donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shamim Qasmi
Title :
   Ma Bad Jadidiyat Aur Wahab Ashrafi


ما بعد جدیدیت اور وہاب اشرفی


شمیم قاسمی


پروفیسر وہاب اشرفی کاادبی نقطۂ نظر بڑاآفاقی ہے۔ وہ قدیم یا جدید ادبی نظریوں کے صحت مند افکارکے اظہاریے میں کوتاہ نظری سے کام نہیں لیتے۔ ایک طرح کی تازہ فکری ان کی تنقید کا خاصہ رہی ہے۔ان کے یہاں ہر چندکہ نئے پرانے کی تفریق کوئی معنی نہیں رکھتی لیکن ادب و شعرمیں نئے فکری رویوں،نظریوں کو ’’خوش آمدید‘‘ کہنے میں بھی وہ ہردرجہ کشادہ دل واقع ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موصوف کاشمارہ گزشتہ دودہے سے مابعدجدیدیت کے ایک اہم شارح اورقد آور ناقد ؍علمبردار کی حیثیت سے بھی کم اہمیت کاحامل نہیں۔ان کی درجنوں کتابیں شائع ہوکر مقبول عام ہوچکی ہیں۔موصوف نے اس جہان رنگ و بو میں۲جون ۱۹۳۶ء کو آنکھیں کھولیں۔ جائے پیدائش بی بی پور قصبہ کا کو، جہان آباد ہے جو زمانہ قدیم سے علم و ادب اور روحانیت کا مرکز رہا ہے۔ موصوف کی ذاتی زندگی ایک جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ برسوں شعبۂ اردو رانچی یونی ورسٹی میں بہ حیثیت صدر ، درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے ہوئے عملی زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے رہے۔ پھر وہ گھڑی بھی آئی کہ وزیراعلیٰ بہار نے انہیں ریاست کے اہم ادارہ یونی ورسٹی سروس کمیشن کا سربراہ بنایا۔ اس کے بعد بہار انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کائونسل محکمۂ تعلیم بہار میں چیر مین کی حیثیت سے انہوں نے بطریق احسن اپنی خدمات انجام دیں۔ محکمۂ تعلیم میں انہیں کھٹے میٹھے تجربات بھی ہوئے۔ مسلسل علالت کی وجہ سے مزید Administrative       ذمہ داریوں سے خود کو الگ کرلیا اور پھر وہ مبارک دن بھی آیا کہ موصوف نے اپنی تمام جسمانی بیماریوں کی پروا کئے بغیر فریضۂ حج بھی ادا کرلیا۔

