donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mosharraf Alam Zauqi
Title :
   Qadeem Wa Jadeed Adab Ka Haseen Sangam DD Urdu Chanel


 

قدیم و جدید ادب کا حسین سنگم
 
ڈی ڈی اردو چینل
 
مشرف عالم ذوقی
 
’اردو مر رہی ہے۔‘
’اردو مر چکی ہے۔‘
’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے اٹھے۔‘
آزادی کے بعد کتنی ہی دفعہ یہ آوازیں بلند ہوتی رہیں۔ اردو مرگئی ہے۔ اردو کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ لیکن اردو شان سے زندہ رہی۔ فلموں اور نغموں کی زبان رہی تو کبھی جگجیت سنگھ، پنکج اُدھاس جیسے موسیقاروں کے ہونٹوں سے روشن صبح کی طرح طلوع ہوئی اور ہر خاص و عام تک اپنی مہک اپنی خوشبو لے کر پہنچ گئی۔ لوگ کہتے رہے لیکن اردو آن بان اور شان کے ساتھ مسکراتی رہی۔
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
یہ اردو کا طلسم تھا، یا نشہ تھا کہ اردو ہندستان کے کروڑوں دلوں کی دھڑکن بنی رہی۔ غالب و میر کے ترانے دوسری زبانوں میں تراجم ہو کر اپنی چمک بکھیرتے رہے۔ اردو کا اپنا ایک خوبصورت ماضی رہا ہے۔ اردو ادب کے بیش بہا خزانوں سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے۔ داستانیں ہوں، مثنویاں یا میرو غالب کے اشعار151 منٹو بیدی، عصمت اور کرشن کے افسانے ہوں یا مسز عبد القادر اور حجاب امتیاز علی کے پر اسرار کردار لیلیٰ کے خطوط اور مجنوں کی ڈائری ہوں یا غالب کے انشائیہ نما خطوط۔ عبد اللہ حلیم شرر کی زبان ہو یا ’خوجی‘ جیسا کردار قرۃ العین سے لے کر شہر یار تک اردو کل بھی زندہ تھی اور آج بھی زندہ ہے۔
 
ڈی ڈی اردو کا دھماکہ
یو ٹی وی نے اردو چینل کی شروعات کی اور اردو کو جیسے ایک نئی زندگی مل گئی۔ یہ احساس ہونے لگا کہ اب شاید اردو کو اس کا کھویا ہوا حق واپس مل جائے گا۔ لیکن یوٹی وی نے کوئی ایسی شروعات نہ کی جو اردو ناظرین کو اردو کے قیمتی سرمائے سے جوڑنے میں اہم رول ادا کرسکتی ہو۔ وہی نغمے، وہی سیریل، وہی نغمے، وہی مثنویات یکن اردو کی روح یہاں خاموش تھی۔ وجہ جو بھی ہو، یو ٹی وی بند ہوگیا اور اردو والوں نے اپنا اکلوتا چینل کھو دیا۔ پھر باری آئی ای ٹی وی کی۔ ای ٹی وی نے شروعات اچھی کی۔ اس بات کا احساس تھا کہ شاید اب اردو کی قدیم تاریخ اور اردو کے قیمتی خزانے کی جھلک سے ہندستان کے کروڑوں ناظرین نئے ذائقے میں ڈوب جائیں گے۔ لیکن افسوس جو لوگ شامل تھے، ان کی نیت بہر حال اچھی نہیں تھی۔ اسلم فرشوری اور شمع زیدی نے یہاں جو ’کردار‘ ادا کیا، وہ افسوس ناک حد تک اردو چینل کو بند کرنے کا کردار رہا ۔ یہ امید بندھی تھی کہ اگر ای ٹی وی اردو کا سفر کامیاب رہتا ہے تو بہت سارے اردو چینل مارکیٹ میں آجائیں گے۔ جیسے اس وقت زی کا اردو چینل، ’لشکارہ‘ پنجابی کے اردو چینل آنے کی بات تقریباً طے ہو چکی تھی لیکن ای ٹی وی کے زوال کو دیکھتے ہوئے جو باقی چینل اردو کی سپورٹ میں آگے بڑھے تھے، انہوں نے اپنے پاؤں کھینچ لیے اور اس کا خمیازہ اردو کو بھگتنا پڑا۔ ای ٹی وی اردو کے کمیشنڈ پروگرام بند ہوگئے۔ اور یہ صرف ہوم پروڈکشن بن کر رہ گیا۔ یہاں رامو جی راؤ کی تعریف کرنی ہوگی، جنہوں نے ای ٹی وی اردو کے ذریعہ کم سے کم ایک بڑی شروعات تو کی۔ لیکن جیسا ہوتا آیا ہے، غلط انتظامیہ، اور غلط لوگوں کے بھروسے آپ اعلیٰ مقصد کے لیے کیے جانے والے کام کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتے۔ میں نے اپنے تازہ ناول ’پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی‘ میں اردو کو لوٹنے والوں کا ایک چہرہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ 
 
