donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Maqsood Hasni
Title :
   Farsi Ke Pakistani Zabano Par Lasani Asrat

فارسی کے پاکستانی زبانوں پر لسانی

 

اثرات


Maqsood Hasni

 


ایران ناصرف  برصغیر کا ہمسایہ ملک ہے بلکہ دونوں خطوں کا تہذیبی ثقافتی معاشی اور نظریاتی رشتہ صدیوں نہیں‘ ہزاروں سال پرانا ہے۔  یہی نہیں ان کی رشتہ دایاں بھی رہی ہیں۔ برصغیر کے یودھا جنگ سلاسل مں موجود تھے۔ بےشمار علماء کرام اور مشاءخ عظام تبلیغ اور ہدایت و رشد کے لیے یہاں شریف لاءے۔ برصغیر کی شاید ہی کوئ ولایت ہو گی جہاں ان حضرات باصفا کی تشریف آوری کے آثار موجود نہ ہوں۔.

جب بھی دو خطوں کے لوگ کسی بھی حوالہ سے‘ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں شعوری یا لاشعوری طور پر لسانی اثرات بھی قبولتے ہیں۔ جہاں آوازوں کے نظام ایک حد تک سہی‘ میں کسی بھی سطع پر سانجھ‘  ذہنی و فکری مطابقت‘  نظریاتی قربت یا پھر رشتہءالفت موجود ہو تو وہاں لسانی معاملات اور بھی آسان ہو جاتے ہیں۔ یہی نہیں مترادف اور متبادل آوازوں کا استعمال عام ہو جاتا ہے۔ دوسری زبانوں کی آوازوں کو بھی قبولا جاتا ہے۔ لفظوں کی اشکالی تبدیلی‘ لفظوں کے الگ سے تلفظ اور نءے مفاہیم روزمرہ کا حصہ بن جاتا ہے۔

 فارسی شعروادب کی ہمہ گیری اور آفاقی صلاحتوں نے برصغیر کی تقریبا تمام زبانوں کو لسانی حوالہ سے متاثر کیا۔  ہر زبان کا‘ جواس سے مخصوص ہوتا ہے اپنا ذاتی مزاج‘ کلچر اور نفسیات ہوتی ہے۔  شعوری اور لاشعوری طور پر دونوں خطوں کے لوگ ایک دوسرے کا کلچر نفسیات قبول کرتے رہے ہیں اور یہ چیز آتے وقتوں میں ناصرف فکری سطع پر ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے بلکہ اس سے زبانوں کو دسعت ثروت گہرائ جلا اور نکھار میسر آتا ہے۔

فارسی کا بلاشبہ اچھے وقتوں میں برصغیر کی ہر چھوٹی بڑی ولایت میں طوطی بولتا تھا۔ مہاجر قوتوں نے اس کی بیخ کنی میں اپنی سی قوت صرف کر دی۔ مقامی بولیوں اور زبانوں کی دل کھول کر حوصلہ افزائ کی لیکن قدم جمنے کے بعد ان کا کیلے کے چھلکے سے بھی بدتر حال کیا۔ اکثر سے زیادہ قومی غدار حضرات کا بھی یہی حال کیا۔ فارسی سے متعلق باتیں عام کر دیں۔ پڑھو  فارسی بیچو تیل۔ بعد ازاں انہیں محاورے کا درجہ حاصل ہو گیا۔

ان تمام باتوں کے باوجود فارسی تمام زبانوں میں زندہ رہی۔ آج فارسی الفاظ سابقے لاحقے وغیرہ عدم مانوسیت کا شکار نہیں ہوءے۔ اس سے اس امر کا بخوبی  اندازہ  لگایا جا سکتا  ہے کہ فارسی روح و جسم کے حوالہ سے کتنی توانا ہے اور برصغیر والے فکری اور ثقافتی سطع پر  اہل  فارس  سے کتنا  قریب  ہیں۔ اس ناچیز مضمون میں چند زبانوں اور بولیوں پر فارسی کے اثرات کے حوالہ سے چند معروضات پیش کی گئ ہیں۔ یقین ہے اہل دانش حضرات بات کو آگے بڑھانے کی ضرورت کو نظرانداز نہیں کریں گے۔

ارود

١۔ ان گنت فارسی الفاظ اپنی اصل اشکال‘ اصل اور دیسی مفاہیم  میں داخل زبان ہو گیے ہیں۔ یہاں ان کی فہرست پیش کرنا مضمون کو محض طوالت دینے کے مترادف ہو گا۔
٢۔ 
فارسی الفاظ کے ساتھ دیسی مصادر جڑ کر ترکیب پانے والے مرکبات محاورے کے درجے پر فاءز ہو گیے ہیں۔ مثلا

آب جانا‘ آب پانا‘ آب چڑھنا‘ آب ملنا آب دینا-ہونا‘ آباد کرنا‘ آبرو اترنا‘ آبرو بچانا‘ بخت کھلنا‘ برق ٹوٹنا‘ بغل  بجانا‘ برابر ہونا‘ بند بندھنا‘ بند لگانا‘ بات بنانا-بگڑنا-بڑھنا- بات سبک ہونا-بات رفت گزشت ہونا‘ پناہ دینا‘ پناہ مانگنا‘ پناہ میں آنا‘ پامال کرنا‘ پامال ہونا‘ پاک کرنا‘ پست کرنا‘ پست ہونا‘ پلک جھپکنا‘ پلک مارنا‘  پریوں کا اترنا‘ تباہ کرنا‘ تباہ ہونا‘ تخت اٹھنا‘ یہ تو چند مرکبات ہیں جو محاورہ بن چکے ہیں ورنہ ان کی تعداد سیکڑوں پر محیط ہے۔  

٣۔ اردواءے  گیے مصادر بکثرت استعمال ہوتے ہیں۔ مثلا آزمانا‘ بخشنا‘ تراشنا‘ فرمانا

٤۔ فارسی الفاظ کے ساتھ عربی سے اردواءے گیے مصادر کا استعمال ملتا ہے۔ مثلا آواز بدلنا  وغیرہ

