donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Afsana
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Nezamuddin
Title :
   Nai Sadi Aur Urdu Ka Naya Afsana

 

نئی صدی اوراردوکا نیا افسانہ 


محمد نظام الدین چمپارنی 

ریسر چ اسکالر شعبہ اردو ، دہلی یونیورسٹی 


نئی صدی یعنی اکیسویں صدی اردو افسانہ کے لیے اب تک نیک فال ثابث ہوئی ہے۔ کیو نکہ اس صدی میں نئے موضوعات اورنئے انداز سے بھر پور افسانے منظر عا م پر آئے ہیں ۔ جو اسلو ب ، بیا ن اور تکنیک کے اعتبار سے دلچسپ اور اچھوتے ہیں ۔ اس نئی صدی میں جن نا مور افسانہ نگاروں نے اردو افسانہ کی سمت و رفتار کو آگے بڑھانے میں اپنا تعاون دیا ہے۔ ان میں عبدا لصمد،مشرف عالم ذوقی، بیگ احساس، طا رق چھتاری ، مظہر الزماںخاں ، حسین الحق، اقبال مجید ، خا لد جاوید ، شا ئستہ فاخری ، ترنم ریاض وغیر ہ سر فہر ست ہیں۔ نئی صدی کا یہ نیا قافلہ اردو افسانہ کو نئی جہت عطا کر نے کے لیے ہنو ز اپنا سفر جاری رکھے ہواہے۔ 

اردوافسانہ کو ایک صدی اور ایک دہائی کے اپنے سفر میں مختلف پڑائو اور اہم مو ڑ کا سا منا کر نا پڑا ہے۔ رو ما نی تحریک، ترقی پسند تحریک، جدیدیت اور ما بعد جدیدیت اردوافسانہ کے اہم تحریکیں اور پڑا ئو ہیں۔ ترقی پسندی کے دور میں حقیقت نگاری اردوا فسانہ کی سب سے مستحکم اور مقبول روایت تھی۔ اس تحریک سے وابستہ افسانہ نگاروں نے اردو افسانہ کی جڑین مضبوط کر نے کے لیے اہم رول اداکیا ہے۔ لیکن جب ترقی پسند تحریک پرو پیگنڈہ کا شکار ہوگئی تو جدیدیت کا ظہو رہوا۔ اس دور میں لکھے گئے افسانے کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں کہا نی غائب ہے۔ جد ید افسانہ نگاروں نے فرد کے داخلی کر ب کو اپنا موضوع بنا یا ۔ جد ید افسانہ علامتی اور تجر یدی نو عیت کا افسانہ ہے اور بیا نیہ کا عنصرجدیدافسانے سے غائب ہے۔ جدیدیت کے زیر سایہ افسانہ لکھنے والوں میں بلر اج مین را ، انور سجاد، کلام حیدری ، احمد ہمیش ، سر یندر پر کاش، مظہر الزماں ، اکر ام باگ ، قمر احسن اور حمید سہر وردی وغیر ہ ہیں۔ ان میں کچھ ایسے افسانہ نگار بھی تھے جو گمنا می کا شکا رہو ئے ۔ لیکن جب ان کو اپنی گمنا می کا احساس ہوا تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ مثا ل کے طور پر قمر احسن اور اکر ام باگ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ 

1980کے بعد یہ بات بہت زور وشور سے بلند ہوئی کہ اردو کا قاری گم ہے ۔ کیونکہ اس کے فہم و فراست سے با لا تر افسانے اور کہا نیاں لکھی جا رہی ہیں۔ لیکن 1990کے بعد جو دور آتا ہے وہ اردو افسانہ کے لیے بے حد اہم ما ناجا تا ہے۔ کیو نکہ اس دور میں بیانیہ کی شاہا نہ واپسی ہوئی۔ بیا نیہ کی واپسی کا نہ صرف پرتبا ک استقبال کیا گیا بلکہ کا فی ڈھو ل بھی پیٹا گیا ۔ دراصل اس بیا نیہ کی واپسی کے ساتھ ساتھ اس گمشدہ قاری کی بھی واپسی ہوئی تھی جو پچھلے دو دہا ئی سے نظر انداز ی کا شکا ر ہوگیاتھا۔ اس سلسلے میں نامورفکشن نگار مشرف عالم ذوقی نے اپنی تنقید ی بصیرت کا اظہار یوں کیاہے :