پروفیسر وہاب اشرفی جسمانی کمزوریوں کے باوجود ادبی طور پر آج بھی بے حد فعال ہیں۔ ذہن و دل کی سطح پر اس عمر میںبھی ان کے یہاں جو تازگی وتوانائی ہے اورجو ایک ’’بھرپورزندگی ‘‘جینے کا ولولہ ہے ،وہ بلاشبہ منجانب قدرت ہے ۔موصوف نے اپنے ادبی سفر کا آغاز ۱۹۵۵ء سے کیا۔ ان کی پہلی تخلیق’’اخوت‘‘ کلکتہ مغربی بنگال میں شائع ہوئی، بہ حیثیت شاعر غزلیں بھی کہیں پہلی غزل کی اشاعت ۱۹۵۵ء میں ہی ہوئی۔ ۱۹۵۸ء میں’’ہاتھی کے دانت‘‘کے عنوان سے ایک افسانہ لکھا جس کی اشاعت اپنے زمانے کے ہر دلعزیز اور شہرت یافتہ ماہنامہ بیسویں صدی میںہوئی۔ ڈرامے بھی لکھے۔ ایک ریڈیائی ڈرامہ ’’سب خیریت ہے‘‘ اپنے زمانہ میں بڑامقبول ہوا لیکن بہ حیثیت ناقدان کی باضابطہ پہلی تنقیدی تحریر کی اشاعت ۱۹۵۷ء میں ہوئی مطبوعہ نقوش تاباںمضمون کاعنوان’’ تابان القادری کی شاعری ہے۔  یوں پروفیسر وہاب ا شرفی کے تنقیدی؍ ادبی سفر کے اتارچڑھائو کے درمیان’’قطب مشتری:ایک تنقیدی جائزہ‘‘ کو ایک توازن ایک ٹھہرائو ملا- اور یہاں سے شروع ہوتا ہے دبستان تنقید میں ڈاکٹر وہاب اشرفی کے روشن اورآفاقی نقطہ نظر کاایک غیرمعمولی اور شفاف ادبی نظریات و رجحانات کا فکر انگیز اور معنی خیز تنقیدی سلسلہ… کہکشاں… در کہکشاں… فکر در فکر… کیا غزل…کیا نظم کیا کہانی … کیا جدید …کیا قدیم کیا معتبر جدید نسل… کیا تازہ واردان شعر وادب غرض کہ مختلف اصناف و نظریات اوراشخاص پر آپ کا اشہب قلم اپنی تازہ اڑانیں بھرتارہا… یوںدشت وصحرا میں نقش پا چھوڑ تارہا اورتشنگان ادب پیاس بجھاتے رہے، فکر وفن کے راستے ہموار ہوتے رہے۔ان کی ادبی کاوشوں؍ تصانیف پر ملک اوربیرون ملک میں اعزاز واکرام کی بارشیں ہوتی رہیں۔سرسوتی سمان کے علاوہ ملک کا اہم ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ بھی ملا۔ ان کے علمی و ادبی مرتبہ کا احاطہ اور عالمی ادب میں ان کی قابل استفادہ کتابوں کی فہرست سازی کا یہ وقت نہیں۔ ہاں! اتنا ضرور کہناچاہوں گاکہ تاریخ ادبیات عالم  اور زیر مطالعہ کتاب ’’ مابعدجدیدیتـ: مضمرات وممکنات‘‘ نے انہیں غیرمعمولی شہرت و عزت سے ہمکنار کیا ۔جنہیں میں ارد و ادب و شعریات کے ذخیرے میں ایک نمایاں اضافہ سمجھتاہوں۔ اورپھر تاریخ ادب اردو (تین جلدوں میں) کی اشاعت کے بعد تو ان کی شہرت میں مزید اضافہ ہوا۔ بلاشبہ’’ تاریخ ادب ا ردو‘‘ کی اشاعت اورپھر اس میں شامل روشن تاریخیت اور مخصوص تنقیدی رویوں کے ساتھ ادبا ء و شعراء کے ادبی ونجی حالات وافکار نے اسے جلا بخشی ہے۔ متذکرہ کتاب ہر اعتبار سے informativeاور قابل تقلید ہے۔ نئی نسل کو بطور خاص ایک کشادہ مطالعۂ ادب کیلئے مواقع فراہم کرتی ہے۔ اسے کہتے ہیں Single window for all ۔ ادبی نظریاتی اختلاف اپنی جگہ لیکن یہ سچ ہے کہ وہاب اشرفی نے ایک نئے ادبی ڈسکورس کے لئے نئی نسل کے درمیان کشادہ فضا ہموار کی ہے۔ یوںبھی اس نئے ادبی ڈسکورس یعنی مابعدجدید نظریات وافکار کا دائرہ عمل بڑا وسیع ہے۔ اس کی فکری کائنات لامحدود ہے۔ ترقی پسند جدیدیت، خالص جدیدیت یا پھر مابعدجدیدیت یعنی جو بھی اصطلاح آپ کو پسند ہو اس تناظرمیں وہاب اشرفی صاحب کے تنقیدی کاموں کو نظراندازنہیں کیا جاسکتا--- موصوف نے تاریخ ادب اردو لکھ کرہمارے ادبی سرمایوں میں ایک قابل فخر اضافہ کیا ہے۔

یہ حقیقت پسندانہ اظہار ہے کہ ڈاکٹر وہاب اشرفی ایک حقیقی اورعصرآشنا ناقد ہیں! معاصر اردوتنقید میں موصوف کا نام اور کا م بڑا معتبررہاہے۔ میر اتوایسا ماننا ہے کہ موصوف کو کسی کے تعارف کی ضرورت نہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ بساط تنقید پر، ان کااشہب قلم کچھ اپنی ہی چال چلتارہاہے کہ اسے بھیڑ چال پسند نہیں ---دراصل روایتی بت شکنی اور ایک طرح کی تازہ فکری وہاب اشرفی کی تنقید کاخاصہ رہی ہے۔ زیر مطالعہ کتاب’’مابعد جدیت: مضمرات و ممکنات‘‘ اسی سلسلے کی ایک مضبوط کڑی ہے۔ جو عصری ادب کی اس’’نئی لہر‘‘ یعنی مابعدجدیدیت کے خدوخال کو ایک واضح شکل وسمت دینے میں خاصی فعال نظر آتی ہے۔