٥۔ بہت سے عربی فارسی اور اردو سے ترکیب پانے والے مرکبات اردو کا محاورہ بن چکے ہیں۔ مثلا امید قطع کرنا‘ بغل میں ایمان دبانا‘ جان عذاب میں پڑنا‘ جامہ قطع کرنا‘ جان بحق ہونا‘ جو جو کا حساب لینا وغیرہ

٦۔ ان گنت مختلف قسم کے مرکبات اور تراکیب اردو میں راءج اور مانوس چلی آتی ہیں۔ مثلا
رنگ روپ‘ رنگ اور روپ- رنگ ڈھنگ‘ رنگ اور ڈھنگ-
آب آخرت‘ آب بقا‘ آب حرام‘ آب حیات‘ آب رحمت‘ آب زمزم
بار خاطر‘ بار رحمت‘ تپ غم‘ آفت جان‘  پیرفلک‘ پیر طریقت‘ اندرون ملک‘ بذات خود
جاہءاحرام‘ پردہءرحمت‘ پردہءغیب‘ پردہءظلمت‘ بلاءےءجان
آب و تاب‘ تاج و تخت‘ جان و مال‘ جسم و جان‘ سود و زیاں‘ سیاہ و سفید‘ شب و روز
آسمانی آفت‘ آسودہ حال‘ خدا تعالی‘ الله بخشے‘غلط انداز
الله میاں‘ تلخ جواب‘  بسااوقات‘ بلند حوصلہ‘ بلند قامت‘ پاک محبت‘ دعوی باز
بہشتی زیور‘ بخت جلی‘ پختہ بات‘ پاک صاف‘  باد صبا‘ باد مخالف‘ تنگ ظرف
آزاد کا سوٹا‘ آستین کا سانپ‘ پرستان کا عالم‘ پری کا سایہ‘ پری کا ٹکڑا‘ بہشت کا جانور‘ بہشت کا میوہ‘ بغل کا  دشمن‘ جان کا جنجال‘ آمدنی کا موسم‘ جان کا بیری
الله کی شان‘ چرخ کی پوجا-چرخ پوجا‘ جگر کی چوٹ‘ جان کی امان-جی کی امان‘ تخت کی رات
تلوار کا سبزہ‘ جھوٹ کا دفتر‘ چپ کا روزہ‘ جگر کا ٹکڑا‘ برابر کا جواب
تلوار کے جوہر‘ الله کے مست‘ جان کے بیری‘ جان  کے دشمن
بندہءآزاد‘ بندہءبشر‘ بندہءبےدام‘ بندہءناچیز‘ بندہءدرگاہبندہ نواز‘ بندہ پرور

جان سے عزیز‘ جان سے دور‘ تپاک سے ملنا‘ جان سے پیارا
جونٹیوں بھرا کباب‘ جوبھر‘ گنج بھرا‘ رنگ بے رنگ‘ رنگ میں بھنگ‘ رنگ رنگیلا
فارسی سابقوں لاحقوں کا بکثرت استعمال ملتا ہے۔ مثلا
تجربہ کار‘ اہل کار‘ بدکار‘ بےکار‘ خودکار‘ کارآمد‘ کارگر‘ کارگزار
بدتمیز‘ بدچلن‘ بدخو‘ بدحواس‘ بدنما‘ بددماغ‘ بدقماش‘ بدنیت
برحق برخلاف‘ برطرف‘ برعکس‘ برقرار‘ بروقت
بےآب‘ بےآبرو‘ بےادب‘ بےبرگ‘  بےچین‘ بےدرد ‘بےلحاظ‘ بےنماز
اہل جہان‘ اہل خانہ‘ اہل چمن‘ اہل سخن‘ بےنماز
تاابد‘ تاحال‘ تادیر‘ تاقیامت
صبح تا شام‘ قصور تا لاہور
تعزیہ دار‘ تکیہ دار‘ جمع دار‘ جوڑدار‘ جوت دار‘ جہاں دار‘ طرف دار
بزم آرا‘ جلوہ آرا‘ جہاں آرا‘ خود آرا‘ حاشیہ آرا‘ خودآرا‘ صف آرا‘ انجمن آرا   
جرات آزما‘ حسن آزما‘ خود آزما‘ طالع آزما‘ صبر آزما‘ قسمت آزما‘ ہمت آزما
جدت طراز-طرازی‘ سخن طراز-طرازی
الفت نامہ‘ اقرار نامہ‘ بیع نامہ‘ تعزت نامہ‘ محبت نامہ
نیم جان‘ نیم چڑھا‘ نیم حکیم‘  نیم رخ‘ نیم راضی‘ نیم گرم‘ نیم وا
بساط خانہ‘ پیرخانہ‘ شراب خانہ‘ غریب خانہ‘ مہمان خانہ
تہ بند‘ تلوار بند‘ کمر بند‘ گلو بند
آرام گاہ‘ جلسہ گاہ‘ جلوہ گاہ‘ گاہ بہ گاہ‘ جناز گاہ‘  شرم گاہ‘ عید گاہ
پاک باز‘ پھپٹ باز‘ پھڈے باز‘ جگت باز‘ چال باز
حاشیہ بردار‘ مال بردار
جلوہ افروز‘ عالم افروز
خدمت گزار‘ درخواست گزار‘ عبادت گزار
بازی گر‘ خو گر‘ جلوہ گر‘ چارہ گر‘ 
طلب گار‘ خدمت گار
حاضر باش‘ شب باش
حیرت کدہ‘ راحت کدہ‘ غم کدہ‘ صنم کدہ‘ میکدہ
احسان مند‘ حاجت مند‘  دانش مند‘ دولت مند‘ سعادت مند‘ ضرورت مند
حاجت برار
حاجت روا‘ فرما روا
روا دار‘ روا رکھنا
حاجت خواہ
خواہ مخواہ‘ خیرخواہ
بہتان تراش‘ پنسل تراش‘ قلم تراش‘ زلف تراش
ثابت شدہ‘ تمام شدہ‘ حاصل شدہ‘ ختم شدہ‘ قاءم شدہ
بدتر‘ برتر‘ تمام تر‘ کم تر‘ زیادہ تر
تردامن‘ تر دماغ
باایمان‘ باتصریح‘ باجماعت‘ باخبر‘ باخیر-بخیر‘  بانصیب‘ باہمت
احسان شناس‘ حرف شناس‘ روشناس‘ حسن شناس‘ قدر شناس
احسان فروش‘ سبزی فروش‘ گل فروش
تماش بین
حواس باختہ‘ رنگ بافتہ
پاکستان‘ پرستان‘ تاکستان‘ قبرستان‘ گلستان
بن دام‘ بن تیرے
جہاں پناہ‘ دین پناہ
غرض بہت سے سابقے لاحقے آج بھی برصغیر کی ہر ولایت کی اردو میں مستعمل  ہیں۔
٧۔  فارسی الفاظ کی اردو کے لسانی نظام کے مطابق جمعیں بنائ جاتی ہیں۔ مثلا
بزم آراءیاں‘ پریاں
آہیں‘ پلکیں‘ پناہں‘ راہیں‘ گرہیں
آبلوں‘ باغوں‘ چراغوں‘ داموں‘  درویشوں‘ پیروں‘ مردوں‘ پیمانوں
٨۔ ناصرف فارسی تلمیحات اردو میں منتقل ہوئ ہیں بلکہ کئ تلمحات فارسی الفاظ سے ترکیب پائ ہیں۔ یہ

