donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Prof. Basheer Ahmad Nahvi
Title :
   Tasawuf Aur Kashmiri Sufiyayi : Aik Tajziya Aik Mutalya

تصوف اور کشمیری صوفیائ۔۔۔۔ایک تجزیہ ایک مطالعہ


پروفیسربشیر احمد نحوی

کشمیر یونیرسٹی ، سری نگر


    تصوّف کے ایک اہم لیکن متنازعہ موضوع کے ساتھ طالبِ علمی کے زمانے سے ہی اس لئے میری دلچسپی اور وابستگی رہی کیونکہ استادِ مْکّرم پروفیسر آلِ احمد سرور مرحوم اور پروفیسر کبیر احمد جا ئسی نے میرے ایم فل اور پی ایچ ڈی تحقیقی پروگرام کے لئے ’’ اقبال اور تصوف، وحدت الوجود اور وحدت الشہود کی روشنی میں‘‘ مقرر کیا تھا۔ چنانچہ1981کے اوائل میں ہی راقم الحروف نے رسالہ  قشیریہ، کشف المحجوب، فصوص الحکم، فتوحات مکیہّ، مکتوباتِ شیخ احمد سرہندی ، فوائد الفواد، تاریخ دعوت و عزیمت، قرآن اور تصوف اور دیگر اہم کتب تصوف و طریقت کو دیکھنے اور ان سے استفادہ کرنے کا بھر پور موقع ملا۔2012?ئ￿  میں زیور طبع سے آراستہ ’’ تصوف اور کشمیر صوفیائ‘‘ کے عنوان سے غوث سیوانی صاحب کی تحریر کردہ کتاب حال ہی میںدیکھنے کو ملی۔ اس سے قبل سیوانی صاحب نے ’’ انوار تصوف‘‘ اور’’ جدید دنیا کے مسائل اور تصوف‘‘ پر بھی دو کتابیں تحریر کی ہیں۔

مذکورہ بالا کتاب بڑی دلچسپ، پْراز معلومات اور ایک غیر کشمیری کے قلم سے کشمیر میں اولیائ￿  وصوفیا ئ￿  کی پاکیزہ اور صالح قدروں سے مزین تعلیمات کا خلاصہ ہے۔556صفحات پر مشتمل یہ کتاب پچیس سے زائد موضوعات کا احاطہ کرتے ہوئے کشمیر کے فطری حسن کی منظر کشی کے ساتھ ساتھ یہاں کے اولیائ￿  و مشائخ کے روحانی سفر، ان کے کمالات اور ا س وادی پر ان کے احسانات کا خاکہ پیش کرتی ہے۔ تصوف و سلوک کیا ہے؟ اور اس راہِ ہدایت کے کیا تقاضے ہیں؟ اس حوالے سے مصنف نے تقریباً دو سو صفحات پر خامہ فرسائی کی ہے۔ چنانچہ کشمیر میں تصوف اور یہاںکے صوفیا ئ￿  کی تعلیمات سے واقفیت پانے کے لئے سیوانی صاحب نے درجنوں مستند کتابوں کا مطالعہ کیا ہے۔ راقم کی دلچسپی اس کتاب کے ساتھ اس لئے بھی پیدا ہوگئی کیونکہ صاحب کتاب نے ہر باب کی شروعات سے پہلے علامہ اقبال کے ایسے اشعار نقل کئے ہیں جو عموماً تصوف کی روح اور خاص طور پر اسلامی اور عملی تصوف کے مزاج کی ترجمانی کرتے ہیں۔کتاب کاجامع پیش لفظ پروفیسر غلام یحییٰ انجم، صدر شعبہ علوم اسلامیہ ہمدرد یونیورسٹی نے تحریر کیا۔ چنانچہ انہوں نے سیوانی کو کشمیر کے خاصانِ خدا کی نورانی تعلیمات کو قرآن وسنت کی روشنی میں پیش کرنے پر داد تحسین دی ہے اور موجودہ عہد میں ان تعلیمات کی افادیت و معنویت پر یوں اظہار رائے کیا ہے:

’’ کتاب کے نصف ثانی میں کشمیر میں اسلام اور تصوف کے بارے میں تفصیلات ہیں جو دلچسپ اور معلوماتی ہیں، اسی کے ساتھ اس بات کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہاں صوفیائ￿  نے اسلام اور تصوف کی اشاعت ہی نہیں کی، انہوں نے کشمیر کی تہذیب، زبان، معاشرت اور معیشت کو بھی متاثر کیا۔ کشمیر کی موجودہ صنعت و حرفت اور تہذیب اور تمدن ان اللہ والوں کی مرہون منت ہے، جن کی زندگی کا ایک ایک لمحہ خدمتِ خلق کے لئے وقف تھا۔ آج جب کہ ہر طر ف۔۔۔رشوت ستانی کا بازار گرام ہے، انسانیت کا جنازہ نکل رہا ہے، چھوٹے بڑے کی تمیز ختم ہوچکی ہے، نئی تہذیب نے ہر گھر کو محاذِ جنگ میں تبدیل کر دیا ہے ایسے ماحول میںان اللہ والوں کے پیغام اوران کی تعلیمات عام کرے کی اشد ضرورت ہے‘‘۔

زیر تبصرہ کتاب میں فاضل مصنف نے اولیاء  کشمیر میں حضرت شاہ ہمدان ان کے خلفاء  اور حضرت شیخ حمزہ مخدوم ? اور ان کے ہم عصر صوفیائ￿  کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ مصنف نے کہیں اجمالاً اور کہیں تفصیلاً ان بزرگوں کے روحانی کمالات اور خدمات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

’’ بنام جہاندارِ جاں آفریں‘‘ کے زیر عنوان غوث سیوانی نے مسلکِ تصوف کے ہمہ گیر اثرت کا تفصیلی جائزہ لیا اور کشمیر میں اس کے خد وخال سامنے لانے کی ایک عمدہ کوشش کی ہے۔ مصنف اس حوالے سے لکھتے ہیں۔’’ تصوف کو سمجھنے اور کشمیری صوفیائ￿  کی خدمات کو سامنے لانے کی یہ ایک ادنیٰ کوشش ہے جو

تصوف اور کشمیری صوفیائ￿  کی صورت میں اس وقت آپ کے زیر مطالعہ ہے۔ تصوف نے کشمیر میں ایک ہمہ جہتی انقلاب برپا کیا تھا۔یہ کسی ایک سطح پر نہیں تھا،بلکہ ہر سطح پر تھا، یہاں تک کہ آج جو لباس کشمیر میں پہنا جاتا ہے، یا جس قسم کا کھانا کھایا جاتا ہے ، وہ بھی وسط ایشیائی اثرات سے خالی نہیں ہے‘‘۔

صاحب کتاب نے کشمیر میں مختلف روحانی سلسلوں کے پاکیزہ نقوش کی عکاسی مثالوں اور واقعات سے کی ہے۔ اگر چہ کہیں کہیں مبالغہ آرائی کا رنگ بھی عبارات میں جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔سلسلہ    نقشبندیہ کے مشاہیر اور اکابرین کا ذکر مصنف نے بڑی عزت و توقیر سے کیا ہے اور اس حوالے سے حضرت شیخ احمد سرہندی کے مکتوبات سے اس سلسلے میں ایک خطہ نقل کیا ہے، جو حضرت شیخ نے اپنے ایک خلیفہ حضرت شیخ محمد چتری کے نام لکھا تھا۔ مجدد الف ثانی لکھتے ہیں۔’’ پاکیز ہ مکتوب گرامی جو کہ آپ نے مہربانی فرما کر صادر فرمایا تھا، اس کے مطالعہ سے بہت مسرت اور خو شی ہوئی۔ آپ نے اس طریقہ نقشبندیہ پر اپنی استقامت اور ثابت قدمی کے بارے میں تحریر فرمایا تھا۔ حق سبحان و تعالیٰ اور طریقہ عالیہ کے بزرگوں کی بدولت آپ کو بے انتہا ترقیاں عنایت فرمائے۔ ان بزرگوں کا طریقہ سرخ گندھک ( اکیسر) ہے اور سنت نبویﷺ کی تابعداری پر منحصر ہے۔

مجموعی طور پر اس کتاب کے مطالعے سے حقیقی تصوف کے خدوخال اور خصوصیات سامنے آتی ہیں اور کشمیر میں روحانی شخصیات نے خدا پرستی کے تصور کو فروغ دینے میں جو حصہ اداکیا ہے، اس کی بھر پور وضاحت کی گئی ہے۔ کتاب میں کئی مقامات پر زبان و بیان کے چند اسقام اور اشعار نقل کرتے وقت چند اغلاط بھی دیکھنے کوملیں۔

(یو این این)

***************************


 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1053