donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shahnawaz Farooqui
Title :
   Danishwar

دانشور
 
…شاہنواز فاروقی…
 
ہمارا زمانہ دانش کی نایابی اور دانشوروں کی فراوانی کا زمانہ ہے۔ چونکہ دانشوروں کی بہتات ہوگئی ہے اس لیے دانش کو نایاب ہونا ہی تھا۔ لیکن ہمارے زمانے میں دانشوروں کی کثرت کیوں ہوگئی ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی عظیم اکثریت کو دانشور کا مفہوم معلوم نہیں۔ چنانچہ وہ جہاں کسی کو ایک مصنوعی سنجیدگی کے ساتھ گردن ہلا ہلا کر بات کرتے دیکھتے ہیں اسے دانش ور کہہ دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ اب تو عام صحافی وغیرہ بھی دانشوری کے منصب پر فائز ہوگئے ہیں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ دانشور کہتے کسے ہیں؟
 
فرانس کے معروف دانشور اور ادیب ژاں پال سارتر نے ایک انٹرویو میں دانشور کو ’’مضطرب شعور‘‘ کہا ہے۔ ژاں پال سارتر روحانیت یا مذہبی اخلاق کا قائل نہیں تھا اس لیے اس کی اس تعریف میں روحانی اور اخلاقی جہت تلاش کرنا بیکار ہے۔ البتہ اس نے دانشور کی جو تعریف بیان کی ہے اس میں دانشور کی دو خصوصیات کی نشاندہی خلقی طور پر موجود ہے۔ ایک یہ کہ وہاپنے ماحول سے مطمئن نہیں ہوتا اور دوسری خصوصیت یہ کہ وہ ماحول کو بدل کر ایک نئی دنیا تخلیق کرنے کی آرزو کرتا ہے۔ اقبال نے اپنی ایک نظم میں دانشور کے لیے ’’امام‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے فرمایا ہے۔
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
دے کے احساس زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
دانشور کے مقابلے پر امامت زیادہ ہمہ گیر اور ہمہ جہت اصطلاح ہے مگر ہماری تہذیب میں امام کا مطلب رہنما بھی ہے اور دانشور اصولی اعتبار سے ایک فکری اور عملی رہنما ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ دانشور کے لیے امام کی اصطلاح استعمال کرنا بھی غلط نہیں۔ لیکن اقبال نے ان شعروں میں دانشور کی کن خوبیوں کی نشاندہی کی ہے؟ ایک بات تو انہوں نے وہی کہی ہے جو ژاں پال سارتر نے بہ انداز دیگر کہی ہے یعنی دانشور معاشرے کو حاضروموجود سے بیزار کرنے والا ہوتا ہے لیکن لوگوں کو حاضرو موجود سے بیزار کرنا کافی نہیں۔ اس سلسلے میں ایک نئی دنیا کی تخلیق کا تصور پیش کرنا اور اس دنیا کو حقیقت بنانے کے لیے جدوجہد کرنا بھی ضروری ہے۔ چنانچہ اقبال نے کہا ہے کہ دانشور وہ ہے جو تمہیں بتائے کہ تم جو زندگی بسر کررہے وہ خسارے کے سودے کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن دانشور کی ایک اور خوبی بھی ہوتی ہے اور وہ ہے اپنے ایقان یا Conviction کے مطابق زندگی بسر کرکے دکھانا اس کے لیے خطرہ مول لینا اور ضرورت پڑے تو آسانی کے ساتھ زندگی کی قربانی دے دینا۔ یہ خوبیاں ایک جگہ جمع ہوتی ہیں تو وہ چیز وجود میں آتی ہے جسے عرف عام میں دانشور کہا جاتا ہے۔
 
