donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Afsana
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Qayamuddin
Title :
   Taraqqi Pasand Afsane

 

ترقی پسند افسانے
 
ڈاکٹرقیام الدین نیردربھنگہ
 
انسویں صدی کی پہلی دہائی میں ہندوستان کی سیاسی، سماجی اور ادبی زندگی جس بے اطمینانی، انتشار اور امیدوبیم سے گزررہی تھی ،کچھ اس قسم کی کیفیات سے ان دنوں یوروپی زندگی بھی دو چار تھی خاشزم کے بڑھتے ہوئے طوفان نے سارے یوروپ کو زبردست طور پر متاثر کیا تھا، نتیجہ کے طور پر یوروپ کے دانشور اور قلم کا ر فاشزم کے بڑھتے ہوئے طوفان کا مقابلہ کرنے اور اس کی مخالفت میں آواز بلند کرنے لگے، اس کے زیر اثر ۱۹۳۵ء میں دنیا بھر کے ادیبوں نے ادب اور تہذیب کو محفوظ رکھنے کی غرض سے پیرس میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا، پیرس کے’ وبال بولئے‘ہال میں منعقدہ اس تاریخی کانفرنس میں جو عالمی ادب کی تاریخ میں کبھی فراموش نہیںکی جاسکتی ،لندن میں مقیم بہت سے نوجوان ہندوستانی ادیبوں نے  شرکت کی اور اس سے خاصا متاثر ہوئے، اس کانفرنس سے کچھ پہلے ہی یوروپ میں مقیم نوجوانوں نے یوروپ کی ترقی پسند آدیبوں کی سرگرمیوں سے متاثر ہو کر ایک ادبی انجمن کی تشکیل کی تھی پیرس کے اس عالمی کانفرنس سے متاثر ہو کر انہوں نے اس ترقی پسند مصنفین کی انجمن کے تیار کردہ منثورکو سائکلواسٹائل کروا کر اس کی نقلیں ہندوستان میں مختلف قلم کاروں کو بھیجیں۔سب سے پہلے پریم چند نے خندہ پیشانی سے اس کا خیر مقدم کیااور اپنے ہندی رسالہ ’’ہنس‘‘ کے اداریہ میں اس کی حمایت کرتے ہوئے اس کے اغراض ومقاصد بیان کئے نتیجہ کے طور پر لاہور، علی گڑھ، حیدرآباد، کلکتہ ،امرتسر اور بہار وغیرہ میں ترقی پسند مصنفین کی انجمنیں قائم ہوگئی۔
 
اس انجمن کی پہلی کانفرنس اپریل ۱۹۳۶ء میں لکھنؤ میں منشی پریم چند کی صدارت میں منعقد ہوئی، اس کے بعد ہندوستان کے مختلف شہروں میں اس طرح کی کانفرنس ہونے لگیں۔
                        ۱۹۳۶
۶ء سے ۱۹۵۶ء تک ملک میں کئی کل ہند کانفرنس منعقد ہوئیں جن میں ہندوستان کی مختلف زبانوں مثلاً اردو ،ہندی ،بنگالی، مراٹھی، گجراتی، پنجابی ، تمل، تلگو، کنٹراور ملیالم کے جئے پرکاش نارائن، مولانا حسرت موہانی، کملا دیوی چٹوپادھیائے ، جتیندر کمار، منشی پریم چند، مولوی عبدالحق، اچاریہ نریندر دیو، پنڈت جواہر لال نہرو ، اختر حسین رائے پوری سجاد ظہیر، جوش ملیح آبادی، اوم پرکاش، میتھلی شرن گپتا، فراق گورکھپوری احتشام حسین، حیات اللہ انصاری، وقار عظیم ، رابندر ناتھ ٹیگور، آنند نرائن ملا، حفیظ جالندھری، خواجہ احمد عباس ، ساغر نظامی، سروجنی نائیڈو، قاضی عبدالغفار ، نیاز فتح پوری جگر مرادآبادی، سردار جعفری، کرشن چندر، سلام مچھلی شہری ، کمال احمد صدیقی، روشن صدیقی، معین احسن جذبی، خواجہ احمد فاروقی عبادت بریلوی ، آل احمد سرور، غلام ربانی تاباں، مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی وغیرہ ادیبوں اور دانشوروں نے شرکت کی۔ اس طرح ۱۹۵۶ءتک انجمن ترقی پسند مصنفین اپنے فرائض انجام دیتی رہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ترقی پسند افسانہ نگار وں نے عوامی مسائل کے ساتھ ساتھ آفاتی اور بین الاقوامی مسائل پر بھی تنقیدی نگاہ ڈالی نتیجے کے طور پر اردو افسانہ قومی اور ملکی حدود سے آگے نکل کر عالمی دھارے سے جڑ گیا ترقی پسند، سماج اور عہد کو بدلنے کا عزم رکھتے تھے ان کا زور انقلاب کے ایک فکر انگیز لائحہ عمل پر تھا، انہوں نے وقت اور زمانے کے ساتھ بدلتی ہوئی قدریں ، زندگی کے نئے مسائل اور فن کی نت نئی راہوں کو اپنے فن میں سمو کر ایک نئی روایت قائم کی۔
 
