donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Afsana
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Anwar Mahmood
Title :
   Kafka Ki Kahani Balcony Per Aik Tajziya

کافکا کی کہانی’’بالکونی پر‘‘ایک تجزیہ
 
(ڈاکٹرانور محمود (پاکستان
 
کافکاکی کہانی''Auf der Galerie''بالکونی پر، ایک نہایت ہی مختصر کہانی ہے جوصرف دو پیروں پر مشتمل ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ اپنے اندر اسرار ورموز کے خزانے چھپائے ہوئے ہے اور ایک ایسی گھتی ہے جسے سلجھانا نہایت ہی دشوار کام ہے۔ یہ کہانی کافکاکی جرمن زبان کے استعمال پرمکمل مہارت نثر میں اس کے کمالِ فن اور اس کی باریک بین نگاہوں سے زندگی کے مشاہدات کوفن کے سانچے میں ڈھالنے کی زندہ مثال ہے۔
 
پیشتراس کے ہم اس کہانی کوزیربحث لائیں ذیل میں اس کاترجمہ پیش کیاجاتاہے۔ جب کوئی لاغر، ٹی بی کی مریضہ گھڑسوارفنکارہ سر کس میں جھولتے ہوئے گھوڑے پر سوارلہراتی ہوئ، پیار کرتی ہوئی، کمر کوبل دیتی ہوئی انتھک تماشائیوں کے سامنے ایک چابک لہراتے ہوئے بے رحم رنگ ماسٹر کے اشارے پر کئی مہینوں تک بغیر کسی وقفے کے دائروں میں گھمای جائے اور جب یہ کھیل غیر منحتتم سازوں اور پنکھوں کے شور کے درمیان لاانتہامبہم مستقبل میں دم توڑتے اور پھر نئے سرے سے شروع ہوتے ہوئے تحسین آمیز تالیوں کے شور میں جو کسی بھاپ سے چلنے والے ہتھوڑوں سے کم نہ ہوجاری وساری رہے تب شاید ایک بالکنی میں بیٹھا نوجوان تماشائی لمبی سیڑھیوں کی تمام سطحوں کوتیزی سے عبور کرتاہوانیچے اتر کرسرکس کے پنڈال میں آئے گا اور ماحول سے مطابقت پیدا کرتی ہوئی سازوں کی دھنوں کے درمیان پکارے گا، رک جائو۔
 
لیکن چوں کہ ایسا نہیں ہے۔ ایک خوبصورت سرخ وسفیدلڑکی پردوں کے پیچھے سے جنہیںوردیوں میں مبلوس فخر مندملازم کھولتے ہیں نمودار ہوتی ہے۔ سرکس کاڈائرکٹربڑے وفاشعارانہ انداز میں اس کی توجہ کامتلاشی ہے اور جانوروں کے سے انداز میں زور کی سانس لیتا ہے اور پھر نہایت ہی محتاط انداز میں اسے اٹھاکر چتبکرے گھوڑے پر بٹھانے میں اس کی مدد کرتاہے جیسے کہ وہ اس کاہر چیز سے پیاری پوتی ہو جوکسی خطرناک سفرپروانہ ہونے والی ہو اور وہ روانگی کے لئے چابک کااشارہ دینے کافیصلہ نہ کرسک رہا ہو ۔بالاآخروہ اپنے پرقابوپاتے ہوئے ایک زناٹے کے ساتھ یہ کام کرگزرتاہے منہ کھولے وہ گھوڑے کے ساتھ ساتھ دوڑتاجاتاہے، گھڑسوار کی چھلانگوں کااپنی تیزنگاہوں سے پیچھا کرتاہے جس کے فن کی مہارت اس کیلئے ناقابل یقین ہے انگریزی الفاظ میں اس کوتنبیہ کرنے کی کوشش کرتاہے۔ رنگ پکڑے سائیسوں کی غصے میں سرزنش کرتاہے اور نہایت محتاط رہنے کی تلقین کرتاہے، بڑی جمپ سے پہلے ہاتھ اٹھاکر سازندوں کوخاموش ہونے کی التجاکرتاہے، بالآخرلڑکی کوکانپتے ہوئے گھوڑے سے اتارتاہے اس کے دونوں اخساروں پرپیار کرتاہے اورتماشائیوں کاپرجوش خراج تحسین بھی اس کوناکافی محسوس ہوتاہے جبکہ وہ لڑکی خود اس کاسہارا لئے اپنے پائوں کی انگلیوں کے سروں پر کھڑی، گرد کے غبار میں گھری، اپنے بازو پھیلائے سرکوپیچھے کی طرف جھٹکتے ہوئے اپنی خوش قسمتی میں پوری سرکس کوشریک کرناچاہتی ہے۔ چوں کہ یہ ایسا ہے بالکنی والا تماشائی اپنا چہرہ جنگلے پر رکھتاہے اوراختتامی مارچ کے دوران جیسے وہ کسی گہرے خواب میں ڈوباہواہو، رودیتاہے ، اس کااوراک کئے بغیر۔کافکانے یہ کہانی غالباً۱۹۱۷ء میں تحریرکی اوریہ پہلی بار۱۹۱۹میں کہانیوں کے مجموعے Ein  Landarztمیں شائع ہوئی خیال کیاجاتاہے کہ کافکانے یہ کہانی رابرٹ والزر Robert Walserکی کہانی ''Lustspielabend'' سے متاثر ہوکر لکھی جس میں ایک تماشائی سرکس کی بالکنی سے اسٹیج پر وقوع پذیر ہونے والے واقعات کامشاہدہ کرکے انہیں بیان کرتاہے۔ کافکا بھی اپنی اس کہانی میں پہلے سرکس کے سٹیج پر کمالات دکھانے والی ایک گھرسوار عورت اور اس کے فن کی تصویر کشی کرتاہے اور اس کے بعد سرکس کی بالکنی میں بیٹھ کراس تماشے کودیکھنے والے شخص کے رد عمل کوبیان کرتاہے۔ لیکن یہ تصویر کشی اور تماشائی کاردعمل ہردوپیراگرافوں میں مختلف زاویوں سے پیش کیاجاتاہے۔
 