’انڈیا ہیبی ٹیٹ میں نگار سے پہلی بار ملنے کا اتفاق ہوا تھا اس سے پہلے پروفیسر نے صرف نگار کے بارے میں سن رکھا تھا۔ اس کی ایمانداری اور چڑچڑے مزاج کی دسیوں کہانیاں زمانے بھر میں مشہور تھیں۔ لیکن پہلی بار پیسے کا ذکر سنتے ہی نگار کی اصلیت سامنے آگئی تھی۔ پروفیسر نے اپنے دل کی بات زبان پر رکھ دی۔
 
تو یہاں کے سارے پروگرام تمہاری جھولی میں ڈال دیئے جائیں کیوں پروفیسر؟
’’آپ بہتر سمجھ سکتی ہیں ۔۔۔ ‘‘ پروفیسر نے پھر نرمی ظاہر کی۔
’’چاہے چینل رہے یا جائے، کیوں پروفیسر؟‘‘ نگار نے ٹھہاکا لگایا لیکن فوراً سنجیدہ ہوگئیں ’’لیکن ایک بات جان لو پروفیسر، یہ چینل چلتا ہے تو تمہاری زبان کے دس چینل مارکیٹ میں آجائیں گے۔ ہزاروں لوگوں کو روزی روٹی مل جائے گی۔ ڈوبتا ہے تو آگے سے بھی کوئی چینل تمہاری زبان میں رسک لینے کو تیار نہیں ہوگا۔ اب بولو کیا بولتے ہو؟‘‘
پروفیسر نے مسکرا کر کہا  ’’آپا ، زبان کا کیا کرنا ہے۔ پیسہ ہے تو شراب کی دس بوتلیں تو خریدی جاسکتی ہیں۔‘‘
 
پرسار بھارتی کا اردو چینل
ای ٹی وی اردو کی آمد نے اردو جاننے اور پسند کرنے والے گھرانوں میں یقین اور امید کی شمع تو روشن کی۔ لیکن یہ چینل اردو والوں کے دل کی دھڑکن نہیں بن سکا۔ 
اچانک آج سے دو تین سال پہلے سرکار نے بنگلہ، پنجابی اور دوسری زبانوں کی طرح دور درشن کے اردو چینل کا اعلان کیا تو اردو جاننے والوں کے درمیان امید کی ایک نئی کرن جاگی۔ دور درشن کے موجودہ سی ای او جناب بی ایس لالی نے اس بڑی ذمہ داری کو قبول کیا۔ وہ خود بھی اردو زبان سے محبت کرتے ہیں۔ ان کا خواب یہ تھا کہ ڈی ڈی کے اردو چینل میں قدیم و جدید ادب کو اس طرح پرویا جائے کہ اردو زبان سے محبت کرنے والوں کو روحانی خوشی حاصل ہوسکے۔ کمان فیاض شہر یار کو سونپی گئی، جو اردو سے بے پناہ عقیدت رکھنے والوں سے ایک ہیں۔ خاکہ تیار ہوا اور ’ایکوزیشن پروگرام‘ کو ہری جھنڈی دکھائی گئی اس طرح ایکوزیشن کے صرف پچاس ہزار میں بننے والے پروگرام میں ایسے پروگرام شامل کیے گئے جو اردو اور اردو والوں کے مزاج پر کھرے اترتے تھے۔ جیسے اردو صحافت کی مکمل تاریخ پر پروگرام اردو کی مکمل شاعری کا، اب تک کا دستاویز آغاز سے ہی دور درشن کا یہ اردو چینل اپنے مقصد میں کامیاب ہونے لگا تھا لیکن ضرورت اس بات کی تھی کہ ایکوزیشن کی جگہ ’کمیشننگ‘ کھولی جائے اور اردو پر بڑے پیمانے پر کام شروع ہو۔
 