ان میں آزادی کی خواہش ملتی ہے، سماج کے مظالم اور سرمایہ دارانہ نظام سے نفرت کا اظہار ملتا ہے، طبقاتی کشمکش بھوک اور افلاس کے موضوعات پر بھی افسانے لکھے گئے، زندگی کے بعض دوسرے تلخ حقائق کی نقاب کشائی بھی پوری شدت سے کی گئی۔ ترقی پسند مصنفوں نے فنی اظہار کیلئے الگ الگ راہیں اختیار کی تھی لیکن نصب العین ایک تھا یہ لوگ ادب اور فن کو اجتماعی زندگی کا ترجمان بنا نا چاہتے تھے ان کا مقصد انسان دوستی، درد مندی اور آزادی کے جذبات کو ابھارنا تھا، وہ ملک میں ایک سیاسی، سماجی اور اقتصادی انقلاب لانا چاہتے تھے۔ یہ بات اور ہے کہ کچھ ترقی پسند افسانہ نگار آرزوئوں اور ارادوں کی تڑپ میں ضبط کی حدود کو بھی توڑ نے لگے نتیجہ کے طور پر پروپگنڈے اور خطابات کی جڑیں مضبوط ہونے لگیں جن سے ذہین اور حساس قاری کو گہری مایوسی ہوئی۔
 
کرشن چندر: کرشن چندر کو اردو افسانہ نگاری کا ایک عہد کہا جاتا ہے انہوں نے اتنا زیادہ لکھا کہ کوئی ان کا مقابلہ نہ رہا، انہوں نے اچھے ار برے ہر طرح کے افسانے لکھے انہیں ایشیا کا عظیم افسانہ نگار کہا جا تا ہے ان کے افسانے کا موضوع انسانی زندگی ہے ابتدائی افسانوں میں رومانیت کے نقوش خاصے گہرے ہیں دوسرے دور میں وہ رومان نگاری کے ساتھ ساتھ سماجی حقیقت نگاری کی طرف مائل ہوئے ہیں۔ 
کرشن چندر کے یہاں فطرت کو خصوصیت حاصل ہے، ان کے افسانوں میں آدمی کے ساتھ فطرت بھی سانس لیتی نظر آتی ہے، ان کے بیشتر افسانوں میں پلاٹ اور کردار کے بجائے خصوصی زور قلم فضا کی تعمیر پر صرف ہوتا ہے۔ 
 
جس طرح کرشن چندر کے افسانوں میں ایک تعلیم یافتہ حساس اور باغی نوجوان کا کردار ملتا ہے اسی طرح ایک بھولی بھالی،سادہ معصوم لیکن محبت سے بھر پور دل رکھنے والی ایک دیہاتی لڑکی کا کردار بھی نظر آتاہے آزادی کے بعد فرقہ وارانہ فساد پر انہوں نے کئی افسانے لکھے جو ’’ہم وحشی ہیں ‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ ان کے افسانوں کی ایک نمایاں خصوصیت ان کاطنزو مزاج ہے انہوں نے بے شمار طنزیہ اور مزاحیہ افسانے لکھے ہیں’’ ہوائی قلعے‘‘اور ،مزاحیہ افسانے ، ان کے مزاحیہ افسانوں کے مجموعے ہیں، انہیں زبان وبیان پر فن کا راز دسترس حاصل ہے۔ 
 
