donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Rana Abdul Baqi
Title :
   Urdu Zaban Ke Be Misal Naqeeb Josh Malihabadi


اُردو زبان کے بے مثال نقیب جوش ملیح آبادی  

تحریر : رانا عبدالباقی

 
رّصغیر ہندوستان میں اُردو ادب کی تاریخ میں جب نامور شخصیتوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو جناب شبیرحسن خان جوش ملیح آبادی کا نام اُردو ادب میں غزل ، نظم اور مرثیہ نگاری کے میدان میں اعلیٰ پائے کی انقلابی شاعری کے حوالے سے سامنے آتا ہے ۔ جوش ملیح آبادی برٹش انڈیا سے آزادی حاصل کرنے پر کچھ عرصہ بھارتی شہری رہے جہاں اُنہیں 1954 میں پدما بھشن ایوارڈ سے نوازا گیا لیکن بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے اُردو زبان کو لاحق خدشات کے پیش نظر 1958 میں وہ پاکستان چلے آئے اور پاکستانی شہریت حاصل کر لی، جہاں بعد از وفات 2013 میں اُنہیں اعلیٰ ریاستی اعزاز، ہلالِ امتیاز، سے نوازا گیا ۔ بھارت میں اُنہیں نیشنلسٹ مسلم کانگریسی رہنما مولانا ابولکلام آزاد کے علاوہ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو کی قربتیں حاصل رہیں چنانچہ جواہر لال نہرو آخری وقت تک کوشش کرتے رہے کہ وہ پاکستان نہ جائیں لیکن اُنہوں نے ہندوستان میں اُردو زبان کی ترقی میں حائل رکاوٹوں کے سبب پاکستان آنے کا فیصلہ موخر نہیں کیا اور ابتدائی طور پر پاکستان میں انجمن ترقئ اُردو کے بانی مولوی عبدالحق کے ہمراہ اُردو زبان کی لغت کی تیاری میں خاطر خواہ کام کیا ۔ حیرانی کی بات ہے کہ اُردو زبان کے بے مثال نقیب ہونے اور ہندوستان میں آزادی کی تحریکوں میں نیشنلسٹ کردار پر اُن کی خدمات کا تذکرہ بہت کم دانشور اپنی تحریروں میں کرتے ہیں۔ ایسی ہی صورتحال مورخہ 5 دسمبر 2014 کوجوش کے 120 ویں یوم پیدائش پر راولپنڈی آرٹس کونسل میں منعقد ہونے والی جوش ادبی کانفرنس میں دیکھنے میں آئی جسکا اہتمام جوش کے نواسے فرخ جمال کی قیادت میں کام کرنے والی تنظیم جوش ادبی فاؤنڈیشن اور راولپنڈی میں معروف شاعر نسیم سحر اور آفتاب ضیأ کی قیادت میں ادبی تنظیم سخنور نے راولپنڈی آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر وقار احمد کے تعاون سے کیا ۔اِس تقریب کے مہمان خصوصی وفاقی پارلیمانی سیکریٹری محسن رانجھا تھے جو اپنی اہم مصروفیات کے سبب تقریب کے شروع میں ہی مختصر خطاب کرکے واپس چلے گئے چنانچہ راولپنڈی کی ایک رفاعی شخصیت ڈاکٹر جمال ناصر نے تقریب کے مہمان خصوصی کے فرائض سرانجام دئیے ۔ تقریب میں معروف دانشور ڈاکٹر مقصود جعفری ، ڈاکٹر غضنفر مہدی ، محترمہ ناہید منظور ، اخباری دنیا سے وابستہ جناب ٹکا خان ، ڈاکٹر مظہر قیوم ، پروفیسر شازیہ اکبراور فرخ جمال نے جوش ملیح آبادی کی اُردو ادب کیلئے گراں قدر خدمات کا جائزہ لیا ۔ تقریب میں راقم کے علاوہ پنجاب آرٹس کونسل کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر چوہدری آصف پرویز اور ممتاز دانشور و سابق بیوروکریٹ منصور عاقل اور دیگر مقامی شعراء کرام اور دانشوروں نے شرکت کی ۔

