donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mushtaq Ajiz
Title :
   Musafire Nawaz Bahutere

 مسافرِ نواز بہتیرے 


مشتاق عاجز

 

عشق تو لڑکپن ہی سے میرے رگ و َپے میں سرایت کرگیا تھا اور میں رنگ و نور و نکہت کے آتے جاتے موسموں میں ہجر و وصال کی لذتوں اور رعنائیوں سے آشنا ہو چکا تھا مگر اظہار طلب آسودہ اور نا آسودہ جذبات میرے اندر جس شاعر کو پروان چڑھا رہے تھے وہ مجھ پر ۱۹۶۳ء میں آشکار ہوا۔ایک ہی برس میں وہ میرا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور مجھ سے اپنی الگ شناخت کا تقاضا کرنے لگا۔میں نے اپنے نام کے پہلے حصے سے اُس کا آدھا نام ملایا اور مشتاق عاجز بنا دیا کہ وہ میری ہی ذات کا عکس تھا۔اب میں اپنے دوست اشرف آرٹسٹ کے توسط سے حکیم تائب رضوی کا ہم جلیس ہوا۔تین برس کی بے تکلف اورگہری رفاقت کے دوران میں مجھے اعجاز سلیم کی ملاقاتوںکا شرف بھی حاصل ہوااور کچھ دوسرے شاعروں سے بھی متعارف ہو گیامگر ابھی تک ادبی منظر نامے میں دُور دُور تک میرا نام و نشان نہ تھا۔نومبر ۱۹۶۶ء میں ملازمت آغاز ہوئی تو میں اپنے شہر کی ادبی فضا سے مکمل طور پر کٹ کر رہ گیا مگر شہر سے دُور دیہات اور قصبوں میں شعری سفر جاری رکھا۔

جنوری ۱۹۸۹ء میں میری زندگی اور شاعری کے سفر میں ایک خوب صورت موڑ آیا ’’فضا میں خوش ُبو کے رنگ جاگے‘‘ اور ’’گلوں میں رنگوں کا نور اُترا‘‘ تو ’’ نہالِ غم میں نئی کونپلیں نکل آئیں۔‘‘زخمِ دل ہرا ہوا، سوئے ہوئے جذبات نے کروٹ لی تو مشتاق عاجز کا عکس آئینے سے باہرکی فضا میں جھانکنے لگا۔’’سومیں نے چاہا گلاب ُچن لوں‘‘ ،’’مہکتی سانسوں کے گیت ُسن لوں‘‘ ، ’’بدن کے چاروں طرف کسی اجنبی کی خوش ُبو کا جال ُبن لوں‘‘ مگر اس سے پہلے کہ دُعا پر بابِ قبولیت وا ہوتا،موسمِ گل گزر چکا تھا۔۱۹۸۹ء سے ۱۹۹۴ء کے وسط تک اسی پس منظر میں مجھے جذبات کی سچی شاعری کرنے کا موقع ملا کہ اس دوران میں محرکات بھی میسر تھے اور ریل کے رومان پرور سفر کے علاوہ دیہات کی خاموش تنہا راتیں بھی۔ ۱۹۹۴ء کے اواخر میں مجھے ایک بڑے قصبے کی، نسبتاً رنگین اور خوش گوار فضا میسر آئی اور خوش ُبو میں بسے نرم ہوا کے جھونکے ُگدگدانے لگے تو چند ماہ کے بے رنگ تعطل کے بعد رومانی شاعری کا تسلسل بحال ہو گیا جو چار پانچ سال جاری رہا اور میرے ذخیرۂ اشعار میں کچھ مزید رومانی شاعری کا اضافہ کر گیا۔

فروری ۱۹۹۸ء میں ملازمت سے ُسبک دوش ہو کر اپنا شعری سرمایہ اور تلخ و شیریں یادیں لیے اپنے شہر آیا تو ادبی فضا یک سر بدل چکی تھی۔حکیم تائب رضوی، اعجاز سلیم، حکیم حیدر واسطی، احمد وحید اختر،جعفر ملک، مرزا اقبال بیگ نعیم اور علی جان نسیم جیسے مشاق سخن ور جہانِ سخن وراں کو خیر باد کہہ کر شہرِ خموشاں میں جا بسے تھے۔محفلِ شعرو ادب میں نذر صابری، ڈاکٹر سعد اللہ کلیم، سُلطان محمود بسمل اور عبداللہ راہی موجود تھے مگر مجھے اس فضا سے مانوس ہوتے بہت دیر لگی۔ تیس بتیس برسوں میں ایک نسل جوان ہو چکی تھی اور کچھ نئی ادبی تنظیمیں وجود میں آ چکی تھیں جہاں بہت سے نوجوان شعر و ادب کی تخلیق میں مصروف تھے مگر میں بہت دیر اُن سے دُور ہی رہا کہ وہ فضا میری گم گشتہ فضاؤں سے بہت مختلف تھی۔