سنہ ۲۰۰۹ء کے شروع میں پرسار بھارتی چیف بی ایس لالی کی طرف سے کمیشننگ پروگرام کا اعلان آگیا۔ ایک گائڈ لائن تیار ہوئی جس کے مطابق ۔
 
 اردو جاننے والوں کو ترجیح
 اردو جاننے والے ڈائرکٹر کو ترجیح
 قدیم ادب کے ساتھ عصری اردو ادب کو ترجیح
اس گائڈ لائن کا آنا تھا کہ سارے ہندستان کے فلم پروڈیوسروں کے بیچ کھلبلی مچ گئی۔ ضرورت تھی اردو جاننے والوں کی تلاش شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہندستان کی تقسیم سے قبل کی تاریخ میں شاید پہلی بار جو نظارہ دیکھنے میں آیا، وہ چونکانے والا تھا۔ 
 
۔ سارے ہندستان کا اردو ادیب اس لہر میں شامل تھا۔
۔ اردو کے خاموش اور کنارے پڑے ادیبوں کے حوصلے جاگ گئے۔
۔ تقسیم کے بعد سے اب تک کے ادیبوں کے ناول / کہانیوں کے مجموعے بھی اردو پروگرام کے لیے جمع کیے گئے۔ قرۃ العین حیدر، ڈاکٹر محمد حسن کے ناول، قاضی عبد الستار کے ناول ان کے بعد کی نسل میں حسین الحق، غضنفر، جیلانی بانو، ذوقی کے ناول۔
۔ ایک طرف اردو کی قدیم مثنویوں سے لے کر غالب کے خطوط اور طلسم ہوش ربا تک، یعنی اردو زبان میں جو کچھ ہے، وہ پرسار بھارتی کے اردو چینل میں بھی ہے۔ 
 
پہلی بار اردو زبان اور اس کی تہذیبی وراثت کو کسی چینل میں پناہ ملی
 
ہم جانتے ہیں کہ اردو سے محبت کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد پوری دنیا میں موجود ہے خاص کر ہندی زبان میں اردو کا بیشتر ادب ترجمہ ہو کر آچکا ہے۔ لیکن اب اردو سے پیار کرنے والے اردو کی قدیم اور جدید دستاویزوں کو دور درشن، اردو چینل کے چھوٹے پردے پر دیکھ سکتے ہیں۔ ممکن ہے آپ نے قرۃ العین حیدر ، قاضی عبد الستار کے ناول نہ پڑھے ہوں۔ لیکن آپ انہیں چھوٹے پردے کے توسط سے دیکھنا چاہتے ہیں، تو اب آپ کی یہ خواہش جلد پوری ہونے والی ہے۔ اردو چینل نے اردو زبان جاننے کی شرط رکھ کر اردو کو ایک بار پھر سے روزی روٹی سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ اس کا خیر مقدم ہونا چاہئے۔ اردو کے ایک بڑے بے روزگار طبقے نے اس چینل کی معرفت اپنی روزی روٹی تلاش کرلی ہے اور ایک روشن مستقبل کی طرف اپنے قدم بڑھائے ہیں تو اس کی تعریف کرنی ہی ہوگی اور اس کے لیے پرسار بھارتی چیف بی ایس لالی، ڈائرکٹر جنرل ارونا شرما اور فیاض شہر یار کو شکریہ کا نذرانہ پیش کرنا ہوگا کہ انہوں نے اردو کے لیے آنے والے کل کے درواز ے کھول دیئے ہیں۔ 
 
