donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On National Issue
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Aik Haseen Jhwab Ki Bhayanak Tabeer

ایک حسین خواب کی بھیانک تعبیر


حفیظ نعمانی

 

ملک میں ایسے بہت سے کام ہیں جنہیں کوئی ایسی ہی حکومت کرسکتی ہے جیسی قسمت سے مودی صاحب کو مل گئی ہے۔ کانگریس کے علاوہ دوسری نیشنل پارٹی بی جے پی کو 1998 ء میںبھی حکومت بنانے کا موقع ملا تھا۔ اٹل بہاری باجپئی جیسے اپنی پارٹی کے سب سے بڑے لیڈر اس کے وزیر اعظم تھے۔ ملک میں پنجاب، ہریانہ مغربی اُترپردیش کے مقابلہ میں مشرقی اُترپردیش اور بہار کے درمیان پانی کے زبردست فرق اور دوسرے صوبوں کے درمیان ایسے ہی فرق کے علاج کے لئے انہوں نے تمام ندیوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

ملک میں خشک سالی کے شکار صوبے اور علاقے۔ اور خوش حالی سے مالامال کے درمیان اس فرق کو اس لئے مٹانا ضروری تھا اور ہے کہ ہر صوبہ اور علاقہ حکومت کی سگی اولاد ہے کوئی ان میں سوتیلا نہیں ہے۔ لیکن وہ صرف اس لئے اپنے خواب کو شرمندئہ تعبیر نہ کرسکے کہ کرناٹک اور تمل ناڈو اور اکثر صوبے دوسروں کے دشمن جیسے تھے۔ اٹل جی کی حکومت میں بی جے پی کے اگر 250  ممبر بھی ہوتے تو وہ اتنا تو ضرور کرجاتے کہ آج مودی صاحب اگر چاہتے تو ان کا چھوڑا ہوا کام پورا کردیتے اور ہر ندی ایک دوسرے سے مل کر بہہ رہی ہوتی۔

اب مودی صاحب نے ایک بہت اہم مسئلہ کو اُٹھایا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں پہلے چار جنرل الیکشن کی طرح جس میں لوک سبھا اور ملک کی تمام اسمبلیوں کے الیکشن ایک ساتھ ہوتے تھے اس طرح پھر کردیا جائے 1967 ء میں اندراجی نے کانگریس سے الگ ہوکر اپنی کانگریس کے بل پر الیکشن لڑا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر صوبہ میں حکومت تو کانگریس کی ہی بنی مگر کچھ کانگریس کی تھیں اور کچھ اندرا کانگریس کی۔ بہت معمولی فرق سے بننے والی حکومتیں ذرا ذرا سے اختلاف کی وجہ سے گرگئیں اور پھر باغی ممبروں نے ملک کے 9  صوبوں میں سنیکت ودھائک دل بناکر کھچڑی سرکاریں بنالیں جو ایک ایک کرکے گرتی چلی گئیں اور ہر جگہ پھر الیکشن ہوئے اور انہیں پانچ سال تک اپنا کام کرنے دینے کی وجہ سے الیکشن کا نظام تارتار ہوگیا۔
مسز اندرا گاندھی چاہتیں تو یہ کرسکتی تھیں کہ 1972 ء میں جب الیکشن کا وقت آیا تو ہر اس صوبہ کی حکومت ختم کراکے جن کی مدت دو تین یا چار سال باقی تھی جنرل الیکشن کرادیتیں تو آج یہ حالت نہ ہوتی کہ الیکشن کمیشن ہر سال ایک یا دو صوبوں کے الیکشن کی ذمہ داری لیتا اور مرکزی حکومت کوئی بھی بڑا انقلابی فیصلہ کرنے سے اس لئے ڈرتی کہ فلاں صوبہ خلاف ہے اور وہاں چنائو ہونے والے ہیں۔ اور یہی حال صوبائی حکومتوں کا ہوگیا تھا کہ کوئی کڑوی مگر انتہائی مفید گولی اپنے بیٹوں کو اس لئے نہیں دینے کی ہمت کرتی تھیں کہ عوام مخالف ہیں اور الیکشن سر پر ہیں۔ ملک کی علاقائی پارٹیوں نے بھی یہ فیشن بنا لیا ہے کہ انہیں مرکز کی ہر تجویز میں چاہے وہ کتنی ہی مفید ہو کیڑے نکالنا ضروری ہیں اور مرکزی حکومت اس لئے ہاتھ روک لیتی ہے کہ اب ہریانہ اور مہاراشٹر کا الیکشن ہے۔ اگلے سال دہلی کا ہے۔ ایک سال کے بعد بہار کا ہے۔ پھر اگلے سال بنگال کا ہے اور اس کے بعد اُترپردیش میں طاقت آزمائی ہوگی اور ان سے فارغ ہوں گے تو کرناٹک یا تمل ناڈو یا کہیں اور پھر 2019 ء میں پھر لوک سبھا۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپنے ملک میں ہر وقت الیکشن کی فضا بنی رہتی ہے اور حکومت ہر کام صرف یہ سوچ کر کرتی ہے کہ جو اُس کے ووٹ ہیں وہ اس کے باقی رہیں اور وہ کام کرو جس سے ان میں اضافہ ہوجائے۔ مسز اندرا گاندھی نے کبھی یہ کوشش نہیں کی کہ وہ اپنے بگاڑے ہوئے انجن کو پٹری پر واپس لائیں۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ وہ انتہائی خودپسند تھیں اور صرف یہ چاہتی تھیں کہ مرکزی حکومت پر قبضہ رہے۔ رہی صوبائی حکومت تو اس کی حیثیت اُن کے نزدیک ایسی تھی جیسی صوبہ کے وزیر اعلیٰ کے نزدیک شہر کے میونسپل بورڈ یا کارپوریشن یا دوسرے رنگ برنگے اداروں کی ہوتی ہے۔ وہ جانتی تھیں کہ چارٹیڈ پلین سے دوسرے ملکوں کے سربراہوں کے دوش بدوش کھڑا ہونا، ان سے سودے کرنا، کمزور ہوں تو ان کی جھولی میں ڈالر ڈالنا اور مضبوط ہوں تو ان کے سامنے جھولی پھیلانا یہ ساری عیاشیاں صرف مرکزی حکومت میں ہی ہوسکتی ہیں اور اگر صوبائی وزیر اعلیٰ غلام بننے سے انکار کریں تو ان کا حقہ پانی دونوں بند کیا جاسکتا ہے ورنہ کسی کا حق اور کسی کا پانی بند کرکے بھی اپنی بات منوانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔

مودی صاحب نے بہت اہم مسئلہ اُٹھایا ہے لیکن نہ ملک کی علاقائی پارٹیاں اس کی حمایت کریں گی اور نہ وہ تمام طبقے جو ملک کو اکھنڈ بھارت کے بجائے سیکولر ہندوستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ کام انتہائی مفید ہونے کے باوجود صرف سنگھ پریوار کے لوگ ان کا ساتھ دیں گے اس لئے کہ انہوں نے اپنی ایک سال کی حکومت میں یہ ثابت کردیا کہ وہ عالی ظرف نہیں ہیں۔ انتہائی تنگ ظرف ہیں۔ انہیں چاہئے تھا کہ وہ کم از کم دو سال ایسے گذارتے کہ ملک کے سواسو کروڑ ہندوستانی یہ کہتے کہ ایسا حکمراں مل گیا جیسے حکمراں کی ضرورت تھی۔ جیسے چین کے حکمراں ہیں۔ وہ بودھ مذہب کے ماننے والے ہیں اور ان کے ملک میں گوتم بدھ کے مٹھ مندر بھی ہیں لیکن وہاں عیسائی بھی ہیں ہندو بھی ہیں اور مسلمان بھی اور سب کی عبادت گاہیں بھی۔ وزیر اعظم مودی وہاں روایتی پوجا بھی کرچکے ہیں۔ لیکن مودی نے وہاں ہندوستان کے باشندوں سے یہ کہنا بھی ضروری سمجھا کہ چین میں تم لوگ اپنے ملک کی برائی نہ کرنا۔ صرف اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ ملک میں صفائی کا شور تو بہت ہوگا جھاڑو فیشن میںداخل بھی ہوجائے گی لیکن وہ جتنا منموہن صاحب کے زمانہ میں گندہ تھا اس سے کچھ زیادہ ہی گندہ ہوجائے گا۔

