواب دیا کہ تعدد ازدواج قانون فطرت کے خلاف نہیں بلکہ بعض معاشروں میں ناکتخدا لڑکیوں یا بیوائوں کی کثرت کا واحد حل ہے۔ اگر یہ نامنصفانہ عمل ہوتا تو الہامی کتابوں میں اس کی مخالفت ہوتی لیکن اس کی مخالفت نہ عہد نامہ قدیم میں ہے اور نہ عہد نامہ جدید میں۔ حضرت عیسی ؑنے مجرد زندگی گذاری تاہم یہ کسی مذہبی اصول کے تحت نہیں تھی۔ 

سر سید کے عہد میں ایک اور شخصیت تھی جس نے تجدد پسندی کے دائرہ میں اپنے نقوش چھوڑے ہیں۔ یہ شخصیت چراغ علی کی تھی جو ریاست حیدر آباد میں ملازم تھے۔ چراغ علی نے جنوں کو قدیم مخلوق قراردیا۔ یہ ایک قدیم سامی النسل قبیلہ تھا جو اردن کی پہاڑیوں میں آباد تھا اور جسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہیکل سلیمانی کی تعمیر میں لگایا تھا۔ ان کا خیا ل تھا کہ قرآن کی از سر نو توضیح کی ضرورت ہے۔ وہ احادیث کے مجموعہ کو بادل ناخواستہ تسلیم کرتے تھے اور ان کی تشکیکی ذہنیت آسانی کے ساتھ احادیث کو شریعت کا مصدر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہوتی تھی۔ یہ ذہنیت بعد میں عبد اللہ چکرالوی اور غلام احمد پرویز کے انکار حدیث کے فتنہ کی شکل میں ظہور پذیر ہوئی۔ یہ سارا تجدد راسخ العقیدگی کے نزدیک قابل قبول نہیں تھا۔ قدامت اور جدت فکر کی کشمکش کا ایک مظہر جہاد کا موضوع بھی ہے۔ سرسید اور چراغ علی دونوں نے اسلام کی جنگوں کو دفاعی قرار دیا ہے اور ثابت کیا کہ مکہ کے لوگ تھے جو اہل مدینہ پر آ آکر حملہ آور ہوتے تھے اور مدینہ کے یہودی مسلمانوں کے خلاف مسلسل سازش میں مشغول تھے اس لیے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میںمشرکوں اور یہودیوں کے خلاف جتنی جنگی کارروائیاں کی گئیں وہ اصل کے اعتبار سے دفاعی نوعیت رکھتی تھیں۔ جہاد کے سلسلہ میں سرسید اور چراغ علی نے جو کچھ کہا ہے وہ اگر چہ پورے طور پر روایت کے مطابق نہیں لیکن دلیل کے وزن سے خالی بھی نہیں۔ اس کے مقابلہ میں دیوبند یا راسخ العقیدگی کے اسکول اور جماعت اسلامی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اسلام میںجہاد محض مدافعانہ نہیں ہے۔ یہ نقطۂ نظر ’’اسلام یا جزیہ یا تلوار‘‘ کا نقطۂ نظر ہے۔ مولانا مودودی نے الجہاد فی الاسلام میں جارحانہ کے بجائے ’’ مصلحانہ‘‘ کی نئی اصطلاح وضع کی اور نیا    زاویۂ نظر عطا کیا۔ مفکرانہ عمل کی خاص بات یہی ہے کہ وہ لوگوں کو فکر کا نیا زاویہ عطا کرتی ہے۔ چراغ علی کے تجدد کی مثال ان کا یہ نقطہ نظر ہے کہ اسلام کے روایتی قانون طلاق وزواج میں اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ وہ عصری تقاضوں کے مطابق ہوسکے۔ انکے خیال میں اسلام نے کوئی بے لچک نظام نہیں دیا ہے۔ حالات کے لحاظ سے احکام اور قوانین میں تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں۔ راسخ العقیدگی کے مضبوط محاذ نے شریعت کے میدان میں جس طرح سرسید کے خیالات کو رد کردیاتھا چراغ علی کے خیالات کو بھی رد کردیا۔

ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا لیکن یہ مسئلہ زن وہیں کا وہیں رہا۔ حجاب کا اور پردہ کا مسئلہ وہ میدان ہے جس میں راسخ العقیدگی اور تجدد پسندی کی کشمکش جاری ہے اور راسخ العقیدگی کی صف میں بہت سے لوگ تجدد پسندوں کے ہمنوا بن گئے ہیں اور اسے تجدد پسندی کے بجائے ایک مصلحانہ عمل سمجھتے ہیں۔ ہندوستان میںممتاز علی نسائی تحریک کے علم بردار تھے۔ وہ مساوات مرد وزن کے قائل تھے ان کا کہنا ہے کہ مرد وزن میںکوئی تفریق ہے بھی تو ہ حیاتی افعال کی ہے۔ تعلیم نسواں ایک ضروری چیز ہے۔ اورنگ زیب عالمگیر کے زمانہ میں اور اس کی ایما پر کتاب فتاویٰ عالمگیری مرتب کی گئی تھی۔ حنفی فقہ کی اس اہم کتاب میں صراحت موجود ہے کہ عورتوں کو غیر مردوں کے سامنے اپنے ہاتھ اور چہرہ کو بے پردہ رکھنے کی اجازت ہے، حنفی مسلک یہی ہے۔یہ استدلال اس حدیث سے ہے ’’لیس للمراٰہ المسلمۃ اُن یبدو منھا الا ھذا وھذا۔ای وجھھا وکفیھا۔ رواہ الطبرانی والبیھقیی‘‘ یعنی ایک مسلمان عورت کاکوئی حصہ ظاہر نہیں کرنا چاہیے مگر یہ اور یہ یعنی اس کا چہرہ اور اس کے دونوں کف۔مولانا مودودی نے اپنی کتاب ’’پردہ‘‘ میں اس کے برعکس نقطہ نظر پیش کیاہے۔ پردہ، سود، تصویر، ضبط ولادت، لباس اور بے شمار مسائل میں انہوںنے وہی موقف اختیار کیاہے جو راسخ العقیدگی کے حلقوںکا موقف ہے۔ ممتاز علی نے کہا کہ عورتوں کو زبردستی نقاب پہننے پر مجبور کرنا ناانصافی اور مذہبی قانون کے خلاف ہے۔ انہوں نے قانون ازدواج میں بھی اصلاحات کی وکالت کی ہے۔ بڑوں کی طرف سے طے کی جانے والی شادیاں جس میںلڑکی کی پسند اور مرضی کو مطلق دخل نہ ہو اسلام کی روح کے خلاف ہیں۔ شریک حیات کا انتخاب جس طرح مرد کا حق ہے عورت کا بھی حق ہے۔

راسخ العقیدگی کی تجدد کی اس ساری کشمکش کو مغربی تہذیب اور اس کے غلبہ کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ مغربی تہذیب کے نمائندوں نے اسلام پر اعتراضات کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ اس کے رد عمل میں کبھی جارحانہ اور کبھی معذرت خواہانہ انداز اختیار کیا گیا۔ مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنے کے لیے جتنی فکر انگیز کتابیں سامنے آئیں اور اعلیٰ ادب کی تخلیق ہوئی یا تحریکیں اٹھیں ان سب کا پس منظر یہی ہے۔ سرسید کے بعد امیر علی کی اسپرٹ آف اسلام سامنے آئی۔ ان کی جدت فکر کی مثال ان کا یہ قول ہے کہ ’’انسانی تہذیب کی تاریخ کا بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ شروع میں مسلمانوں نے عیسائیت کو پورے طور پر مغلوب نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کا دنیا کو مہذب بنانے کا مشن ناکام ہوگیا‘‘شبلی کی کتابیں الجزیہ فی الاسلام اور حقوق الذمیین مغرب کے اعتراضات کاجواب دینے کے لیے لکھی گئیں تھیں۔ مولانا مودودی کی بعض مفید کتابیں جدید علمِ کلام کے لٹریچر میں شمار کیے جانے کے لائق ہیں۔ شبلی کی ہیروز آف اسلام پر سلسلہ وار کتابیں ، حالی کی مسدس، مدو جزر اسلام، اکبر اور اقبال کی شاعری میںجو روح کام کررہی ہے وہ یہی ہے کہ عظمت رفتہ کی باز آفرینی کیسے ہو اور اس کا کیا طریقہ کار ہو ہماری غلطیاں کیا ہیں اور ہمیں اپنی اصلاح کے لیے کیا قدم اٹھانے ہوں گے۔ اس سلسلہ کا سارا ادب مفکرانہ سعی اور جدوجہد کا آئینہ دار ہے۔ اس میں کہیں روایت سے مضبوط وابستگی نظر آئے گی اور کہیں روایت سے بغاوت کا رجحان غالب نظر آئے گا۔ اس میں راسخ العقیدگی اور جدتِ فکر دونوںکی نمائندگی ملے گی ان سب کا مقصود مسلم معاشرہ کی تعمیر نو ہوگا۔