رفتہ رفتہ یہ فاصلہ کم ہوا تو میں نزاکت علی نازکؔ کے ’’کاروانِ قلم‘‘ کا ہم قدم ہونے لگا اور یوں نوجوان شاعروں سے شناسائی ہوئی اور ُپرانے سخن وروں سے رشتہ بحال ہو گیا۔شعری نشستوں میں آنے جانے لگا تو بہت حوصلہ افزائی ہوئی۔ میرے پاس ۱۹۵۸ء کی وارداتِ قلبی اور اسی حوالے سے ۲۰۰۰ء تک کے جذباتی اُتار چڑھاؤ، کم و بیش سینتیس برس کے ریاض اور چھپن سالہ زندگی کے نت نئے زاویوں اور تجربوں سے جنم لینے والی شاعری کا ذخیرہ تو تھا ہی، میں نے اپنے دیرینہ دوست رانا افسر علی خان کے مشورے پر توجہ دی جو مجھے شعری مجموعہ کی اشاعت پر اُکساتے رہتے تھے۔بیٹوں میں ملک اویس احمد خان (مرحوم) شعری ذوق کے سبب کبھی کبھی کتاب کی اشاعت کی خواہش کرتا رہتا تھا۔مئی ۱۹۹۹ء میں وہ چل بسا تو میں نے اپنے کلام کو طباعت آشنا کرنے کا فیصلہ کیا۔رانا صاحب مجھے پروفیسر یوسف حسن کے پاس لے گئے اور اُنھوں نے۲۰۰۰ء میں ’’گندھارا‘‘ سے میری دیدہ زیب کتاب چھاپ دی۔

میں کہ ’’سفر ہے شرط‘‘ پر یقین رکھتا تھا اور برسوں سے محوِ سفر تھا اپنے شعری سفر کے پہلے پڑاؤ پر پہنچ چکا تھا۔میرا یہ طویل سفر گمنامی اور تنہائی کا سفر تھا مگر ’’آئینے سے باہر‘‘ آتے ہی میں گمنامی کے دُھندلکے سے نکل کر اپنے سامعین اور قارئین کے قریب آ کھڑا ہوا اور میرا حرفِ سخن گوشِ سماعت سے چشمِ بصارت کے سفر پر نکل گیا۔ تحسین کے دو بولوںکو ترستا جنگل میں کھلا پھول رونقِ بازارِ رنگ و ُبو ہو گیا۔شہرِ کم نظراں کا گلہ کرنے والا شاعر بیسیوں اہلِ نظر کا منظورِ نظر ٹھہرا۔’’جہانِ سنگ میں شیشے کی آبرو کیسی‘‘ کہتے کہتے میں آئینہ بدست کسی جذباتی لمحے میں جشنِ سنگ باری میں آ نکلا۔ ایسے میں ارشد محمود ناشاد، شوکت محمود شوکت اور نزاکت علی نازک سنگ زنوں کے مقابل میری ڈھال بن گئے مگر موسمِ سنگ زنی شہر میں وارد ہو چکا تھا۔سو میرے سر کا مقدر جاگا اور میں لہو لہو ہو کر سرخ رُو ہو گیا۔

میرانام اور کام شہر کی حدود پار کر چکا تھا اور حلقۂ آشنائی وسیع تر ہو رہا تھا۔ خالدمصطفی نے مجھے ڈی آئی خان تک اور شہاب صفدر نے بھکر ، میانوالی، کوہاٹ اور محمد حامدسراج تک پہنچادیا۔۲۰۰۴ء میں جاوید اقبال بھٹی نے جشنِ صدسالہ اٹک کی تقریبات میں سالانہ کل پاکستان مشاعرہ کی طرح ڈالی اورمسلسل چار سال تک بھرپور مشاعرے منعقد کرائے تو میں راول پنڈی، اسلام آباد کے بیشتر شعرا کے قریب آ گیا۔ بشریٰ فرخ نے مجھے پشاور کے ڈاکٹر نذیر تبسم جیسے خوش مزاج اور دل نواز شاعر کے علاوہ بہت سارے دیگر احباب سے بھی متعارف کرا دیا۔ شاہد زمان ایک ہی مشاعرے میں آیا مگر میرا دوست بن گیااور اپنے دوستوں سے میرا غائبانہ تعارف کراتا پھرا۔عائشہ مسعود نے ’’میری ڈائری‘‘ اور نوائے وقت کے ادبی صفحے کے حوالے سے میرے نام اور کام کی وسیع تر تشہیر کی۔سرگودھا کے دوستوں نے مزید دوستوں سے ملوایا۔سہ ماہی ’’ قرطاس ‘‘نے بھی میری عزت بڑھانے اور کلام کو دور و نزدیک تک پہنچانے کا سامان کیا۔خاور چودھری نے ’’تیسرارُخ‘‘ میں میری منظومات، مکالمہ اور تصویر چھاپ کر میرا نام ڈاکٹر فرمان فتح پوری جیسی ہستی کے قلم تک پہنچا دیا۔ سہ ماہی ’’قندیل‘‘نے مسلسل اپنے چار شماروں میں میری تخلیقاتِ نظم و نثر چھاپ کر شہرِ سخن میںمیری آبرو بڑھائی۔

