donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adbi Gosha
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Zubair Hasan Shaikh
Title :
   Mobada Khandae DandaN Numa Ho Subhe Mahshar Ki


مبادا خندہء دنداں نما ہو صبح محشر کی

زبیر حسن شیخ

 

آج شیفتہ پریشان حال گھبرائے ہوئے ہمارے گھر آ پہنچے،  بقراط انھیں سنبھالے ہوئے تھے. آتے ہی نڈھال ہو کر صوفہ میں دھنس گئے.  ہم  یہ سوچتے ہوئے انکے لئے پانی لینے دوڑے کہ شاید میکسیکو کی قدیم مایان تقویم کے مطابق قیامت سر پر آ گئی ہوگی. اہل مایان نے سال دو ہزار بارہ کی تاریخ دی تھی.. تاریخ دینے کا چلن موجودہ معاشرے میں بھی عام ہے، خاصکر عدلیہ میں....شادی بیاہ پر بھی جہیز کے ساتھ تاریخ لی اور دی  جاتی ہے.  تہذیب جدیدہ میں عشاق بھی ایکدوسرے کو تاریخ لیتے اور دیتے رہتے ہیں..... سب تاریخیں قیامت کی نشانیاں ہیں. ویسے اہل مایان نے قیامت کی تاریخ کی پیشن گوئی اپنے پڑوسی ملک کے متعلق دی  تھی جو اب صحیح ثابت ہو رہی ہے.  لیکن اس پیشن گوئی کو  ذرائع ابلاغ نے ساری دنیا سے منسوب کر دیا.  تعجب ہے کہ ذرائع ابلاغ نے خود کو اس سے مبرا سمجھا... قابل دید قیامت ہوگی جب قیامت کی خبریں دکھانے اور سنانے صرف ٹی و ی میڈیا باقی بچے گا.....

 ہم نے دونوں بزرگوں کی خدمت میں ٹھنڈا پانی پیش کردیا... بوتل دیکھتے ہی شیفتہ نے  فرمایا،  حضور  اسقدر پانی کیوں ضائع کرتے ہو، لوگ پانی کی قلت سے مر رہے ہیں، اور ویسے بھی مسلمانوں کو  چلو بھر ہی کافی ہے،  خاص کر اردو سے محبت کا دعوی کرنے والوں کو .   ہم نے سوچا آج برق گرنا طے ہے، اور خوب گرے گی...  بقول علامہ،  بیچارے مسلمانوں پر ہی گرتی ہے. لیکن یہی تو ہیں جو اسے مدعو بھی کرتے ہیں. دونوں حضرات نے  دو چار گھونٹ کچھ اس ادا سے  پی کر بوتل میز پر  رکھ دی کہ ہمیں مرزا کا پینا پلانا یاد آگیا،   اور ہم نے اس کا ذکر از راہ خوشدلی ان دونوں سے کر بھی دیا.  شیفتہ آپا کھو بیٹھے اور فرمایا،  جناب آج ہمیں نہ چھیڑیے کہ. ".....بیٹھے ہیں ہم تہیہء طوفاں کیے ہوئے".

ہم نے پوچھا،  حضور مدعا کیا ہے اور  کس بات کی بے قراری ہے؟........ فرمایا ،  عجیب و غریب خواب دیکھا ہے کل رات. ہمارا بلاوا آگیا تھا،  اور  ہم عالم ارواح میں پہنچ گئے تھے،  اور وہاں علامہ کو اپنے مخصوص انداز میں فکر مند دیکھا.  یہاں سے وہاں تک پہنچنے میں جو اپنوں کی بے التفاتی کا منظر ہمیں  دکھایا گیا تھا  اسکی تفصیل تو پھر کبھی سہی،  آپکی طرح کئی احباب ہمارے جنازہ میں ندارد تھے اور نیٹ پر  ٹامک ٹوئیاں کرنے میں مشغول تھے.  اس وقت صرف یہ بتانے آئے ہیں کہ...........بقراط نے درمیان میں بات اچک لی اور کہا،  حضور  وہ سب بعد میں بتائیے گا،  پہلے یہ بتائیں کہ "یہاں سے وہاں تک"  پہنچنے میں کس کس کی بے التفاتی دکھائی گئی  اور کیا کیا دیکھا..... شیفتہ نے کہا،  اماں کیوں منہ کھلوا رہے ہو،  اپنی اور احباب کی حماقتوں اور کج ادائیوں کا پردہ فاش کرنے  تلے ہو...اور  اگر  آپ  بضد ہیں تو مختصرا  خوابوں دیکھا حال بتائے دیتے ہیں،  اور پھر  ہم علامہ کے پاس چل دیں گے.... بقراط نے کہا چلیے یہی سہی.

