donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : K. Ashraf
Title :
   Khoda Bataur Mauzu Guftagu

 

خدا بطور موضوع گفتگو

کے اشرف

خدا کے بارے میں گفتگو پر کتنے لوگ کتنا وقت صرف کرتے ہیں اس کے بارے میں  کوئی سروے ہوا ہے یا نہیں اس بارے  پبلک چینلز پر ہمیں کوئی ڈیٹا دکھائی نہیں دیا۔ اس لئے سائنسی طور پر اس بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہے۔ لیکن اگر مذہبی عبادات کو اس ذمرے میں شمار کر لیا جائے تو پھر آسانی سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسانوں کی ایک بہت بڑی تعدا د ہمہ وقت خود کو  خدا کے ساتھ مصروف عمل رکھتی ہے۔ تاہم اس ضمن میں ہمیں انسانوں کے ان  تمام اعمال کو اس ذمرے میں شمار کرنا ہوگا جو وہ عبادات کی شکل میں سرانجام دیتے ہیں۔ اگر ایسا کیا جائے تو انسانوں کے مجموعی وقت کا یقناً بہت بڑا حصہ خدا سے متعلقہ معاملات میں گزر جاتا ہے۔  اس ضمن میں دلچسپ بات یہ ہے کہ خدا کے بارے میں یہ گفتگو یا سرگرمیاں اپنی فطرت کے اعتبار سے عام طور پر غیر سائنسی یا غیر حقیقی ہوتی ہیں۔ ان کا زیادہ تر مدار روایات یا اساطیر پر مبنی ہوتا ہے  حقیقت کےساتھ ان کے تعلق کے بارے میں  کچھ کہا نہیں جا سکتا۔

انسانوں  کی خدا  کے بارے میں دلچسپی دیکھ کر سوچنا پڑتا ہے کہ آخر انسانوں کو خدا سے اتنی دلچسپی کیوں  ہے۔ خاص طور پر آج تک انسانوں میں سے کوئی حتمی طور پر یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ اس نے خدا کو دیکھا ہے۔ اسے چھوا ہے۔  اس کے ساتھ گفتگو کی ہے۔ اس کے ساتھ سوال و جواب کئے ہیں۔مختلف ادبیات  میں اس ضمن میں جو واقعات درج ہیں ان کی تفصیل ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ کسی کو خدا  آگ کی صورت دکھائی دیتا ہے۔ اس کی آواز بادلوں میں سے سنائی دیتی ہے۔ کسی کو وہ ایک آدمی کی صورت میں نظر آتا ہے ۔ انسانوں کی طرح گفتگو کرتا ہے اور پھر اچانک غائب ہو جاتا ہے۔ کسی کو صرف اس کے ہونے کا احساس ہوتا ہے لیکن وہ اس احساس کی کوئی متعین تعریف کرنے سے قاصر رہتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر خدا اتنا غیر متعین ، مبہم اور غیر واضح تصور ہے تو پھر انسانوں کو اس کے ساتھ اتنی دلچسپی کیوں ہے؟  وہ انسانوں اور اپنے ارد گرد آباد حیوانوں کو بھول کر آخر ایک ایسی ہستی کے بارے میں کیوں متفکر رہتے ہیں جس تک ان کی رسائی کسی طور ممکن نہیں۔خدا میں انسانوں کی دلچسپی کی ایک وجہ شاید خدا کے ساتھ  وابستہ اس کا انسان اور انسان کی کائنات کے  خالق ہونے کا تصور ہے۔ یہ تسلیم کرلینے کے بعد خدا  اس کا اور اس کی کائنات کا خالق ہے انسان کی خدا میں دلچسپی قابل فہم ہے۔ لیکن اس سوال کے بطن سے ایک اور سوال جنم لیتا ہے کہ آخر انسان اس نتیجے پر کیسے پہنچا  کہ خدا اس کا اور اس کی کائنات کا خالق ہے۔سوال کے بطن میں چھپے اس سوال سے دراصل وہ پینڈورا باکس کھلتا ہے جس کی وجہ سے  خدا شاید ہزاروں سالوں سے انسان کی گفتگو کا موضوع بنا ہوا ہے۔