مودی صاحب کی یہ تجویز اور اس کے لئے کمیٹی بنانا۔ ملک کا سروے کراکر صوبوں سے ان کی رائے معلوم کرنا اور اسے ملک کے لئے مالی اعتبار سے انتہائی مضر قرار دینا 100  فیصدی صحیح ہے لیکن ان کی نیت صاف نہیں ہے۔ وہ پورے ملک کا بھگوا کرن کرنا چاہتے ہیں۔ جس کا انتہائی بھونڈا مظاہرہ وہ دہلی میںکررہے ہیں کہ عام آدمی پارٹی کے ایک ایم ایل اے نے اپنی بیوی کو پیٹ دیا یا اُسے سخت سست کہا تو اس کے لئے دہلی صوبائی بی جے پی کے صدر شری اپادھیائے بھی اس احتجاج کی قیادت کررہے ہیں جو بھگوا مہیلا سنگٹھن کی سکریٹری کریم پائوڈر سے مسلح ہوکر کجریوال کے گھر پر مظاہرہ کررہی ہیں۔ یہ اس ملک کی دیویاں ہیں جہاں ہر دن کم از کم 100  کماریوں کو تین سو مہابیر استری بنا دیتے ہیں اور وہ تھانے میں رپورٹ لکھانے جائیں تو اگر ان کا جوبن اودھی یا رُخ یمنی یا تنی دکنی نہ ہوںٰ تو دھتکار دیا جاتا ہے اور اگر ایسی ہوں جنہیں دیکھ کر نیت خراب ہوجائے تو اُن کے مقدمہ کو حوالات میں لٹاکر اور مضبوط بنا دیا جاتا ہے۔

گھرواپسی، دھرم پریورتن، لوجہاد، چار بیوی چالیس بچے، رام زادے اور حرام زادے، گائے کھانا ہو تو عرب یا پاکستان جائو، جو مودی کا مخالف ہو وہ پاکستان جائے، مسلمان کیء دو استھان قبرستان یا پاکستان کے نعرے انہوں نے دونوں کانوں سے سنے اور انہیں کان پکڑکر وزارت سے اور گردن پکڑکر پارٹی سے نکالنے کے بجائے باری باری انہیں گود میں اُٹھاکر لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے ممبروں کے پاس لے گئے کہ انہیں معاف کردیجئے۔ یہ نہیں جانتے کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے؟ اور یہ ملک کے وزیر بھی ہیں۔ شری مودی کو حکومت صرف اس لئے ملی کہ کانگریس نے بدترین حکومت کی بدعنوانی، مہنگائی، جھوٹے وعدے اور ملک کی دولت کی لوٹ اور اقرباء پروری اس طرح کی کہ آج قوم نے انہیں وہاں پہونچا دیا جہاں سے نکلنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اب مودی صاحب یا ہر وزیر کا ہر بات کے جواب میں یہ کہنا کہ کانگریس نے توہم سے بھی برا کیا تھا۔ یا ان کا دوسرے ملکوں میں جاکر کہنا کہ بھیک مانگنے کے دن گئے اور جو گندگی کرتے تھے وہ چلے گئے۔ یا اپنے 18  جوانوں کو مارنے والوں کو فوج کے ذریعہ مراد دینے پر ایسے ڈھول بجانا اور بے وجہ ایسے اشارے کرنا جنہیں دیکھ کر اندھا بھی سمجھ لے کہ یہ پاکستان کی طرف ہے اور اس کے جواب میں پاکستان سے یہ کہلوانا کہ ہم نے ایٹم بم شب برأت کے پٹاخوں کی طرح پھلجھڑی چھوڑنے کے لئے نہیں بنائے ہیں۔ یا ہتھیار کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اصل چیز اُن کے استعمال کرنے کی صلاحیت اور حوصلہ ہوتا ہے۔ یہ صرف بچکانہ فطرت کے مظاہرے کا نتیجہ ہے۔

مودی صاحب نے ایک سال میں جو اپنے روپ دکھائے وہ سب بے صبری کے مظاہرے ہیں جبکہ ان کے پاس پانچ برس تھے وہ غیرمحسوس طریقہ سے اثر کرنے والا زہر دیتے تو اپنے کئی خواب پورے کرسکتے تھے۔ وہ تو ایک برس میں ہی اپنے سے بہت چھوٹوں کا نشانہ بن گئے اور انہوں نے جو بھارت کو کانگریس مکت بنایا تھا اور وہ واقعی مرض الموت میں مبتلا ہوگئی تھی۔ مودی صاحب کی صرف ایک سال کی عجلت پسندی نے اسے زندگی کی طرف لوٹا دیا یہ وہ غلطی ہے جس کے لئے ملک انہیں معاف نہیں کرے گا۔

(یو این این)

*****************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 926