 فرمایا، مت پوچھیے کہ  کیا کیا دیکھا اور کیا نہ دیکھا....اردو زبان کا دم بھرنے والوں کو  اردو  کے لباس فاخرانہ یعنی اسکے رسم الخط کو تار تار  کرتے دیکھا، کبھی فلموں اور میڈیا میں اپنے پرایوں کو اردو کی کمائی کھاتے دیکھا اور اسکا سولہ سنگھار  کروا کر  اسکے وقار  کو مجروح کرتے دیکھا..صالح ادبا و شعرا  کے مسلسل اصرار کے باوجود انکی گزارشات کو سنی ان سنی کرتے دیکھا. اردو زبان کی ترویج و ترسیل اور تعلیم کی دعوت پر اکثر کو صم بکم بنتے دیکھا. اور سب سے اہم یہ کہ ادبا و شعرا کی تخالیق کا مختلف شعبوں میں اور خاصکر نیٹ پر 'مال مفت دل بے رحم کی طرح'  استعمال کرتے دیکھا... بقراط نے پوچھا، اور عالم ارواح  میں تو اس سے سوا دیکھا ہوگا؟....

فرمایا،  عالم ارواح میں پہنچے تو کیا دیکھا کہ علامہ کے کندھوں پر ہاتھ رکھے مرزا  خراماں خراماں دور  بادلوں میں اڑ رہے تھے، کمبخت ہم اپنی عینک جاتے جاتے بھول گئے تھے،  اس لئے ہمیں صاف نظر نہیں آرہا تھا، سوتے میں عینک رکھنے کی عادت بھی نہیں  تھی ہمیں.....اماں،  بزرگوں کی ان چیزوں کا  عزیز و اقارب بلکل خیال نہیں رکھتے کہ مٹی ڈالنے کے ساتھ ساتھ انکی عینک بھی ڈال دیں،  بلکہ دور جدید کا تقاضہ ہے کہ موبائیل اور اگر  ممکن ہو تو برقی بیاض بھی ڈال دیا کریں.  فرمایا،  علامہ نے ہمیں دیکھتے ہی مرزا کے کان میں کچھ کہا اور وہ یہ کہتے ہوئے چل دئے کہ.."مبادا خندہء دنداں نما ہو صبح محشر کی". .... ہم نے علامہ سے مصحافہ کر دریافت کیا،   اے خودی کے پیامبر،  یہ کیا راز ہے اور  ہم کہاں ہیں..اور مرزا  کو صبح محشر کس بات کا خوف ہے ...فرمایا.....

"جو ہے پردوں میں پنہاں، چشم بینا دیکھ لیتی ہے "    

  مرزا فکر مند ہیں کہ خدا نہ خواستہ محشر کی صبح اہل علم و ادب کے لئے ملامت اور استہزا  کا باعث ہو...طائران ادب اس نکتہ سے اکثر غافل رہتے ہیں. افکار کی یہ لطافت اور ایسی نکتہ آفرینی مرزا کا ہی اعجاز ہے.......