’’دراصل قاری کی مشکلا ت یہ تھیں کہ وہ ادب میں درآئی نئی تبدیلیوں کو اچانک سمجھ نہیں پا ئے تھے۔ نئی کہا نیاں ان کے لیے مشقت بھر ی کہا نیاں تھیں۔ تجر بے ، علامتوں کے نام پر بیس سال ان تبدیلیوں کی زد میں آئے ، لیکن 80کے بعد بیا نیہ کی واپسی نے ایک ساتھ کئی دوسرے سوال کھڑے کردیئے تھے۔  (آب روان کبیر ،ص۔103)

اس میں کو ئی شک نہیں ہے کہ جدیدیت نے بیا نیہ انداز سے انحراف کا رخ اختیار کیا تھا ۔ اس نے وسعت اور پھیلائو کے بجائے ارتکاز سے کا م لیا تھا ۔ لیکن ما بعد جدیددور بیا نیہ کی واپسی کا دور ہے۔ اس دور میں علاماتی اور استعاراتی افسانے کے ساتھ ساتھ تجر ید کی جگہ بیا نیہ انداز کے افسانے لکھنے کا چلن عام ہوا ۔ اس کے بعد کے دور میں افسانے کا محور اور مر کز انسان کی ذات قرارپایا۔جس کا عکس اس دورمیں لکھے گئے افسانوں میںمو جو د ہے ۔ اس دور کے نا مور افسانہ نگار اور افسانوں میں سلام بن رزاق (انجام کار ) نیر مسعود ( طائو س چمن کی مینا) عبد الصمد (شہر بند ) شوکت حیات (گھونسلا) انور خان (اپنائیت ) سید محمد اشرف (ڈار سے بچھڑے ) انور قمر (کابلی والا کی واپسی ) بیگ احساس (حنظل ) مظہر الزماں خاں (پہلے دن کی تلاش میں )مشرف عالم ذوقی (لینڈ اسکیپ کے گھوڑے ) اور طا رق چھتاری (نیم پلیٹ ) وغیر ہ ہیں۔ 

مذکورہ بالا افسانہ نگاروں نے ایک طرف ترقی پسندوں کی ایک رخی حقیقت نگاری سے گریز کیا تو دوسری طرف جدیدیت کی ابہام پسندی اور تجر یدیت سے بھی اپنے دامن کو بچا ئے رکھا ۔ موجودہ دور کے افسانہ نگاروں نے اس طریقہ کو اپنا یا ہے کہ وہ اپنے اطراف کی زندگی میں اس قدر شا مل ہو گئے ہیں ، جس قدر کہ ان کے کردار۔ انہوں نے انسان کی ذاتی سوچ اور نجی مجبوری کو اس طرح پیش کر نے کی کوشش کی ہے کہ ہماراپو راسیاسی اور سماجی نظام کہا نی کی گرفت میں آسکے۔ آج کے افسانہ نگاروں نے اس مقصد کے حصول کے لیے علا متوںاور استعاروں کواس طرح برتا ہے کہ وہ خار ج سے مسلط کر دہ معلو م نہ ہو ں بلکہ با ہم دگر مر بو ط ہو کر ایک وحدت کی شکل اختیار کر لیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج اردو افسانہ کے اعتبار میں اضافہ ہوا ہے۔ اور 2013ختم ہو نے تک کچھ نئے اور کچھ پرا نے لکھنے والوں نے اچھے افسانے کے نمو نے پیش کیے ہیں۔ مشرف عالم ذوق رقمطراز ہیں :

’’سن 2010تک آتے آتے اردو افسانے کی دنیا میں کئی اچھے نا م شامل ہو چکے ہیں۔ خوشخبر ی یہ ہے کہ ایک بار پھر نئی نسل اچھی کہانیوں کے ساتھ اردوافسانے کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ یہ وقت مایوسی اور تاریکی سے با ہر نکل کر ان افسانوں کی شناخت کا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خالد جا وید ، سید محمد اشرف، صدیق عالم ، رضوان الحق، شائستہ فاخری ، رحمن عباس ، صغیر رحمانی، احمد صغیر جیسے افسانہ نگاروں پر گفتگو کے دروازے کھلیں۔‘‘

’’یہاں نئے لکھنے والوں کے لیے بھی ایک چیلنج ہے کہ وہ محض ما کیز، بو رخیس ، اوہان پا مک جیسے بڑے تخلیق کاروں کی پیرو ی نہ کریں بلکہ اپنی مثا ل پیش کریں کہ ان کے اسلو ب اور ڈکشن پر مغرب میں بھی گفتگو کے راستے کھل سکیں ۔ اس غر یب زبان کو اپنی تنگ داما نی کا پتہ ہے لیکن اس تنگ داما نی کے با وجود اردووالوں کو ایک بڑی پہچان بنا نے کی ضرورت ہے ۔‘‘( آب روان کبیر، ص۔47)