باب اول کے تحت مابعدجدیدیت کے مباحث میں اپنے پورے تنقیدی امکانات اور متضاد نظریوں کے ساتھ شامل ان مغربی مفکرین کی کتابوں سے بطور خاص استفادہ کیا گیا ہے جن کی حیثیت مابعدجدیدیت کوایک قدآور اور میٹالک مینار بنانے میں حد درجہ نمایاں اورمسلم رہی ہے۔ ہم میں سے بیشتر( اردووالے) تو مابعدجدید فکر کے مغربی مفکرین سے واقفیت بھی نہیں رکھتے۔ سچائی تو یہی ہے کہ ہمارے یہاں مابعدجدید فکر کے گھنے اشجار لاشعوری طور پر ہمارے تخلیقی سفر کے سائبان بنے ہیں۔  پیش نظر کتاب کے مطالعہ سے مابعدجدیدیت کوقبول کرنے میں ہمیں جوایک نامعلوم سی ہچکچاہٹ یاجوایک طرح کا تذبذب تھا وہ قدرے ختم سا محسوس ہونے لگا ہے۔ یوں ہم سابقہ ادبی نظریوں سے کبھی بیزار تو نہیں رہے ہیں لیکن ادب کی کسی نئی صورت اورایک نئے زاویہ نظرکی تفہیم کیلئے برسو ں سے ا ٓرزومند ضروررہے ہیں۔

اب دیکھئے پروفیسر وہاب اشرفی ’’مابعدجدیدیت ‘‘کے حوالے سے کیا کچھ فرماتے ہیں۔حسب ذیل نکات کیا واقعی اردو میں اس نئے تنقیدی کلچر کو فروغ دینے اور کسی’’یوٹوپیائی‘‘ تصور سے نجات دلانے میں کار گر ثابت ہوتے ہیں؟

٭ نئی ادبی تحریکوں سے گریز پائی، عدم آگہی یا اظہار بیزاری دانش مندی نہیں، اس روش کو جہل بھی کہہ سکتے ہیں۔ اگرہم ایسا کریںگے تو اپنے ادب کی موت کااعلان کردیںگے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ ہماری زبان اوراس کے ادب کے ساتھ ایسا نہیں ہورہاہے۔

٭آج نہ تو ترقی پسندی کا دورہے نہ جدیدیت مزید گنجائش رکھتی ہے۔ اب جو کچھ ہے وہ ما بعد جدیدیت میں ہے۔

٭ الجھن یہ ہے کہ مابعدجدیدیت کی حتمی تعریف ممکن ہے بھی کہ نہیں۔

٭ مابعدجدیدیت کے موضوعات بہت واضح نہیں ۔ تاہم ان کا اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ جس کی رو سے وہ موضوعات یہ ہیں:

۰ معروضی سچائی بہ طور حقیقت کے عکس کے شک کی بات ہے۔
۰ سوسائٹی اپنی سچائیوں کے اظہا رکیلئے مخصوص زبان وضع کرتی ہے

۰ تجرید کو رد کرنا۔

۰چھوٹے بیانیہ اورقصہ گوئی میںنئی دلچسپی۔

۰ہرچیز کو اس کی سطح پر قبول کرنا اور اس میں ماورائیت کے پہلو پید اکرنے سے اجتناب۔
۰ سچائی کی یک جہتی سے انکار۔

٭ تحریر تاسیس  کے ہر نقطے کوتباہ کرکے لکھنے والے کی شخصیت کو معدوم کردیتی ہے۔
٭ متن کو کسی ذات سے وابستہ کیا ہی نہیں جاسکتاہے کہ ادب لاتعداد ثقافتی مراکز میں موجو دہے۔
٭ متن کامفہوم ہمیشہ غیر متعینہ ہے۔

٭ غایت جدیدیت کے ضمن میں ہے۔ مابعدجدیدیت کے خانے میں تفریح، کھیل تماشا ہیں۔
٭ مابعدجدیدیت توضیح سے علاقہ نہیں رکھتی ہے۔ اور صحیح قرأت کاتصور اس کے یہاں محال ہے۔
٭ جومباحث سامنے آچکے ہیں، ان کی روشنی میں ارد وفکشن اور شاعری کا مطالعہ تفصیل سے کیا جاسکتاہے۔

٭ احتجاج، سچائی کی نئی تعبیر یا فلسفے کانیا آہنگ مابعدجدیدیت کے حوالے بن سکتے ہیں۔
٭ مابعدجدیدیت افسانے کے دائرے سے کہیں کچھ چھوٹتانہیں اور جو کچھ چھوٹتا ہے وہ از کار رفتہ اورتخلیقی طور پر غیر کارآمد ہوتاہے۔