رویہ آج  بھی موجود ہے۔ مثلا

آب زمزم‘  آب خضر‘ آتش نمرود‘ آدم خاکی‘ باغ ارم‘  باغ شداد‘ بہشت شداد‘ پیرکنعان‘ چاہ یوسف‘ چاہ رستم
٩۔ اردو ضرب المثال میں فارسی الفاظ کی کمی نہیں۔ مثلا
الله دے بندہ لے‘ اول خویش بعد درویش‘ تمہاری راہ یہ ہماری راہ وہ‘ جان ہے تو جہان ہے‘ جان کی جان گئ ایمان کا ایمان گیا‘ چونٹی کی آواز عرش پر‘ جیسی روح ویسے فرشتے‘ خدا کی باتیں خدا جانے‘ سمندر کیا جانے دوزخ کا عذاب‘ آپ زندہ جہان زندہ‘ آپ مردہ جہان مردہ
٠۔ جدید شاعری سے چند مصرعے درج ہیں۔  اس سے بخوبی اندازہ ہو جاءے گا کہ اردو میں فارسی کی کیا پوزیشن ہے:

یہ تو شہر الم کے باب پر اب بھی لکھا ہے
دشت بلا میں کچلے گءے تھے
لوح جہاں کے اک مقتل میں زبح ہوا تھا
محسن انسان کی شہزادی

بنت محمد‘
سید طارق مسعود‘ سہ ماہی پیغام آشنا اسلام آباد شمارہ 31 ‘ اکتوبر 2007

براہوی


بےشمار فارسی الفاظ اپنی اصل اشکال کے ساتھ براہوی زبان کے ذخیرہءالفاظ میں داخل ہو  گیے ہیں۔ مثلا
آبریشم‘ آرام‘ آسمان‘ آواز‘ آوارہ‘ارمان‘  بادشاہ‘ بال‘ بربادی‘ بندہ‘ پیدا‘ پیش‘ پناہ‘ پسند‘ پیغام‘ پیغمبر‘ پیادہ‘ تباہ‘ جادو‘ جدائ‘ چراغ‘ چمن‘ خدا‘ خدائ‘ خمار‘ خوش‘ دیدار‘ دروازہ‘ دیر‘ دشمن‘ دوست‘ درد‘ دیوانہ‘ دغا‘ رخسار‘ روشن‘ زار زار‘ زندہ‘ زیبا‘ سوز‘ سوسن سینہ‘ سیاہ‘ شرمندہ‘ شیوہ‘ فریاد‘ کوچہ‘ گل‘ گمان‘ گناہ‘ گوش‘ لالہ‘ لعل‘ مرغ‘ نگاہ‘ ناز‘ ویران وغیرہ
فارسی سابقے اور لاحقے بھی استعمال میں آتے ہیں۔ متلا
بےپناہ‘ بیگانا‘ داغدار‘ دلبر‘ دلربا‘ دلربائ‘ دوستخوا‘ رہبر‘ گلزار‘ مورچہ بند‘ میخانہ., بےزار

مختلف مرکبات نے براہوی زبان کو ثروت بخشی ہے۔ مثلا
گل گلاب
خوش خبر‘ پاک پیغمبر‘ دلبر نازنین‘ دوستانن بیزار‘ سیاہ بختا‘ صحرائ درویش‘عجب نا حسن‘  فریاد پارغا‘ محبوب نا حسن
داغے جدائ‘ تپ خلق‘خزان غم‘ گل لالہ‘ صلاح جنگ
اسلام ء کار‘ بلبل ء بربادہ‘ بندہ ء سنگت۔‘ بیابانءدشت‘ تخت ء کار‘ خوشحالءحالت‘ دوستی ء پھل‘ راز ء  پبہ‘ سیال ء جنگ‘ سیلءچمن‘ مرد ء باز‘ مردم ء قدر
پیروپخییر جان و حضر‘ خوش رنگ و زیبا‘ خواروخراب‘ خواروخرابو‘  چنگ و رباب‘ شاد و بادا‘ ظلم و زیاتی

بلوچی


بلوچی‘ فارسی کے پہلو بہ پہلو پروان چڑھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فارسی کے سیکڑوں الفاظ کسی ناکسی شکل میں اور بلوچی کے لسانی سیٹ اپ کے مطابق آج بھی بلوچی زبان میں موجود ہیں۔ یہاں چند الفاظ بطور نمونہ درج ہیں:

آرام‘  آزاد‘ ابریشم‘ ارمان‘بادشاہ‘ بازار‘ بالین‘ برباد‘برباد‘ بہار‘ پابند‘ پاءےبند‘ پسند‘ پریشان بشت‘  پست‘ پیچاں‘ پیری‘ پیش‘ تنہا‘ جان‘ چراغ‘ خاک‘ خاکی‘ درد‘ دروازہ‘ دست‘ دفتر‘ دل‘ دلیر‘ دید‘ راست‘ راستی‘ راہ‘ رسید‘ رنگ‘ زحمت‘ زخمی‘ زنداں‘ زنگ زندگی زہر‘ زیب‘ ساز‘ سبز‘  سست‘ شاباش‘ شکر‘ شما‘ شمار‘ شور‘ کرم‘ کمک‘ گل‘ گمان‘ گلابی‘ مہر‘مایوس‘ مردم‘ مستی‘ ماہی‘ نیست‘ ناز‘ نازنین‘ نان‘ نیام‘ نماز‘ نمازی‘ من‘ ما‘ ہزار‘ یک‘ یکی وغیرہ

اب تبدیلی مفاہیم کی صورت ملاحظہ ہو:
آزار            ناراض‘ ناخوش
دوست         مزا‘ لطف
درمان          روا
کرم             مچھر
ہستی          شرارت


اب  تبدیلی اشکال  کے  دو چار نمونے  ملاحظہ ہوں:
بات             باد               
دروگ          دروغ
شپ             شب
گرک           کرگ

اب سابقوں لاحقوں کا استعمال ملاحظہ ہو:
نیم جسما‘ نیم گھنٹہ
کم عمر‘ کم تر
بےقرار بےگناہ‘ بےآرام‘ بےہوش
باززیات (بہت زیادہ)                             
شرمسار
زندہ بات (باد)
دست پوش (دستانے)
منت دار (شکریہ)
مہمان خانہ  (ہوٹل)
خدمت گار
دست بند
غم گین

بلوچی میں فارسی آمیز مرکبات کی کمی نہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
تیزآپ (تیزاب) ‘ تیز رنگ‘ جان سلامتی‘ حامگین رنگ‘ یک مردمی‘ دل جم
یک برے پدا (ایک مرتبہ پھر)‘ خدانگاوان (خدا نگاہ بان)‘ طلاق گپتگین مرد (طلاق شدہ مرد)
نیم روچہ تئ‘ شپ پہ خیر
گلءے معنی‘ شیر ء مزار‘ دلءکوارا‘
کارءزگمت‘ چک دست‘ پھل وگلاب‘ محبوب جانی‘ مہرءکتابے‘ دلءکتابے

فارسی لفظ آفتاب کو مولوی عبدالحق نے آفت اور تاب کا مجموعہ قرار دیا ہے۔ آف  بلوچی لفظ ہے ممکن ہے آب کی تبدیل شدہ شکل ہو۔ آفتاوا لفظ  بھی سننے میں آتا ہے۔  خیر یہ الگ سے بحث اور تحقیق طلب معاملہ ہے

پشتو


پشتو چالیس  بنیادی آوازوں پر مشتمل زبان ہے۔ چار آوازیں اس کی ذاتی آوازیں ہیں۔ ان چار آوازوں کی سانجھ کسی زبان سے نہیں اور یہ امتیاز صرف پشتو ہی کو حاصل ہے۔ مختلف قسم کے سابقے اور لاحقے ملتے ہیں۔ مرکب الفاظ اور بہت قسم کے مرکبات اس زبان میں دستیاب ہیں۔ ساری باتیں چھوڑیے   یہ رحمان بابا کی زبان ہے اور یہ بلاشبہ بڑے اعزاز کی بات  ہے۔

 رحمان بابا صوفی شاعر ہی نہیں اپنے وقت کی بےباک آواز بھی تھے۔ اگر اس عہد کی  سچی اور ہوبہو تصویر دیکھنا مقصود ہو تو رحمان بابا کی شاعری کا مطالعہ  کریں۔ دیگر زبانوں کی طرح پشتو نے بھی فارسی سے سو طرح کے لسانی اثرات قبولے ہیں۔ قدیم تو قدیم جدید پشتو میں بہت الفاظ پڑھنے سننے کو ملتے ہیں ۔ مثلا

آزاد‘ آزادی‘ آسمان‘ آسمانی‘  آوارہ‘ ارمان‘ بادشاہ‘ بت؛ برباد‘ بیابان‘ بیخ‘ پتہ‘ پریشان‘ پیر پیش‘ پیغمبر‘ پیغمبری‘  تخت‘ تیر‘ جام‘ جاناں‘ چاقو‘ خاموشی چراغاں‘ چمن‘ خار‘ خدا‘ خدائ‘ خر‘ خور (خواہر) ‘خندا- خندہ‘ درد‘ دروازہ‘ دغا‘ دیر‘ رنگین‘ زلف‘ زور‘ ستم‘ سراسر‘ سبز‘ سوز‘ غم‘ فراق‘ گراں‘ مزدور‘ مستی‘  ناز‘ نازہ‘ نیستان‘ ویران‘ یار

کچھ مرکب الفاظ ملاحظہ ہوں:
خاکروب‘ خوشبو‘ خوشحال‘ رخسار‘ شبنم‘ شھزادہ‘ گلستان

دو معروف سابقےملاحظہ ہوں؛
کم زور‘ ہم درد
 
اشکالی تبدیلی کے ساتھ بہت سے فارسی الفاظ پشتو کے ذخیرہءالفاظ میں داخل ہوءے  ہیں۔  مثلا
باغوانہ(باغبان عورت)‘ خاءستہ(آراستہ)‘ خرہ(گدھی)‘ خورل(خوردن) ‘خورو(کھاءیں گے)‘ خوری( کھاؤ گے)‘ دیوال(دیوار)‘ ذحمن(دشمن)‘ ذوان(جوان)‘ رنز(رنج)‘ رنزور(رنجور)‘ زناور(جانور)‘ شپہ( شب)‘ شیش(شست)

