donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Afsana
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Qayamuddin
Title :
   Islahi Afsane

 

اصلاحی افسانے
 
ڈاکٹرقیام الدین نیردربھنگہ
 
انیسویں صدی کے آخر اور بیسوی صدی کی ابتدائی دہائیاں اجتماعی سطح پر غیر یقینی حالات کا شکار تھیں۔ غامی کی آہنی زنجیروں کو توڑ کر آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد میں ہندوستان ہمہ تن مصروف تھا، معاشرتی اور اخلاقی حیثیت کے بھی خاصا انتشار پھیلا ہوا تھا سیاسی رہنما حکومت پردبائو ڈال رہے تھے کہ ملک کو کچھ ایسی اصلاحیں دی جائیں جن سے ان کی تعلیمی اور معاشرتی زندگی بہتربن سکے مذہبی مفکر بھی مغربی تہذیب سے ہندوستانیوں کو دور رہنے کی ترغیب دے رہے تھے اور ادیب جو براہ راست کسی جدوجہد میں حصہ نہیں لے سکتے تھے اس لئے انہوں نے کہانیوں کے ذریعہ سماج کی اصلاح کرنے کی کوشش کی۔
(پریم چند(  ۱۹۳۶۔۱۸۸۰ء
 
اصلاحی افسانے لکھنے والوں میں سب سے اہم نام پریم چند کا ہے انہیںاصلاحی میدان کا علمبردار کہا جاتا ہے انہوں نے شعور اور بصیرت کے ساتھ اپنے عہد کی زندگی کی کامیاب اور مؤ ثر ترجمانی کی اور ادب وزندگی کے مابین پہلے سے کہیں زیادہ گہرا اور مضبوط رشتہ قائم کیا ، سوز وطن ، کی جلا وطنی کے بعد انہیں احساس ہوا کہ ملک کی آزادی ہی سب کچھ نہیں جسے حاصل کر کے پوری قوم اپنی منزل مقصودپر پہنچ جا ئے گی اور اس کے تمام دکھ درد ختم ہو جائیں گے انہوں نے حال کی غیر اطمینان بخش صورت کا بغور مشاہدہ کیا۔ معاشی بدحالی، جہالت ،فرقہ پرستی، طبقاتی استبداد، چھوت، تو ہم پرستی وغیرہ سماج میں اپنی جڑیں پوری طرح پھیلائے ہوئے تھیں پریم چند نے ماضی کو حربہ بنا کر پیش کیا انہوں نے ماضی کو اس کے خوبصورت اور خوشگوار پہلوئوں کے ساتھ دریافت کیا جن میں بہادری، مردانگی، ہمت اور وفا شعاری تھی، زندہ رہنے کا عزم اور اپنی آن پر جان دے دینے کا حوصلہ تھا۔ 
 
پریم چند کا دوسرا رخ دیہات اور اس کے مسائل ہیں یہ مسائل مختلف شکلوں اور تصویروں میں ان کے افسانوں میں موجود ہیں وہ ہر واقعہ اور کردار کو ایک مسئلہ بنالیتے ہیں ان کا ذہنی اور جذباتی کرب ان کے کرداروں کا کرب ہے انہوں نے حقیقت کو لباس بجاز میں نہیں بلکہ اس کے حقیقی رنگ ہی میں پیش کیا ہے۔ ’’نمک کا داروغہ‘‘ بڑے گھر کی بیٹی‘‘ایمان کا فیصلہ‘‘وفا کی دیوی‘‘ عیدگاہ‘‘ خانہ داماد‘‘ شطرنج کی بازی‘‘ پوس کی رات‘‘ اور ’’کفن‘‘ وغیرہ افسانے ان کا اپنا عہد بھی ہیں اور اس عہد کے فن کو سمجھنے کا ایک زبردست وسیلہ بھی۔مختصر یہ کہ پریم چند کے اندر سماجی سیاسی اور وطن پرستی کا گہرا شعور تھا، انہوں نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ زمیندار تحصیلدار ، پٹواری مہاجن وغیرہ کسان کے دشمن ہیں، اس کے علاوہ سر مایہ دار طبقے کو بھی کسانوں کا دشمن تصور کر تے تھے وہ تحریک آزادی کے حامی تھے لیکن گاندھی جی کی عدم تشدد کی پالیسی کے خلاف تھے ۔وہ اس کے انقلاب سے متاثر تھے ، آخری عمر میں وہ سیاسی مسائل سے بہت زیادہ قریب ہوگئے تھے۔ وہ عظیم افسانہ نگار اس لئے ہوگئے کہ ان کے یہاں حقیقت کی جھلک ہر جگہ نمایاں تھی انہوں نے اپنے تجربات ومشاہدات کو اپنے فن میں جگہ دی ہے ان کے افسانوں میں صداقت اور سچائی موجود ہے۔
اردو میں انہوں نے ۲۰۶ اور ہندی میں ۲۶۶ کہانیاں لکھیں۔ اردو میں ان کے بارہ افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔
 