زیر مطالعہ کتاب میں مابعدجدیدفکر کی وکالت ووضاحت کیلئے مختلف مکتبہ فکر سے وابستگی رکھنے والے جن مغربی مفکرین اور نظریہ ساز وں سے کھل کر بحث کی گئی ہے۔ وہ سب بلاشبہ کشادہ ذہن کے مالک رہے ہیں۔ ان میںبھی فوکو، فریڈرک، رولاں بارتھ، ژاک دریدا، لاکان ، ایڈورڈ سعید، اہاب حسن اوربطور خاص جولیا کریسٹوا کے کاز وافکا رسے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی کہ انہیں اوراسی قبیل کے مغربی نظریہ سازوں کو بنیادی ڈھال بناکرہی اردو شعر وادب میں مابعدجدیدفکر کے اطلاقی منظرنامہ نیز اس کے مثبت ومنفی پہلوئوں پر فوکس ڈالاجاسکتاہے ، زیر مطالعہ کتاب میںبھی ایسا ہی ہواہے۔ اور فلسفۂ مابعدجدیدیت پر کھل کر گفتگو ہوئی ہے۔

مندرجہ بالامابعدجدید فکر کے مغربی مفسرین اور ہم نوائوں کی تحریروں کے مطالعہ کے دوران وہاب اشرفی نے جو اثرات قبول کئے ہیں ان سب کا زیر مطالعہ کتاب کے دوسرے باب میں گہرا انعکاس ملتا ہے۔ لیوتارکی تصنیفPostmodern Conditionکاانہوں نے ڈوب کر مطالعہ کیا تو ہے لیکن نئی نسل کو اسے گھول کر پلانے کی شعوری کوشش نہیں کی ۔البتہ اس کتاب کے حوالے سے بعض اہم نکات زیر بحث آئے ہیں وہ اس لئے بھی کہ متذکرہ کتاب مابعدجدیدیت کی وکالت میں زیادہ effectiveاور بنیادی رہی ہے۔اس باب میں اردو مابعدجدیدیت کے اطلاقی پہلوئوں پرسیر حاصل بحث کرتے ہوئے موصوف نے جو مثالیں پیش کی ہیں وہ بڑی فکر انگیز اورمعنی خیز بھی ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردومابعدجدید فکر کے فروغ اورتخلیقی جہانوں  کے حقیقی سرچشموں تک رسائی حاصل کرنے میں موصوف خاصے کامیاب نظر آتے ہیں۔ یہاں ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ عالمی ادب پرتو گہری نظررکھتے ہیں لیکن اردو ادب و شعرکے تہذیبی پس منظر کو کبھی نظراندا زنہیں کرتے۔

 متضاد نظریوں اور رویوںکے حامل مغربی مفکرین کی تحریروں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ’’حرف آغاز‘‘ میں ہی زیر مطالعہ کتاب کے مصنف نے اپنا متوازن تنقیدی نقطہ نظر واضح کرتے ہوئے اس کا دوٹوک اظہار کردیاہے:

۱۔    جب کوئی نیا ڈسکورس سامنے آتا ہے توادبی دنیا ایک طرح کے ہیجان اورانتشار میںمبتلاہوجاتی ہے۔ موافق اورمخالف آوازیں ابھرنے لگتی ہیں… منطق اوردلیل ایسے انتہاپسندوں کیلئے ہمیشہ بے معنی ہوتے ہیں یہ سمجھنے کی بات ہے کہ کوئی بھی نئی ادبی تحریک یا ادبی منظرنامہ گزشتہ روش سے لازماً قدرے مختلف ہوتاہے اس لئے اسے قبول کرنے میںبھی بہت سے رخنے آتے ہیں۔

۲۔ نئی تھیوری بہت سے امکانات کی خبردیتی ہے۔ اس کے مضمرات بڑے وسیع ہیں… مثبت پہلوئوں پر اتنازور ہے کہ منفی صورتیں از خود مردہ ہوتی نظرآتی ہیں۔… کچھ ایسی ہیں جو ہندستان یا اردو کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتیں لیکن ایسابھی ہے کہ کوئی تحریر کبھی بھی من وعن قبول نہیں کی جاتی۔ا س کے اپنے ثقافتی حوالے ہوتے ہیں ا س لحاظ سے بعض نکات یا بعض پہلو ترمیم وتنسیخ کے بعد ہی قبول کئے جاسکتے ہیں۔ ہر زبان کا اپنا مزاج ہے اوروہ اپنی ثقافت سے تعمیر ہوتاہے۔ چنانچہ مغربی مابعدجدیدیت اور اردومابعدجدیدیت میں حدفاصل قائم کرنی پڑے گی اوریہ ہوبھی رہاہے۔‘‘

