donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Reyaz Azimabadi
Title :
   Bihar Ki Urdu Tahreek : Kal Aur Aaj


بہار کی اردو تحریک : کل اور آج


… ریاض عظیم آبادی

 

 اس مقالہ کو ۲ اگست ۲۰۱۵ کو الھند ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائیٹی کی جانب منعقد سیمینار پیں پڑھا گیا۔


تحریک سے مراد اگر ’خاص مقاصد‘ کیلئے اجتماعی جدوجہد یا کسی ہدف کو حاصل کرنے کیلئے کی گئی اجتماعی کاوش ہے تو بہار میں آزادی کے بعد اردو تحریک نہ کبھی پہلے تھی اور نہ آج ہے۔آزادی کے بعد مسلمانوں کو گھٹن سے باہر لانے میں اردو کا استعمال ضرور کیا گیا ورنہ اردو کے نام پر سیاسی روٹیاں سینکی گئیں اور اردو کیلئے شہید ہوجانے کے عزائم کا اظہار بھی کچھ لوگوں نے کیا۔ ہمارے لیڈران کسی ہدف کو حاصل کرنے کیلئے اپنے جسم کے خون کا آخری قطرہ بہانے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن پہلا قطرہ بہانے کے نام پر پرسرار خاموشی سادھ لیتے ہیں۔میں مجاہد اردو مولانا بیتاب صدیقی کا ہردلعزیز شاگرد رہا ہوں اور بہار ریاستی انجمن ترقی اردو کا ایک ادنیٰ سپاہی۔کلاس ششم سے لے کر ہائر سیکنڈری تک بیتاب صدیقی صاحب کے حکم پر انجمن کی ڈاک تقسیم کرتا رہا اور میٹنگوں میں پانی پلانے کا کام کرتا رہا۔

15؍اگست1947کو جب سورج طلوع ہوا تو اس کی شعائیں خون میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ ملک تقسیم ہو چکا تھا، مذہبی منافرت اور نفرت نے ایک مضبوط ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔انگریزوں کی سیاست کامیاب رہی اور ملک کی دو قوموں کے درمیان نفرت اور عدم اعتماد کا بیج بونے میں انگریز کامیاب رہے۔برصغیر نے اس تقسیم کو جھیلا، لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے، ہزاروں ہزار کی تعداد میں انسان آزاد وطن کو دیکھنے کی تمنا لئے ہوئے خون میں ڈبو دیئے گئے۔بہار کے مسلمان زیادہ پریشان تھے۔ برادر وطن دیکھتے ہی طعنہ دیتے تھے… تمہارا ملک تو پاکستان بن گیا پھر یہاں کیا کررہے ہو؟ مسلمان یہ سمجھانے کی ہمت نہیں جٹا پا رہے تھے کہ یہ ان کی سرزمین ہے اور وہ اسی زمین میں چھ فٹ کی جگہ لے کر ابدی نیند سوجانا پسند کریں گے۔ انہوں نے مولانا ابو الکلام آزاد کی للکار سنی اور اپنی سرزمین کو چھوڑ کر مذہب کے نام پر بنایا گیا ملک میں جانا پسند نہیں کیا۔ ریاست بہار کی صورتحال نازک ترین تھی۔ کلیم عاجزؔ جیسا حساس شاعر1946کی تباہی کو زندگی بھر ڈھوتا رہا۔اس زمانے میں اگر اردو کے نام پر اجتماعی کاوش نہیں کی گئی ہوتی تو اردو آبادی نہ جانے کب تک سر جھکائے اپنی سوچ میں ہی گم نظر آتی۔ اردو کے پروفیسر ڈاکٹر اختر اورینوی کو صرف اپنی زبان سے ہی نہیں بلکہ اردو آبادی سے بھی بے انتہا محبت تھی اور ان کی جوشیلی تقریر نے غلام سرور جیسے نوجوان اور ان کے گروپ کو سامنے لایا۔’ہر اردوداں مردم شماری کے کالم میں اپنی مادری زبان اردو لکھے‘ اس کیلئے گاؤں گاؤں قصبہ قصبہ اور شہروں میں محلے محلے گھوم گھوم کر اردو آبادی کا حوصلہ بڑھایا گیا اور اردو کو مردم شماری کے معاملے میں عزت سے سرفراز کیا۔