ہم نے کہا حضور،  دنیا جانتی ہے کہ بام عرش کے طائر  بھی آپ کے ہمزبانوں میں ہیں. ہمارا اتنا کہنا تھا کہ کئی اردو ادبا و شعرا پرندوں کی شکل میں نمودار ہونے لگے. جن میں چند بے حد خوبصورت اور پرنور  نظر آرہے تھے تو چند بے نور اور چند کافی دوری پر بد نما چہرہ لیے اڑ رہے تھے .  الغرض ہر ایک کے چہرے انکے افکارات اور انکی تحریروں کا منہ بولتا ثبوت تھے.....

بقراط نے بے چین ہو کر شیفتہ سے کہا،  حضور  کم از کم جو بد نما چہرے تھے انکے متعلق کچھ تو بتائیے. ادبی حلقے آجکل بجھے بجھے سے ہیں کہ کوئی سنسنی نہیں، .چند حضرات ہیں جو پرانے قوالوں کی قوالی سنا کر ' ہو' کا عالم پیدا کرنے کی نا کام کوشش کرتے ہیں.... چند ایک پھلجڑی لیکر آتے ہیں اور اکثر اپنے ہاتھ اور دوسروں کے دامن جلا کر چل دیتے ہیں، پتہ نہیں جاتے کہاں ہیں، عالم ارواح کے ادبی حلقہ میں بھی  آپ کو نظر نہیں آئے ہونگے .....اگر مرزا کے اس مصرعہ ..."سب کہاں؟  کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں"........ پر غور فرمائیں تو  کچھ کے علاوہ باقی سب صورتیں کہاں گئی ہونگی..........شیفتہ نے کہا،  اماں، آپ  خود ہی جب وہاں جائیے گا تو ضرور دیکھیے گا.  اب آپ علامہ کی باتیں سنیے.... بقراط نے کہا حضور  کم از کم آپ نام ہی گنا دیں تاکہ پتہ چل جائے کہ  اردو ادب میں وہ حضرات کون ہیں جنہیں علامہ کے ارد گرد اڑان بھرنے کا شرف حاصل ہوا ہے....شیفتہ نے کہا ہمیں تو بہت کم ادبا علامہ کے آس پاس نظر آئے،  اور جو بھی تھے وہ سب مرحومین تھے.... بقراط نے کہا،   یعنی زندوں میں کسی کی مجال نہیں کہ علامہ کے آس پاس بھی اڑان بھر سکے...آپنے علامہ سے دنیا میں موجود ادبا و شعرا کی بابت کچھ تو دریافت کیا ہوگا؟.... کہا،  ہاں ہم نے  پوچھا تھا اور علامہ نے رنجیدہ ہو کر فرمایا کہ،  ان میں سے اکثر ہمارے لئے مر چکے ہیں،.... پہلے تو علامہ کا یہ قول سن کر ہم غوطہ کھا گئے. لیکن پھر  دماغ پر زور دیا تو بات کی گہرائی کا احساس ہوا. ہم خود بھی اکثر سوچا کرتے تھے کہ؛ اجل سے ربط ہے کیا زیست کا پتہ کس کو.......گر  یہ مربوط  ہے، تو مشروط زمانہ ہے یہاں.

بقراط نے دریافت کیا،  علامہ نے ہندوپاک کے متعلق کچھ نہیں پوچھا ؟...... کہا،  علامہ کو اہل زمین کے سب کرتوت نظر آرہے ہونگے.کیونکہ جب وہ حیات تھے تب بھی اکثر حقائق سے انھیں روشناس کرادیا جاتا تھا...اس لئے  ہم نے اس بارے میں انہیں کریدنا مناسب نہ سمجھا کہ مبادا کچھ ایسی حقیقتیں آشکار کردیں جس کو سننے کا یار ا نہ ہو.....البتہ ہم نے پوچھا کہ، اے شاعر  مشرق.... اردو  زبان کا مستقبل کیسا ہے ؟... فرمایا.."گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے.... "..