 اس میں شک نہیں کہ ہم اردو والے کسی نئی تبدیلی کو خواہ اس کا تعلق سماجی و ثقافتی رہاہویاادبی بہت آسانی سے ہضم کرنے کیلئے تیا رنہیں ( ہمارا ضعف مادہ کسی سے پوشیدہ نہیں) ہماری مشرقی زندگی اور اس کے سروکار آج بھی بہت حد تک بندھے ٹکے اصولوں کی زنگ آلود زنجیروں سے کچھ اس طرح پیوست ہیں کہ تازہ ہوا کے جھونکے بھی ہماری منجمد شریانوںمیں جان نہیں پھونکتے۔ ہمیں توتبدیلی ہواکی آہٹ سے ہی زکام ہوجاتاہے۔ زندگی کوایک نئے زاویے سے دیکھنے ، بہت قریب سے چھونے اور محسوس کرنے کیلئے جب بھی کوئی نیا ادبی منظر نامہ آنکھوں کے کینوس پردھنک رنگ روشنی کی لکیر بن کر ابھرتاہے توہماری آنکھیں چوندھیاجاتی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ اس ’’نئی لہر‘‘ اور ’’نئی روشنی‘‘ سے ہم ایک نئی صورت ایک نیا حظ اورایک نیا جہان کشاد کریں۔ یوں ایک چھوٹے دائرہ سے نکل کرایک بڑےHorizonمیںداخل ہوں اورایک غیر مشروط فضامیں شعر وادب خلق کرتے ہوئے معنی آفرینی کی نہ ختم ہونے والی وادیوں کی سیر کریں اور قبل سے تھوپے ہوئے کسی معنی کے جبر سے نکل جائیں ۔ پیش نظر کتاب کے مطالعہ کے بعد یہ سوچنا پڑاکہ تقریباً تیس بتیس برسوںمیں جو شعر وادب ہم نے خلق کیا ان کی بیشتر جڑیں (لاشعوری طو رپر ہی سہی) اور صورتیں کیا مابعدجدید فکر کی تفہیم و تشریح میںFruit fulثابت ہورہی ہیں ؟اوریہ بھی کہ مابعدجدید فکر کی زرخیز زمین سے تخلیقی رسد حاصل کرتی رہی ہیں۔کیاہمارے حالیہ تخلیقی سفر میں جوتوانائی اور شادمانی کاکرنٹ اورحیات نو کی چمک دمک ہے وہ مابعدجدیدفکر کی کشادہ نظری کی دین تو نہیں؟

 ہم اکثراپنے ادبی سفر کے دوران انہیں راستوںپر چلنے کے عادی رہے ہیں (اسی میں عافیت بھی محسوس کرتے ہیں) جن پر بے شمار قدموں کے نشانات قبل سے موجود رہتے ہیں۔ ناموجود اورنامعلوم راستوں پرچلنے کا رسک ہم لینا ہی نہیں چاہتے۔ آخر کیوں؟… اس کیوں کابہت سیدھا اور سامنے کا جواب زیر مطالعہ کتاب میں ہی موجود ہے۔

