donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Afsana
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Qayamuddin
Title :
   Mazahiya Afsane

 

مزاحیہ افسانے
 
ڈاکٹرقیام الدین نیردربھنگہ
 
اردو ادب میں بہت سے افسانے مزاحیہ اور ظریف نہ رنگ کے بھی لکھے گئے ہیں در اصل اردو میں مزاحیہ افسانے مغرب کی دین ہیں جس طرح ہندوستان کے ادیبوں نے حقیقت پسندانہ، اصلاحی اور رومانی افسانے لکھے ہیں اسی طرح کچھ ادیبوں نے طنزہ مزاح اور ظرافت کو بھی اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے ظریفا نہ اور مزاحیہ افسانے کا مقصد صرف لوگوں کو ہنسنے ہنسا نے کا موقع فراہم کر انا نہیں ہے بلکہ اس رنگ کو اپنا کرا افسانہ نگاروں نے تفریح کے ساتھ ساتھ اصلاح بھی کی ہے۔ عرب کا ایک مشہور مقولہ ہے الملح فی الکلام کالملح فی الطعام۔ یعنی کھانے میں جو مرتبہ نمک کو حاصل ہے وہی مرتبہ کلام میں شوخی وظرافت کو حاصل ہے،کہا جاتا ہے کہ کسی زبان کی لطافت اور کسی قوم کی ذہنی پختگی کا اندازہ کرنے کیلئے اس زبان کی ادب ظرافت اور اس قوم کا احساس مزاح ہی سب سے عمدہ معیار ہے، خوشی کی بات ہے کہ اس معیار کے اعتبار سے ہماری زبان دنیا کی پختہ زبانوں کی صف میں شامل ہو چکی ہے۔یہاں صرف مزاحیہ افسانہ نگاروں کا تذکرہ کیا جار ہاہے ان لوگوں کے یہاں انشایئے کا رنگ گہرا ہے لیکن ان میں افسانویت موجود ہے۔احمد حسین صاحب نے ٹھیک ہی کہا ہے۔
 
اگر چہ افسانہ کی طرح انشائیہ میں اجزائے تلاثہ یعنی پلاٹ کردار اتحاد زماں ومکاں کی پابندی نہیں ہوتی پھر بھی بعض انشائیوں میں افسانوی رنگ ملتا ہے۔ ڈاکٹر سلام سندیلوی صاحب نے بھی انہیں مزاحیہ افسانہ نگاروں کے زمرے میں رکھا ہے۔
 
عظیم بیگ چغتائی: عظیم بیگ نے مزاحیہ طرز کے افسانے کو کافی ترقی دی ہے ان کے افسانوں میں سنجیدہ مزاج ملتا ہے جنہیں پڑھ کر ہونٹوں پر ایک قسم کا تبسم رقص کرنے لگتا ہے در اصل ان کے افسانوں کا مقصد اصلاحی ہوتا ہے، ’’رنگ روٹ کی بیوی‘‘ اور بھاگ گئی‘‘ ان کے شاہکار افسانے ہیں، مختصر یہ کہ ان کے افسانوں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ان کے یہاں سنجیدہ ظرافت پائی جاتی ہے۔
ملارموزی: ملارموزی اپنے افسانوں م یں الفاظ کے ذریعہ مزاح پیدا کرتے ہیں، ان کا مزاح اور ان کی ظرافت مقصد ہی ہوتی ہے وہ قوم وملک کی بہبودی چاہتے ہیں، ان کا انداز بیان بے تکلف اور ظریفانہ ہوتا ہے انہوں نے اپنے مزاحیہ افسانوں کے ذریعہ قوم وملک کی خامیوں کو جڑسے ختم کر نے کی کوشش کی ہے۔ 
مولوی صاحب نے رمزی صاحب سے اچھی خاصی رقم گھسیٹ لی مگر ان کا تعویذ رمزی صاحب کی محبوبہ کو نہ گھسیٹ سکا، تب رمزی صاحب نے مولوی صاحب اور محبوبہ کو ارب دس کھرب گالیاں سنائیں۔
(پیر صاحب اور عورت کا گھمائو)
 
