donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Syed Ahmad Qadri
Title :
   Ibne Safi Ke Novel : Mera Shauq, Mera Junoon


ڈاکٹر سیّد  احمد قادری


 ابن صفی کے ناول : میرا شوق ، میرا جنون



   ابن صفی ایک ایسا نام  ہے  جسے بچپن سے سُنا اور پڑھا اور آج تک بھُلا نہیں پایا ۔ ابن صفی اور ان کے ناولوں کو ہمارے نقاد اردو ادب میں کوئی مقام دینے کو تیار نہیں ہیں‘ لیکن میرا دعویٰ ہے کہ مقام نہیں دینے کے باوجود ابن صفی نے اپنے ناولوں کے حوالے سے اردو ادب میں اتنی اہم مستحکم اور اعلٰی مقام بنا لیا ہے جو اردو ادب میں اچھّے اچھوں کو نصیب نہیں ہے۔

ابن صفی کی تحریر میں وہ نشہ تھا جوبہت سارے افسانے ‘ ناول اور اشعار کو یکجا کرنے کے بعد بھی نہیں ملا۔ کیا جادو تھا کہ جس نے بھی ایک بار ابن صفی کو پڑھ لیا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کی تحریرکے سحر میں کھو گیا اور نشہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اِسے جتنا پیا جائے ‘ اس کی طلب بڑھتی جاتی ہے اور یہی خوبی تھی ‘ ابن صفی کی تحریروں کی ’کہ ایک ناول پڑھ کر ختم کیا اورفوراً، دوسرے ناول کی طلب ہوتی ‘ پوری پوری رات بجلی نہیں رہنے پر ‘ لالٹین کی روشنی میں ابن صفی کا ناول پڑھتا اور نیند کوسوں دور بھاگ جاتی۔

ابن صفی کے ناولوں کوپڑھنا،میراجنون تھا،اوریہ جنون میرے اندر کس طرح پیداہوا‘اس کا دلچسپ واقعہ میںنے عرصہ قبل یعنی ۱۹۸۵ء میں شائع ہونے والے اپنے پہلے افسانوی مجموعہ ’’ریزہ ریزہ خواب‘‘میںاس طرح بیان کیاہے۔

’’ان ہی دنوں میری باجی کو کہانیوں کاشوق پیداہوا اوروہ ابّاجان سے بچوںکارسالہ’’کھلونا‘‘منگانے لگیں۔باجی کارعب ایساغالب تھاکہ میںان سے’’کھلونا‘‘لے کرپڑھ نہیںسکتاتھا۔اسی لئے میںان کے سونے انتظارکرتارہتااورجب وہ سوجاتیں تومیںچپکے سے ان کے سرہانے سے کھلونا،اٹھاتااورپڑھتا۔اسی طرح گرمی کی ایک دوپہرکوبھی میں’’کھلونا‘‘لے کرپڑھ رہاتھا کہ اتنے میںان کی نیندٹوٹ گئی اوروہ مجھ سے کھلونامانگنے لگیں‘اس وقت میںایک کہانی میںمنہمک تھا،میںنے کہا،میں ذرایہ کہانی پڑھ لوںتودیتاہوں ،لیکن وہ واپس لینے کو بضد ہوگئیں‘ نتیجہ میں ہم دونوں میں لڑائی ہوگئی‘ لڑائی کیا ہوئی ‘ باجی نے اپنی عادت کے مطابق میری پٹائی کردی ۔ میں رونے لگا۔ بات ابّا تک پہنچی ‘  انھون نے باجی کو ڈانٹ پلائی اور مجھے چپ کرانے اور بہلانے کے خیال سے اپنے بُک شِلف سے ابن صفی کے دو ناول دئے اور کہا ‘‘ لو‘ تم انھیں پڑھو۔‘‘

ظاہر ہے اس عمر میں یہ کتابیں میرے پلّے کیا پڑتیں ‘ لیکن میں نے باجی کو مرعوب کرنے کے لئے کہ دیکھو‘ میں ایسی کتابیں پڑھ رہا ہوں ‘ جو ابّا پڑھتے ہیں ۔ پڑھنا شروع کیا‘ پڑھنا کیا شروع کیا ‘ بلکہ یوں کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ ورق گردانی شروع کی اور اس ورق گردانی میں کبھی کبھاردو چار ورق پڑھ بھی لیتا ‘ اور انھیں دو چار اوراق نے گویا مجھ پر جادو کر دیا ۔