’’بعض لوگ یا ادارے کسی خاص ادبی اسکول یا روئیے سے اٹوٹ طورپروابستہ ہوتے ہیں۔ نتیجے میں کوئی بھی تبدیلی انہیںناگوار ہوتی ہے۔ اس لئے کہ ان کے اپنے ادبی موقف پرضرب پڑتی ہے۔‘‘
 ویسے جدیدیت اورمابعدجدیدیت میں فرق کے سلسلے میں عہدسازناقد شمس الرحمن فاروقی کی رائے بڑی معنی خیز ہے۔’’ جدیدیت ایک بندہ کمرہ ہے جب کہ مابعدجدیدیت ایک کھلا ماحول ہے۔‘‘ گویا جدیدیت پر اصول وضوابط کی پابندیاں تھیں جبکہ مابعدجدیدیت ان اصولوں اورضابطوں سے مکمل آزاد ہے۔ وہاب اشرفی نے بھی  فلسفۂ مابعدجدیدیت کو فوکس کرتے ہوئے اس کے فکری نظام کی تفہیم میں اپنے جن افکار و آرا کا اظہار کیا ہے وہ اردوکے عام قاری کے لئے ہنوز تشنہ طلب ہیں۔ البتہ موصوف نے بھی کسی بھی طرح کی قید وبند سے آزاد ہونے یعنی ’’سچائی کی یکجہتی سے انکار‘‘ ہی کو مابعدجدید تصور کیا ہے۔ماہر لسانیات پروفیسر گوپی چندنارنگ بھی ایک جگہ رقم طراز ہیں:’’ ادب پنپتا ہے انحراف واجتہاد سے ، یہ کھیل ہی افتراق و انفرادکاہے۔‘‘ تغیر وتبدل توفطرت کے قوانین ہیں اورادب و شعر بھی اس دائرہ سے باہر نہیں۔ اس حوالے سے ادب کو حیات انسانی کے نت نئے مسائل و حقائق اور اس کے دوررس نتائج کاسراغ مل جاتاہے بہت سے گوشے اورامکانات متحر ک صورتوں میں جلوہ گر ہونے لگتے ہیںجن کے اظہا رکے لیے  نئے اذہان و اسلوب اور نئے فکری زاویے اپنے وجود کااحساس دلانے لگتے ہیں۔نامورماہر لسانیات پروفیسر نارنگ اس سلسلے میں مزید روشنی ڈالتے ہیں:’’ مابعدجدیدیت کی بنیاد جس ادبی فکر پرہے وہ ساختیات سے ہوتی ہوئی آتی ہے نسوانیت کی تحریک نئی تاریخیت اور رد تشکیل کے فلسفے بھی اس نئی ذہنی فضا کاحصہ ہیں۔ ‘‘یہ بات ذہن نشیں رہے کہ مابعدجدیدیت کا تعلق بہرحال ساختیات اور پس ساختیات سے بڑاگہرا ہے۔

وہاب اشرفی تواس کی حتمی تعریف پیش کرنے سے گریز کرتے ہوئے بڑی  سادہ لوحی سے اس کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں کہ’’ میری الجھن یہ ہے کہ مابعدجدیدیت کی حتمی تعریف ممکن ہے بھی کہ نہیں‘‘؟ -- اب ایسے میں مابعد جدیدیت کی فکری موشگافیوں پر عقابی نظر رکھنے والے پاکستان کے بزرگ ترقی پسند ناقد محمد علی صدیقی کا یہ بیان ہمارے لئے کسی ’’بم بلاسٹ‘‘ سے کم نہیں اور جس نے بلاشبہ ہمیں بھی ’’دھرم سنکٹ ‘‘ میں ڈال دیا ہے۔ موصوف فرماتے ہیں کہ ’’مابعد جدیدیت کا لب لباب یہ ہے کہ یہ بنیادی مرکز Foundationalism حقیقت پسندی Realism اور انسان دوستی Humanism کے خلاف ایک منظم تحریک ہے جس کا مقصد Logocentric اظہار پر مبنی مباحث کی بیخ کنی Undermining  ہے۔ یہ تحریک سماجی اور فکری علوم کے ارتقاء کے ساتھ انسانی تاریخ کے ارتقائی سفر سے یکسر انکار کرتی ہے۔ یہ تحریک اپنے بیان کردہ معنیاتی نظام کے علاوہ کسی اور معنیاتی اور تہذیبی نظام کو حشوو زائد کی فہرست میں رکھتی ہے۔‘‘

خودپروفیسر گوپی چندنارنگ کو اس کا احساس ہے کہ ’’ موجودہ زمانہ کسی ایک نظریہ ادب نہیں نظریہ ہائے ادب کا ہے۔‘‘کیا ایسا مان لیاجائے کہ مابعدجدیدیت کوئی ادبی نظریہ نہیں؟ توپھر کیااسے ہم جدیدادب کاہی اگلا پڑائو کہہ دیں؟ صف شکن جدید ناقدشمس الرحمن فاروقی کا توماننا ہے کہ’’ مابعدجدیدیت کوئی ادبی نظریہ نہیں ہے بلکہ فکری صورت حال ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ جدیدیت کے بعدکوئی نیا ادبی نظریہ سامنے آیاہو جسے ہم مابعدجدیدکہیں۔‘‘