شوکت تھانوی:ان کے افسانوں کی فضا میں مزاح کا شور ہوتا ہے جنہیں پڑھ کر لبوں پر طوفان تبسم اٹھنے لگتا ہے ان کے افسانوں کا مقصد صرف ظرافت ہے انہوں نے اپنے زیادہ تر افسانوں میں اپنی بیگم اور اپنی سالیوں کا ذکر کیا ہے،اور انہیں کو نشانہ بنا کر ظرافت کے پھول کھلائے ہیں، ان کے افسانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے انہوں نے گھریلو ماحول سے ہت کر بھی لکھا ہے اور ظرافت پیدا کرنے میں کامیاب رہے ہیں، ان کا ایک افسانہ ’’اشتہار کی شادی‘‘ ہر طبقے میں مشہور ومقبول ہوچکا ہے۔ 
 
کنہیالال کپور: مزاحیہ افسانوں میں کنہیالال کپور نے بہت شہرت حاصل کرلی ہے۔ ان کے یہاں زبردست طنزملتا ہے اس طنزکا مقصد سماج کی اصلاح کرنا ہوتا ہے انہوں نے اپنے افسانوں میں زندگی کے مختلف شعبوں کی عکاسی بڑے ہی اچھے انداز سے کی ہے ان کی زبان صاف ستھری اور دلچسپ ہوتی ہے ان کے کئی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ان میں’’سنگ وخشت‘‘ چنگ ورباب‘‘ نوک ونشر‘‘ بال وپر ‘‘نرم گرم‘‘ خاص ہیں، ’’کاٹھ کا اتو‘‘ اور‘‘ اپنے وطن میں سب کچھ ہے پیارے‘‘میں انہوںنے ہندوستان کی پارلیامنٹ اور ہندوستان کے بارے میں بہت ہی پرلطف انداز سے طنز کیا ہے۔
 
کرشن چندر: کرشن چندر کی افسانہ نگاری کا تذکرہ کیا جاچکا ہے یہاں مزاحیہ افسانہ نگار کے زمرے میں بطور خاص شامل کیا جا رہا ہے، کرشن چندر نے مزاحیہ افسانے بھی کافی تعداد میں لکھے ہیں طنزومزاج کا جو ہر ان کے اندر بدرجہ اتم موجود تھا۔ ’’ہوائی قلعے‘‘ اور چلتا پورہ‘‘ دو ایسے مزاحیہ افسانوں کے مجموعے ہیں، جنہوں نے کرشن چندر کو کافی شہرت دلائی ان میں مزاحیہ نگاری کا اچھا ثبوت ملتا ہے، افسانوں کے علاوہ انہوں نے طنزو مزاج پر مشتمل کئی کتابیں لکھی ہیں ان کی آخری تصنیف  بھی طنز ومزاج ہی پر مشتمل تھی جس کا عنوان تھا، ایک لڑکی بگھار تی ہے دال، مگر موت کے بے رحم پنجوں نے اسے مکمل نہیں ہونے دیا۔ 
ان ناموں کے علاوہ بھی طنزومزاح پر مشتمل افسانے لکھنے والے بہت سے ہیں جن سب کا ذکر یہاں ممکن نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ اور افسانہ نگار
 
اس عنوان کے تحت ہندوستان کے کچھ مشہور ومعروف افسانہ نگاروں کا تذکرہ بطور تمہید کیا جارہاہے ان لوگوں نے ہندوستان کی افسانہ نگاری کی تاریخ میں اپنا نام کافی روشن کرلیا ہے۔ 
 
اختر حسین رائے پوری: انہوں نے بہت کم لکھا ہے لیکن جو کچھ لکھا ہے اس میں موجود نظام کی خرابیوں اور کمزوریوں کو محسوس کرانے کیلئے پر زور اور بااثر انداز میں لکھا ہے ان کے اسلوب میں بے کیفی کا احساس کہیں بھی نہیں ہوتا ہے کہیں کہیں رومانی انداز حاوی ہے۔.
 
