donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar Mein Aala Taleem Ka Mahaul Sazgar Ho Sakega


 

بہارمیں اعلیٰ تعلیم کا ماحول سازگار ہوسکے گا؟


ڈاکٹر مشتاق احمد، پرنسپل ملت کالج، دربھنگہ

(Mob:09431414586)


    بہار کی نتیش کمار حکومت نے آخر کار چالیس

برسوں کے بعد یونیورسٹیوں میں وائس چانسلروں اور پرووائس چانسلروں کی تقرری کے لئے سرچ کمیٹی تشکیل دینے کی کوشش شروع کردی ہے اور اس کے لئے ریاست کے گورنر جناب ڈی وائی پاٹل نے بھی ہری جھنڈی دے دی ہے۔ اب امید ہے کہ ایک ماہ کے اندر سرچ کمیٹی کی تشکیل مکمل ہو جائے گی اور ریاست کی یونیورسٹیوں میں ماہرینِ تعلیم دانشوروں کو وائس چانسلر کے عہدۂ جلیلہ پر تقرر کیا جائے گا۔ حال ہی میں گورنر موصوف کے ذریعہ ایل این متھلا یونیورسٹی ، دربھنگہ کے وائس چانسلر پروفیسر ایس ایم جھا کی کنوینر شپ میں سرچ کمیٹی کے لئے ڈرافٹ کمیٹی بنائی گئی ہے۔ اس میں بہار یونیورسٹی مظفرپور اور پٹنہ یونیورسٹی ، پٹنہ کے وائس چانسلر کو رکن بنایا گیا ہے۔ اس کمیٹی نے سرچ کمیٹی کے لئے خاکہ تیار کرکے گورنر موصوف کے سپرد کردیا ہے۔ واضح ہو کہ ریاست بہار میں اب تک حکومت اور راج بھون کے درمیان مفاہمت کی بنیاد پر وائس چانسلروں کی تقرری ہوتی رہی ہے لیکن گزشتہ ایک دہائی سے اکثر یہ بحالیاں متنازعہ رہی ہیں لہذا موجودہ گورنر ڈی وائی پاٹل نے دیگر ریاستوں اورمرکزی یونیورسٹیوں میں طریقۂ وائس چانسلر کی بحالی کے طرز پر یہاں بھی سرچ کمیٹی بنانے کی وکالت کی ہے جسے حکومت نے تسلیم کر لیا ہے ۔ اب ممکن ہے کہ سرچ کمیٹی کے ذریعہ اچھے اکیڈمک والے ماہرِ تعلیم وائس چانسلر بنیں گے اور ریاست میں اعلیٰ تعلیم کا ماحول سازگار ہوگا۔ گزشتہ 21/22 ستمبر کوگورنر موصوف کی ایماء پر بہار کے تمام وائس چانسلر و دیگر آفیسران کے لئے ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں قومی سطح کے کئی نامور ماہرِ تعلیم نے شرکت کی تھی ۔ وزیر اعلیٰ جناب نتیش کمارنے بھی اپنی تقریر میں یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ بہار کی یونیورسٹیوں کی خود مختاریت پر کوئی نکیل کسنا نہیں چاہتے بلکہ معیاری تعلیم کے لئے جو ضابطے ہیں اس پر پورا اترنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ریاست میں اعلیٰ تعلیم کے تعلق سے جو افراتفری اور بے راہ روی ہے وہ درست ہو سکے۔