سعادت حسن منٹو:سعادت حسن منٹو کو بھی ترقی پسند افسانہ نگار کہا گیا ہےلیکن کبھی انہیں رجعت پسند اور کبھی ان کے افسانوں کو فحش نگاری سے بھی تعبیر کیا گیا ہے،’’دھواں‘‘ ٹھنڈا گوشت‘‘ کھول دو‘‘اورکالی شلوار‘‘وغیرہ افسانے لکھنے کے جرم میں ان پر کئی بار مقدمے چلائے گئےاور عدالتوں نے کئی بار ان پر جرمانے بھی عائد کئے عزیزاحمد اور سردار جعفری وغیرہ نے انہیں جنس کے طلسم میں گھرا ہوا ایک مریض انسان قرار دیا ہے، اس کے بر عکس محمد حسن عسکری اور خلیل الرحمن اعظمی نے منٹو کو موضوع اور ہئیت دونوں اعتبار سے ایک پیش رو کہا ہے۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ منٹو ایک بڑے افسانہ نگار تھے اپنے ابتدائی دور میں وہ روسی ادیبوں سے متاثر نظر آتے ہیں ان کے افسانوں میں سماجی اور معاشی حالات کے ٹھکرائے ہوئے انسان ملتے ہیں جنہیں نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھا جا تا ہے ان کی نظر میں سارے آدمی فطری طور پر معصوم اور نیک ہیں لیکن حالات کے تحت وہ پست وذلیل ہو جاتے ہیں لیکن ان کے اندر کا انسان زندہ رہتا ہے اور موقع ملتے ہی وہ اپنے آپ کو بچانے اور محفوظ رکھنے کے لئے ہر ممکن کوشش کر ڈالتا ہے ، ان کے یہاں جزئیات نگاری کی خوبصورت مثال ملتی ہے۔
 
راجندر سنگھ بیدی: راجندر سنگھ بیدی کو بھی ترقی پسند افسانہ نگاروں کی فہرست میں رکھا جاتا ہے انہوں نے اپنے فکر وفن کے ذریعہ ترقی پسند افسانوی روایت کو ایک نئی سمت ورفتار عطا کی مواد ہئیت اور کردار نگاری میں یہ انفرادی حیثیت رکھتے ہیں ان کے یہاں بلاکا تنوع ہے وہ زندگی کو مخصوص زادیئے سے نہیں بلکہ مختلف زادیوں سے دیکھتے ہیں، ان کی افسانہ نگاری کی سب سے زیادہ اہم شئے حقیقت نگاری ہے انہوں نے نچلے متوسط طبقے کی زندگی کو بھی فن کارانہ انداز میں پیش کیا ہے کیونکہ ان کی اپنی ابتدائی زندگی بھی ایسی ہی تھی۔ 
کچھ افسانوں میں بیدی نے جنسی جذبات کا حسین دلکش اور مہذب اظہار کیا ہے اور کچھ افسانوں میں سماج کے پرانے رسم ورواج کے خلاف صدائےاحتجاج بلند کیا، بیدی کسی مخصوص فلسفے اور نظریئے کے بھی قائل نہیں تھے، ان کے یہاں کردار نگاری کے عمدہ نمونے ملتے ہیں جو ہماری اپنی زندگی سے لئے ہوئے ہوتے ہیں۔
 
حیات اللہ انصاری:حیات اللہ انصاری ایک ترقی پسند افسانہ نگار ہیں ترقی پسند افسانہ نگاروں میں ان کا نام جلی حرفوں میں لکھا جاتا ہے ان کے افسانوں میں مفلس اور بے بس انسان کی جھلکیاں نظر آتی ہیں انہوں نے مفلس طبقہ کے حالات کو نہایت چابکدستی کے ساتھ پیش کیا ہے وہ گہرا سماجی شعور رکھتے تھے، ان کا سیاسی اوراک تیز تھا اور تاریخی بصیرت بھی حاصل تھی، حیات اللہ انصاری کے افکار وعقائد پرند ہی چھاپ تھی اس کے باوجود انہوں نے اپنے لئے ایک الگ راہ بنائی، ایک زمانے میں وہ گاندھی دادی تھے لیکن زیادہ دنوں تک وہ اس پر قائم نہ رہ سکے اپنے ہم عصر کے طرز کو بھی نہیں اپنا یا بلکہ انہوں نے ایک منفرد طرز اختیار کیا۔
ان کے ابتدائی افسانوں میں مقامی رنگ واضح ہے زبان وبیان آسان اور سادہ ہے انہوں نے کہیں کہیں طنز کا استعمال بھی کمال خوبی سے کیا ہے ’’سہارے کی تلاش‘‘ ڈھائی سیر آٹا‘‘آخری کوشش‘‘ انوکھی مصیبت‘‘وغیرہ ان کے مشہور افسانے ہیں۔
 