پہلاپیراایک ایسے جملے پر مشتمل ہے جوجب ، سے شروع ہوتاہے اور سرکس میں ہونے والے کھیل کی ایک فرضی تصویرپیش کرتاہے اس میں گھڑسوار عورت ایک بیمار اورمجبورعورت کے طورپر سامنے لائی جاتی ہے۔ جوایک ظالم رنگ ماسٹر کے رحم وکرم پر ہے اور اس کے اشاروں پر ایک مشین کی طرح کئی کئی مہینوں تک بغیر کسی تالیاں بھی اس کے لئے ہتھوڑوں سے کم نہیں۔ اس صورتحال کوجانچتے ہوئے شاید کوئی بالکنی میں بیٹھا تماشائی اپنے آپ پرقابونہ رکھ سکے اور تیزی سے سرکس کے اکھاڑے میں آکرکھیل کوروکنے کیلئے کہے۔ دوسرے پیرے میں اس فرضی خیال کی نفی کی گئی ہے اور گھڑسوارعورت کوایک نوجوان اورخوبصورت لڑکی کےطورپرپیش کیاگیاہے جس کے آگے نہایت مہربان اورباادب سرکس کاڈائریکٹربچھاجارہاہے اور اس طرح خیال رکھتاہے جیسے وہ ایک نہایت نازک شئے ہواور ذراسی بداحتیاطی سے اس کے ٹوٹنے کااحتمال ہو۔ یہ گھڑسوارعورت اپنے فن پرنازاں ہے اورتماشائیوں کے خراج تحسین کوخوش دلی سے قبول کرتی ہے۔لیکن اس صورت حال میں سرکس کی بالکنی پربیٹھاتماشائی بجائے خوش ہونے کے کسی گہرے خواب میں ڈوبارودیتاہے اوربظاہراس کواس کاعلم بھی نہیں ہوتا۔
 
اس طرح یہ کہانی دومتضادپیروں پرمشتمل ہے جوایک ہی موادکودومختلف زاویوں سے پیش کررہے ہیں۔بظاہرپہلے پیرے میں صورتحال کوگھڑسوار عورت کے زاویے سے پیش کیا گیاہے جس میں اس کے اندرونی کرب کی عکاسی کی گئی ہے اور ظاہری شان وشوکت اورتماشائیوں کی واہ واہ محض ایک دھوکا نظرآتاہے اور اس کی انتہا مبہم مستقبل میں حدنظر تک معدوم دکھائی دیتی ہے۔ بالکل اس طرح جیسے اس پیرے میں جملہ ختم ہونے کانام نہیں لیتااورپورے پیرے پرمحیط ہے۔ اس کے برعکس دوسرے پیرے میں زاویہ نگاہ تبدیل ہوجاتاہے اور سرکس کے کھیل کی ظاہری شان وشوکت کی تصویرکشی کی جاتی ہے جیسے کہ یہ سب کچھ تماشائیوں کونظرآرہاہوتاہے۔ ان دومتضادزاویوں کی عکاسی دونوں پیروں میں استعمال کئے گئے متضادالفاظ اورجملوں میں بھی ہوتی ہے۔
 
