donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar Me Muslim Votron Ki Seyasi Baseerat Ka Imtehan


بہار  میںمسلم ووٹروں کی سیاسی بصیرت کا امتحان


    ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج،دربھنگہ

موبائل:0943141458

 ای میل: rm.meezan@gmail.com


    بہار اسمبلی انتخاب کے دو مرحلوں کی پولنگ مکمل ہو چکی ہے۔ غرض کہ اب تک 16اضلاع کے کل 81اسمبلی حلقوںکے رائے دہندگان نے اپنے جمہوری حقوق کا استعمال کر لیا ہے اور  اب ریاست کے سیاسی افق کا مطلع بھی قدرے صاف ہو چکا ہے۔ یہاں کے رائے دہندگانوں نے قومی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ ایک خاص سیاسی جماعت کے زعفرانی رنگ کو جس طرح شوخ کرنے کی کوشش کی جارہی تھی، اسے انہوںنے ناکام کردیا ہے ۔عوام نے مکمل طور پر اپنی پسند کے امیدواروں کے تئیں اعتماد دکھایا ہے۔ سنگھ پریوار گذشتہ چھہ ماہ سے ریاست میں طرح طرح کی افواہوں کے ذریعہ حساس موضوعات کو ہوا دے رہے تھے اور یہ اندیشہ تھا کہ پولنگ کے آغاز سے قبل ہی ریاست کی فضا مکدر بن سکتی ہے،لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔ظاہر ہے کہ عوام گذشتہ ڈیڑھ سال کی مودی حکومت کا طلسم دیکھ چکی ہے اور بہار سمیت ملک کے عوام خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔سیکولر ذہن کے اکثریت طبقے کے لوگ بھی یہ سمجھ چکے ہیں کہ بھاجپا سنگھ پریوار کے ہاتھوں کا کھلونا ہو چکی ہے۔ نتیجتاً پورے ملک میں سنگھ اپنے نظرئے کو تھوپنا چاہتی ہے۔ اتر پردیش کے دادری میں محمد اخلاق کے بہیمانہ قتل اور ممبئی میں سدھیندر کلکرنی کے چہرے پر سیاہی پوتنے کے واقعات نے واضح کر دیا ہے کہ ملک میں کس طرح کی فضابن رہی ہے۔ ایک طرف سنگھ پریوار کے کارکن اقلیت طبقے کے خلاف زہر فشانی کر رہے ہیں اور اس میں بھاجپا کے کئی ممبران اسمبلی اور ممبر پارلیامنٹ بلکہ مودی کابینہ کے وزراء بھی آگ میں گھی ڈالنے کا کام کر رہے ہیں۔ ادھر شیو سینا نے اعلانیہ طور پر جمہوری اقدار اور اظہار آزادی پر حملہ شروع کر دیا ہے۔ بھاجپا جومرکز میں حکمراں جماعت ہے ، وہ تماشائی ہے ہمارے وزیر اعظم جو اپنے بڑبولے پن کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں وہ بھی دادری سانحہ پر دس دنوں کے بعد خاموش توڑتے ہیں ۔آخر کیوں؟  در اصل مرکزی حکومت مکمل طور پر آر ایس ایس کنٹرول میں ہے اور وہ اس کے اشارے پر ہی کچھ کر سکتی ہے۔ اس وقت بہار میں اسمبلی انتخاب ہو رہا ہے اور اس انتخاب کو سنگھ پریوار نے جس طرح غیر معمولی اہمیت کا حامل بنا دیا ہے، اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس انتخاب کی سیاسی اہمیت کیا ہے۔واضح ہو کہ اس وقت راجیہ سبھا میں بھاجپا کو اکثریت حاصل نہیں ہے۔ اگر وہ بہار اور آئندہ سال مغربی بنگال کے ساتھ اترپردیش پر قابض ہو جاتی ہے تو راجیہ سبھا میں وہ اس قابل ہو جائے گی کہ کسی بھی بِل کو قانونی صورت دے سکے۔ پھر آئندہ صدر جمہوریہ کے انتخاب میں بھی اپنی پسند کا صدر منتخب کر سکے۔ ظاہر ہے کہ اب آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی اولین کوشش ہے کہ راشٹرپتی بھون میں سنگھ کے لوگوں کو جگہ ملے۔ جس طرح حالیہ دنوں میں بیشتر ریاستوں کے راج بھون میں بحیثیت گورنر سنگھ کے لوگوں کو براجمان کیا گیا ہے۔ اس لئے بہار اسمبلی کا انتخاب کا نتیجہ صرف ریاست کی سیاسی تصویر نہیں بدلے گی بلکہ ملک کی سیاسی تقدیر کا بھی ضامن ہوگا۔ اس لئے بہار میں سیکولر ذہن کے لوگوں نے جس طرح سنجیدگی سے سنگھ پریوار کی شطرنجی چالوں کو ناکام کرنے کی کوشش کی ہے، اسی طرح مسلمانوں کو بھی اپنی سیاسی بصیرت وبصارت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ کیونکہ اب بقیہ تین مرحلوں کی پولنگ یعنی کل 158حلقوں میں مسلمانوں کا ووٹ ہی فیصلہ کن ہوگا۔ بالخصوص شمالی بہار کے سیمانچل میں 15ایسی سیٹیں ہیں جہاں مسلمان ہی پاسا پلٹ سکتے ہیں۔ کیونکہ یہاں45سے75فیصد مسلم ووٹر ہیں۔ مثلاً کشن گنج ، ٹھاکر گنج، بہادر گنج، بلرام پور، کوچادھامن، امور، بائسی ، جوکی ہاٹ ،پران پور ، کدوا  اور  ارریہ  وغیرہ ایسے حلقے ہیں جہاں کا فیصلہ ان کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ اسی طرح شمالی بہار میں بھی 25ایسے اسمبلی حلقے ہیں جہاں مسلم ووٹروں کی تعداد تقریباً  40فیصد ہے اور 15ایسے اسمبلی حلقے ہیں ، جہاں مسلم ووٹروں کا فیصد 15سے 25ہے۔ جبکہ 21اسمبلی حلقوں میں مسلم ووٹوں کا فیصد 20ہے۔بقیہ تقریباً 40اسمبلی حلقوں میں بھی ان کا فیصد د10سے 18ہے۔ غرض کہ اگر تینوں مرحلوں کی پولنگ میں مسلم ووٹر اپنی سیاسی بصیرت و بصارت کا ثبوت پیش کریں تو نہ صرف مسلم امیدواروں کو کامیاب بنا سکتے ہیں بلکہ سیکولر اتحاد کو بھی استحکام بخش سکتے ہیں۔ گذشتہ اسمبلی میں صرف 19مسلم ممبران اسمبلی تھے ۔ اگر اس بار شعوری طور پر مسلم ووٹرفیصلہ کریں تو تعداد بڑھ سکتی ہے۔ کیونکہ اسمبلی میں دنوں دن مسلمانوں کی تعداد میں کمی ایک لمحہ ء فکریہ ہے۔ اس لئے جہاں کہیں بھی مسلم امیدوار کو کامیاب بنانے کی حکمت عملی بنائی جارہی ہے، اس پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے اور اپنے اتحاد کو مضبوط بنائے رکھنے کی ضرورت ہے۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ تمام تر نظریاتی اختلافات اور ازم کو بالائے طاق رکھ کر جمہوری مطالبوں کے مدنظر فیصلہ لیں اور اپنی سیاسی فہم و فراست کا مظاہرہ کریں۔ کیونکہ ملک میں جس طرح کی مسموم فضا تیار ہو رہی ہے ، اس کے مدد نظر بہار اسمبلی انتخاب میں فرقہ پرست ذہنیت کے لوگوں کو شکست فاش دینا نہ صرف ریاست بہار کے مفاد میں ہے بلکہ ملک کی سا  لمیت کے لئے بھی لازمی ہے۔