اس گفتگو میں عام انسان تو شامل ہوتے ہی ہیں لیکن اصل گفتگو فلسفیوں، پیغمبروں اور ان خدا پرست صوفیوں میں ہوتی ہے  جو اپنے روحانی و فکری تجربات کو خدا کےساتھ  جوڑتے ہیں۔عام لوگ ایسے گہرے تجربات میں سے تو نہیں گزرتے لیکن روزمرہ کے چھوٹے موٹے واقعات کا تعلق خدا سے جوڑ کر وہ فلسفیوں، پیغمبروں اور خدا پرست صوفیوں سے زیادہ وقت خدا کے بارے میں گفتگو  اور اسی سے متعلقہ سرگرمیوں  میں گزارتے ہیں۔یہ گفتگو روائتی انسانوں تک  ہی محدود نہیں ہے۔ ہر دور کے نوجوان  اپنے اپنے انداز میں اپنے اپنے کلچر کے مطابق خدا سے ناطہ جوڑتے اور اس کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔گزشتہ کچھ صدیوں سے اس میں نیا  داخل ہونے والا پہلو سائنسی طرز فکر ہے۔ سائنسی طرز فکر کی وجہ سے ایک طرف انسانوں نے اس موضوع کو معروضی رخ دے دیا ہے تو دوسری طرف وسعت پذیر کائنات میں روز نئے پہلوں سے آگاہی کے بعد انسان کا تصور خدا بدل رہا ہے۔تاہم ایک بات جو ماضی سے اب تک  خدا کے بارے میں انسانی شعور میں سمائی ہوئی ہے کہ خدا کہیں آسمانوں پر براجمان ہے رفتہ رفتہ  تبدیل ہو رہی ہے۔آج کے باشعور انسان کا تصور کائنات وہ نہیں جو چند ہزار سال قبل کے باشعور انسان کا تھا۔ آج کا باشعور انسان کائنات کی پیمائش نوری سالوں میں کرکے کائنات کی وسعت اور پھیلاؤ کا تصور کر سکتا ہے جبکہ ہزاروں سال قبل زمین پرآباد باشعور انسان ایسا کرنے سے قاصر تھا۔اس شعوری وسعت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب انسان کے بہت سے روائتی تصورات تبدیل ہو رہے۔ آج کا یہ با شعور انسان جب خدا کے بارے میں گفتگو کرتا ہے تو وہ یقناً ماضی کے پیغمبروں، فلسفیوں اور صوفیوں سے الگ ہوتی ہے۔ لیکن  کائناتی شعور کی نچلی سطح پر بسنے والے لوگ  اب بھی اپنا بہت سا وقت روائتی خدا کی عبادت کرنے، اس سے دعائیں مانگنے اور اس کو خوش کرنے کے لئے مختلف اعمال سرانجام دینے میں صرف کرتے ہیں۔

ایسے لوگوں میں صرف مسلمانوں کی تخصیص نہیں ہے۔ اس میں عیسائی ، یہودی اور بہت سے دیگر خدا پرست بھی شامل ہیں۔

کیا اتنےزیادہ انسانوں کا خدا کے تصور کے ساتھ اتنا زیادہ وقت صرف کرنا انسانی نقطہ نظر سے سود مند ہے؟ اگریہی وقت انسان انسانی بھلائی کے کاموں پر صرف کریں اور یہ ساری توانائیاں انسانوں پر ہی صرف ہوں تو کیا اس زندگی کے امکانات  بہت زیادہ روشن نہیں ہو جائیں گے؟


+++

Comments


Login

You are Visitor Number : 727