donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Afsana
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Saleem Ansari,Jabalpur
Title :
   Haneef Syed Ke Afsano Ki Haqiqat

’’حنیف سیّد کے افسانوں کی حقیقت‘‘


سلیم انصاری,جبلپور


    پنچھی جہاز کاحنیف سیّد کے افسانوں کا اوّلین مجموعہ ہے۔اِس سے قبل اُن کا ناول ’’ایثار کی چھان￿و تلے‘‘ناقدین ِادب کی توجہ حاصل کرنے میںخاصا کامیاب رہاہے۔یوں تو حنیف کانٹوی کے قلمی نام سے اُن کے افسانے ایک عرصہ تک رسائل وجرائد کے حوالے سے ادب کے سنجیدہ قارئین تک رسائی حاصل کر تے رہے ،تاہم اِدھر چند برسوں سے انھوں نے حنیف سیّدکے نام سے لکھنا شروع کیا تومدیرانِ رسائل کا رویّہ ان کے تئیں بے اعتنائی کا رہاہے،مگر اب صورت ِحال یک سر تبدیل ہوچکی ہے اور وہ پھر سے رسائل وجرائد میں تواتر سے نظر آرہے ہیں۔

                    

    حنیف سیّد سے میری ملاقات زیادہ پرانی نہیں مگر اپنی متھراپوسٹنگ کے دوران اُن سے مسلسل ملاقاتوں اور گفتگو کے بعد میں اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ افسانہ کاغذ پر منتقل ہونے سے پہلے ہفتوںبل کہ بعض اوقات مہینوں تک اُن کے ذہن میں تخلیق کے کرب سے گزرتا رہتا ہے۔یہی نہیں افسانہ کاغذپر تحریر کرنے کے بعد بھی وہ اُس میں ردّو بدل کرتے رہے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے یہاں جو Thought process ہے وہ افسانے کے واقعات ،پلاٹ اور کلائمکس وغیرہ کو بار بار Refine کرتا رہا ہے ،جس سے افسانے میں کمیوں اور خامیوں کا امکان بے حد کم ہوجاتا ہے ۔

    میرے خیال میں افسانے کی تخلیق میں اتنی محنت اورعرق ریزی کرنے والے افسانہ نگاروں کی تعداد بے حد کم ہوگی۔ورنہ خود نمائی اورSelf Projection کے اس دور میں’’کاتا اور لے دوڑے‘‘ کی تھیوری پر عمل کرنے والے تخلیق کار ہی فیس بک سے لے کر رسائل وجرائد تک ، اردو اکادمیوں اور نیم سرکاری ،سرکاری اورغیر سرکاری انعامات و اعزازات کی فہرست سازی میں اپنا نام شامل کروانے کی شرمناک منصوبہ بندی تک پیش پیش نظر آتے ہیں ۔اس کے برعکس حنیف سیّد اوردیگر جینوئن تخلیق کاروں کی ایک قابلِ ذکرتعدادگروہ بندی سے الگ تخلیقی ایمان داری کا پرچم اٹھائے زندگی کے مسائل ومصائب سے نبر د آزما نظرآتی ہے۔

     ’’پنچھی جہازکا‘‘ ایک افسانہ نگار کا تخلیقی اظہار ہے،جس کی پشت پر نجی طور پر بھوگے ہوئے مسائل و مصائب کا پہاڑ ہے اور سامنے ذہنی ،فکری اور نفسیاتی تجربات اور مشاہدات کا وسیع میدان۔مجھے معلوم ہے۔ حنیف سید کے یہاں افسانے محض Imagination نہیں ،بل کہ اُن کے گردوپیش رونما ہونے والی برہنہ اور تلخ سچائیوں کا تخلیقی اظہار ہیں۔

    حنیف سیّدکے افسانوں کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کے بعض افسانوں میں جنسی اور نفسیاتی پیچیدگیوں کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔اِس اعتبار سے کسی حد تک بعض لوگ اُن پرجنس زدگی کا الزام عائدکر سکتے ہیں۔مگر اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ موجودہ سائبرعہد کی تیز رفتار زندگی میں جنسی مسائل اور نفسیاتی الجھنیںہماری معاشرتی زندگی کا اہم حصہ ہیں۔لہٰذا ادب میں اِن کا تخلیقی اظہار ناگزیر ہے،اور مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ حنیف سیّد نفسیاتی الجھنوں کی  جُزئیات  نگاری اور اپنے تخلیقی اظہار پر خاصی دست رس رکھتے ہیں،لہٰذااُن کے افسانوں پر جنس زدگی کاالزام باطل ٹھہرتا ہے۔