ہم نے پوچھا جناب اپنے بارے میں ایسی بات بتائیے جو  آپ دنیا کو بتانہ سکے ہوں.. فرمایا..ایسی کوئی بات نہیں ہے، بلکہ.. "اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے.....کچھ اس میں تمسخر نہیں، واللہ نہیں ہے !".

بقراط نے کہا،  جناب آپ ان سے دریافت کرتے کہ مرزا کی گزر بسر کیسے ہو رہی ہے .. فرمایا،  ہم نے پوچھا تھا اور کیا دیکھا کہ یہ سن کر مرزا بادلوں میں تیرتے آپہنچے.... اور  فرمایا..

"مئے عشرت کی خواہش، ساقی گردوں سے کیا کیجیے؟....لیے بیٹھا ہے ایک دو چار جام واژ گوں وہ بھی"

ہم نے علامہ کی طرف دیکھکر  نظریں جھکا لیں، انہوں نے فرمایا بد گمانی سے احتراز کیجیے، مرزا یہاں شغل نہیں فرماتے..

.علامہ نے مرزا کی سمت دیکھ کر مسکراتےہوئے فرمایا....

"نطق کو سو ناز ہیں تیرے لب اعجاز پر ....محو حیرت ہے ثریا رفعت پرواز پر

یہ سن کر مرزا  علامہ کے قریب آگئے اور  انہوں نے مسکرا کر مرزا کی شان میں ایک اور شعر کہہ دیا....

"لطفِ گو یائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں......ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں"

شیفتہ نے کہا، ہم نے مرزا کے سر  پر ایک زریں تاج دیکھا تھا جس پر  جلی حرفوں میں لکھا تھا...."نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا.........ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ میں ہوتا تو کیا ہوتا؟" اور انکے متعلق علامہ کی باتیں سن کر  وہاں  انکے مقام اور حالات  کا کچھ کچھ اندازہ ہو گیا.....بقراط نے پوچھا،  علامہ تو وہاں بہت خوش اور مزے میں ہونگے؟...فرمایا،  ہم نے ان سے یہ سوال بھی کیا تھا اور انکی کشادہ جبیں پر موجود شکنوں میں اضافہ ہوگیا تھا، اور انہوں نے فرمایا.....

"چشم حیراں ڈھونڈتی اب اور  نظارے کو ہے.......آرزو ساحل کی مجھ طوفان کے مارے کو ہے"

"طعنہ زن ہے تو کہ شیدا کنج عزلت کا ہوں میں.... دیکھ اے غافل! پیامی بزم قدرت کا ہوں میں".

 

شیفتہ نے کہا...ہمیں یہ سن کر محسوس ہوا کہ انسانیت کی فلاح اور ملت کی حالت زار  کے غم میں وہ وہاں بھی بے چین ہیں اور انھیں کہیں قرار نہیں....ابھی ہم علامہ سے فیض یاب ہو ہی رہے تھے کہ انکے قدموں تلے بجلیو ں کو  تڑپتے دیکھا. ہماری گھبراہٹ دیکھ کر فرمانے لگے...

"چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے......عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں

نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤ گے،  "تم  اے مسلمانو ں".....تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

 

بقراط نے کہا جناب آپنے غور فرمایا کہ علامہ نے آخری شعر کا مصرعہ اولی بدل دیا،  اور اہل ہند کے بجائے مسلمانان عالم کو مخاطب کیا ہے... فرمایا.... اماں،  اب خواب میں  ہمیں یہی سنائی دیا تھا اور اسی وقت ہم نیند سے بیدار ہورہے تھے. موذن صدا دے رہا تھا....الصلاۂ خیر من النوم.........فجر سے فارغ ہو کر  آسمان کی طرف ایک نظر ڈالی تو کیا دیکھا کہ نور کی ہلکی سی ایک لکیر،  افق کی گہری سیاہی پر حاوی ہوتی جارہی ہے اور ہمیں یقین ہوگیا کہ........ تاریکی خود کچھ نہیں، نور کی بے رخی ہے محض......

*********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 588