غلام سرور نے اپنے ایک مضمون میں اس وقت کی ملکی صورتحال کا جائزہ لیا ہے…

’1947کے بعد ملک کی صورتحال عجیب و غریب تھی، عدم اطمینانی، مایوسی اور خوف و دہشت کا ایک ماحول تھا۔ یوں تو قیام پاکستان کے بعد ملک کی متعدد ریاستوں سے مسلمان پاکستان ہجرت کرگئے تھے۔ مگر بہار اور اترپردیش سے مسلمانوں کا ایک بڑا جتھا ہی وہاں منتقل ہوگیاکیونکہ انہیں ریاستوں میں سب سے زیادہ فرقہ وارانہ فسادات بھی رونما ہونے لگے تھے۔لہٰذا مسلمانوں کی بستی کی بستیاں ویران ہوگئیں، جان و مال، عزت و آبرو اور سکون کی تلاش میں بالخصوص مسلم اربن الیٹMuslim Urban Eliteکا ایک بڑا حصہ پاکستان کوچ کرگیا۔ اس کی وجہ سے یہاں کے مسلمانوں میں اور بھی مایوسی اور اضمحال کی کیفیت پیدا ہونے لگی لیکن انہیں میں اکثریت ایسی تھی جو یہیں مرنے اور جینے کی قسم کھا چکی تھی۔ تاہم ملک میں افراتفری، منافرت، فرقہ پرستی، تنگ نظری اور عصبیت کا سایہ گہراتا چلا جارہا تھا۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ1943-47کا زمانہ وہ تھا جب ہندوستان کی36کروڑ آبادی،آزادی، انقلاب، مسلم لیگ، کانگریس، پاکستان،اکھنڈ بھارت کے دور سے گزر رہی تھی۔اسے اردو ہندی، ہندوستانی کے مسئلے کا سامنا بھی ہونا تھا۔تو اسی سیاسی بھول بھلیاں میں یہ مسئلہ گم ہوکر رہ جاتا تھا۔ اردو کا رشتہ مسلم لیگ سے جوڑ دیا جاتا تھا۔ہندی سے کانگریس کے ایک حلقہ کا سمبندھ ہوگیا تھا…… ملک تقسیم ہوگیا تھا، ہندی کو راج سنہاسن پر بٹھانے کے منصوبے باندھے جانے لگے تھے۔ اردو کا نام لینا اور پاکستان کی حمایت کرنامترادف سمجھا جاتا تھا۔‘

(مقالاتِ سرور74-76)

 استاد محترم ڈاکٹر اختر اورینوی کے چند شاگردوںغلام سرور اور ان کے رفیقوں نے ہمت جٹائی اور مسلمانوں کے ذہن سے مایوسیوں کے طلسم کو توڑنے اور انہیں ایک نئے حوصلے سے ہمکنار کرنے کیلئے اردو کا پرچم اٹھالیا۔ اس وقت غلام سرور نوجوانوں کے لیڈر تھے۔ اردو میں ایم اے گولڈ میڈلسٹ کا اعزاز حاصل کرنے کے بعد ایل ایل بی کررہے تھے۔ وہ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سکریٹری اور اس کے ہفتہ وارترجمان ’نوجوان‘ کے مدیراعلیٰ بھی تھے۔ ’حلقہ ادب نوجوان انجمن‘ کی بنیاد پڑچکی تھی جو حلقہ ادب نوجوان اور بعد میں ’حلقہ ادب‘ بن کر پوری ریاست میں چھا گیا۔1949میں آزادی کے بعد اسی حلقہ نے آل انڈیا اردو کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس کے بعد1951میں حلقہ ادب کا سالانہ اجلاس انجمن اسلامیہ ہال پٹنہ میں منعقد ہوا جس میں بہار ریاستی انجمن ترقی اردو کی بنیاد پڑی۔غلام سرور اس کے پہلے جنرل سکریٹری بنے۔

آزادی کے بعد دوواقعات ایسے ہوئے جنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ جب مسلمان گھروں میں دبکے ہوئے تھے تو سب سے پہلے غلام سرور نے مسلمانوں کو لام بند کی اور اردو کو حق دلانے کیلئے دستخطی مہم کا آغاز کیا۔ پہلی مردم شماری میں مسلمان اپنی مادری زبان کے کالم میں اردو لکھیں اس کیلئے ریاست گیر تحریک چلائی اور پورے بہار کا دورہ کیا۔اور دوسرا دستخطی مہم جس سے  مسلمان گھروں سے باہر آئے اپنے اندر نیا حوصلہ پیدا کر سیاسی میدان میں سرگرم ہونے لگے۔