پنجابی میں بھی ر کا تبادل  ل ہے۔ جیسے پروفیسر سے پروفیسل
پنجابی‘ راجستانی‘ سراءیکی‘ گوجری‘  میواتی وغیرہ میں ذ ز ض کا  تبادل ج  سننے کو ملتا ہے۔

فارسی الفاظ  سے پشتو کے لسانی سیٹ اپ کے مطابق  مصادر  تشکیل پاءے ہیں۔ مثلا
 خندکول(خندہ ہونا)‘ خورل(کھانا)‘ شرمول(شرم آنا)‘ شرمیدل(شرمندہ ہونا)
فارسی الفاظ سے تشکیل پانے والے مصادر کی ہرچند کمی نہیں۔ مثلا
پریشانہ کول(پریشان کرنا)‘ چاپول(چھپوانا)‘ خوشامدےکول‘ زہرورکول(زہر دینا)‘ سزاورکول‘ سوزکول(کسی چیز کا جلانا)‘ قسم خورل(قسم کھانا)

فارسی الفاظ سے کئ طرح کے پشتو مرکبات تشکیل پاءے ہیں۔ مثلا
پیش نمے( سحری کا وقت)‘ خوش قسمتہ‘ شپہ تورہ(کالی رات)‘ ملابانگ(صبح کی اذان)‘ نیم شپہ(نیم شب)

روزمرہ میں فارسی کا عمل دخل پوری شدت سے موجود ہے۔ مثلا
باران ویگی(بارش ہوتی)‘ خداءے د برکت زیات کردہ‘ کار خلاص شوے دے(کام ختم ہو  چکا)‘ لاچی گراں دی

بہت سے فارسی الفاظ تبدیلی مفاہیم کے ساتھ پشتو میں داخل ہوءے ہیں۔ مثلا
پیر(مرشد)‘ تیغ(بنیاد)‘ رنز(بیماری)‘ رنزور(بیمار)

پشتو محاورات اور ضرب المثل میں فارسی الفاظ داخل  ہو گیے  ہیں۔ مثلا
شنہءباغونہ بنودل (سبز باغ دکھانا)دے بخت کاسہءنسکوریدل‘ دا سے کارکول چہ سیخ سوزی نہ کباب وغیرہ

پنجابی


پنجابی ارض پنجاب کی زبان ہے۔ مشرقی پنجاب میں گرومکھی جبکہ مغربی پنجاب میں فارسی الخط راءج ہے۔ سمجھنے اور بولنے میں تقریبا ایک ہے ہاں لکھنے پڑھنے میں الگ ہے۔ رابطے کے لیے رومن خط سے کام چلایا جاتا ہے۔ اردو اور اس زبان کے تین خط مستعمل ہیں۔ اس زبان کے تعارف کے لیے صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ یہ شاہ حسین‘ گرو نانک دیو بلھے شاہ اور ورث شاہ کی زبان ہے۔

برصغیر کی دوسری زبانوں کی طرح اس تین خطی ڑبان  نے بھی فارسی سے لسانی اثرات قبول کیے۔ بےشمار فارسی الفاظ اس زبان میں داخل ہوءے ہیں۔ بطور نمونہ چند ایک ملاحظہ ہوں:

 آب‘ آبی‘ آزاد‘ آزار‘ آسمان‘ آرام‘ آرزو‘ بت‘ باد‘ باغ‘ بخشش بلبل‘ بیابان‘ پاک‘پاکی پیش‘ پیغام‘ تاج تپ‘ تخت‘ جا‘ جان‘ جانی‘ جگر‘ چین‘ چراغ‘ خاک‘ خاکی‘ خورشید‘ خون‘ درگاہ دشت‘ دل‘ دلبر‘ دفتر‘ دیوانا‘ راہ‘ راہی‘ رستہ‘ زاری‘ سوز‘ سوزش‘ شاہ رگ‘ شب‘ شبنم‘ شتر‘ شور‘غازی‘ گلزار‘گلکاری‘ گناہ‘ مخمور‘ مست‘ مستی‘ نماز‘ نمازی‘ نیاز

اکثر پنجابی مثنویوں کے عنوانات بلکہ ضمنی عنوانات بھی فارسی میں ہیں، اس کے لیے میاں محمد بخش کی قصہ سفرالعشق اور مولوی غلام رسول عالپوری کی مثنوی  یوسف زلیخا کو بطور مثال لیا جا سکتا ہے۔
   
فارسی آمیز مرکبات کی پنجابی میں کمی نہیں۔ مثلا

فیض بخش‘ کیف خمار‘ جام صراحی‘ گرد غبار‘ خوش چینی‘ ناز پرستی‘  آب حیاتی‘ دریاؤ آتش‘ تیر کمان‘ پشت پناہ‘ تخت ہزارہ‘ خویش قبیلہ‘ پاک نظر‘ مشل  راہ‘ وہم گمان‘ نرمل درد‘ ابرو تیغ‘ باغ بہاراں‘ پیر پیغمر‘ پیر فقیر

فارسی آمیز مرکبات کی پنجابی میں کمی نہیں۔ مثلا

فارسی آمیز مرکبات کی پنجابی میں کمی نہیں۔ مثلا

آب حیاتی‘ ابرو تیغ‘ باغ بہاراں‘ پاک نظر‘ پیر پیغمر‘ پیر فقیر‘ پشت پناہ‘  تخت ہزارہ‘ تیر کمان‘  جام صراحی‘ خوش چینی‘  خویش  قبیلہ‘  دریاؤ آتش‘ فیض بخش‘ کیف خمار‘ گرد وغبار‘   مشل  راہ‘ ناز پرستی‘  نرمل درد‘  وہم گمان