    واضح ہو کہ ملک کی سیاسی تصویر کا نقشہ اوپر کھینچا جا چکا ہے کہ کس طرح زعفرانی ذہنیت کے لوگ اقلیت طبقے کے خلاف سازش کر رہے ہیں اور مبینہ طور پر خود کو سیکولر کہلانے والی چند سیاسی جماعت بھی کس طرح شطرنجی چال چل رہی ہے۔ ایک طرف اقلیت طبقے کے تئیں گھڑیالی آنسو بہارہی ہے تو دوسری طرف فرقہ پرست طاقتوں کو مستحکم کر رہی ہے۔ بہار کے اسمبلی انتخاب میں بھی کچھ اسی طرح کا نظارہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جس سیاسی جماعت کی کوئی زمین نہیں ہے اس نے بھی بہتیرے سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کر دئے ہیںاور ان کا واحد مقصد سیکولر اتحاد کے ووٹوں کو منتشر کرنا ہے۔ بہار میں تیسرے مورچے کا بھی شیرازہ بکھر  چکا ہے کہ سماج وادی پارٹی سے طارق انور نے این سی پی کا رشتہ توڑ لیا ہے۔ انہوں نے ریاست میں 45حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح جنادھیکار پارٹی نے بھی اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ان دنوں ان اسمبلی حلقوں پر زیادہ یلغار ہے جہاں مسلم اکثریت ہے۔ اشارہ کافی ہے کہ مسلم ووٹوں کو منتشر کرنے کی کیسی کیسی سازشیں ہو رہی ہیں۔ ایسے نازک وقت میں مسلمانوں کی سیاسی بصیرت کا کڑا امتحان ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ اب بقیہ تین مرحلوں کی پولنگ میں مسلم ووٹروں کا رجحان کیا رہتا ہے؟ ویسے اب تک کے دو نوں مرحلوں کی پولنگ میں مسلمانوں نے جس سیاسی فہم وادراک کا مظاہرہ کیا ہے ، وہ قابل ستائش ہے کہ ان کے ووٹوں میں انتشار کم دیکھنے کو ملا ہے۔


٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 784