اختر انصاری: اختر انصاری افسانے کے ساتھ ساتھ شاعری اور تنقید کو بھی ساتھ لے کر چلے ہیں ان کے افسانے اس وقت منظر عام پر آئے جب رومانیت ایک حاوی رجحان کے طورپر اردو ادب کو متاثر کر کے اپنے اثرات کھورہی تھی ان کے یہاں رومانیت کے ساتھ ساتھ حقیقت پسندی بھی نظر آتی ہے ۔
 
خواجہ احمد عباس: فلم اور صحافت کے میدان میں خواجہ احمد عباس کو کافی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی ہے وہ افسانہ نگار،ناول نگار فلمی کہانی کا ر اور صحافی سبھی کچھ تھے، افسانہ نگاری کے میدان میں انہوں نے کئی تجربے کئے ہیں، وہ مقصدیت اور افادیت کے قائل ہیں کسی بھی بات کا سر ا ملتے ہی وہ اسے افسانے کی شکل دے دیتے ہیں، ان کے افسانوں میں ان کے اپنے عہد کی سیاسی اور سماجی زندگی کی عکاسی ملتی ہے۔
 
دیوندر ستیار تھی: انہوں نے اپنے افسانوں میں ہندوستان کے مختلف علاقائی لوگ گیتوں میں پوشیدہ کہانیوں کو سامنے لانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے عوامی زندگی کی محبت، شرافت ، شجاعت اور مسرت کے جذبات کے ساتھ ساتھ اس کے دکھ درد، اس کی مفلسی اور اس کے آنسو بھی ان افسانوں میں شامل ہوگئے ہیں، میں ہوں خانہ بدوش‘‘ نئے دیوتا‘‘ گائے جا ہندوستان‘‘ اگلے طوفان نوح کب‘‘ اور بنسری بجتی رہی‘‘ ان کے افسانوی مجموعے ہیں
 
عزیز احمد: عزیز احمد نے مخصوص ماحول اور منفرد تکنیک کے ذریعہ اپنا الگ مقام بنا لیا ہے مغرب اور مشرق کے اونچے طبقے کی زندگی ان کے افسانوں میں پس منظر کی شکل میں ابھری ہے ان کے افسانوں میں فکر جزئیات ، کردار اور تاثیر کی ہم آہنگی ان کے پختہ فنی اور اک کی دلیل ہے ۔
 
مہندرناتھ: یہ کرشن چندر کے چھوٹے بھائی ہیں، انہوں نے آزادی سے کچھ پہلے لکھنا شروع کیا تھا، ان کے ابتدائی افسانوں میں کرشن چندر کی چھاپ نظر آتی ہے مہندر ناتھ نے اپنے افسانوں میں شہری زندگی کو اس کے مختلف رنگوں میں پیش کیا ہے، سماجی نابرابری اور جنسی مسائل ان کے موضوعات ہیں۔
 
غلام عباس: ان کے افسانوں میں جزئیات نگاری اور کردار نگاری پرخصوصی توجہ ملتی ہے اگر چہ انہوں نے بہت کم لکھا ہے لیکن جو کچھ لکھا ہے وہ اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں۔
 
ابراہیم جلیس: انہوں نے متوسط طبقوں کے دکھ درد ،محبت نفرت، ان کی خوشیاں، بھوک ،بیماری، جہالت وغیرہ کو بڑے خلوص کے ساتھ اپنےافسانوں میں پیش کیا ہے، عام طور پر ان کے افسانوں میں متوسط اور ادنیٰ طبقوں کی زندگی کے مسائل واضح طور پر نظر آتے ہیں ۔
 