آتش دا دریا‘ ابرو تیغ‘ اسپ نگاہ دے‘ باغباناں دے بوٹے‘ بن درد ماہی‘ پیچ زلفاں دے‘ تیغ دے دھنی‘ خاک نہ نندءے‘ روح نہ جان‘ شیشہ تے جام‘ طور دی آتش‘ لعلاں دے ونجانے‘ متھے اوپر داغ‘ نظر دے تیر‘ وانگ سیخ کباب‘ ہو دا جامہ

کہراہ( کو راہ)‘ پنج آب‘ مہ تاب

پنجابی لسانی سسٹم کے مطابق  جمع  بنائ جاتی ہے۔ مثلا

آہ سے آہاں‘ ہاواں
اسپ سے  اسپاں
اسیر سے اسیراں
بہشت سے بہشتاں
پناہ سے پناواں
پیر سے پیراں
تیر سے تیراں
خوشی سے خوشیاں  
درد مند سے دردمنداں
زنجیر سے زنجیراں
راہ سے راہواں- راواں
گناہ سے گناہاں
لنگر سے لنگراں
لاچار سے لاچاراں
لالہ زار سے لالہ زاراں

سابقوں لاحقوں کا عام رواج ہے۔ مثلا

بےپناہ‘  بےچارہ‘ بےغم‘ بےگناہ 
ارشاد نامہ‘ خیریت نامہ‘ محبت نامہ
آوازار‘ لالہ زار
بندی خانہ‘ مےخانہ
تہبند-تہہمند‘ گلوبند
بخشنہار
خونخوار
خوب نگر
خوشوئ

ایران کے شہروں کے نام بکثرت پنجابی شاعری میں ملتے ہیں،

فارسی الفاظ کو پنجابی رنگ دینے کا عام  عام رواج ملتا ہے۔ مثلا
چمکن۔ صفنا صفا‘ مشکی  وغیرہ

 

پوٹھوہاری


پوٹھوہاری کو پنجابی کا لہجہ قرار دیا جاتا ہے۔ میاں محمد  بخش کی مثنوی قصہ سفرالعشق پنجابی ادب  میں داخل ہے اور اس پر اچھا خاصا پنجابی والوں کے ہاں تحقیقی کام ہوا ہے۔ پنجاب کے دوسرے علاقوں کے لوگوں کا پنڈی جہلم دینہ وغیرہ جانا ہوتا رہتا ہے۔ وہ لہجہ  اور انداز تکلم کے مختلف ہونے کے باوجود بات کو سمجھ لیتے ہیں۔ کچھ باتوں کی سمجھ نہیں آتی‘ کیوں؟
آوازوں کے نظام میں فرق موجود ہے۔ یہ معاملہ میرے موضوع  سے غیرمتعلق ہے۔ اسے کسی دوسرے وقت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔

فارسی نے پوٹھوہاری پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ بہت سارے الفاظ بلا اشکالی تبدیلی‘ اس میں داخل ہو گیے ہیں۔ مثلا
اندر‘ آب‘ آفتاب‘ بت‘ بازار‘ بستہ‘ باغ‘ بندوبست‘ بہار‘ بری‘ پیر‘ تنگ‘ تنگی‘ تنہائ‘ جام‘ جان‘ جاناں‘ جگر‘ چراغ‘ چراغاں‘ خوان‘ خدا‘ خدائ‘ خوش‘ خوشبو‘ دربار‘ درگاہ‘ دشمن‘ دل‘ سرکار‘ سنگ (پتھر‘ ساتھ ہمراہ دونوں معنوں میں مستعمل ہے۔ سنگی ساتھی کے معنوں  میں اکثر سننے کو ملتا ہے۔ بالکل اسی طرح گراں سے گرایں ترکیب پایا ہے۔)‘ شیشہ‘ کار (کار سے کارا ترکیب پایا ہے۔ بمعنی وعدہ‘ کام‘ طور‘ طریقہ‘ چالا)

اب کچھ مرکبات ملاحظہ ہوں:
اندر باہر‘ ادھ راہ‘ پرزے پرزے‘ تیر سیدھا‘ تیز بخار‘ تنگی ترسی‘ تنگی سختی‘ جناں پریاں
اب ایک  دو سابقوں لاحقوں کا استعمال دیکھیے:
بےشمار‘ بےہوش
خاکسار
صوبیدار

کچھ جمعیں ملاحظہ  فرماءیں:
باغاں‘ پیراں‘ دلاں‘  زلفاں
پریاں‘ تاریکیاں‘ روشنیاں
خشبواں‘ خوشبواں

                                                                                       


سراءیکی



سراءیکی کو  بھی پنجابی کا لہجہ سمجھا جاتا ہے۔ بابا فرید کا کلام پنجابی ادب میں شامل ہے اور اس پر اچھا خاصا ٹحقیقی کام ہوا ہے۔ یہ بات بالکل ایسی ہی ہے جیسے باباءے اردو نے رسم الخط سے دھوکہ کھا کر دکنی کو اردو قرار دے دیا۔ بہرطور آوازوں کے سسٹم میں فرق موجود ہے۔ برصغیر کی دوسری ڑبانوں کی طرح سراءیکی نے بھی فارسی سے مختلف نوعیت کے لسانی اثرات قبول کیے ہیں۔
بہت سارے فارسی الفاظ سراءیکی میں داخل ہو  گیے ہیں۔ مثلا
آرام‘  آواز‘ آوارہ‘ آسمان‘ افسوس‘ بادشاہ بند‘ بندی‘تیر‘ جدا‘ جدائ‘ چراغ‘ چہرہ‘ خدا‘ خدائ‘ خوش‘ خوشی‘ دار‘ در‘ درد‘ دروازہ‘ دریا‘ دشمن‘  رخ‘ رشتہ‘ زمانہ‘ سخت‘ سرشار‘ سینہ‘ شاہ‘ فرشتہ‘ فریب‘ قلندر وغیرہ

تبدیلی اشکال کے  ساتھ بہت  سے الفاظ  سراءیکی  میں داخل ہو  گیے ہیں۔ مثلا
بخشیا‘ خشبو‘ خشی‘ شبرات (شب برات)‘ دوانا(دیوانہ)