ڈاکٹرمنظور حسن اعجازی، غضنفر نواب دانش ،محمد حیات چاند،سردار لطیف الرحمٰن،عبدلقیوم انصاری،مظہر امام،محترمہ عزیزہ امام، نثار احمد خاں ایڈووکیٹ، تقی رحیم، محمد ایوب ایڈووکیٹ، سید نظیر حیدر، شاہ مشتاق احمد، انیس الرحمٰن ،رامائن سنگھ، عبدالباری ساقی، کلیان کمار پوددار، ڈاکٹر عبدالمغنی، ڈاکٹر شمیم احمد صدیقی، ڈاکٹر قمر اعظم ہاشمی، پروفیسر ابوذر عثمانی ،رفیق الدین متوالا وغیرہ وغیرہ ایسے نام ہیں جو ذہن میں کھلبلی مچادیتے ہیں۔ انجمن ترقی اردو واحد تنظیم تھی جو اردو آبادی کی نمائندگی کرتی تھی۔ اردو آبادی کو اکابرین ملت نے 1952سے1962تک صرف ایک ہی کام سونپا تھا کہ اپنا ووٹ آنکھ بند کر کانگریس کی جھولی میں ڈالتے رہیں۔ 1967میں بہار میں احتجاج کی سیاست شروع ہوئی۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ کے بی سہائے کے خلاف نوجوان میدان میں کود پڑے اور یہیں پر اردو کو’ الیکشن ایشو‘ بنانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ 1967کے عام انتخاب میں کانگریس کو شکست فاش نصیب ہوئی اور بہار میں ایک مخلوط حکومت قائم ہوگئی جس میں ’ہاں اور نا‘اور’ دایاں بازو اور بایاں بازو‘ کی مشترکہ حکومت بنی۔33نکاتی پروگرام میں بے چاری اردو کو مخصوص مقاصد کیلئے دوسری سرکاری زبان بنانے کے پروگرام کا اعلان کیا گیا۔

یہ اردو کی بدنصیبی تھی یا اردو آبادی کی کہ رانچی میں اردو کے نام پر ہی ہولناک فرقہ وارانہ فساد برپا کردیا گیا۔ مسلم اقلیت کے جان و مال کا بھاری نقصان ہوا اور اردو کے پروگرام کو خاموشی کے ساتھ سردخانے میں ڈال دیا گیا۔مخلوت حکومت میں جن سنگھ اور کمیو نسٹ پاٹی دونوں شامل تھیں،جو ایک ناکام تجربہ ثابت ہوا۔

بہار میں آزادی کے بعد اردو کو اس کا جائز حق دلانے کیلئے عوامی طور پر اجتماعی کوشش کبھی نہیں ہوئی۔اگر کوئی کوشش ہوئی بھی تو اردو عوام صرف نظارہ کرتے رہے۔ اردو تحریک کے نام پر اردو کی روٹی کھانے کیلئے اردو قائدین سیاسی اسٹیجوں پر رقص ضرور کرتے رہے لیکن ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ یہ سب ان کے ذاتی مفاد کی حصولیابی کیلئے تھا۔1970میں مظفرپور میں بہار ریاستی انجمن ترقی اردو کا تاریخی اجلاس ہوا جس میں ڈاکٹر عبدالمغنی صدر منتخب ہوئے جسے غلام سرور نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ انجمن ترقی اردو کا نام بہار انجمن ترقی اردو رکھ دیا گیا اور بہار ریاستی انجمن ترقی اردو کا بورڈ سنگم کے دفتر میں کئی سال تک لٹکتا رہا۔