    حنیف سیّدکے افسانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے اُن کے یہاںایک اور خصوصیت کا احساس ہوا وہ یہ کہ اُن کے کئی افسانے بہ ظاہر ہلکے پھلکے لفظوں میںغیر اہم واقعات سے شروع ہوتے ہیں مگر ہم جیسے جیسے آگے بڑھتے ہیں۔اُن کے افسانے سنجیدہ اور گمبھیر ہوتے جاتے ہیں اور قاری کو بھی اپنی فہم وادراک کی سطح بلند کرنی پڑتی ہے۔مثال کے طور پر اُن کا بے حداہم اور مقبول افسانہ لیں ’’عوض پھول کا‘‘۔ افسانے کی شروعات اس طرح ہوتی ہے۔

    ’’آج پھر مات دے گیا وہ،اور ایسی مات کہ اب کوئی اور بساط نہ بچھا سکوں گی میں۔یعنی کہ آ ّخری مات۔ قبر کے آخری پٹرے جیسی۔

    ’’بڑاپیارا ہے گلاب کا پھول۔تقریباً چالیس سال پیشتر پہنچ گئی میں اُس کے لان میں۔تو توڑلونا۔۔۔! ‘‘اُس کے کہنے پر میں نے پھول توڑا ہی تھا۔ کہ اُس نے جھٹ سے میرا ہاتھ تھام لیا۔
    ’’کیا چاہتے ہو تم۔۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’پپّی۔۔۔!‘‘

    اِن جملوں پر غور کریںتوبہ ظاہر بہت سادہ اور عام سے مکالمے کا اعلامیہ ہیںمگر آگے چل کریہ افسانہ بے حد گمبھیر اور عورت کی جبلّی اور جنسی پیچیدگیوں ناتمام خواہشوں اور ناکام تمنائوں کا اظہار بن جاتا ہے۔

    ’’عوض پھول کا‘‘ایک ایسی عورت کی عبرت ناک کہانی ہے،جوبچپن ہی میں اپنے نام نہاد خالو کی جنسی ہوس کا شکار ہو جاتی ہے،اور یہ سب کچھ اُسی خالہ کی مرضی ،مدداور تعاون سے ہوتا ہے،جو اُس کی ماں کوبہلا کراپنے ساتھ فریدآباد لے آتی ہے،اور ایک بچے کے لالچ میں اپنے شوہر کے آگے ڈال دیتی ہے اِس طرح وہ اُس سے ایک بچی پیدا کرانے کے بعد خود بچی لے کراُسے واپس اُس کی ماں کے پاس بھیج دیتی ہے۔اور اس طرح یہ لڑکی بچپن میں ہی جنسی بے راہ روی کا شکار ہو کریہاں وہاں مُن￿ہ مارنے لگتی ہے۔اور ایک دن وہ ایک شادی شدہ مرد کے ساتھ گھر سے نکل لیتی ہے اور پکڑے جانے پراُس کی ماں اُس کا نکاح اُسی کے ساتھ کروا دیتی ہے،اور پھر اُس شوہر سے بھی اُس کے ایک بیٹی پیدا ہوتی ہے ۔یہیں سے کہانی کا بے حد اہم موڑ شروع ہوتا ہے کہ یہ لڑکی اپنے عاشق کے ساتھ عاشق کے لاکھ چاہنے کے باوجود بھی شادی نہیں کرتی،جس کا سبب اس کا احساسِ جرم اورروشن ضمیری ہے ۔مگر یہاں بے حدحیرت انگیز طورپر وہ اپنی اس بیٹی کو اپنے عاشق کے یہاں جانے کی چھوٹ دے کر انبساط محسوس کرتی ہے۔یہاں عورت کی پیچیدہ نفسیات کو حنیف سیّد نے بڑی خوب صورتی سے پیش کیا ہے۔کہانی کی بنّت اور ٹریٹمنٹ بہت عمدہ زبان پر اُن کی گرفت مضبوط اور اسلوب اظہار بے حد خوب صورت ہے جس کی ایک مثال ملاحظہ کریں:

    ’’ایک رات میرے ذہن کے تل چٹّے نے رینگتے رینگتے سکون کی دنیامیںلے جاکریہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ایسا ہوجانے میںضمیر کابوجھ بھی ہلکا ہوجائے گا،اور حالا ت کی دھوپ چھان￿ووعدہ شکنی کے نقوش کو مٹ میلا بھی کر دے گی ، پھول توڑنے کے عِوض میں اُس کی خواہش پر اپنی کنواری کلی اُس کوسونپ کربدل بھی دے سکوں گی ، اور اُس کو اپنی تمنا کے مطابق عرشی بھی مل جائے گی ۔کیوں کہ میری بیٹی ناک نقشے میں پوری طرح مجھ پر گئی ہے۔‘‘
    ’’یہ ہوئی ناعورتوں والی بات ‘‘ایک مختصر سا افسانہ ہے ۔جس میںبہ ظاہر کوئی بڑا پلاٹ نہیں،مگر اس میں حنیف سیّد نے عورت کی اس نفسیات کو افسانہ بنا دیا ہے جو اپنی انا کے زخمی ہونے پر مردوں سے بدلے کے روپ میں ظاہر ہوتی ہے ۔اس افسانے میں نرگس نے ایک باون سالہ مرد سے پچاس سال کی عمر میں محض اس لیے انکار کر دیا کیوںکہ جوانی میں اس مرد نے ایک شادی کی تقریب میں دوستوں کے اسرارپر شرط جیتنے کے لیے نرگس کو زبردستی چوم لیا تھا اور نرگس نے اس لڑکے کی ماں سے شکایت کی تھی کہ آپ کے بیٹے نے بھری برات میں میری کلائیاںتھام کر زبردستی میرا مُن￿ہ چوما ہے میں اس کا چھوا ہوا یہ جسم کسی اور کو سونپ کر دھوکا نہیں دے سکتی ۔لہٰذا نرگس نے شادی نہیںکی اور جب وہی مرد باون سال کی عمر میں اس سے شادی کرنے کے لیے برات لے کر آتا ہے تو تمام تر خاطرتواضع اور مہمان نوازی کے بعد اگلی صبح وہ برات کے ساتھ جانے سے انکار کر دیتی ہے ۔

    حنیف سیّد نے اس افسانے میںعورت کیSelf Recspect اور انا پسندی کو نہایت خوش سلیقگی سے پیش کیا ہے۔

                       

    حنیف سیّد کے یہاں مرد اور عورت کے درمیان رشتوں اورتعلقات کے نشیب وفراز کے حوالے سے کئی افسانے ہیں بل کہ میں تو یہ کہوںگا کہ حنیف سیّدکے افسانوں میں عورت اپنے پورے وجود کے ساتھ نمایاں ہوتی ہے۔’’ محور عورت کا ‘‘میںرانی شنکر سے طلاق محض اس بنیاد پر لینا چاہتی ہے کہ وہ چاہتی ہے کہ شنکر اپنی بیوی رانی کے سامنےDominate ہو گیا ہے جب کہ رانی صرف عورت بن کررہناچاہتی ہے ۔وہ چاہتی ہے کہ مرد ہی عورت کو Dominate کرے ، یہاں حنیف سیّد کا یہ افسانہ ایک عورت کے اندر چھپی ہوئی عورت کی نفسیات کوپورٹریٹ کرنے میں پوری طرح کامیاب رہاہے۔

