donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Afsana
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Qayamuddin
Title :
   Jadeed Afsane

 

جدید افسانے 
 
ڈاکٹرقیام الدین نیردربھنگہ
 
جدید اردو افسانہ ۱۹۶۰ء کے آس پاس اردو ادب میں آیا در اصل حصول آزادی کے بعد ہندوستان کے بہت سے ترقی پسند ادیب غلط قسم کے رویوں کا شکار ہوگئے ، اس کی معقول وجہ یہ تھی کہ حالات یکسر بدل گئے تھے ان کے مقاصد میں بھی یکا یک تبدیلی آگئی تھی اب ان کے نزدیک ترقی پسند تحریک کی اہمیت اپنی ذات کے مقابلے میں کم ہوگئی تھی اور ساتھیوں کا احترام بھی کم ہوگیا تھا، بدلے ہوئے ان رجحانات پر کئی طرف سے احتجاج بھی کئے گئے لیکن اسے پروپگینڈہ کہہ کر ٹال دیا گیا، ان مصلحت پسندوں کے قافلے ادھر ادھر بکھرنے لگے اور جگہ جگہ کئی طرح کے گروہ ابھر نے لگے نتیجہ یہ ہوا کہ یہ تحریک مدھم پڑنے لگی ترقی پسندوں کے پاس اپنا نعرہ تھا اپنا پیغام تھا اور ان کے اپنے مقاصد تھے جنہیں وہ سالہا سال سے لوگوں تک پہنچاتے چلے آرہے تھے لیکن جب ہندوستان آزاد ہوگیا تو ان کے سامنے ایک سوالیہ نشان سانپ کے پھن کی طرح آکر کھڑا ہوگیا کہ اب وہ کیا کریں ۔کلام حیدری صاحب کی یہ بات بالکل درست معلوم ہوتی ہے۔
 
تقسیم ہند کے بعد اردو کے ترقی پسند مصنفین کی سمجھ میں یہ نہیں
آیا کہ ہمارا جو ایم Aimہے اور ہمارا جو مقصد ہندوستان کی آزادی حاصل کرنا تھا وہ گو ۱۹۴۷ء اگست میں پورا ہوگیا اس کے بعد کیا کریں یہ بہت بڑا سوالیہ نشان تھا اور اس سوالیہ نشان کے بننے کے بعد ان کی سمجھ میں کوئی حل نہ آیا جدید ادب سے جن لوگوں نے اپنے آپ کو متعلق کیا وہ کچھ اس گمرہی میں کیا کہ ترقی پسند ادب کی مخالفت کرتی ہے اس لئے ہم کو کوئی پلیٹ فارم ملنا چاہئے تو جدید ادب کا پلیٹ فارم چنا،
جدید ادب کے سلسلے میں ایک بات یہ بھی ہے کہ جس طرح دوسرے دور میں غلامی کی زنجیروں کو کاٹنے کی کوشش ہمارے افسانہ نگاروں کا خاص موضوع تھا اسی طرح تیسرے دور میں اپنوں کی بے حسی وبے غیر تی، بدنظمی وبدعنوانی لوٹ کھسوٹ، جبروظلم اور نا انصافی کو موضوع بنایا گیا۔
۱۹۶۰ء اور ۱۹۸۰ء کے درمیان قومی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر سیاسی وسماجی حالات میں بڑی تیزی سے الٹ پلٹ نے نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا کو متاثر کیا ان سارے قومی وبین الاقوامی واقعات کے نتیجے میں باہر سے نئے علوم کی درآمد، بعض عالمی ادبی تحریکات ، زندگی کے بارے میں نئے فلسفیانہ زادیہ نظر خصوصا جدید یت کی تحریکوں کے زیر اثر عدم تحفظ ،تنہائی ، بے بسی، بے یقینی ،ذات کی گمشدگی اور بھری دنیا میں بے یار ومدد گار ہونے کا خوف دہراس اور اوراک واحساس پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہوگیا ، اس شدت احساس نے موضوعات کے ساتھ ساتھ موضوعات کے برتنے کے ڈھب کو بھی خاصا بدل دیا۔ 
ایک اوربات جدید یت کے سلسلے میں بہت درست معلوم ہوتی ہے، ادب میں نئے تجربات ، نئ تحریکات ، نئی بغاوتیں ،نئے محرکات ہمیشہ جنم لیتے رہے ہیں اور بعد میں یہی نئے تجربات اور بغاوتیں یا تو اپنی موت مرجاتی ہیںیا خود مستحکم ہو کر روایت کی شکل اختیار کر لیت ہیں ہر زندہ اور متحرک اقوام کے ادب میں ذہن وفعال قلم کاروں کا قافلہ ہمیشہ اگے کی طرف رواں دواں رہتا ہے ادب وفن میں لحظہ لحظہ نت نئی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں یہ تبدیلیاں اور روایت پسندی کی توسیع وحمایت کے تحت بھی ہوتی ہیں اور کبھی اس سے انحراف کی شکل میں بھی رونما ہوتی ہیں۔ 
 
