donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Afsana
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Qayamuddin
Title :
   Roomani Afsane

 

رومانی افسانے
 
ڈاکٹرقیام الدین نیردربھنگہ
 
جس وقت پریم چند اور ان کے مقلدین اصلاحی افسانے لکھ رہے تھے اس وقت کچھ افسانہ نگار ایسے بھی تھے جو پریم چند کی اس ڈگر سے ہٹ کر افسانے لکھ رہے تھے ان کے یہاں مغربی شعاعیں جگمگارہی تھیں اس لئے انہوں نے اپنے افسانوں میں ادب برائے ادب کے نظریہ کو پیش کیا۔ در اصل اردو افسانے پر مغربی ادب کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور پڑا ہے اس لئے افسانہ نگاری کے بالکل ابتدائی دور سے اردو میں کثرت کے ایسے افسانے لکھے جانے لگے جن پر کسی قومی یا اصلاحی تحریک کا اثر نہیںبلکہ مغرب کی افسانہ نگاری کی ایک خاص روش کے اثر کا نتیجہ ہیں اور چونکہ یہ خاص روش اتفاق سے اردو قصہ گوئی کے طرز سے ملتی جلتی تھی اور اس میں بھی افسانوی حیثیت سے وہی لطف اور چٹخارہ تھا جو اردو کے پرانی روش کے قصورں میں، اس لئے بعض اچھے افسانہ نگاروں نے اسے اپنا یا۔ 
 
رومانی افسانہ نگاروں کے نزدیک فن کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہ تھا کہ وہ ہماری مسرتوں میں اضافہ کرے تاکہ کچھ دیر کے لئے ہی سہی زندگی کی میکا نیکیت سے چھٹکارا حاصل ہو جائے اگر چہ انہوں نے عورتوں کے مسائل اور شادی بیاہ کی سخت گیر مردچہ رسومات کے خلاف قلم اٹھا یا ہے لیکن شادی بیاہ کے مسائل اور آزادی نسواں کے مسائل کا تعلق بھی عورت سے ہے انہوں نےاکثر اوقات کسی مسئلے سے بات کی ہے لیکن آگے چل کرعورت کا حسن اس کی دلفریب اور معصوم ادائیں سامنے آجاتی ہیں اور وہ حسن کاری سے کام لینے لگتے ہیں اور پھر اس میں کھو کر رہ جاتے ہیں۔اتنی بات ضرور ہے کہ عورت کو اس سے قبل ہمارے معاشرے میں کچھ زیادہ اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا رومانی افسانہ نگاروں نے عورتوں کے مسائل اور ان کی بے بسی کو خصوصاًطوائفوں کو اپنا خاص موضوع بنایا۔
 
سجاد حیدریلدرم : سجاد حیدرکے افسانوں کے دو مجموعے ’’خیالستان‘‘۱۹۰۸ ء اور ’’حکایات واحساسات‘‘۱۹۲۷ء بہت پسندکئے گئے، ملازمت کے سلسلے میں وہ قسطنطنیہ بغداد اور کابل میں رہے اس لئے ان کے بہت سے افسانے ترکی زبان کے ترجمے ہیں ترجمہ شدہ افسانوں میں ’’گلستاں‘‘ ’’خارستان‘‘ اورچڑیا چڑے کی کہانی‘‘ بہت اہمیت رکھتے ہیں، ان کے یہاں پرشباب عورت ہی حسن کا نادر نمونہ ہے، وہ محبت کی تقدس کے قائل ہیں اور ساری زندگی محبت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک محبت ہی زندگی کی اصل اور کائنات کا جو ہر ہے۔ 
منظر کشی اور پس منظری کیفیات کو اجاگر کر نے میں وہ استعاراتی نادرہ کاری اور تشبیہات کی مناسبتوں سے اسی طور پر کام لیتے ہیں جیسے ایک انشاء پرداز لیا کرتا ہے۔عا م طور پر ان کے افسانے ٹریجک ہوتے ہیں اپنے افسانے کو ٹریجک بنانے میں وہ عشق کی ناکامیابی ،مرگ ناگہانی اور بے جوڑ شادی وغیرہ کا سہارا لیتے ہیں۔
 