    ’’اُس ہاتھ دے اِس ہاتھ لے‘‘ حنیف سیّد کا بے حد اہم عبرت ناک اور نازک افسانہ ہے جو انسانی رشتوں کے مثبت اور منفی رویّوںاور عورت کی گہری اور پیچیدہ نفسیات سے علاقہ رکھتا ہے۔
    اِس افسانے میں کوثر جہاں اپنے شوہر کی جنسی بے راہ روی اور بے وفائی کا بدلہ اپنی بیٹی نغمہ کو دانستہ طور پر غیر شرعی طریقے سے ماں بنوا کر لیتی ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ کوثر جہاں اپنے شوہر کواپنی سگی بہن پروین کے ساتھ ایک دن رنگے ہاتھوں پکڑ لیتی ہے۔اور پروین کے پیر بھاری ہوجاتے ہیں،جس کے نتیجے میںکوثر جہاں کے والد خود کشی کر لیتے ہیں۔اور یہیں سے کوثر جہاں کے سینے میں بدلے کی آگ سلگنے لگتی ہے۔اوراُس کا بدلہ وہ اِس طرح لیتی ہے۔کہ اپنی بیٹی نغمہ کومحلّے کے ایک لڑکے پرویز کے ساتھ منگنی کرکے رنگ رلیاں منانے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔اورجب نغمہ کے پیر بھاری ہوجاتے ہیںتو وہ نغمہ کی منگنی پرویزؔسے توڑکراپنے شوہرکی بہن کے لڑکے نوشیرواں سے طے کرکے کیلنڈرپرلگے نشان کے تحت انگلیوں پرحساب لگاکرشادی کی تاریخ بھی طے کردیتی ہے ،اور عین شادی کے دن ہی نغمہ ایک غیر شرعی بچّے کو جنم دیتی ہے،اور یہ خبر جب کوثر جہاں اپنے شوہرفیاض کو دیتی ہے ۔جس پر اُس کا شوہر آپے سے باہر ہو کر چیخنے لگتا ہے تو وہ اپنے شوہر فیاض کے تلملانے پربڑی ڈھٹائی سے تیور بگاڑ کرکہتی ہے،’’چیخومت۔۔۔! شرم دار ہو تو سرک جائو۔۔۔!سامنے کی ندی میں،چپ چاپ میرے اَباکی طرح،اور اِس طرح اپنے شوہر کی جنسی بے راہ رویء اور بے وفائی کا بدلہ پورا کرتی ہے کوثر جہاں۔بہ ظاہر یہ افسانہ غیر فطری کلائمکس کے ساتھ وقوع پزیر ہوتا ہے مگرکیاکریں کہ ہماری معاشرتی زندگی کاایک رخ یہ بھی ہے،اور اِس طرح کے واقعات دیکھے بھی گئے ہیں،ادب سماج کا سچ ہے،تخلیق کار تومحض آئینہ دکھانے کا کام کرتا ہے۔

    ’’پیچھی جہاز کا‘‘ حنیف سیّد کا ایک اور اہم افسانہ ہے جو انسان کی جسمانی اور جبلّی ضرورتوں کے درمیان زندگی کی عبارت لکھتا ہے اِس میں ایک ۸۰؍ سالہ بوڑھے اور ۲۲؍ سالہ لڑکی کی شادی کی خبر سے افسانے کا آغاز ہوتا ہے اور پھر افسانہ انسان کی نفسیات اوراُس کی ضروت کے گرد تیزی سے گھومنے لگتا ہے۔حنیف سیّدنے ایک بوڑھے مرد اور جوان لڑکی کی شادی کے جو جواز فراہم کیے ہیں وہ یقینی طور پر قابلِ فہم اور موجودہ معاشرے کے سچ ہیں۔ اب یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ بیوی کے انتقال کے بعد مرد تنہا رہ جاتا ہے۔بیٹے،بہوئیں وغیرہ محض رشتو ں کے نام ہی رہ گئے ہیں،ورنہ تمام آسایش اور آسانیاں میّسر ہونے کے باوجود انسان اکیلا کیوں ہوجاتا ہے۔اِس افسانے میں جمنا پرساد ایک متوسط طبقے کے خوش حال انسان ہیں، مگر بیٹوں اور بہوئوں کے گھر سے چلے جانے کے بعد وہ تنہا رہ جاتے ہیں۔ محلے اور پاس پڑوس کے لوگ اُن سے ہم دردی کرنے کے بجاے اُن کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں۔اِسی دوران رانی اور اُس کی ماں اُن کی کرایہ دار بننے کی درخواست کرتی ہیں۔ جس کو جمنا پرسادحالات کے تحت قبول کر لیتے ہیں اوراِس طرح اُن کی پریشانیاں کم ہوجاتی ہیںرانی اور اُس کی ماںجمنا پرساداور اُن کے گھر کا ہر طرح بہت خیال رکھتے ہیں۔ یہاں تک رانی کی ماں اپنی پنشن اور جمنا پرساد کی پنشن دونوں کو شامل کر کے کھر چلاتی ہے ۔اِس طرح ضرورتاً یہ ایک کنبہ بن جاتا ہے۔رانی جوان ہے،اور ایک نوجوان پردیپ سے محبت بھی کرتی ہے،مگر پردیپ اپنی ذمّے داریوں کے پیشِ نظر اُسے اپنانے کو تیار نہیں ہوتا۔ایک دن اچانک رانی کی ماں موت کی آغوش میں چلی جاتی ہے تورانی ضرورتاً جمنا پرساد کی پنشن پر قانونی حق حاصل کرنے کے لیے خودجمنا پرساد سے جنسی رشتہ بنا کرشادی کا راستہ ہم وار کرلیتی ہے۔ یہ شادی ایک خبر کی طرح سارے شہر میں گشت کرتی ہے۔ مگر اِس کے پیچھے چھپے جمنا پرساد اوررانی کے درد اورضرورتوں کا احساس کسی کو نہیں ہوتا۔