سراءیکی میں نءے الفاظ بنانے کا عام رجحان بلکہ رویہ ہے۔  مثلا
بخشنہار‘ بروبر(برابر)‘ رنجان-رنجانا(رنجیدہ ہونا)‘ رنجانتے‘ رنگی‘ وند(مند)

سراءیکی میں فارسی الفاظ سے مصادر بناءے گیے ہیں۔  مثلا
آزمان-ازماون‘ رنجاون‘ نوازن وغیرہ

سابقوں  لاحقوں کی جوڑ توڑ سے بھی الفاظ بنانے کا عام رجحان ہے۔ مثلا
آس وند‘ رضاوند
بختاور-بختور
دنیادار
بکار(بےکار)‘ پھٹکار
خیرخدا
کم بخت- کم بختا
چغل خور

فارسی مرکبات کے تراجم بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ مثلا
بابے موئ(پدر مدہ)

بہت سے فارسی آمیز مرکبات پڑھنے سننے کو ملتے ہیں۔ مثلا
انگ ازاری‘ بختاں  پٹی‘ پھلے رنگ‘ تپ دا مارا‘ چوکھا رنگ‘ چہرے دا موسم‘ زخم جگر دے‘ فکر فراق‘
 گلشن توں نکھڑے‘ ہجر دی سانگ

بہت  سے محاورے فارسی الفاظ سے تشکیل پاءے ہیں۔ مثلا

آب دیندی‘ آب لہن‘ آہیں چشماں‘ آہین لاہین‘ اسمان چڑھن‘ اسمان تے چڑھاون‘ اسمان تے تھکان مارن‘ امیدواری تھیون‘ بازی جتن‘ بازی لاون‘ بازی ہارن‘ بانگ ڈیون(اعلان  کرنا‘ علم میں لانا)‘ بخت پاسے تھیوون‘ بخت  کھلن‘ بخت کنارہ کرن‘ بے در کرن(ذلیل وخوار کرن)‘ پیداکرن‘ تپ چڑھن‘ تپ ونجن‘ تیر چلاون‘ تختے پٹن‘ تیر مارن‘ جان کوں پٹن‘ جان کوں روون‘ جان  کوں کھاون‘ خاک تھیون وغیرہ 

دیسی طریقہ سے جمیں بنائ جاتی ہیں۔ مثلا
اسماناں‘ اہیں‘ چشمیاں‘ چغلخوراں‘ خیشاں‘ خیشیاں‘ دشمنیاں‘ شوقاں‘ ہجراں



سندھی

سندھ انسان اور انسانی تہذیب کی دھرتی ہے۔ اس نے حالات کے ان گنت موسم دیکھے ہیں۔ اس کی آنکھوں میں مسکراہٹ کے گلاب کم اشکوں کی برسات زیادہ رہی ہے۔ قدیم اور جدید سندھی شاعری نے ہر دو موسموں کو مرواریدی لفظوں سے قلمبند کیا ہے۔ یہاں بیرونی ولاءتوں سے بہت آءے انہوں نے جہاں اپنے تہذیبی اثرات چھوڑے وہاں لسانی اثرات بھی سندھی پر مرتب کیے تاہم عربی فارسی  ان میں انفرادیت کی حامل ہیں۔ آج عربی اور فارسی والوں کے دور تک نشان باقی نہیں ہیں اس کے  باوجود ان کی زبانوں کے اثرات آج بھی ختم نہیں ہوءے۔

بہت سے فارسی الفاظ سندھی کے ذخیرہ الفاظ میں داخل ہیں۔ مثلا
اندر‘ پاک‘  پری‘ تابش‘ جام‘ جاناں‘ چشم‘ خوب‘  دل‘ دوست‘ رنگ‘ زندگی‘ شب‘ ویران 

کچھ الفاظ اشکالی تبدیلی کے حوالہ سے ملاحظہ ہوں:
بخشوائ‘ خوشیون‘ رگو‘ زخمن

مرکب اور سابقوں لاحقوں سے ترکیب پانے والے الفاظ ملاحظہ ہوں:
آسمند‘ اشکباری‘ خبردار‘ سوگواری‘ شب غم‘ شبنم‘ ہمدردی 

بہت سے فارسی الفاظ سندھی کے ذخیرہ الفاظ میں داخل ہیں۔ مثلا
اندر‘ پاک‘  پری‘ تابش‘ جام‘ جاناں‘ چشم‘ خوب‘  دل‘ دوست‘ رنگ‘ زندگی‘ شب‘ ویران 

کچھ الفاظ اشکالی تبدیلی کے حوالہ سے ملاحظہ ہوں:
بخشوائ‘ خوشیون‘ رگو‘ زخمن

مرکب اور سابقوں لاحقوں سے ترکیب پانے والے الفاظ ملاحظہ ہوں:
آسمند‘ اشکباری‘ خبردار‘ سوگواری‘ شب غم شبنم‘ ہمدردی 

اب جدید سندھی شاعری میں سے چند مثالیں ملاحظہ ہوں اس سے بخوبی اندازہ ہو جاءے گا کہ سندھی نے آج  بھی فارسی سے  کنارہ کشی نہیں کی:
امید و یاس وحسرت جی سھاری تو جیئ              شاکر
اے دل زار کو بہ خوف نہ آہی                           محمد امین فہیم
جیتر وو خوش رہو‘ رہو‘ یارو                         ریاض علی محسن
جلیل آھن سدا مرد خدا زندہ                              جلیل سروری
رشتہءالفت مگر مضبوط‘ مستحکم تیءو             نورجہان شاہین
مظہر صدق و صفا تاجدار ھل آئ توی                  محمد اقبال جسکانی


گوجری 

     
گوجری گجر بولتے ہیں۔ اسے زبان تو نہیں کہا جا سکتا۔ ڈاکٹر صابر آفاقی کا  کلام دستیاب ہوتا ہے۔ اس قوم سے متعلق لوگوں کو لوک گیت وغیرہ کو جمع کرنا چاہیے۔ ذخیرہءالفاظ کے حوالہ سے اسے کسی طرح کمزور قرار نہیں دیا جا سکتا۔