نیازفتح پوری: نیاز فتح پوری   ( ۱۹۶۶ء۱۹۸۴ء)کا رومانی اسلوب قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے انہوں نے مختلف علوم وفنون پر قلم اٹھایا ہے ان کی ساری تحریریں اپنے رومانی اسلوب اور فکر وتامل کی وجہ سے خاص حیثیت رکھتی ہیں انہوں نے ۱۹۲۶ء میںماہنامہ’’نگار‘‘ جاری کیا اور آخر عمر تک اس سے جڑے رہے ۱۹۶۲ء میں حکومت نے ان کی علمی اور ادبی خدمات پر نہیں ؛دم بھوشن کے خطاب سے نوازا ان کے افسانوی مجموعوں میں ’’نگارستان‘‘ جمالستان‘‘ نقاب اٹھ جانے کے بعد‘‘ حسن کی عنائیاں‘‘ وغیرہ خاص ہیں، انہوں نے دوسری زبانوں سے بہت سے افسانے ترجمے بھی کئے انہوں نے عام طور پر اپنے افسانوں میں عورت، حسن، جوانی اور محبت کو موضوع بنایا ہے۔
نیاز کے یہاں کردار نگاری میں حقیقت آفرینی ،تحریک اور عمل دکھائی نہیں دیتا اس لئے کہ وہ بھی دوسرے افسانہ نگاروں کی طرح طرز ادا کو اولیت دیتے ہیں ریلدرم کی طرح وہ بھی کرداروں کو کسی خیالی دنیا میں چھوڑ دیتے ہیں ان کے مکالمے کتابوں کے جملے معلوم ہوتے ہیں۔نیاز فتح پوری کے ابتدائی افسانوں میں خالص رومانی اور تاثراتی انداز ہے لیکن بعد کے افسانوں میں اصلاحی رجحان پیدا ہوگیا تھا۔ انہوں نے بہت سے تاریخی افسانے بھی لکھے ہیں۔
 
مجنوں گورکھپوری: ان کی افسانہ نگاری کا آغاز ۱۹۲۵ء میں ہوا،افسانوںکے ساتھ ساتھ انہوں نے تنقیدیں بھی لکھی ہیں اور ترجمے بھی کئے ہیں جن میں ’’سونپہار‘‘ادب اور زندگی‘‘ اقبال‘‘افسانہ‘‘ تاریخ جمالیات‘‘ تنقیدی حاشئے وغیرہ اہم ہیں افسانوی ادب میں اسکرو وائلڈ، برناڈ شاہ ، ٹالٹائی اور ملٹن وغیرہ کے تراجم پر مشتمل ان کی کتابیں شائع ہوئی ہیں، نادلٹ یا افسانے کی صورت میں ’’سوگوارشباب ‘‘ گردش‘‘ وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں، مختصر افسانوی مجموعوں میں ’’خواب وخیال‘‘ سن پوش‘‘ نقشوناہید‘‘ اور مجنوں کے افسانے ‘‘ قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، رومانی افسانہ نگاروں کی طرح انہوں نے بھی محبت کو مرکزی موضوع قرار دیا ہے محبت سے پیدا ہونے والی گھٹن اور ناکامی محبت کے غم اور تلخی کو انہوں نے اپنے افسانوں کا بنیادی موضوع بنایا ہے۔ وہ عام طور پر زندگی کا ایک رخ پیش کر دیتے ہیں جو عموماً اندوہناک ہوتا ہے ان کی تحریروں میں مشرقی ومغرب کے رنگوں کا بہت خوبصورت امتزاج ہے ، ان کا ذہن سائنٹفک انداز فکر کے لحاظ سے مغربی اور طرزا حساس کے اعتبار سے ان کا دل مشرقی ہے اس خوبی نے ان کی تحریروں میں توازن واعتدال کی ایک خوشگوار لہرپیدا کردی ہے۔
 