عوامی سطح پر بہت کم لوگ اِس حقیقت سے آشنا ہیں کہ جوش ملیح آبادی کا تعلق فاٹا کے پشتون آفریدی قبیلے کے ایک ادبی دانشور گھرانے سے ہے ۔ مغلوں کے آخری دور میں جوش کے آباؤ اجداد نے یوپی میں مستقل رہائش اختیار کی جہاں اِس گھرانے کی زندگی میں انقلابی تبدیلی آئی جب جوش کے پردادا نواب فقیر محمد خان ، دادا محمد احمد خان اور والد بشیر احمد خان نے شاعری ، نثر نگاری اور اُردو زبان کی ترقی کو اپنا اُڑھنا بچھونا بنایا۔ چنانچہ اُن کے دادا اور والد نے اُردو زبان میں دیگر زبانوں کی اہم تصانیف اور مضامین کے اُردو ترجمے کرنے میں خصوصی دلچسپی لی جس کے مثبت اثرات جوش ملیح آبادی کی زندگی پر بھی ثبت ہوئے۔ جوش نے 1914 میں سینٹ پیٹر ز کالج آگرہ سے سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کرنے کے بعد کچھ وقت عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کرنے میں صرف کیااور پھر چھ ماہ سنسکرت تمدن سے متعلقہ امور کو سمجھنے میں ٹیگور یونیورسٹی میں گزارے لیکن 1916 میں والد کی وفات کے سبب وہ اپنی تعلیمی سرگرمیاں مزید جاری نہ رکھ سکے چنانچہ اُنہوں نے اپنے آباؤاجداد کی طرح شعر و شاعری کی سخن وری کیساتھ ساتھ انگریزی اور فارسی مضامین کی اُردو زبان میں تراجم کے کام کو آگے بڑھایا ۔اِسی حوالے سے اُنہیں 1925 میں ریاست حیدرآباد کی عثمانیہ یونیورسٹی میں تراجم کے کام کی نگرانی کے فرائض سرانجام دینے کا موقع ملا۔ جوش کو چونکہ انقلابی طبعیت ورثہ میں ملی تھی لہذا کچھ ہی عرصہ بعد والئ ریاست ، نظام حیدرآباد کی طرز حکمرانی کے خلاف ایک انقلابی نظم لکھنے کی پاداش میں اُنہیں ریاست بدر کر دیا گیا ۔ریاست بدری کے زمانے میں اُنہوں نے ایک ادبی مجلہ ،کلیم،کا اجرأ کیا جس میں اُنہوں نے تواتر سے اُردو زبان کی ترقی اور ہندوستان کی برٹش راج سے آزادی کی حمایت میں مضامین لکھے۔ اِسی ارتقائی دورمیں جوش کی شاعری میں نکھار آتا چلا گیا ۔ ہندوستان میں آزادی کی تحریکیں شروع ہونے پر اُنہوں نے اپنے انقلابی کلام کے ذریعے ہندوستان میں آزادی کی اُمنگ بیدار کرنے کیلئے کئی مضامین اور نظمیں لکھیں ۔ سیاسی اُتراؤ چڑھاؤ کے اِسی دور میں جوش کی طبعیت مرثیہ نگاری پر مائل ہوئی چنانچہ اُنہیں شہرہ آفاق نظمیں بل خصوص ، حسین اور انقلاب، لکھنے پر شاعر انقلاب کا درجہ دیا گیا ۔ لیکن بہرصورت اُردو زبان کی ترقی سے جوش کا دامن ہمیشہ ہی جڑا رہا ۔ اُردو زبان سے عقیدت رکھنے پر جوش، سرسید احمد خان کی طرح ہندوستان میں انتہا پسند ہندوؤں کی اُردو مخالف تحریک سے ہمیشہ گرویدہ رہے چنانچہ تقسیم ہند کے بعد انتہا پسند ہندوؤں کے پُر تشدد اُردو مخالف رجحانات اور آئی سی ایس ہندو بیوروکریسی کی جانب سے انتہا پسندوں کی کھلا کھلم حمایت سے وہ سخت نالاں رہے جس کا معنی افروز تذکرہ اُن کے کلام میں بھی ملتا ۔


برطانیہ کے خاص غلامانِ خانہ ساز
دیتے تھے لاٹھیوں سے جو حب وطن کی داد
جن کی ہر ایک ضرب ہے اب تک سروں کو یاد
وہ آئی سی ایس اب بھی ہیں خوش وقت و بامراد
شیطان ایک رات میں انسان بن گئے
جتنے نمک حرام تھے کپتان بن گئے

گو کہ قائداعظم محمد علی جناح کی ویژن کو تعبیر دینے کیلئے وزیراعظم لیاقت علی خان نے اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کیلئے قابل قدر کردار ادا کیا تھا جسے بالآخر 1973 کے آئین کا بخوبی حصہ بنایا گیا ہے۔ ماضی میں مولوی عبدالحق اور جوش نے سائنسی مضامین کو تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے کیلئے انگریزی اصطلاحات کو اُردو زبان میں مستعمل کرنے کیلئے قرار واقعی کام کیا لیکن ملک میں یکساں تعلیمی نظام قائم کرنے کی اِس جہد کو آگے بڑھانے کے بجائے مخصوص مفادات کی حامل اشرافیہ نے ملکی تعلیمی نظام کو تین واضح حصوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔اِسی طرح ریاستی اداروں میں اُردو کو دفتری زبان بنانے کیلئے سنجیدگی سے کام نہیں کیا گیا۔ اِس حقیقت کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں عوامی سطح پر معلومات فراہم کرنے والے بیشتر ادارے جن میں پرنٹ میڈیا اور ٹی وی چینل شامل ہیں اُردو زبان میں زیادہ مقبولیت رکھتے ہیں جبکہ انگریزی اخبارات کی اشاعت اُردو اخبارات کی نسبت بہت کم ہے ۔ پاکستان میں ایک انگریزی ٹی وی چینل شروع کیا گیا تھا لیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد اُسے بھی اُردو چینل میں تبدیل کر دیا گیا۔ درج بالا تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ جوش ملیح آبادی جو اُردو زبان کی ترقی کیلئے اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے کی خدمات کو ریاستی سطح پر بہتر طور پر استعمال کیا جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ جوش کا کلام اور بیشتر مضامین اُردو گرئمر کے لحاظ سے فنی طور پر اعلیٰ نمونے کے حامل ہیں ۔ بہرحال جوش ملیح آبادی کو اعلیٰ شاعری کیساتھ ساتھ اُردو زبان کیلئے اُن کی گراں قدر خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جا ئے گا ۔ اُن کا کہنا تھا …… ؂

گلشنِ زیست کے ہر پھول کی رنگینی میں
دجلہءِ خونِ رگِ جاں ہے کوئی کیا جانے

ٌ۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1029