قاسم کی غوں غاں ‘ اس کی حماقتیں ‘ عمران کا کھلنڈراپن‘ اس کی بے حد دلچسپ اور ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ جانے والی باتیں ، حمید کا اسمارٹنس ،اس کی حرکتوں پرکرنل فریدی کی ڈانٹ پھٹکار ،رشیدہ اورانورکی نوک جھوک…ابتداء میں یہ سب مجھے بڑااچھالگا…ان کرداروں سے میری اتنی زیادہ دلچسپی بڑھ گئی کہ میں نے پوراناول پڑھنا شروع کردیا،باتیںکچھ سمجھ میںآتیں اورکچھ سرکے اوپرسے گزر جاتیں ،لیکن دلچسپی میںکمی نہیںآئی ،بلکہ بڑھتی  چلی گئی اوردھیرے دھیرے مجھے کرنل فریدی کی آہنی اورمقناطیسی شخصیت میںدلچسپی پیداہونے لگی۔اس کی شخصیت نے مجھے سب سے زیادہ متاثرکیا۔اس کی بے پناہ صلاحیتیں،اس کی ذہانت،اس کاعلم،اس کاوقار،اس کی دوستی،اس کی دشمنی ……ان ساری خوبیوںنے مجھے کرنل فریدی کافین بنادیا اورشعوری ولاشعوری طورپر میں خود کواس کی شخصیت میںڈھالنے لگا۔اس کے نئے نئے کیس ابّاجان کے خوف سے نصابی کتابوں میںچھپاچھپا کرپڑھتااورسوچاکرتاکہ میںبھی بڑاہوکرکرنل فریدی بنوںگااورملک وقوم اورسوسائیٹی کے کوڑھ کوان کے کیفرکردارتک پہونچاؤںگا۔لیکن ناول کی دنیااورحقیقی دنیامیںبڑافرق ہوتا ہے…یہاںہرشخص کئی چہرے رکھتاہے ،کبھی کچھ اورکبھی کچھ‘ جو نہیںرکھتے وہ مجبورہوکررکھنے لگتے ہیںاور جومجبور ہوکربھی نہیںرکھتے،ان کی قسمت میںدکھ ،مصیبتیںدردرکی ٹھوکریں ہوتی ہیں ۔شروع میں،میںنے ایسے کئی چہرے دیکھے تومجھے حیرت ہوئی،بہت افسوس ہوا اورپھرمیں عادی ہوتاگیا۔میرے اندرکاکرنل فریدی آہستہ آہستہ مرتاچلاگیا۔‘‘

ابن صفی نے ہزاروں ،لاکھوںقارئین کوجھوٹ،فریب،دھوکہ ، ا ستحصا ل ، ظلم ، تشد د ، جبر ، ا ذ یت ، ا نتشا ر ، ا فر ا تفر ی ، د ر د و کر ب ، گھٹن، ما یو سی  اوربدعنوانیوںسے نبردآزما ہونے کا حوصلہ دیاہے۔زندگی کی بہت ساری سچائیوںاورتلخ حقیقتوں سے روشناس کرایاہے،اتنی روشناسی اورحوصلہ دینے والاکردار میرے خیال میںاب تک اردوادب میںکوئی پیدانہیںہواہے۔

میںاس بات کابھی اعتراف کرتاہوں کہ میں سائنس کاطالب علم رہاہوںاورآج جس حدتک اردوزبان کومیںجان سکاہوںاورسمجھ سکاہوںوہ ابن صفی کی دین ہے۔ایسی خوبصورت اورسادہ زبان و ہ استعمال کرتے تھے کہ بہ آسانی سمجھ میں آجائے اور جس کی سمجھ میںآجائے وہ اس زبان کی سحر میںکھوجاتا۔

ابن صفی کواس دارفانی سے کوچ کئے کئی دہائی گزرچکی ہے،لیکن اب تک کوئی دوسرا ابن صفی توکیااس کا نعم البدل پیدا نہیں ہو سکا ۔ ایسا لگتا ہے کہ ابن صفی جن خصوصیات کاخزانہ لے کرپیداہوئے تھے وہ اپنے ساتھ لے گئے۔ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ جاسوسی دنیا ،آج اتنے سارے وسائل ہونے کے باوجوداپناوجودقائم نہیںرکھ سکا۔یہ ابن صفی کے علم و فن کا ہی کمال تھاکہ اردو کے ساتھ ساتھ ہندی زبان میںبھی کوئی ابن صفی نظرنہیںآتا اورلوگ آج بھی کرنل ونود کو ڈھونڈتے ہیں۔ابن صفی نے جتنے جیتے جاگتے کردار پیداکردیئے ، ویسے کردار اتنے برسوں بعد بھی سامنے نہیںآسکے۔ابن صفی اردوزبان و ادب میںہمیشہ ہمیشہ زندہ رہینگے ، اس کا مجھے یقین ہے۔

 

         ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭      
 


 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 640