یہ صحیح ہے کہ ادب میں تجربہ کوئی بری چیز نہیں ہے نہ ہی یہ شجر ممنوعہ ہے مگر تجربہ صحت مند ہونا چاہئے ۱۹۶۰ء کے آس پاس جو جدید افسانے سامنے آئے اس میں کئی رجحانات پائے جاتے ہیں جیسے داستانی، تمثیلی ، اعترافی اعلامتی ابہامی اور تجریدی وغیرہ، ان رجحانات کو چند فن کاروں کے یہاں ایک دوسرے نمایاں طور پر ممیز کیا جاسکتا ہے لیکن ایک رنگ کو دوسرے رنگ میں شامل ہونے سے نہیں روکا جاسکتا ہے۔
جدید افسانہ نگاروں میں انتظار حسین، جو گندرپال، اقبال مجید سلیم شہزاد سریندر پرکاش، ظفر ادگانوی، انور سجاد، احمد ہمیش، اکرام باگ، حسین الحق، کلام حیدری، اعجاز راہی، رشید امجد، ظہیر بابر، آغا سہیل احمد دائود، شوکت حیات، بلراج ور ما کنورسین، انور قمر ، سلام بن رزاق ، انور خان، نسیم محمد جان، شکیل پونم، عبید قمر، انیس رفیع، بلراج کومل، علی امام نقوی، شہزاد منظر وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے، ان لوگوں نے جدید افسانے کے مختلف رجحانات کو اپنا یا ان میں سے کچھ لوگوں کے افسانے تاریخی حیثیت کے حامل ہوئے اورکچھ لوگوں نے علائم نگاری کے ذریعہ اپنے عہد کی سماجی معنویت کو بھی پیش کیا لیکن کچھ جدید افسانہ نگاروں نے کرب ذات، تنہائی اور بطون ذات وغیرہ کو موضوعات ٹھہراکر علامت نگاری شروع کی جس کی وجہ سے افسانوی ادب کو دھکا پہنچا، در اصل یہ رویہ مغرب کی نقالی میں اختیار کیا گیا تھا، تکنیک اور موضوع بھی ایسے استعمال کئے گئے جن کا ہماری سوسائٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے جو کچھ لکھا اس میں فن کا رانہ خلوص نہ تھا اور نہ ہی تاثیر پذیری تھی، اس لئے چند کو چھوڑ کر سارے ناکام رہے اتنا ہی نہیں جدید افسانے اپنے موضوعات فنی طریقہ کار، زبان و اسلوب اور اپنی ظاہری شکل وہیئت کی وجہ سے قارئین اور ناقدین دونوں کے موافق اور مخالف رویوں کا ہدف بن گیا، بعض نے اس کی حمایت کی اور بعض نے اس کی مخالفت میں صفحات کے صفحات سیاہ کرنا شروع کردیا۔ اس سلسلے میں چند ناقدین کی رئے درج کی جارہی ہیں جن سے جدید افسانے کے بارے میں اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
 
نیا افسانہ خود رد ہے آج کی کہانی اپنے اندر کی قوت نموہی سےمتحرک رہتی  ہے اور ظاہر ہے کہ کسی خارجی استدلال یا منطقی طریقہ کار کو نہیں اپناتی آج کافرد اپنی باطنی کائنات کا مشاہدہ کرتے وقت نفسیات اور دیگر جدید علوم سے استفادہ کرتا ہے اس طرح آج کا افسانہ بھی Multi dimensianalہوگیا ہے، 
۲۔ادب میں تجربہ کوئی نئی چیز نہیں ہے نہ ہی یہ شجر ممنوعہ ہے مگر اتنا ہر سنجیدہ ادب کا قاری تسلیم کرتا ہے کہ کہانی کاہر عنصر یعنی کہانی پن ضرور باقی رہنا چاہئے، نئے تجربات اور نئی لہر کی زد میں ہمارے افسانہ نگاروں نے ایسے افسانے تخلیق کئے جن میں افسانہ کا کوئی عنصر باقی نہیں رہا، اس کی حرمت اور عصمت دونوں مجروح ہوئی۔
 
۳۔ پہلے تو کہانی میں سے کہانی کو نکالا، پھر کردار کو نکالا، منظر نگاری کونکالا، نقطہ عروج کو نکالا، نقطہ آغاز کو نکالا، پر ہوتے ہوتے قاری کو بھی نکال دیا، کہانی میں سے اتنی چیزوں کے نکل جانے کے بعد کہانی میں صرف افسانہ نگار باقی رہ جاتا ہے اور اس کے باقی رہنے کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی ہم اس دن کے بھی منتظر ہیں جب کہانی میں سے کہانی کار بھی نکل جائے۔ 
 