حجاب امتیاز علی: حجاب امتیاز اردو افسانہ نگاری میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہیں ان کے دس افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ان کے افسانوں کی فضا مصنوعی نہیں سچی معلوم ہوتی ہے انہوں نے جو کچھ بیان کیا ہے انہیں بہت قریب سے دیکھا ہے عوامی زندگی کے گہرے مطالعہ نے ان کے اندر غم پسندی کی ایک تیز لہر پیدا کردی ہے، عوامی زندگی کے ساتھ ساتھ حجاب کے افسانوں کے مواد کا تعلق اعلیٰ اور متمول گھرانوں سے ہوتا ہے ان کے یہاں پلاٹ کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے لیکن پلاٹ کے اندر جو بیانات ہوتے ہیں ان میں بلاکی کشش پوشیدہ ہوتی ہے، حضاب فطرت کی عکاسی بڑے ہی اچھے انداز میں کرتی ہیں اور ان کااسلوب بیان ان کے افسانوں کی جان ہے۔’’صنولب کے سائے‘‘ سبز آنکھ‘‘ مرد اور عورت‘‘ طلوع وغروب‘‘ وغیرہ ان کے مشہور ترین افسانے ہیں۔ 
 
حکیم احمد شجاع: حکیم احمد شجاع کو افسانے کے ساتھ ساتھ ڈراموں سے بھی خاص دلچسپی تھی ڈرامے کے ساتھ ساتھ انہیں نظم کہنے سے بھی دلچسپی تھی ان کے مختصر افسانوں کا مجموعہ’’ حسن کی قیمت ‘‘بہت پسند کیا گیا، اس کے سارے افسانے ۱۹۱۳ءاور ۱۹۲۰ء کے درمیان لکھے گئے انہوں نے کم افسانے لکھے لیکن افسانہ نگاری کے پہلے دور میں ان کے افسانوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے، انہیں خالص رومانی افسانہ نگار کہنا مناسب نہیں ہوگا۔ انہوں نے رومانی اور اصلاحی کے بچے کا راستہ اپنے لئے منتخب کیا لیکن رومان پرستی ہی غالب رہی وہ انسانی نفسیات اور اس کے تقاضوں کا لحاظ اپنے کرداروں میں رکھتے ہیں اس لئے ان کے افسانوں میں سیرت کشی کی اچھی مثال ملتی ہے ان کے افسانے قاری کو سچے معلوم ہوتے ہیں۔
 
مرزاادیب: رومان پسند افسانہ نگاروں میں مرزاا دیب کا بھی شمار ہوتاہے، انہوں نے صحرانوردی، کے عنوان سے آٹھ افسانے لکھے جو بہت مقبول ہوئے مرزا کے افسانوں میں ماضی کی جھلک نمایا ں ہے ان کے افسانوں میں تاریخی معلومات بھی حاصل ہوتی ہیں، ان کے یہاں عام طور پر دو بنیادی عناصر پائے جاتے ہیں ایک عورت کی محبت دوسرے بیان فطرت انہوں نے اپنے افسانوں کی عبارت میں رومان کی جاد و گری دکھائی ہے اور اس کی فضا میں حسن وعشق کی ایک دنیا آباد کی ہے۔ 
 
رومانی افسانہ نگاروں میں اور بھی کئی لوگوں کا نام لیا جاسکتا ہے لیکن ان لوگوں نے زیادہ شہرت حاصل نہیں کی ہے پھر بھی ان کے افسانے رومانی ہیں اور ان لوگوں کا تعلق افسانہ نگاری کے پہلے دور سے ہے ان میں سجاد انصاری اور ایم اسلم نے بہت حدتک شہرت حاصل کر لی ہے۔ اس طرح افسانہ نگاری کے پہلے دور میں دور حجانات ساتھ ساتھ چل رہے تھے ایک اصلاحی اور دوسرا رومانی ، یہ دونوںرجحانات لگ بھگ ۱۹۳۵ء تک چلتے رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1312