پولیس کا ڈر ، جیل جانے کا خوف… ہمارے قائدین پر سوار رہا اور وہ صرف ڈپلومیسی کی سیاست کرتے رہے اور عام لوگوں سے دور سفید پوش سیاست داں کا کردار نبھاتے رہے۔ مسلمانوں کا ووٹ دلوانے کا سودا کرتے رہے… یہاں تک کہ جب غلام سرور وزیر تعلیم بنے تب ان کے پاس اردو کو سرکاری زبان بنانے کی فائل آئی تھی تو اس فائل کو یہ کہتے ہوئے لوٹادیا تھا کہ ابھی اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے المیہ ہی کہیں گے کہ اردو کیلئے جان دینے کا دعویٰ کرنے والا لیڈر اور اردو تحریک کا سب سے بڑا قائد جب وزیر بنا تو اس نے مصلحت کی چادر اوڑھ لی۔ یہی حال آج کے سیاست دانوں کا بھی ہے۔مجھے یاد ہے پٹنہ میں فساد روکو مظاہرہ کا کیا حشر ہوا تھا۔ اول تو مسلمان آئے ہی نہیں اور جو لیڈران جمع ہوئے اور پولیس کو دیکھا تو چپل چھوڑ بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔

بہار میں1980… وہ تاریخ ساز سال رہا ہے جب ڈاکٹر جگن ناتھ مشرا کی کانگریسی حکومت میں حلف برداری کے بعد پہلی کابینہ کی نشست میں چند اضلاع کیلئے اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کا تاریخی فیصلہ کیا گیا۔دراصل اس فیصلے کو کرانے شمائل نبی کی کوششوں کا بھی دخل رہا ہے۔ انہوں نے مجھے کھوج کر بلوایا اور کہا کہ اردو کو کن مقاصد کیلئے دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے وہ لکھ کر لے آؤ۔ اس زمانے میں سکریٹریٹ میں ’بف شیٹ‘(A4سائز کا ایک ایسا پیلاکاغذ جسے ہندی میں پیت پتر کہا جاتا ہے) پر لکھا جاتا تھا جسے نیم حکم تصور کیا جاتا تھا۔ میں نے بف شیٹ پر اپنے قلم سے 1967کے33نکاتی پروگرام میں جن سات مقاصد کیلئے اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کا اعلان ہوا تھا اسے ہی اتار دیا۔ اسے اتفاق کہیں یا میری یادداشت کی داد دیںکہ وہی فیصلہ ڈاکٹر جگن ناتھ مشرا کی حکومت نے کیا جو آج تک قائم ہے۔آج ہم اپنے اس محسن کو بھی فراموش کر چکے ہیں۔

اردو زبان کی تاریخ میں محسن اردو ڈاکٹر جگن ناتھ مشراکی نیت اور کوششوں کی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نہ تو اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کیلئے کوئی کانفرنس ہوئی ، نہ ہی کوئی مطالبہ کیا گیا اور نہ کسی طرح کا مظاہرہ ہوا… یہاں تک کہ انجمن کا کوئی وفد بھی اس مقصد کیلئے نہیں ملا۔ یہ ڈاکٹر مشرا کے دماغ کی اپج تھی۔ وہ ایمانداری اور خلوص کے ساتھ اردو کو اس کا حق دینا چاہتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ اس فیصلہ میں ہریانہ کے اس وقت کے گورنر برنی صاحب اور محترمہ اندرا گاندھی کی حمایت بھی حاصل تھی۔ یعنی بغیر کسی تحریک اور شورشرابے کے اردو بہار کی دوسری سرکاری زبان بن گئی۔

اردو عملے کی تقرری کا کام شروع ہوا۔ اس وقت ڈاکٹر عبدالمغنی انجمن کے صدر تھے اور اس فیصلے کا کریڈٹ لینے کیلئے بیان بازی کا سلسلہ تیزہوگیا۔ میں کبھی کبھی استاد محترم ڈاکٹر عبدالمغنی کو صدر بیانیہ کے نام سے بھی مخاطب کرتا تھا کیونکہ مغنی صاحب بنیادی طور پر ’مولوی‘ تھے۔انگریزی کے پروفیسر ہونے کے باوجود بھیڑ بھاڑ اور ہنگامہ آرائی سے دور رہنا پسند کرتے تھے۔ بہار انجمن ترقی اردو کو حکومت کی گرانٹ ملنی شروع ہوگئی تھی جس کی وجہ سے انجمن کا دفتر گلزار رہنے لگا تھا۔ ہارون رشید اس وقت سرگرم تھے۔ وہ مسلمانوں کیلئے لائزننگ کا کام کیا کرتے تھے اور اس میں مہارت کی وجہ سے ان کی گاڑی سڑکوں پر دوڑتی نظرآتی تھی۔سید رضی حیدر، کلام حیدری اور ہارون رشید انجمن ترقی اردو کے جنرل سکریٹری بھی رہے۔ہر جنرل سکریٹری کے ماتحت کئی سکریٹریوں میں ایک سکریٹری کا عہدہ مجھے بھی پکڑا دیا جاتا تھا۔1970میں بہار اردو اکادمی کی تشکیل ہوئی اور میرے چچا محترم سہیل عظیم آبادی شایدصدر الدین فضا شمسی کے بعد سکریٹری بنائے گئے۔