وہاب اشرفی نے ایک جگہ بڑی صاف گوئی سے یہ اعتراف کیا کہ’’ میں کبھی جدیدیت سے وابستہ رہاتھا۔ اس تحریک کی کئی چیزیں مجھے کل بھی پسند تھیں اورآج بھی پسند ہیںمثلاً شعر وادب میں فنکاری، خالق کی انفرادیت، پیکروںکا سوچا سمجھا استعمال اوراپنی ذات کو سمجھنے کی ایک صورت لیکن جیسا میں نے پہلے کہاکہ تکرار اوربھیڑ چال و فیشن میں شعر وادب پر بادل چھاجاتے ہیں یا نقلی لوگ ا س طرح ابھرتے ہیںکہ حقیقی اور غیر حقیقی چہروں کی شناخت ناممکن ہوجاتی ہے۔ میںجدیدیت کاعلمبردار تھا او راس کے بعض Extremeپہلوئوں پرتنقید بھی کرتا رہاتھا، میری کتابیں اس کی گواہ ہیں۔ جب مابعدجدیدیت سامنے آئی تو میں نے اس کے اوصاف کا تجزیہ کیا اور اس کے حدود کو جاننے کی سعی کی۔ لازماً ایک پڑائو سے دوسرے پڑائو کی طرف رخ کرناپڑا۔

فی زمانہ نئی نسل کا ایک بہت بڑا حلقہ اپنی ذہنی اورفکری آزادی کے لئے پر تول رہاہے ایسے میں زیر مطالعہ کتاب کا انتساب جو’’نئی نسل کے نام‘‘ ہے، بے معنی نہیںَ نئی نسل کو پتہ ہے کہ عالمی ادب کے بدلتے ہوئے منظر نامہ اورایک نئے ادبی ڈسکورس میںاس کی شمولیت ادبی صورت حال کاایک اہم تقاضا ہے جو یقینا فی زمانہ بالخصوص تازہ کار نسل کے لئے ثمر آورہے ساتھ ہی مابعدجدید ڈسکورس کو مختلف دبستانوں تک پھیلانے میں تقویت کا باعث بھی۔ زیر مطالعہ کتاب ادب و شعر کی اس ’’نئی لہر‘‘یعنی مابعدجدیدفکر سے بطور خاص نئی نسل کے کورے اذہان کو ہم آہنگ کرنے کے امکانات سے روشن اور لبریز ہے ۔ یہ ضروری بھی نہیں ہے کہ موصوف کے تنقیدی نقطہ نظر سے ہم کلی طور پر اتفاق کریں لیکن ہمیں اس کااعتراف تو کرنا ہوگا کہ زیر مطالعہ کتاب مغربی مابعدجدید اور مشرقی مابعدجدید فکر کے درمیان ایک حد فاصل قائم کرتے ہوئے ایک نہایت وسیع مفہوم پیش کرتی ہے او رہمارے بہت سارے شکوک و شبہات کودور کرنے میںاہم رول ادا کرتی ہے یہاں پر اس کا ذکر میں غیر ضروری نہیں سمجھتا اور حقیقت بیانی بھی یہی ہے (ادبی دیانت داری کابھی یہ تقاضا ہے) کہ مابعدجدیدیت کی حد درجہ پیچیدگی اورگتھی کو سلجھانے میں عصری ادب کے دیدہ ورنقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ نے پہل کی۔ ہندستان کی دھرتی پر مابعدجدیدیت کا طیارہ موصوف نے اس وقت اتاراتھا۔ جب ہوائیں مخالف سمت میں بہہ رہی تھیں اور لینڈنگ کیلئے ماحول ساز گار نہیں تھا اور راستے ناہموار اورپتھریلے تھے۔ اب صورت حال بدل چکی ہے اورپروفیسر موصوف کے علمی وقار کا پرچم مخالف ہوائوں کی پروا کئے بغیر لہرارہاہے   ----یہ میر ااپنا خیال ہے کہ مابعدجدید فکر کی توضیح و تشریح میں پروفیسر نارنگ کے بعد دوسرا باوقار نام زیر مطالعہ کتاب کے مصنف یعنی وہاب اشرفی کاہے۔ میرے اس خیال کو تقویت پہنچانے کیلئے، ان کی بے شمارتحریریں دامن فکر کشادہ کررہی ہیں--- اس سے  پہلے کہ میرے ذاتی خیالات میری اس تحریر کی طوالت کا سبب بنیں مختصراً عرض کرنا چاہوں گاکہ زیر مطالعہ کتاب مابعدجدید فکر کی قصیدہ خوانی کرنے کیلئے نہیں بلکہ ’’مابعدجدیدیت‘‘ کے نام پر گزشتہ دہے سے جو گمرہی اورConfusionپھیل رہاتھا اسے دور کرنے کے صالح جذے کے تحت لکھی گئی ہے۔ ہاں، جہاں کہیں بھی مابعدجدیدیت کی چول ڈھیلی ڈھالی نظر آئی ہے اس کے مصنف نے اسے بڑی ہنرمندی سے ٹھیک ٹھاک کرنے کی اپنے طور پر حتی الامکان کوشش کی ہے۔ لیکن بطور مثال جن اشعار کا انتخاب کیا گیا ہے ان میں بیشتر اشعار مابعد جدیدیت کے اثرات مرتب کرنے کے پروسس میں اپنے مہنہ کی کھا گئے ہیں۔اسے کہتے ہیں شعروں کے انتخاب نے رسواکیا ہمیں۔ پیش نظر ایڈیشن میں جو پروف ریڈنگ کی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں اسے باشعور قارئین محسوس کریںگے۔ کہا جا سکتا ہے کہ انتخاب اور References  میں صاحب کتاب نے ذراسہل پسندی یا پھرعجلت سے کام لیا ہے۔ میرا توایسا ماننا ہے کہ پوری ایمانداری سے ایک بڑے کام کے درمیان چند چھوٹی چھوٹی غلطیاں یا کوتاہیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ مجموعی طور پر ’’مابعدجدیدیت:مضمرات وممکنات‘‘ کامطالعہ تازہ اذہان کے لئے نشان سنگ ثابت ہوگا کہ کل تک نئی نسل کی مابعدجدید یت سے ذہنی وابستگی بس دعا سلام تک ہی محدود تھی۔ موصوف نے مغربی دانشوروں کے مباحث کو انگیز کرتے ہوئے جونتائج اخذ کئے ہیں وہ گنجلک نہیں اور جس طرح مابعدجدیدیت کے تشکیلی اوراطلاقی پہلوئوں پر فوکس ڈالاہے اس سے دودھ کا دودھ اورپانی کاپانی بالیدہ شعورکھنے والے قارئین کے سامنے ہے۔