ایوارڈ اور اردو
دور درشن کی گائڈ لائن میں ایوارڈ یافتہ ڈائریکٹرس کو اہمیت دی گئی ہے۔ رہی اردو بولنے والے ڈائریکٹر کی بات تو اب ایسے ڈائریکٹر شاید ہی ملیں۔ فلمی دنیا کی بات کریں تو مظفر علی، ساگر سرحدی، گلزار، سعید مرزا کو چھوڑ دیں، تو شیام بینگل سے لیکر ایس ایم ستیو ،امتیاز علی، اور مظفر علی کے بیٹے شاد تک اردو نہیں جانتے۔ دوسری اہم بات اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے۔ زبان کسی کی جاگیر نہیں۔ ہاں، فلمی دنیا سے دلّی تک اردو سے محبت کرنے والے ہزاروں ہیں۔ دلّی کے انور جمال کی ہی مثال لیجئے تو ان کی جھولی میں صرف ایک انعام یافتہ فیچر فلم ہے۔ لیکن وہ بھی اردو نہیں جانتے۔ ہاں مسلمان ضرور ہیں۔ لیکن مسلمان ہونے کا مطلب اردو داں ہونا نہیں ہے۔ ہاں، دور درشن اگر آنے والے وقت میں کچھ ایسا اعلان کردے کہ اردو سیکھنے والے پروڈیوسروں کو اہمیت دی جائے گی تو اس سے اردو کے مستقبل کو بھی تاروں کی طرح جھلملانے کا ایک بہترین موقع مل جائے گا۔ اگر دور درشن ایسا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو وہ ایک نئی مثال قائم کرے گا۔ اور اردو کی خدمات میں ایک واضح نام پرسار بھارتی اور اس وقت اردو چینل سے وابستہ تمام بڑے لوگوں کا بھی ہوگا۔ دور درشن انعام یافتہ ڈائریکٹر کے ساتھ ایک اردو ایکسپرٹ کو شامل کیے جانے پر زور دے تو یہ اور قابل احترام بھی ہوگا اور اردو کو روزگار سے جوڑے جانے کی کوشش بھی۔
 
ایک صلاح
 تقسیم کے بعد اردو کے بیشتر ادیب پاکستان چلے گئے تھے۔ ان میں جوش اور فیض جیسے لوگ بھی شامل تھے۔ لیکن ان کا بیشتر حصہ ہندستان میں ہی گزرا رتھا اس لیے انہیں بھی اردو چینل میں جگہ ملنی چاہئے ۔ 
  حجاب امتیاز علی، مسز عبد القادر، ممتاز شیریں، رشید جہاں جیسے لوگوں پر بھی کام ہونا چاہئے۔
اردو انشائیہ کے بانی ’وصی بلگرامی‘ اور انجم مان پوری کے ادب پر بھی کام ہونا چاہئے۔ 
  تقسیم کے وقت کے ادیبوں کو ہندستانی ادیب کے طور پر دیکھنا چاہئے۔ اس طرح ممتاز مفتی، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، اشفاق حسین جیسے بے شمار لوگوں کی تحریریں اردو چینل کی زینت بن سکتی ہیں۔
  اردو کے تاریخی ناولوں کو جگہ دی جائے۔
 
  ابن صفی کے علاوہ اکرم الٰہ آبادی جیسے لوگوں کو بھی شامل کیا جائے جن کے کردار خان اور بالے آج بھی لوگوں کی زبان پر ہیں۔
  ایک زمانے میں ہیری پورٹر سے زیادہ سراج انور کے ناول ہر گھر کے بچے بوڑھوں میں مقبول تھے کالی دنیا، پیلی دنیا، دوڑتا جنگل ان پر بھی سیریئل کی شروعات ہونی چاہئے۔
یہ اطلاع باعث مسرت ہوگی کہ آنے والے دنوں میں ڈی ڈی اردو کی مقبولیت سے متاثر ہو کر کچھ بڑے چینل اپنا اردو چینل لانچ کرنے کی تیاری میں مصروف ہیں۔
 
اس میں شک نہیں کہ ڈی ڈی اردو چینل نے اردو زبان کے لیے مستقبل کی نئی راہیں ہموار کی ہیںیقیناًیہ چینل ہر خاص و عام میں مقبول ہوگا۔ ساتھ ہی اردو والوں کے لیے روزگار کے نئے ذرائع تلاش کرنے میں بھی معاون ثابت ہوگا۔
 
zauqui2005@gmail.com
+++++++++++++++++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1036