اکیسویں صدی میں اردوافسانہ کو نئے مسائل اور دگر گوں صورتحال کا سا منا ہے ۔ ایک جا نب نئی ٹکنالوجی ، سا ئبر ولڈ، تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا اورپگھلتے ہوئے گلیشیئر ش وغیر ہ اردو افسانہ نگار کے لیے نئے موضوعات کے اسبا ب ہیں تو وہیں دوسری طرف بھو ک ، افلاک ، پانی ، آلو د گی، دہشت پسندی ، پرا نی قدروں کی انحطاطی اور نئی تہذیب اور مصنوعی کلچر ان کی توجہ کا مر کز بنئے ہو ئے ہیں۔ بلند اقبال کی ایک کہا نی کا اقتبا س ملاحظہ ہو:

’’ہاں وہی۔۔۔وہ جو ننگ چھڑنگ چیختا چلاتا ہوا دیوانہ ۔۔۔خود کے سا ئے کو روندتا ہو اکسی بد حواس ہر ن کی طرح جنگلی بھیڑیوں کے ڈر سے بھا ک رہا ہے۔ وہ جو محض اپنی گندی گالیوں ہی سے، خود پڑ پڑے ہوئے پتھروںسے لڑ رہا ہے۔ وہ جو شریر لڑ کوں کے چنگل میں پھنسا ہوا خود اپنے بہتے ہو ئے زخم چاٹ رہا ہے۔ ہاں وہی۔۔۔ جو سسکتی ہوئی آنکھوں سے شاید اپنے ارد گرد کے لو گوں کے ہو نے کا سبب سوچ رہا ہے ۔ ہاں وہی۔۔۔ ٹھیک وہی ۔۔۔ اسے انسان کہتے ہیں ۔‘‘

’’کہتے ہیں اس رات بہت آندھیاں چلی تھیں اور بہت طوفان بھی آئے تھے۔ رات اور بھی تاریک ، دن اور بھی روشن ہو گئے تھے اور پھروہ سناٹا آیاتھا کہ زمین کا دل دہل گیا تھا اور آسما ن کانپ گیا تھا۔ کہتے ہیں اس رات خدااور انسان کے شعور پر چو تھے ڈا ئمنشن کا دروازہ کھل گیا تھا ، جس سے نکلتی ہوئی روشنیاں کا ئنات کا سینہ شق کر گئی تھیں ۔ اور چند انمٹ سوالیہ نقوش چھوڑ گئی تھیں ۔ خدائی کی تخلیق خداجیسی کیوں نہیں ہے ؟‘‘ (فورتھ ڈا ئمنشن )

عصر حاضر کے مشینی اور صنعتی معاشرہ کا اپنا کلچر، اپنی تہذیب اور اپنا رہن سہن ہے۔ جس کی وجہ سے انسانی زندگی میں بہت حد تک تغیر ات کے اثرات نظرآنے لگے ہیں ۔ اور نئی نسل کی سوچ و فکر میں بہت زیا دہ تبد یلیاں آئی ہیں۔ جس کا اثر اردو افسانہ پر بھی پڑا ہے۔ اس لیے عبدالصمد اور مشرف عالم ذوقی سے لے کر ترنم ریاض وغیرہ تک کے افسانوں میں نئی صدی کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ نئی صدی کے تیرہ برسوں اردو افسانہ کا نہ صرف مزاج بدلا ہے بلکہ نئے افسانوں میں تکنیک ، اسلوب اور انداز بیان کے اعتبار سے کافی تبد یلیاں دیکھنے کو ملی ہیں۔ اقبال مجید کی کہا نی کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

’’امیر نے جملہ سنا ، چہر ے پر ایک رنگ آیا اور گیا ۔ وہ اپنے مقابل کو بھنبھوڑ کھانے میں ماہر تھا ۔ رحمت کو بھی کبھی کبھی نو چ ناچ کر پھینک چکا تھا ، مگر امیر کا بر تا ئو دیکھ کر رحمت کو اندازہ ہو گیا کہ اس کا منشا غصہ دکھا نا نہیں ، کچھ اور ہے۔ اس درمیان امیر ہا تھ کی کتا ب کھو لے یہ عبارت پڑھ کر رحمت کو سنا نا چا ہتا تھا :