ڈاکٹر جگن ناتھ مشرا کی فراخدلی اور پرخلوص کوشش کی وجہ سے1980میں اردو کو  ’روزی روٹی‘ سے جوڑا گیا۔ ضلع، سب ڈویژن اور بلاک کی سطح پر اردو مترجم، نائب مترجم اور ٹائپسٹوں کی بڑے پیمانے پر تقرری کی گئی۔ یہاں پر ڈاکٹر عبدالمغنی نے میری بارہا گذارشوں کو نظرانداز کرد یاکہ اردو عملہ کا ورک شاپ کر، انکے اندر اردو کے تئیں ذمہ داری کا احساس پیدا کیا جائے لیکن  انہیں حالات  کے سپرد کر دیا جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو کا عملہ اردو سے غافل ہوتا چلا گیا۔ میں نے بارہا کوشش کی کہ اردو کے عملہ کیلئے ورکشاپ کا انعقاد کیا جائے اور ان کے ضمیر کو بیدار کیا جائے لیکن میری آواز نقارخانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ گئی۔ انجمن ترقی اردو کی ممبر سازی میں گروپ بندی شروع ہوگئی اور چھپرہ کانفرنس میں جان بوجھ کرمجھے اور شکیل الزماں کو ڈیلی گیٹ نہیں بنایا گیا۔انہیں معلوم تھا کہ میں غلط عناصر کو طشت ازبام کردوں گا اور ان کی سازش ناکام ہوجائے گی۔آج انجمن ترقی اردو کے کئی صدور کے انتقال کے بعد ایسے عناصر کا قبضہ ہے جن کا اردو تحریک سے کوئی رشتہ نہیں ہے اور وہ بھی بیان دینے اور خبریں شائع کرانے سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں۔

اردو تحریک نہ تو پہلے تھی اور نہ آج ہے… جس کا ثبوت ہے کہ بہار کے کسی شہر میں بھی قانون اردو کا نفاذ نہیں ہوسکا۔ حد تو یہ ہوگئی کہ پٹنہ کا میئر اردوداں رہا اور اس کے اندر اپنی مادری زبان کیلئے کوئی جذبہ پیدا نہ ہوسکا، اور نہ ہی ہم انکے احساس کو جگا سکے ۔ وہ چاہتا تو پٹنہ کی تمام سڑکوں پرسبز بورڈوں پر سفید رنگ سے لکھی ہوئی تختیوں پر ہندی کے علاوہ اردو بھی شامل ہو جا تی۔پروفیسر عبدالصمد کئی سال تک اردو مشاورتی کمیٹی کے صدر رہے۔ انہوں نے بھاگ دوڑ کر سکریٹریٹ میں افسران کی شناختی تختیاں اردو میں لکھوانے کی کوشش کی لیکن بعد میں شاید کسی سازش کے تحت استاد محترم کلیم عاجز کو مشاورتی کمیٹی کا چیرمین بنایا گیا جو تاریخ کے نکمے ترین چیرمین ثابت ہوئے۔

بہار میں اردوتحریک اگر اردو آبادی سے جڑی ہوتی اور اردو آبادی کو تحریک سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہوتی ، اردو آبادی کے اندر مادری زبان کے تئیں جذبے کو بیدار کیا گیا ہوتا تو کسی کانونٹ، ناٹرڈم، سنت مائیکل جیسے مشنری اسکولوں کے پرنسپلوں کی ہمت نہیں ہوتی کہ اردو کو اپنے اسکولوں سے باہر کردیتے۔1970میں جب مگدھ یونیورسٹی نے اردو میں امتحان دینے کا حق چھین لیا تھا تو جناب پروفیسر محمد علی خاں کے حکم سے خاکسار نے اسماعیل حسنین نقوی اور بذلی الرحمٰن مرحوم کے عملی تعاون سے زبردست طلباء کی تحریک چلائی جس سے یونیورسٹی کو اپنا فیصلہ واپس لینے کیلئے مجبور ہونا پڑا۔اخلاق احمد سابق وزیر اسی تحریک کی دین ہیں جو آج آر ایس کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔

اردو کو کس نے زک نہیں پہنچایا… رابڑی حکومت نے 10,000ٹرینڈ اردو اساتذہ کی تقرری کا فیصلہ کیا تھا جس کے خلاف اردو دشمن عدالت چلے گئے ، وہیں جب 34,540ٹرینڈ اساتذہ میں12,862 ٹرینڈ اردواساتذہ کی تقرری کا معاملہ آیا تو افسران کی ایک سازش کی وجہ سے ہندی والوں کیلئے50نمبر کی ہندی اور اردو والوں کیلئے200نمبر کی پرنسپل اردو کی شرط رکھی گئی ۔اور جب ایک وفد اس وقت کے وزیر اقلیتی فلاح شاہد علی خاں کے پاس فریاد لے کر گیا تو انہوں نے برجستہ کہا کہ اردو کے ٹیچر بنیں گے اور اردو بھی 200نمبر کی نہ پڑھیں گے۔ اگر وہ چاہتے تو کوشش کرکے شرائط میں 200کی جگہ50نمبر کی اردو کرواسکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ 12,862جگہیں ہوتے ہوئے بھی صرف4,827تقرری ہی ہوسکی اور بقیہ ساری سیٹیوں پر غیراردو داں کی تقرری ہوگئی۔ آج شاہد علی خان بھاجپا کے مددگار بن چکے ہیں
آج ایک سازش کے تحت ریاست کے تمام سرکاری اردو اسکولوں میں غیراردوداں ہیڈماسٹر اور ٹیچروں کی تعداد زیادہ کردی گئی ہے اور ان کی ذہنیت اردو کے تئیں کچھ خاص اچھی بھی نہیں ہوتی ہے جس کی وجہ سے اردو سرکاری اسکولوں میں بھی بہت کم اردو پڑھنے والے بچے ہیں۔ چونکہ ان کے ذہن میں یہ بات بٹھائی جاتی ہے کہ آگے کے امتحانوں میں اردو کا کوئی وجود نہیں ہے جس وجہ سے اردو داں طبقہ کے بچے ہوتے ہوئے بھی وہ میٹرک کے امتحانوں میں اپنی مادری زبان میں امتحان نہ دے کر ہندی کو ہی اپنی مادری زبان مانتے ہیں اور اسی میں امتحانات دینے پر مجبور ہیں… اور اردو کی انجمنیں بیان بازی سے آگے نہیں بڑھتی ہیں۔

تحریک کیا ہوتی ہے اور اسکے اثرات کیا ہوتے ہیں اسکی مثال کشن گنج کے جانبازوں نے دی اور جمہوری نظام حکومت اپنے حقوق کی حصولیابی کے لیے کس طرح جدوجہد کی جاتی ہے کا طریقہ بتایا۔ جب اے ایم یو کی بہار شاخ لے لیے زمین دینے میں سازش کی بو آنے لگی تو کشن گنج کے عوام سڑکوں پر اتر آئے،ریلوے کا چکّہ جام کر دیااور انتظامیہ کو مفلوج کر مطالبات کو تسلیم کرنے پر مجبورکر دیا۔ہم نے دراصل خود کو بے حس اور مردہ تصور کر لیا ہے۔ہماری حالت ان بھوکوں کی طرح ہے جنکے سامنے کھانا موجود ہے وہ اس انتظار میں ہیں کہ کوئی آکر لقمہ انکے منھ میں ڈال دیگا تبھی وہ اپنی بھوک مٹا ئیںگے۔مقاصد کی حصولیابی کے لیے جمہوریت میں تحریک کی ضرورت ہوتی ہے  جسکے لیے متحرک ہونا ہوگا،متحرک وہ ہوتے ہیں جنکے اندر کچھ پانے کی تمنّا اور خواہش ہوتی ہے نیز خواہشات کی تکمیل کے لیے اور حقوق کی حصولیابی کے لیے جمہوری طور طریقوں کو اپنانے کا جذبہ ہوتا ہے ۔ہم  نے سکھوں اورگوجر سماج کی عوامی تحریکوں سے کون سا سبق حاصل کر لیا؟ہمارے اندر کون سی گرمی پیدہ ہو گئی؟ راجستھان کے گوجروں عدالتی فیصلے کے باوجود ریزرویشن دینے کے لیے حکومت کو جھکانے میں کامیاب رہے۔ سکھ بھائی صرف ۲ فیصد ہیں مگر اپنے اتحاد کی وجہہ سے حکوکت کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر گفتگو کرنا جانتے ہیں اور ہمیں مسلکی شدت پسندی اور ذات برادری کے جھگڑوں سے فرصت ہی نہیں ملتی۔ہم اپنی مساجدوں کو امن اور اسلامی معاشرے کی شان بنانے کی بجائے مسلکی جھگڑوں کا مرکز بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