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سقراط فکری تاریخ میں دانشوری کی سب سے بڑی علامت ہے۔ سقراط کو معلوم تھا کہ اس کے زمانے میں زندگی کے بنیادی تصورات سے غلط معافی وابستہ کر لیے گئے ہیں۔ چنانچہ اس نے فکری سطح پر حاضروموجود کو چیلنج کیا۔ وہ گلیوں اور بازاروں میں نکل جاتا لوگوں بالخصوص نوجوانوں کو جمع کرتا اور ان سے پوچھتا کہ ان کے نزدیک صداقت کا مفہوم کیا ہے؟ ان کی نظر میں حسن کی تعریف کیا ہے؟ لوگ اس سلسلے میں اپنے خیالات پیش کرتے۔ سقراط ان کی باتیں توجہ سے سنتا اور جب لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرچکتے تو وہ انہیں بتاتا کہ صداقت اور حسن کے اصل معنی کیا ہیں۔ سقراط سے پہلے فلسفہ خواص کی چیز تھا مگر سقراط نے اسے عوامی چیز بنا دیا۔ سقراط کے زمانے میں ایسے لوگ پیدا ہوگئے تھے جو امراء کو پیسے لے کر فلسفہ پڑھاتے تھے۔ سقراط انہیں علم فروخت کرنے والا کہتا اور ان کا مذاق اڑاتا۔ سقراط کے اس طرز فکر وعمل نے معاشرے میں شعور کی سطح کو بدل دیا اور حکمرانوں کو عوامی بغاوت کا خطرہ لاحق ہوگیا۔ چنانچہ انہوں نے سقراط کو گرفتار کرلیا۔ انہوں نے سقراط پر الزام لگایا کہ وہ نوجوانوں کو بہکاتا اور ریاست کے خلاف بھڑ کاتا ہے اور مروجہ تصورات کو سبوتاژ کرتا ہے۔ چنانچہ اس ’’جرم‘‘ میں سقراط کو موت کی سزا سنائی گئی۔ سقراط کو موت کی سزا سنا دی گئی تو اس کا ایک شاگرد رونے لگا۔ سقراط نے پوچھا کیوں روتے ہو؟ کہنے لگا آپ نے کوئی جرم نہیں کیا مگر پھر بھی مرنے والے ہیں۔ سقراط نے کہا احمق کیا تو یہ چاہتا ہے کہ میں کوئی جرم کرتا اور پھر مارا جاتا۔ سقراط کے شاگردوں میں مالدار اور طاقتور طبقات کے نوجوان بھی شامل تھے۔ انہوں نے سقراط کو قید سے فرار ہونے کا مشورہ دیا۔ مگر سقراط نے فرار ہونے سے انکار کردیا اور موت کو گلے لگا لیا۔
 
مسلمانوں کی تاریخ میں امام غزالیؒ دانشوری کی ایک اعلیٰ مثال ہیں۔ غزالیؒ کا حاضر وموجود ایک جانب یونانی فلسفہ تھا اور دوسری جانب مذہب کے غلط تصورات۔ غزالی نے تن تنہا دونوں کے خلاف کامیاب جہاد کیا۔ غزالیؒ بہت کم عمری میں اس وقت کی سب سے بڑی مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوگئے تھے۔ ان کے شاگردوںکی تعداد ہزاروں میں تھی۔ حکمران طبقے میں انہیں غیر معمولی قدرو منزلت اور رسوخ حاصل تھا مگر تلاش حق کا مرحلہ آیا تو غزالیؒ نے سب کچھ ترک کردیا۔
 