باب اول کے تحت مغربی مفکرین کے متضاد نظریوں اورادبی رویوں کے اتصال سے جوصورت ابھری ہے اور جو نتائج نمایاں ہوئے ہیں ان کی روشنی میں اردو مابعدجدیت کوسمجھنے اور سمجھانے کیلئے زیر مطالعہ کتاب کاباب دوم بھرپور، دوررس اور سنجیدہ مطالعہ کا متقاضی ہے۔ اس کامطالعہ ہمیںاتنا توضرورباورکراتاہے کہ مابعدجدیدیت کسی سابقہ ادبی فکر یا رجحان کو اس کی Totalityمیں رد تو نہیں کرتی لیکن ہمیں لکیر کافقیر ہونے سے روکتی ضرورہے۔ اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہی کہ آج کی نسل لکیر کافقیر ہونے سے رہی۔اس نسل کو یہ بھی معلوم ہے کہ مابعدجدیدیت میں Diversityپرپورا فورس لگایاجاتاہے۔

۴۶۰ صفحات پر مشتمل اس نفیس کتاب میں مغرب و مشرق کے اطراف سے جودھنک رنگ شعاعیں پھوٹ رہی ہیں ان کے اتصال سے’’بیرون خانہ‘‘ اور’’درون خانہ‘‘ بیک وقت، دونوںروشن ہوگئے ہیں۔ باب دوم میں جوفکری اورموضوعی تنوع ہے۔ وہ وہاب اشرفی صاحب کے کثیر الجہت مطالعہ اوران کے علمی ترفع پردال ہے۔

دراصل موصوف کا اصل تنقیدی جوہرتواسی باب(دوم) میں کھلتا ہے جسے ہم واقعی وہاب اشرفی کی تنقیدی فکر کہہ سکتے ہیں۔ یوںموصوف نے ثابت کردیا ہے کہ وہ مابعدجدید فکر کے صرف شارح ہی نہیں ناقد بھی ہیں۔ ان کاتنقیدی نقطۂ نظر سابقہ ادبی رجحان سے مربوط بھی ہے اورمعاصرشعر وادب پرحاوی ہوتے ہوئے حالیہ رجحان (مابعدجدید) کی شہ رگ کے قریب بھی ۔ اسے ہم مابعدجدیدیت کی پبلسٹی ہرگز نہیں مانتے۔موصوف نے زیر مطالعہ کتاب کے صفحہ۱۱( گیارہ) پربہت نیک نیتی سے یہ واضح بھی کردیا ہے کہ’’ میری یہ کتاب غالب کی طرف داری میںنہیں بلکہ سخن فہمی کاایک رخ ہے۔ جس رخ میں ذہنی تحفظات کاکہیں دخل عمل نہیں ۔‘‘

(مباحثہ:۲۰۰۴ئ،عہد نامہ ۲۰۱۲ئ)

*************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1317