مثلاً:
پہلاپیرا
لاغر،ٹی بی کی مریضہ
چابک لہراتاہوابے رحم رنگ ماسٹر
کئی مہینوں تک بغیر کسی وقفے کے دائروں میں 
گھمائی جائے
تحسین آمیزتالیوں کاشور جوکسی بھاپ سے 
چلنے والے ہتھوڑے سے کم نہیں 
وغیرہ غیرہ
دوسراپیرا
خوبصورت سرخ وسفید لڑکی
سرکس کاڈائریکٹر وفاشعارانہ اندازمیں اس کی توجہ کامتلاشی
جیسے کہ وہ اس کی ہرچیز سے پیاری پوتی ہوجوکسی
خطرناک سفرپرروانہ ہونے والی ہو 
تماشائیوں کاپرجوش خراج تحسین بھی اس کو
ناکافی محسوس ہوتاہے۔
وغیرہ غیرہ
کہانی کاعنوان اس بات کامتقاضی ہے کہ سرکس کی بالکنی کے تماشائی کی نگاہ اور اس کے رد عمل سے سرکس کے کھیل کوپرکھاجائے لیکن اس تماشائی کادونوںپیروں میں متضاد دردِ عمل قارئین کیلئے ایک معمے سے کم نہیں پہلے پیرے میں وہ اس کھیل کوظالمانہ سمجھتے ہوئے باقی تماشائیوں سے الگ تھلگ عملی قدم اٹھاتاہے جبکہ دوسرے پیرے میں سرکس کی شان وشوکت کے باوجود وہ باقی تماشائیوں کے ساتھ خراج تحسین پیش کرنے کے بجائے آخر میں رودیتاہے اور قاری یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ بالکنی کاتماشائی روتاکیوں ہے۔ Scholzکے مطابق تماشائیوں کوجوکہ عام لوگ ہیں۔ متعددنقاداس نقطہ نظرکوتسلیم کرتے ہوئے پہلے پیرے میں بیان کی گئی فرضی کہانی کواصل میں حقیقت کاعکس قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں کافکاکی Janouchکے ساتھ گفتگوکاحوالہ بھی دیاجاتاہے، جس میں اس نے کہا تھا کہ وہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیکھنے کی صلاحیت رکھتاہے اور یہ کہ اصل حقیقت ہمیشہ غیر حقیقی ہوتی ہے اورایک illusionہے اس لئے جوچیز ایک فرضی کہانی کے طورپر Subjunctive mode میں لکھی گئی ہے وہ اصل حقائق ہیں نتیجتاًکہانی میں لکھے گئے الفاظ یہ اسیا ہے اور ایسا نہیں ہے۔ اپنے اصل معافی کھوبیٹھتے ہیں۔ یہ الفاظ قاری کوفریب دینے کے مترادف ہیں۔ اگر ہم دوسرے پیراگراف میں حقیقت کے روپ میں بیان کئے گئے واقعات کوایک illusionکے طورپر تسلیم کرلیں توبالکنی کے تماشائی کارونا دراصل حقیقت اور فریب نظرکی کشمکش میں سچائی کوجان لینے کے باوجودکچھ نہ کرسکنے میں اس کی بے بسی کااظہار ہ۔
 
کافکاکے ادب پاروں میں قنوطیت پسندی کاپہلو جابجانظرآتاہے جس کااظہارروہ دنیا کی حقیقتوں کومسخ کرکے اور واقعات میں الجھائو پیدا کرکے کرتاہے۔ نتیجتاًکافکاکی کہانیاں جوبظاہرنہایت مختصراور آسان نظرآتی ہیں قرآئین کے ذہنوں میں ایک الجھائوکی سی کیفیت پیدا کردیتی ہیں اور ان میں بے یارومددگاری کااحساس جنم لیتاہے کافکا کے نزدیک انسان کااس دنیا میں وجود ایک لمبی اور اندھری سرنگ کی مانند ہے جس کاداخلی دروازہ اس کی نظروں سے اوجھل ہوچکاہے اور اس کاخارجی دروازہ مادرائے رسائی حدتک دورہے جہاں سے آنے والی ایک ننھی سی جھلملاتی روشنی کی کرن اس کے وجود کاپتہ دیتی ہے۔ یہی ننھی سی روشنی شاید اس کیلئے امید کی موہوم سی کرن ہے جوزیربحث کہانی کے پہلے پیرے میں بالکنی کے تماشائی کے جرأت مندانہ اقدام کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔ لیکن اس کی انسانی سے ماورائے رسائی حدتک دوری اپنے اندرمایوسی کاپہلوپنہاں کئے ہوئے ہے جوکہانی کے دوسرے پیرے میں بالکنی کے تماشائی کے مایوس کن ردعمل میں جاگزیںہے۔
 
+++++
 
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 765