جدت اور قدامت کی پوری تاریخ بیان کرنا مقصود نہیں ہے لیکن اس کشمکش کے زیر اثر اور خاص طور پر اسلامی نشاۃ ثانیہ کے محرک کے طور پر جو اسلامی لٹریچر مفکرانہ طبیعت رکھنے والوںکے لیے بہت اپیل رکھتا ہے ۔ مخالفت اور تنقید کا بازار وہیں گرم ہوتا ہے جہاں کوئی نئی بات کہی جائے یا نئے انداز میںکہی جائے۔ اس کی حمایت بھی ہوتی ہے اور مخالفت بھی۔ سر سید، علامہ اقبال، مولانا مودودی، وحید الدین خاں، ڈاکٹر اسرار عالم اور اب فکر کی بساط پر تازہ واردراشد شاذ کی بہت سی تحریریں اسی زمرہ میں آسکتی ہیں۔ ان میں سے بعض پر قدامت پسندی کا رجحان غالب ہے اور بعض پر قابل قبول جدیدیت کا اور بعض پر ناقابل قبول تجدد پسندی کا۔ بعض کے افکار بہت خام ہیں بعض کے افکار مفید اور بصیرت افروز ہیں، بعض نے گلشنِ فکر میں مشامِ جاں کو معطر کرنے والے پھول کھلائے ہیں، بعض نے کانٹے بھی بوئے ہیں۔لیکن سب نے کچھ نہ کچھ نئی باتیں ضرور کہی ہیں یہ باتیں صحیح بھی ہو سکتی ہیں اور بہت زیادہ غلط بھی ہوسکتی ہیں۔ صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنا اس مختصر تحریر کا مقصود ہی نہیںہے۔ انحراف یاتجدد کے حوالہ سے علامتی طور پر کچھ نام پیش کیے گئے ہیں۔ آئینِ نو سے نہ ڈرنا اور طرزِ کہن پر نہ اَڑنا اور نئی فکر پیش کرنا اور فکر کوقبول کرنا یافکر پر تنقید کو برداشت کرنا یا مضبوط دلیلوںکو قبول کرکے پیش کردہ فکر سے دست بردار ہوجانا زندہ قوموں کی علامت ہے۔ لیکن جب بھی فکر کو مہمیز کرنے والی کوئی نئی کتاب سامنے آئے۔ علماء کی منصبی ذمہ داری ہے کہ اس کا معروضی جائزہ لیں اور دلائل کی روشنی میں اس کا تجزیہ کریںاور اگر وہ مفید ہوں تو اسے مفید کہیں، پھولوں کو کانٹوںسے اور افکار کے سبزۂ نو رستہ کو خس خاشاک سے الگ کرنا اور تنقید کرنا علماء کا کام ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ تنقید اور تجزیہ معروضی ہو، روایت پرستی اور مسلک پرستی کے تحت نہ ہو۔ اسرار عالم اور راشد شاذ کے انحرافات کا جائزہ مولانا سلمان حسینی ندوی کی نئی کتاب مختصر میںمیں آگیاہے۔ ایک عالمِ دین کی جو منصبی ذمہ داری ہے وہ انہوں نے پوری کی ہے۔لیکن ان دونوں تجدود پسندوں کے انحراف پر زیادہ مفصل اور زیادہ مدلل اندام میں لکھنے کی ضرورت ہیں  ۔
کارِ تجدید جومفکر بھی انجام دیتا ہے اسے جمود کو بہر قیمت توڑنا پڑتا ہے۔اس کی فکر میں جدت پسندی ہوتی ہے راسخ العقیدگی کے ساتھ جدت پسندی کو لے کر چلنا پل صراط پر چلنا ہے۔ راسخ العقیدگی ہی جدت پسندی کے قدم کو بہکنے سے روکتی ہے۔ ورنہ یہ جدت پسندی تجدد اور انحراف تک پہونچا دیتی ہے۔ انحراف کی مثالیں ہمیں مولانا وحید الدین خاں کے یہاں ملتی ہیں۔ وحید الدین خاں نے بہت سی مفیدکتابیں لکھی ہیں۔ اس کے ساتھ بہت سے ضررناک بلکہ خطرناک افکار بھی پیش کئے ہیں (خلطوا عملاً صالحاً وآخر سیئاً) انہوں نے ندوۃ العلماء کے قیام کے زمانہ میں ’’علم جدید کا چیلنج‘‘ لکھی جسے انھوںنے بعد میں ’’مذہب اور جدید چیلنج‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ اس کتاب نے انہیں شہرت کی بلندی تک پہونچا دیا۔ لیکن اس کے بعد انھوں نے مسلسل ایسے افکار پیش کیے جو ملت اسلایہ کے لیے ناقابل قبول تھے۔ اگر انھوں نے انحراف کا راستہ نہیں اختیار کیا ہوتا تو ان کا مفکرانہ عمل ممکن ہے کسی درجہ میں کارِ تجدید بھی انجام دیتا اور ملت کو اس کافائدہ پہونچتا۔ کارِ تجدید انجام دینے کے لیے ایک شخص کا دین کے ساتھ دنیا سے، زمانہ سے اور اس کے تقاضوں سے واقف ہونا ضروری ہے۔ عصر حاضر کے غلط افکار ونظریات اور ان کی دلیلوں سے جو شخص واقف نہ ہو وہ زمانہ کا اور اس کے فتنوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے اورمسلمانوں کے دین اور عقیدہ کی حفاظت نہیں کر سکتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ جملہ بہت معنی خیز اور فکر انگیز ہے ’’انّما ینقض الاسلام عروۃ عروۃ من نشأ فی 
الاسلام ولم یعرف الجاھلیہ‘‘ وہ شخص اسلام کا بخیہ ادھیڑ دے گا جس کی پرورش اسلام کے ماحول میں ہوئی ہو لیکن وہ جاہلیت سے آگاہ نہ ہوا ہو، دینی تعلیم کی قدیم انداز کی درسگاہیں جو قدیم نصابِ تعلیم پر بہت زیادہ اصرار کرتی ہیں، جن کے فارغ التحصیل عصر حاضر کے پوشیدہ فتنوں سے اور عصر حاضر کے تقاضوں سے واقف نہ ہوں وہ دین کی انقلاب انگیز خدمت سے اور کارِ تجدید سے قاصر رہیں گی۔ موجودہ قدیم نصابِ تعلیم کی دینی درسگاہیں ملت کے لیے مؤذن ، امام اور واعظ تو فراہم کرسکتی ہیں لیکن وہ ایسا انقلاب برپا نہیں کرسکتی ہیں جو دنیا کی قوموں کے لیے اسلام میں کشش پیدا کردے یا جو خلافتِ ارضی کے تقاضوں کو پورا کرے جو مسلمانوں کی پستی کو بلندی سے تبدیل کردے، جب تک ’’معمارِ حرم‘‘ میں جہاں بینی ، جہاں بانی اور جہاں رانی کی صلاحیتیں پیدا نہیں ہوںگی تعمیرِ جہاں کا خواب پورا نہیں ہوسکے گا، دینی درسگاہوں کے فضلاء عصر حاضر سے اچھی طرح واقف نہ ہونے کی وجہ سے فکری رہنمائی سے قاصر رہتے ہیں۔ زندگی کے کشت زار کو نبوت کے چشمۂ حیواں سے سیراب کرنا ان کے لیے اس لیے ناممکن ہوتا ہے کہ انہوں نے کشت زار کا سرے سے مطالعہ ہی نہیں کیا۔مولانا وحید الدین خاں ان لوگوں میں ہیں جنہوںنے عصر حاضر کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ وہ اس زمانے کے افکار ونظریات سے واقف ہیں، مسلمانوں کے زوال اور یورپ کے عروج واقبال کے اسباب پر ان کی نظر ہے۔ لیکن ان کے یہاں وہ راسخ العقیدگی نہیں ہے جو جدت پسندی کو تجدد پسندی کے غار کی گہرائی میں گرنے سے روک دے۔ ان کی شخصیت بہت قابل قدر ہوسکتی تھی اگر ان کے یہاں انحراف نہیں پایا جاتا۔ 

مولانا وحید الدین خاں کو علماء اور دانشوروں نے اپنی تنقیدوںکا نشانہ بنایا ہے۔ تنقیدیں بھی خدائی انتظام ہوتی ہیں تاکہ مزاجِ اسلام کی حفاظت ہوسکے اور شیریں آم کے باغ میں نیم کا پیڑ نہ اُگ سکے اور گلشنِ بے خار میں کوئی ببول کا درخت سر نہ اٹھاسکے۔ تنقیدوں کا یہ مجموعہ اس لیے پیش کیا جا رہا ہے کہ ملت اسلامیہ کے عام تعلیم یافتہ لوگ وحید الدین خاں کی غلطیوں کو سمجھ سکیں اور خود بھی ان غلطیوں سے بچیں اور دوسروں کو بچاسکیں۔تاریخ میں بہت سے علماء اور مصلحین نے بعد میں اپنی غلطیوں سے رجوع کیاہے، کاش یہ توفیق مولانا وحید الدین خاں کو بھی مل جاتی۔


 کتاب:  ’’وحید الدین خان علماء اور دنشوروں کی نظر میں‘‘ کا مقدمہ یہ کتاب قاضی پبلشرز دہلی نے شائع کی ہے
 

***************************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1218