اس طرح کسی نے کہا کہ جدید افسانہ کہانی سے انحراف کرتا ہے کسی نے کہا کہ زبان کی شکست دریخت اور شخصی علامات کے استعمال نے اسے ناقابل فہم بنادیا ہے کسی نے کہا کہ جدید افسانہ ہندی اور ریاضی وغیرہ علمی اشکال کے تصرف سے لغویت کی تشکیل کرتا ہے اور کسی نے کہا کہ جدید افسانے نے نظم کی ہیئت اختیار کرلی ہے۔ مختصر یہ کہ جدید افسانے کی حمایت اور مخالفت میں بہت کچھ لکھا گیا اور لگ بھگ دودہائیوں تک جدید افسانے کا سکہ 
چلتا رہا لیکن ۱۹۷۵ء کے آس پاس اس نے بھی دم توڑنا شروع کر دیا اور خود جدید افسانہ نگار ظفر اوگانوی نے اس بات کا اقرار کیا۔ 
 
۱۹۶
۰ء کے بعد کچھ لوگوں نے لائن کھینچ کھینچ کر اور کچھ لوگوں نے خطوط لکھ کر یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیا کہ یہ افسانہ ہے کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ افسانہ اس طرح پڑھنا چاہئے کہ پڑھتے وقت افسانے کی بو باس محسوس ہو، یہ لوگ جو افسانے کو ناٹک سے جوڑ رہے تھے افسانے کو تصویروں سے جوڑ رہے تھے، ظاہر ہے کہ یہ تجربہ ناکام ہوا اور ایسے لوگوں کو کوئی Responseنہیں ملا اور وہ لوگ ختم ہوگئے۔
اس طرح ۱۹۷۵ء کے بعد افسانہ نگاری کا تیسرا دور جسے جدید دور سے تعبیر کیا جاتا ہے ختم ہوجاتا ہے اور چوتھے دور کی شروعات ہوجاتی۔
 
کہانی پن کی واپسی 
 
۱۹۷۵
ء کے آس پاس اردو افسانہ علامت نگاری اور تجریت کے سحر سے خود کو آزاد کر نے لگا اور وہی افسانہ نگار جو جدید افسانے کا نام پر شب دخون ما ررہے تھے آہستہ آہستہ کہانی پن کی طرف لوٹ آئے اور افسانہ ایک بار پھر بہتر مستقبل کی طرف گامزن ہوگیا۔ دراصل ۱۹۶۰ء کے بعد اردو افسانہ کا کینوس اتنا سکڑگیا کہ صرف فنکار کی ذات تک محدود ہوگیا تھا، نتیجتاً اس طرح کے افسانے کو کوئی مقبولیت حاصل نہ ہوسکی اور اس نامقبولیت نے افسانہ نگار اور قاری کے درمیان ردوقبول کی کشمکش کی ایک ایسی بوجھل فضاپیدا کردی کہ افسانہ نگاروں کو دوبارہ پیچھے کی طرف لوٹنے کیلئے مجبور ہونا پڑا۔ آج ایک بار پھر اردو افسانہ فن کی حدودمیں داخل ہوگیا ہے اور اپنے نئے اور تعمیری سفر پر نئی حیات کے نئے مسائل کے ساتھ نئے اسلوب اور اظہار کے اور اسے لیس ہو کر آگے بڑھ رہا ہے درمیانی مدت میں جو افسانہ نگار بے راہ روی کا شکار ہوگئے تھے انہیں بھی اب اس بات کا احساس ہوگیا ہے اور وہ بھی اب خاصے معنی خیز اور خوبصورت انداز میں افسانے لکھ رہے ہیں، ارتضیٰ کریم صاحب کی یہ بات بہت حد تک درست معلوم ہوتی ہے ۔ایسے چیتاں اور لایعنی تحریر لکھنے والے ازخود ایک کنارے لگ گئے ہیں یا انہوں نے اپنے ادبی رویوں اور تخلیقی اظہار میں تبدیلی پیدا کرلی ہے۔اس طرح آج اردو افسانے میں انسان اور سماج کے مسائل موضوعات بننے لگے ہیں اور اردو افسانہ ایک بار پھر بہتر مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہے جو گندرپال بلراج ورما، رام لعل، انور قمر، سلام بن رزاق، علی امام نقوی، انجم عثمانی وغیرہ اچھی بامقصد اور معیاری کہانیاں لکھ رہے ہیں بہار میں بھی بہت سے فن کار افسانہ نگاری کے چوتھے دور میں پہنچ کر اچھی اور بامقصد کہانیاں لکھ رہے ہیں ان کے یہاں عہد کے سماجی مسائل اور انسان کے دکھ درد قومی اور بین الاقوامی تنازعات کی عکاسی ملتی ہے جو لوگ کل تک جدید یت پسند کے تحت ادب کو صرف ذات کے حوالے سے دیکھتے تھے آج ان کے یہاں بھی سماجی شعور کی سطح بلند ہونے لگی ہے۔
میرے لئے یقینا یہ بات باعث اطمینان ہے کہ ایک بار پھر اردو افسانہ نگاری انٹی افسانہ Anty Story کی راہ پر بھٹکنے کی بجائے کہانی کی منزل کی طرف مراجعت کرنے لگی ہے۔ مختصر یہ کہ آج ایک بار پھر قاری اور فنکار میں گہرا رشتہ پیدا ہوگیا ہے اور افسانہ کی مقبولیت لوٹ آئی ہے۔
 
*********************
Comments


Login

You are Visitor Number : 1316