سدرشن :سدر شن نے بھی پریم چند کی افسانہ نگاری کے کچھ پہلوئوں کو اپنا نے کی کوشش کی ہے، ان کے یہاں کچھ داستانی رنگ کے افسانے بھی ملتے ہیںلیکن انہوں نے زندگی کے سنجیدہ مسائل سے زیادہ بحث کی ہے انہوں نے مفلس اور پس ماندہ لوگوں کی زندگی کا نقشہ بڑے ہی موثر انداز میں پیش کیا ہے انہوں نے اپنے افسانوں میں عام فہم الفاظ استعمال کئے ہیں بعض جگہ انہوں نے ہندی کے الفاظ اور بعض جگہ نچلے طبقے کے الفاظ بھی استعمال کئے ہیں سدرشن کے افسانوں میں کہیںکہیں منظر نگاری بھی پائی جاتی ہے۔
اعظم کریوی:پریم چند کے خاص مقلد اعظم کریوی ہیں انہوں نے بھی افسانوں کیلئے خام مواد دیہات اور دیہاتیوں کی زندگی سے حاصل کیا ہے ان کے افسانوں کے ماحول اور کردار بھی ہندی ہوتے ہیں، پریم چند کی طرح انہوں نے مفلس اور غریب لوگوں کے حالات اور ان کے جذبات عکاسی کی ہے انہوں نے اصلاحی اور جذباتی افسانے لکھے ہیں، ان کا اندازبیان بہت حسین ہوتا ہے ان کے یہاں کہیں کہیں شاعرانہ انداز بھی ملتے ہیں، انہوں نے اپنے افسانوں میں کشمکش کو نہایت اضطرابی انداز میں پیش کیا ہے ان کا افسانوی مجموعہ، پریم کی چوریاں، بہت مقبول ہے۔
 
علی عباس حسینی:پویم چند کے مقلد علی عباس حسینی بھی ہیں، ان کا تعلق دیہات سے تھا اس لئے انہیں دیہاتیوں کے بارے میں پوری واقفیت تھی، انہوں نے دیہاتی زندگی کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور انہیں افسانوی رنگ میں پیش کیا ان کے مختلف افسانوں میں ان کے اپنے تجربات ومشاہدات شامل ہیں، انہوں نے اپنے افسانوں میں زمینداروں کا ظلم اور کسانوں کی بے بسی اور زبوں حالی کا ذکر کیا ہے عورتوں کے استحصال، ان کی بے بسی اور بے کسی پر انہوں نے پ ورے طور سے روشنی ڈالی ہے۔ 
 
پریم چند نے افسانوں کی جوڈ گرنکالی تھی علی عباس حسینی نے اپنے افسانوں کے ذریعے اصلاح کی اس ڈگر کو بہت آگے بڑھا یا انہوں نے زیادہ تر اصلاحی اور اخلاقی افسانے لکھے جن سے ہمارے قدیم معاشرت پر بھی روشنی پڑتی ہے اور مشرقی رواداری کا بھی اندازہ ہوتا ہے،ان کے افسانوں سے خودداری اور غیرت کا بھی احساس ہوتا ہے، ان کے افسانوں میں قومی یکجہتی اور ہندومسلم اتحاد قائم رکھنے کی تلقین کی گئی ہے، موضوع اور اسلوب کے لحاظ سے بھی ان کے افسانے بہت اہم ہیں، ان کی نثر میں شاعرانہ حسن پایا جاتا ہے۔
 
فضل حق قریشی:پریم چند کے مقلدین میں فضل حق قریشی کا نام بھی لیا جاتا ہے، انہوں نے عام طور پر مسلم گھرانوں کے درمیانی درجے کے لوگوں کے جذبات کی عکاسی کی ہے، انہوں نے اپنے افسانوں میں ذاتی مشاہدات کو جگہ دی ہے، اس لئے ان کے افسانے میں صداقت ہے مسلم گھرانوں کی عکاسی کے ساتھ ان کے یہاں عیسائیوں کی خانقاہوں کے تذکرےبھی ملتے ہیں،۔
 
مندرجہ ذیل افسانہ نگاروں کے علاوہ مولانا حامد اللہ افسر میرٹھی سید ظہور احمد، کاظم دہلوی، مس رضیہ فرحت، خان احمد، حسین خاں وغیرہ نے بھی اصلاحی اور اخلاقی افسانے لکھے ہیں، ان لوگوں کے افسانے گرچہ زیادہ مشہور ومقبول نہ ہوسکے لیکن ان کے افسانوں کی قدروقیمت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1017