اتنی آشنائی ، پذیرائی اور شناسائی کے بعد جی چاہا کہ اسی پڑاؤ پر پڑا رہوں مگر ایک غیبی ندا بار بار یاد دلاتی رہی’’سفر ہے شرط‘‘ ’’مسافر نواز بہتیرے‘‘اب جو نئے سفر پر نکلا تو شاکر کنڈان، افضل گوہر اور رانا سعید دوشی کے علاوہ درجنوں دوست دو رویہ پیڑوں کی طرح سایہ فگن پائے۔ایسے میں کبھی کبھی ٹھنڈی چھاؤں میں سستانے لگتا تو ارشد محمود ناشاد ’’ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے‘‘ کہہ کر آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا اور میں پھر سے چل دیتا۔ میرا سفر تیز تر ہو گیا تھا۔’’موسمِ جاں رفتگی کی زد میں تھا‘‘ مگر میں چھوٹے چھوٹے لیکن تیز قدموں سے رواں دواں رہا۔’’تیز رفتاری سے میرے پاؤں چھلنی ہو گئے‘‘ ، قریب تھا کہ میں ہانپ کر گر پڑتا کہ ناشادؔ بہ تکرار محبت بھرا اصرار کرنے لگا کہ دم لے لوں۔ رہبرِ منزل کا اشارہ پا کر میں نے رختِ سفر کھول دیا اور ’’الاپ‘‘ کے پڑاؤ پر خیمہ زن ہونے کا قصد کیا۔ 
سفر ابھی باقی ہے کہ سُر لگایا ہے اور راگ کی شکل بنا رہا ہوں۔سچا سُر لگا تو غزل کے انترے استھائی کا سفر درپیش ہو گا۔۔۔سفر ابھی جاری ہے کہ ارشد محمو دناشادؔ کی بے بدل اور بے مثل رفاقت حوصلہ بڑھانے کو ہمہ دم میرے ساتھ ہے۔میں جانتا ہوں کہ جب تک دم میں دم ہے ناشادؔ مجھے آمادۂ سفر رکھے گا اورکہیں لڑکھڑایا تو مجھے اپنے توانا بازوؤں سے سہار لے گا۔مجھے اس کی دوستی پر بھروسا بھی ہے اور ناز بھی۔اُسی نے الاپ کے سُر ُچنے، کتاب کی اشاعت کے لیے راہ ہموار کی، اس پر اپنی رائے دی،اپنی ذات اور فن پر میرا اعتماد بحال کیا، میری اخلاقی مدد کی اور مجھے دیر تک زندہ رہنے کے اسباب مہیا کیے۔میں اُس کا شکر گزار اور اُس کی محبت کا قرض دار ہوں۔

قارئینِ محترم! مجھے خوش کلامی کا کوئی زعم نہیں، میں تو بس اپنے اندر کے شاعر کا کہاکرتا رہا، طبع موزوں تھی سو جو شاعر نے کہامیں نے آسانی سے لکھ دیا۔مشتاق عاجز کیسے شاعر بنا؟ اور کیوں مجھ سے شعر کہلواتا رہا؟ میں بتا چکا ہوں۔۔۔کیا کہتا رہا اور کیسا کہتا رہا؟ آپ کے سامنے ہے۔ ’’الاپ‘‘ کے سُر مدھم ہیں یا تیور؟ اداس ہیں یا چنچل؟ سچا سُر لگا کہ نہیں؟۔۔۔ اس کا فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔دُعا کریں کہ یہ سفر ابھی جاری رہے، اس راہ کے شجرِ سایہ دار اور مسافر نواز سلامت رہیں۔محبتیں بانٹنے اور سمیٹنے والے کم نہ ہوں کہ یہی لوگ بقائے حیات و کائنات کا جواز ہیں۔

مشتاق عاجز

اٹک

**************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 830