ہمارے زمانے میں دانشوری کی ایک بڑی مثال اقبال ہیں۔ اقبال کے زمانے کا حاضر وموجود مغرب تھا۔ کمیونزم تھا۔ قوم پرستی تھی۔ اقبال نے ان سب کے خلاف جہاد کیا اور انہوں نے اسلام کو ایک مثالیے یا Ideal کے طور پر پیش کیا۔ اقبال نے ایک حد تک اپنے ایقان یا Conviction کو بسر کرکے بھی دکھایا مگر ان کی زندگی میں اپنے ایقان کے لیے قربانی کا مرحلہ کبھی نہیں آیا۔ البتہ مولانا مودودیؒ کی فکر اور شخصیت میں ہمیں دانشور کی تمام خوبیاں بدرجہ اتم نظر آتی ہیں۔ انہوں نے ایک جانب حاضر وموجود کی تمام منفی صورتوں کو مسترد کیا۔ دوسری جانب انہوں نے اسلام کے انقلابی تصور حیات کو ایک نئے اسلوب میں پوری قوت، جامعیت اور حسن وجمال کے ساتھ پیش کیا۔ تیسری جانب انہوں نے اپنے مثالیے یا Ideal کو حقیقت بنانے کے لیے ایک جماعت قائم کی۔ لیکن مولانا کی شخصیت کے صرف یہی پہلو اہم نہیں۔ مولانا ہماری تاریخ کی ان چند شخصیات میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنے ایقان یا Conviction کو مکمل طور پر بسر کرکے دکھا دیا۔ ایک مرحلے پر انہیں سزائے موت ہوگئی اور ان سے کہا گیا کہ وہ معافی مانگ لیں تو ان کی سزا معاف ہوسکتی ہے۔ مگر مولانا نے کہا کہ معافی وہ مانگتا ہے جو غلطی کرتا ہے میں نے جب غلطی کی ہی نہیں تو معافی مانگنے کا کیا جواز ہوسکتا ہے؟
 
عصر حاضر میں دانشوری کی اتنی بڑی مثالیں نایاب ہیں۔ البتہ کہیں دس اور کہیں 20 فیصد دانشوری اب بھی دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ ژاں پال سارتر الجزائر پر فرانس کے قبضے کے خلاف تھا چنانچہ اس نے الجزائر کو فرانس سے آزاد کرانے کی مہم چلائی اور یہ مہم عوام بالخصوص کالج اور جامعات کے نوجوانوں میں اتنی مقبول ہوئی کہ اس وقت کے فرانسیسی حکمران دہل کر رہ گئے۔ کسی نے اس وقت کے فرانسیسی صدر جنرل ڈیگال سے کہا کہ سارتر غدار ہے اُسے گرفتار کرلینا چاہیے۔ مگر ڈیگال نے اس مشورے کا تاریخی جواب دیا۔ اس نے کہا سارتر روح فرانس ہے اسے کیسے گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ سارتر کی مہم کا حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ فرانس کو الجزائر چھوڑنا پڑا۔ ہمارے زمانے میں نوم چومسکی امریکا کو امریکا ہی میں بیٹھ کر سب سے بڑی بدمعاش ریاست کہتے ہیں اور وہ ساری دنیا میں امریکا کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف گفتگو کرتے پھرتے ہیں۔ یہ بڑی بات ہے۔ بھارت میں ارون دھتی رائے کشمیر کے لوگوں کی جدوجہد کو سراہتی ہیں اور بھارت کے ظلم وستم کو آشکار کرتی ہیں۔ بھارت میں رہ کر یہ کام کرنا آسان نہیں۔ لیکن ارون دھتی رائے اپنے ایقان یا Conviction کو بسر کررہی ہیں۔ اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کسی نہ کسی درجے میں ایک دانشور ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں دانشوری کی روایت کمزور کیوں پڑی ہے؟
 
اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں حاضر وموجود کا غلبہ اتنا بڑھا ہوا ہے کہ اس کے خلاف سوچنے کا عمل بھی پاگل پن محسوس ہوتا ہے۔ چنانچہ لوگ حاضروموجود کے خلاف جہاد کرنے کے بجائے اس سے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ ہونے کے لیے کوشاں ہوجاتے ہیں۔ اس سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ مافی زمانہ حاضروموجود کے متبادل کا تصور اسلام کے سوا کہیں سے فراہم ہو ہی نہیں سکتا اور انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو یا تو یہ بات معلوم ہی نہیں اور اگر معلوم بھی ہے تو وہ اس متبادل کا فراہم ہونا محال خیال کرتے ہیں۔ چونکہ لوگ مذہب سے لاتعلق یا دور ہوگئے ہیں اس لیے اپنے ایقان یا Conviction کو بسر کرنے اور اس کے لیے قربانی دینے کی ان کی اہلیت بھی کمزور پڑ گئی ہے۔
 
**********
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 867