آج معاشرے میں سب کمزور اور ہیچ شئے ہماری ماں بہنیں جنہیں گالیوں سے نوازتے رہنا ہمارا تکیہ کلام بن چکا ہے،اس معاشرے میں مادری زبان کو کون اہمیت دیگا؟ میں نے ۴۰۰  ایسے دوستوں کو خطوط لکھے جو اردو کے نام پر موٹی ینخواہ پا رہے ہیں اور دردمندانہ اپیل کی کہ میں نقصان میں رسالہ شائع کرتا ہوں کم از کم ۲۰۰ روپیہ منی آرڈر بھیج کر سالانہ خریدارتوبن جائیں،لیکن ایک نے بھی جواب دینے کی تکلیف نہیں کی۔

بہار کی انجمن کو تباہ کرنے میں مرکزی انجمن ترقی اردواور سب سے بڑھکراردو کا نوجوان طبقہ بھی ذمہ دار ہے۔میرے خیال پٹنہ میں ایک تعزیتی جلسے کا انعقاد کیا جانا چاہیے جس میں مرکزی انجمن کے عہدیداروںکو ضرور بلا نا چاہیے۔جلسے میں انجمن ترقی اردو بہار کی خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے مرحومہ کے لیے اور ایثال ثواب کرتے ہوئے خراج عقیدت پیش کیا جانا چاہیے۔ مردوں کی مثال بنے اردوداں نوجوانوں کا حق ہے کہ سرکاری گرانٹ سے چلنے والی انجمن کے دفتر کو اردو دشمنوں سے خالی کرائیں اور دریافت کریں کہ انجمن کے دفتر اردو بھون کے بالائی منزل میں کرایہ کس کے حکم سے لگایا گیا؟کیا حکومت کو اسکی خبر دی گئی ہے؟انجمن کا اردو تحریک کیا رشتہ ہے؟ اگر نوجوان طبقہ بیدار رہتا تو کیا انجمن پر غیر فعال افراد کا قبضہ برقرار رہتا؟ کوئی پوچھے اردو اکادمی کے دفتر میں بی بی اے اور بی سی اے کا کلاس لیوں چل رہا ہے؟کیا ہم اپنی دکانوں پر اردو میں بورڈ نہیں لگا سکتے؟

قانون اردو کا نفاذ صرف سرکاری سرکلر جاری کرنے نہیں ہوگا۔پوری اردو آبادی کو حسّاس بنانا ہوگا اور بلاک سے لیکر پنچائت کی سطح پر ایکشن کمیٹی بنانی ہوگی اور اردو کے نام کمائی کرنے والوں کی خبر لینی ہوگی اور ایسے موقع پرستوں اور مفاد پرستوں کو اردو کے نام پر سیاست کرنے سے روکنے کے لیے عوامی تحریک کومنظم کرنا ہوگا۔بہار کے سبھی شہروں میں محلے اور سڑکوںکی نشاندہی کے بنائے گئے بورڈ اردو میں بھی لکھوانے کے لیے دبائو بنانا ہوگا۔آخر میں میرا اردو آبادی کے نام ایک ہیپیغام ہے  ان کے لیے جو اپنی ماں کی عزت کرنا جانتے ہیں…

 ’اگر مادری زبان سے محبت ہے توحساّس بنیں،فعال بنیں،متحرک ہوں اور ہمیشہ تحریک چلانے کے لیے تیار رہیں‘

 رابطہ :  9431421821,and   
E-mail: r.azimabadi@gmail.com


***************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 791