مرزا ادیب: ہئیت ، تکنیک اور اسلوب پر ان کی گرفت مضبوط ہے انہوں نے اپنے مخصوص رویئے ،رمزیت اور ایمائیت کا باعث اردو افسانہ نگاری میں ایک خاص جگہ بنالی ہے ان کے یہاں رومانی اور زندگی کے عام مسائل کا فن کا رانہ اظہار ملتا ہے۔ 
اے احمد: انہیں مناظر قدرت سے کافی لگائو ہے اور یہی لگائوان کے افسانوں کی طاقت ہے زندگی کے تئیں رومانی رویئے نے ان کے افسانوں میں سادگی اور دل کشی پیدا کردی ہے۔
 
راما نند ساگر : یہ افسانے کی تکنیک پر زیادہ زور دیتے ہیں، ان کے یہاں موضوعات کا فن کارانہ ثبوت ملتا ہے۔ 
ہنس راج رہبر: ہنس راج رہبر نے اپنے افسانوں میں متوسط طبقے کی زندگی اور اس کی معاشی پر یشانیوں کا ذخر کیا ہے وہ اس سماجی بربریت کو ختم کردنیا چاہتے ہیں، ان کے افسانوں کی بنیادیں مارکیت اور حقیقت پسندی پر استوار ہیں۔
 
رام لعل: ان کے افسانوں کے کردار اور واقعات کی اپنی الگ اہمیت ہے انہوں نے اپنے پچھلے دور کے افسانوں میں انسانی زندگی کی سچائی کو بڑے حسین انداز سے پیش کیا ہے، افسانوی میدان میں انہوں نے جو قدم بڑھایا تھا وہ ہنوز جاری ہے۔
شوکت صدیقی: ان کے افسانوں میں لکھنؤ کی فیوڈل سوسائٹی ایک نئے رنگ میں پیش ہوتی ہے ان کے یہاں ادنیٰ اور اعلیٰ دونوں طبقوں کی زندگی کی عکاسی ملتی ہے۔
 
ابو فضل صدیقی : ان کے افسانوں میں جو چیز متاثر کرتی ہے وہ ان کے ماحول کی انفرادیت اور دل کشی ہے، زوال پذیر جاگیر دارانہ نظام کی عکاسی انہوں نے بڑے فن کارانہ انداز سے کی ہے۔
 
جوگندر پال: ان کے افسانوں میں افریقی زندگی سے متعلق مسائل ملتے ہیں انہوں نے انسانی محبت کا استحصال ، رنگ ونسل کی تفریق ،نسلی اور طبقاتی تضادات، غلامی، بھوک اور ان چیزوں سے پیدا ہونے والے مسائل کو بے حد مؤثر انداز سے پیش کیا ہے۔
 
اس طرح ستیش تراکے افسانوں میں حقیقت اور واقعیت کی مثالیں ملتی ہیں، پر کاش پنڈت اپنے عہد کے تلخ حقائق کو پیش کرتے ہیں ،اقبال ستین کے افسانوں کا موضوع حیدرآباد کے زوال پذیر جاگیردارانہ سماج کی گرتی ہوئی دیواریں ہیں ان لوگوں کے علاوہ اور بھی بہت سے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے اردو افسانوں کی خدمت کی ہے اور کررہے ہیں، ان میں محمد حسن عسکری ، محمد بشیر ماہر کو ٹوی، ممتاز مفتی ممتاز شیریں ، انتظار حسین، مسعود شاہد، غلام علی چودھری، قیس رام پوری، کشمیری لال ذاکر، قیصر جہاں ، دیوندر اسیر، جلیل احمد، زین الحق ، اشفاق احمد ،ا یم کوٹھیاوی راہی، عطیہ پروین، مم راجندر، رام پال ، انجم عثمانی ،علی امام نقوی، آصفہ مجیب اکرام فاروقی ، جوگندر پال، عشرت امیر، کنورسین، خیال انصاری ، کوثر چاندپوری دیش چترکار ، صفی انور، اوم کرشن راحت،ستیش بترا، م،ق مہتاب نگار عظیم اور جاوید اقبال وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1534