’’ہمیں علم نبوت کے اتنے بڑے سر مائے کی علمداری کرنے والا مولو ی در کار ہے جوصرف مولو ی ہو ، لیکن عبارت سنانے سے پہلے امیر کو خیا ل آیا کہ اس عمارت سے ہر طا لب علم بن کر نہیں نکل پا تا اور طلبا کی بے را ہ روی کی ذمہ داری مدر سے کا وہ ڈھیلا ڈھالا نظام اور تر بیت ہے جس کی اصلا ح ضروری ہے۔ غر اکر بولا ’’تمہارے اندر یہ باغیا نہ تیور ہر گز نہ پنپتے ، اگر ہم اپنے تعلیمی نظام کو اتنا ہی ٹھوس اور پختہ بناسکتے جتناعیسائی پا دریوں کاہواکرتاہے ۔‘‘ (تسلیم ورضا)

اس نئی صدی میں سید محمد اشرف کے افسانے قومی اور بین الاقوامی حادثات اور اثرات کے عکاس معلو م ہو تے ہیں ۔ ان کے افسانے کی ایک خو بی یہ ہے کہ وہ اپنے خیالات کا اظہا رکے لیے جا نوروں کو بھی وسیلہ بنا تے ہیں۔ افسانوی ادب میں سید محمد اشرف کی مقبولیت ’’ ڈارسے بچھڑ ے ‘‘سے ہو ئی ۔ اس کے بعد ان کی مقبو لیت میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا ۔ نمبر دار کا نیلا ، دعاء ، ساتھی ، روگ وغیرہ قابل ذکر ان کے تخلیقی افسانے ہیں۔ 

مشرف عالم ذوقی اردوکے بسیار نویس افسانہ نگار ہیں۔ ان کے یہاں مو ضوعات کا کینوس کافی وسیع ہے۔ وہ روایتی موضوعات سے ہٹ کر دور حاضر میں ہو نے والے حادثات اور واقعات کو اپنے افسانے کا مو ضوع بنا تے ہیں۔ اصل واقعہ کی زیراکس کاپی ، باپ اور بیٹا، فزیکس ، کیمسٹری ، الجبرا، صدی کو الوداع کہتے ہو ئے ، اما م بخاری کی نیپکن ، کاتیائن بہنیں اور ’نفرت کے دنوں میں ‘ ان کی بہتر ین تخلیقی کہا نیاں ہیں۔ایک کہا نی کا اقتباس ملا حظہ ہو:

’’وہ میں نے سوچ لیا ہے۔ ہم فون پر نکاح کریں گے۔ نکاح مسنونہ۔ میرے جاننے والوں میں ایسا ایک نکاح ہوچکا ہے۔‘‘

’’نکاح… لیکن میں ہندو ہوں…‘ میری آواز کانپ رہی تھی۔ ’تم جھوٹے نکاح کا مطلب سمجھتی ہو؟ کیا ایک ہندو کے ساتھ تمہارے گھر والے نکاح کو مان جائیں گے…‘‘

’نکاح کے وقت تم اور تمہارا خاندان مسلمان ہوگا— مسلمان ہو تم— سمجھو میری بات راٹھور— میں آنا چاہتی ہوں۔ اور اس کے لیے اس بے رحم وقت سے بہتر کچھ بھی نہیں— میں گھر والوں کو منا لوں گی— یہ مجھ پر چھوڑ دو۔ میں کہہ دوں گی کہ تمہارے گھر والے تمہاری شادی جلدی کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہمیں یہ قدم اٹھانا پڑا… سنو راٹھور…‘    (نفرت کے دنوں میں ،ص ۴۲۶)

طارق چھتاری نئی صدی کے ایک اہم افسانہ نگار ہیں ۔ جنہوں نے روما نی پہلو سے لے کر عصر حاضر کے تما م موضوعات کااحاطہ کر نے کی کوشش کی ہے۔ باغ کا دروازہ، گلو ب ، پو رٹریٹ ، تین سا ل ، کو ئی اور ، دس بیگھے کھیت ،اور چا بیاں وغیر ہ اہم تخلیقی فن پارے ہیں۔ 

اردو افسانہ نگاری کے باب میں نو رالحسنین کی اپنی ایک شناخت ہے۔ ان کے یہاں مو ضوعات کا تنوع ہے۔ اور انہوں نے ایسے ہی موضوعات کا انتخا ب کیا ہے جس پرا نہیں گرفت اور گہرا مطالعہ ہے۔ بازی گر، کالے ہا تھ ، اور گڑھی میں اترتی شام ، ان کے اہم افسانے ہیں ۔ 