فارسی نے گوجری کو بھی متاثر کیا ہے۔ بہت سارے فارسی الفاظ اس میں داخل ہوءے ہیں۔ مثلا
آب۔آبی‘ آباد۔آبادی‘ آزاد۔آزادی‘ اسمان‘ باغ‘ بازی‘ بت‘ بخشیش‘ بربادی‘ بیکار‘پست‘ پیشہ‘ پیکر‘ پیغام‘
بیگار‘ پست‘ پیشہ‘ پیکر‘ پیغام‘  جاءے (جا سے)‘ جہاں‘ چاک‘ خوش‘ دریا‘  دشمن‘ ددر‘ دریا‘ راز‘ رسوا‘ رشتہ‘ رہبر‘ زہر‘ سست‘ سستی‘ شیر‘ گفتار‘ گناہ‘ گوہر‘ مرد وغیرہ


تبدیلی اشکال کے ساتھ بھی بہت سے الفاظ گوجری کا حصہ بنے ہیں۔ مثلا
آءنو‘ رشتو‘ فرشتو‘ کمینو‘ نخرو
ہ کا  و تبادل  میواتی‘ راجستانی وغیرہ میں بھی ملتا  ہے۔

سابقے لاحقے بھی بکثرت استعمال  میں آتے ہیں۔  مثلا
بیکار‘ شہکار‘ فنکار
بےجان‘ بےچارہ(بےچارو)‘ بےہوش‘ بےہوشی
لاچار
مقدمےباز
خوش اخلاق‘ خوش اخلاقی‘ خوش بخت‘ خوش بین‘  خوش خبری‘ خوشحال‘ خوشحالی
دوراندیش
غم  انگیز
الفت بخش

مختلف فارسی  آمیز مرکبات سننے کو ملتے ہیں۔ مثلا
تگڑو تیز‘ چپ گناہو‘ سبزیں تڑکو(تڑکے والی سبزی)‘ سجرا باغ
خوشحالی کی بات‘ رشتہ کی بنیاد‘ منداں کی اشنائ‘ نیچاں کی اشنائ
خوشی کو گیت‘ خوشحالی کو باب‘ علم  کو دشمن‘سینے کو زخم
آبو تاب
مرداں الی بات
بختاں ماری
درد بدھانا
تن لاغر

 

ہندکو   


ہندکو ایبٹ آباد مانسہرا‘ ہری پور‘ ہزارہ وغیرہ علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ اس کی کوئ قابل ذکر کتاب مارکیٹ میں نظر نہیں آئ۔ لوک گیت جو مختلف  قسم کی رسوم میں  سننے کو ملتے ہیں۔ ان میں  بلا کی  مٹھاس پائ جاتی ہے۔ اظہار میں کہیں  رکاوٹ یا ٹھہراؤ دیکھنے میں نہیں آیا۔ یہ جہاں پوٹھوہاری سے متاثر ہے وہاں عربی فارسی کے بھی  گہرے اثرات ملتے ہیں۔ فارسی کے حوالہ سے چند الفاظ ملاحظہ ہوں۔  
آواز‘ اندر‘ پری‘ پیر‘ جان‘ جانی‘ جدا‘ جدائ‘ خواب‘ دل‘ راہ‘ رخ‘ روز‘ زخم‘ زندگی‘ شوخ‘ شوخی‘ گم‘ گوہر‘ نظارہ‘ یار‘ یاد
لاچار
شوخا

جمعیں
 پریاں‘ جاناں بمعنی جانیں‘ جداءیاں‘ شوخیاں‘ کنارے‘ نظارے

کچھ مرکبات بھی ملاحظہ فرما لیں:
بہشت نظارے‘ خانہ خراب‘ دل دا جانی‘ روز حشر۔ دیہاڑ قیامت بھی بولتے ہیں۔‘ سمندر کنارہ‘ شوخ جوانی

 


 
فارسی کے اقتدار زور رواج سیاسی اور سماجی بول بالا کو ختم ہوءے مدتیں گزر گیں۔ غیر تو غیر فارسی والوں کےاپنوں کی اپناءیت بھی شداد عصر کی تجوری میں قید ہے اور کسی مچھر کا انتظار کر رہی ہے۔ الله کو اپنی ساری مخلوق عزیز ہے۔ وہ ایک نہ ایک دن مچھر ضرور بھیجے گا۔ اپناءیت کو مکتی ضرور ملے گی۔ منڈیروں پر سجے سر اپنے لہو کا حساب ضرور مانگیں گے۔ اس کڑوی حقیقت کے باوجود
ان گنت فارسی الفاظ کسی ناکسی صورت میں زبانوں میں داخل ہیں۔ یہ معاملہ برصغیر تک ہی محدود نہیں دنیا کی دوسری زبانوں میں بھی ان کے لسانی سیٹ اپ کے مطابق داخل ہیں۔ تاہم یہ معاملہ الگ سے تحقیق طلب ہے۔

باور رہنا چاہیے کہ ہر لفظ کا اپنا کلچر ہوتا ہے۔ گویا فارسی والوں کے کلچر میں اتنی جان ہے کہ وہ لسانی حوالہ سے دنیا کی زبانوں میں پوری شد و مد کے ساتھ زندہ ہے۔ ان شاء الله اس حوالہ سے بھی گفتگو کروں گا۔ اسی طرح ان کے الفاظ پیش کروں گا۔ سردست اتنا عرض کرنا مقصود ہے کہ میں نے قدیم کی بجاءے عصری بول چال کو منظر رکھا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فارسی والوں کا کلچر آج بھی اوروں سے کہیں زیادہ دم  خم رکھتا ہے۔

 


Maqsood Hasni

maqsood_hasni@yahoo.com

Sher-e-Rabbani Colony, Kasur

********************

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1716