احمد ندیم قاسمی: ان کے ابتدائی افسانوں میں کچھ خامیاں موجود ہیں لیکن ان میں حال سے بے اطمینانی اور تغیر وانقلاب کا شدید جذبہ موجود ہے انہوں نے پنجاب کی دیہی زندگی کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے ان کے یہاں پنجاب کے دیہاتوں کی حقیقی زندگی کی موثر عکاسی ملتی ہے انہوں نے پسماندہ اور آدنیٰ طبقے کو اس کی تمام تر کمزوریوں، محرومیوں اور مجبوریوں کے ساتھ پیش کیا ہے، ان کی مفلسی، جہالت اور بے حسی کی تصویریں پیش کی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس طبقے کی جدوجہد اور استحصال کرنے والی طاقتوں سے اس کے تصادم کی مثالیں بھی پیش کی ہیں، انہوں نے اپنے افسانوں میں شہری زندگی اور جدید تہذیب وتمدن کو لانے کی کوشش بھی کی ہے لیکن وہ اس میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی کے ابتدائی افسانوں میں مقصدیت حاوی ہے لیکن بعدمیں وہ فن کی طرف راغب ہوگئے ہیںِ کرشن چند رکی طرح وہ بھی زود نویس ہیں، عالمی جنگ ے پس منظر میں بھی انہوں نے کچھ افسانے لکھے ہیں تقسیم وطن اور فرقہ وارانہ فسادات پر بھی انہوں نے چند افسانے تحریر کئے ہیں’’سیلاب‘‘ آنچل‘‘آبلے‘‘ طلوع وغروب‘‘ ان کے افسانوی مجموعے ہیں۔
 
اوپندر ناتھ اشک: ان کے کچھ افسانوں میں حقیقت نگاری کے ساتھ ساتھ اصلاحی رنگ نمایاں ہے اور کچھ افسانوں میں رومانیت کے اثرات اور زیادہ ترافسانے ایسے ہیں جن میں اس عہد کی سیاسی زندگی بالخصوص تحریک آزادی کی بہترین عکاسی ملتی ہے۔ انہوں نے فن پر خصوصی توجہ دی ہے ان کے نزدیک زندگی ایک ٹھوس حقیقت ہے ان کے افسانوں میں ادنیٰ متوسط طبقہ اپنی کڑوی ، کسیلی سچائیوں کے ساتھ ساتھ نظر آتا ہے ، انہوں نے اس طبقہ کے ہند وگھرانے کی زندگی کے مختلف پہلوئوں کو پیش کیا ہے بوجھل ترکیبوں اور استعاروں کے بجائے انہوں نے سادہ اور سلیس زبان پیش کی ہے چوں کہ انہوں نے اردو کے علاوہ ہندی میں بھی لکھا ہے اس لئے زبان وبیان اور اسلوب کے معاملے میں وہ اپنے دیگر ہم عصروں سے بہت حد تک مختلف نظر آتے ہیں ان کے افسانوی مجموعے’’نورتن ‘‘عورت کی فطرت ‘‘ ڈاچی‘‘کونپل‘‘ قفس‘‘ناسور اور چٹان‘‘ وغیرہ ہیں۔
 
بلونت سنگھ: بلونت سنگھ نے زندگی کو مختلف رنگوں اور شکلوں میں دیکھا ہے، پنجاب کے دیہات سے انہیں خاصی نسبت رہی ہے ، وہاں کے مفلوک الحال کسان، کھیتی کے صدیوں پرانے طریقے ، جاگیردارانہ معیشت جہالت، مفلسی اور ان سب کے پیدا کردہ حالات کو انہوں نے اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے، انہوں نے پنجاب کی شہری زندگی کو بھی اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے اور کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ ان کی کہانیوں کی واضح شناخت ان کا کہنانی پن ہے کیونکہ وہ کہانی کہنے کے فن سے اچھی طرح واقف تھے۔ ماحول کی پیش کش جذبات نگاری، کردار نگاری میں وہ اپنا جواب نہیں رکھتے زبان وبیان کے معاملے میں وہ منٹو سے قریب تر ہیں۔
 
ان لوگوں کے علاوہ اور بھی بہت سے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے ترقی پسندافسانہ کی توسیع میں قابل قدر خدمات انجام دی ہیں، ان میں علی عباس حسینی اختر حسین رائے پوری، رشید جہاں، احمد علی، عصمت چغتائی ، اختر انصاری ، اختر اور ینوی ، خواجہ احمد عباس، عزیز احمد ، دیوندر ستیارتھی ، مہندر ناتھ قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ سید وقار عظیم، غلام عباس ، ابراہیم جلیس مرزاادیب، اے حمید، خدیجہ مستور، سرلادیوی، رامانند ساگر، شکیلہ اختر رام لعل وغیرہ نے بھی ترقی پسند افسانے لکھے ہیں۔
اس طرح ترقی پسند دور جو ۱۹۳۶ء میں شروع ہو اتھا آزادی کے بعد کمزور پڑ گیا لیکن ۱۹۵۶ء تک یہ دھیمی رفتار سے چلتارہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1358