پرو فیسر بیگ احساس ایک اہم ا فسانہ نگار تسلیم کیے جاتے ہیں ۔ ان کے افسانے جہاں فنی لوازمات سے مزین ہو تے ہیں وہیں فکری سطح پر بھی ان میں تنوع اور وسعت پا ئی جا تی ہے۔ درد کے خیمے ، سانسوں کے درمیان ، نجات ، چکر ویو ، اور دخمہ حالیہ دنوں کے افسانے ہیں ۔ 
خالد جاوید ایک منفرد افسانہ نگار ہیں ۔ان کے افسانے عام طور سے طویل ہوتے ہیں مگر وہ اپنی بات کو اس فنکارانہ اندازسے پیش کر تے ہیں کہ طوالت کا احساس تک نہیں ہو تا، اور ازاول تا آخر افسانہ پڑھ کر ہی قاری دم لیتا ہے۔ برے موسم ، اور آخر ی دعوت بہترین افسانوں میں شمار کیے جا تے ہیں۔ آخری دعوت کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

’’یا یوں کہہ لیں کہ میں یہاں ایک فرد بن کر نہیں رہنا چاہتا ۔ میں خود کو ’کئی‘ میں محسوس کر نا چا ہتاہوں اور اس طرح میں ایک ہو تے ہو ئے بھی ، بہت سوں ، میں بٹ جا نا چا ہتا ہوں ۔ اس لیے اس کہا نی کا ہر کردار میرے لیے پھا نسی کا ایک جھولتا ہواپھنداہے۔ میں پھندے میں اپنے سر پر کالا کپڑاڈال کر گلے کا ناپ لینے جا تاہوں اور مایوس ہو کر واپس آجا تا ہوں ۔ کوئی پھنداایسا نہیں جو ایک دم میرے گلے کے برابر آئے۔ یہاں دم گھٹتا ہے ۔ دم نکلتا ہے۔ یہ ایک بھیا نک اور کریہہ کھیل ہے ۔ جس میں اپنی آزادی اور مکتی کے لیے میں خو د کو مختلف ضما ئر میں تقسیم کرکے اپنے موسم کی تلاش جا ری رکھنا چا ہتا ہوں ۔ جیساکہ میں نے پہلے اشارہ کیا تھا کہ ایک دبکا ہوا احساس جر م وہاں ضرور تھا اور آہستہ آہستہ شاید اب اس سناٹے میں گونجتی ،ڈوبتی سسکیوں کے ساتھ ساتھ وہ اپنے بل کھو ل رہا ہے ۔ ان دونوں کو بھی احساس جرم تھا۔ مگر اس سے چھٹکارا پا نے کا ہر ایک کا ایک نجی طریقہ ہو تا ہے یہ میرا طریقہ ہے جو آپ سے مخاطب ہوں ۔ان کی بے معنی باتیں، کالا مفلر اور چمڑے کی جیکٹ شاید اس احساس جرم کا ہی جڑ تھیں ۔ یہ انسان کی اپنی اکیلی دنیا ہے۔ اس میں دخل اندازی کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی ۔‘‘ (آخری دعوت) 

الغرض اس نئی صدی میں لکھے گئے اردوافسانے کے منظر نامے کا گہرا ئی سے جائز ہ لیا جا ئے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ نئی صدی کے افسانہ نگار زمانے کے تقاضوں کو مد نظر رکھ افسانہ قلمبند کر رہے ہیں ۔ ایک طرف صدیق عالم ، خا لد جا وید اور علی اکبر ناطق جیسے کہا نی کار مو جود ہیں جو جد ت اور حقیقت پسندی کے امتزاج سے نئے کو لاژ تعمیر کر رہے ہیں تووہیں دوسری طرف عبدالصمد، مشرف عالم ذوقی ، سلا م بن رزاق، علی امام نقوی ، جینا بڑے ، بیگ احساس ، شوکت حیات ، صغیر رحما نی ، سید محمد اشرف ، نورالحسنین ، طارق چھتاری ، اور رحمن عباس وغیر ہ ایسے کہنہ مشق تخلیق کار اور افسانہ نگار ہیں، جن سے نئی

صدی اور اردو افسانہ کو ڈھیر ساری امیدیں ہیں۔ 

 
Address:
Md.Nizamuddin
Room No.23,Gwyer Hall,
University fo Delhi-7
E-mail: nizamindia9@gmail.com

***************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1858