    ’’میٹھا نیم،کڑوانیم۔ کڑوانیم،میٹھا نیم۔‘‘ بھی حنیف سیّد کا ایک یاد گار افسانہ ہے۔جس میں انھوں نے کڑوانیم،میٹھا نیم کو علامت بنا کر انسانی معاشرے کی تلخ وشیریں سچائیاں بیان کی ہیں۔ ہمارے گرد وپیش رونما ہونے والے حادثات اور واقعات کو فکشن میں تبدیل کرنا یقیناًایک مشکل کام ہے، مگر حنیف سیّد اِس اعتبارسے قابلِ مبارک باد ہیں کہ اُن کے یہاں یہ تخلیقی ہنرمندی بدرجۂ اُتم موجود ہے ۔اِس افسانے میں ایک امیر اور خوش حال والدین کی بیٹی کو اپنے ڈرائیورسے عشق ہوجاتا ہے،اور وہ اپنے گھر سے ساری دولت لے کر اُس کے ساتھ زندگی کے روز شب بسر کرنے کے لیے گھر سے نکل جاتی ہے۔ اوروہ ڈرائیور ایک ٹرک چلا کر زندگی کی گاڑی چلانے میں مشغول ہوجاتا ہے، مگر افسانے میں ایک نیا موڑاُس وقت آتا ہے جب ایک حادثے میں اُس کے شوہر کی موت واقع ہوجاتی ہے۔اور اُس کے دو ماہ بعد اُ کے یہاں ایک بیٹی کی ولادت ہوتی ہے۔اور پھر ٹرک کے مالک چاچو سے اُس کا عشق ضرورتاً پروان چڑھنے لگتا ہے اور چاچو کے ساتھ اُس نوزائیدہ بچی کی ماں کے جسمانی تعلقات قائم ہو جاتے ہیں۔پہلے تو چاچو نے اُس کی بچی ہوئی دولت سے ماں بیٹی کے لیے ایک میٹھے نیم اور اندھے کنویں والا مکان خریددیا،اور چاچواُس مکان میںوقتاً فوقتاً اپنی جنسی ضرورت کے لیے آنے لگے۔شرابی چاچو اور ماں کے درمیان پلنے والے ناجائز رشتے کا بچی کے ذہن پر کیا اثر ہوتا ہے اِ س کاخوب صورت اظہار حنیف سیّد نے اِس افسانے میں میٹھا نیم اور اندھے کنویں کی علامت کے ذریعے نہایت خوب صورتی سے پیش کیا ہے۔میٹھا نیم کاکڑوانیم میں تبدیل ہو نا،چاچو کا شراب کی بوتل میں بدل جانا،اندھے کنویں کے اندھیرے میں سانپ،بچھو ، چڑیل خبیثوں اور اژدہوںکی موجودگی کے احساس کو حنیف سیّد نے بچی کے ذہن کی نفسیات اور اُس کے تغیرات کو نہایت خوب صورتی سے پیش کیا ہے۔ پھر چاچو کی موت کے بعدماں بیٹی کی بڑھنے والی مشکلات کے درمیان ماں کا دیپو کے ساتھ دانستہ طور پراپنی بیٹی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کا موقع دینا۔ یہ سب کچھ ہمارے معاشرے کی وہ سچائیاں ہیں جنھیں فکشن نگار بھی دور سے چھوکرگزر جاتے ہیں۔

     حنیف سیّد کے بعض افسانوں میں ہماری سماج کے اُس چہرے سے ملاقات ہوتی ہے جو نہایت کریہہ ،خوفناک اور قابلِ مذمّت ہے۔

    میں حنیف سیّد کے ان افسانوں میں پلاٹ اور واقعات کی سطح پر نیا پن دیکھتا ہوں،جو یقینی طور پر حنیف سیّد کو اپنے معاصر افسانہ نگاروں کے درمیان ممتاز حیثیت عطا کرتا ہے۔

     میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے فکشن کے ناقدین حنیف سیّد کے افسانوںکو سنجیدگی اور توجہ سے پڑھ کر ایوانِ ادب میں اِن کے مقام و مرتبے کا تعیّن کریں گے۔    

 

***************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 810