    واضح ہو کہ بہار کی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلروںکی تقرری کے مسئلے پر گزشتہ چار برسوںسے حکومت اور راج بھون کے درمیان گھمسان چل رہا تھا جس کا خاتمہ آخرکار عدالتِ عظمیٰ کے مورخہ 19 اگست 2013ء کے فیصلے کے ساتھ ہوگیا ہے اور اب یہ امید بندھی ہے کہ ریاست میں اعلیٰ تعلیم کے لئے ماحول سازگار ہوگا کیونکہ حکومت اور گورنر جو یونیورسٹیوں کے چانسلر بھی ہوتے ہیں ان کے درمیان اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے تمام یونیورسیٹیوں میں غیر یقینی ماحول بنا ہوا تھا جس سے تعلیمی معیار بھی متاثر ہو رہا تھا۔ واضح ہو کہ بہار کے سابق گورنر وچانسلر جناب دیوانند کنور نے اپنی چار سالہ مدتِ کار میں جتنے بھی وائس چانسلر اور پرووائس چانسلر کی تقرری کی اس میں حکومت بہار سے کوئی مشورہ نہیں کیا اور نہ محکمہ اعلیٰ تعلیم کے ذریعہ وائس چانسلروں کی نامزدگی کی فہرست کا خیال رکھا۔لہذا محکمہ اعلیٰ تعلیم کے وزیر پی کے شاہی اور گورنر دیوانند کنور کے درمیان سیدھی جنگ شروع ہوئی اور معاملہ عدالت تک پہنچا۔ واضح ہو کہ بہار یونیورسٹی ایکٹ 1976 اور پٹنہ یونیورسٹی ایکٹ 1976  و ترمیم یونیورسٹی ایکٹ بہار کے مطابق ریاست کے گورنر یونیورسٹی کے چانسلر ہوتے ہیں اور وائس چانسلر و پرووائس چانسلر کی تقرری کا اختیار گورنر یعنی چانسلر موصوف کو ہے لیکن ایکٹ میں یہ شرط ہے کہ ریاست کی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلروں اور پرووائس چانسلروں کی تقرری ریاستی حکومت کے صلاح ومشورہ سے ہی ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے ایکٹ کے مطابق چانسلر کو آزادانہ اختیار نہیں ہے لیکن سابق گورنر دیوانند کنور نے اپنی مدت کار میں جتنے بھی وائس چانسلر اور پرووائس چانسلر کی تقرری کی اس میں حکومت سے نہ تو صلاح ومشورہ کیا اور نہ محکمہ اعلیٰ تعلیم کے ذریعہ ناموں کی فہرست کو اہمیت دی۔ لہذا ایک طرف حکومت اور راج بھون کے درمیان رسہ کشی شروع ہوگئی تو دوسری طرف آئینی خلاف ورزی کے تحت گورنر موصوف کے خلاف عزت مآب پٹنہ ہائی کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا گیا۔ پروفیسر رام توکّیا سنگھ کی عرضداشت پر پٹنہ ہائی کورٹ نے اپنا تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے گورنرموصوف کے ذریعہ یکم اگست 2011ء میں چھ وائس چانسلر اور چارپرو وائس چانسلروں کی تقرری کو ہائی کورٹ نے 7 دسمبر 2012ء کو رد کردیا۔ لیکن گورنر موصوف نے 9 فروری 2013ء کو پھر آٹھ وائس چانسلروں کی تقرری کردی اور اس میں چھ ویسے وائس چانسلروں کے بھی نام شامل تھے جنہیں ہائی کورٹ نے وائس چانسلر کے عہدے کے لائق قرار نہیں دیتے ہوئے ان کی تقرری رد کی تھی۔ گورنرکے اس قدم کے خلاف حکومت بہار اور رام توکّیا سنگھ نے عدالتِ عظمیٰ میں رٹ دائر کی اور عدالتِ عظمیٰ نے 18 مارچ 2013ء کی سماعت میں ان تمام تقرریوں پر روک لگادی۔ وائس چانسلروں کی تقرری کے معاملے کو لے کر ریاستی حکومت اور راج بھون کے درمیان  گھمسان کو دیکھتے ہوئے مرکزی حکومت نے دیوانند کنور کا تبادلہ تریپورہ کردیا اور بہار میں جناب ڈی وائی پاٹل کو گورنر بنایا گیا۔ جناب پاٹل نے 22 مارچ 2013ء کو عہدہ سنبھالتے ہی اپنی پہلی تقریر میں یہ اشارہ دیا کہ جلد ہی وائس چانسلروں کی تقرری کا معاملہ حل ہو جائے گا۔ادھر وزیر اعلیٰ جناب نتیش کمار نے بھی نئے گورنر جناب پاٹل سے مل کر اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنے کی اپیل کی لہٰذا عوام الناس میں یہ پیغام گیا کہ اب راج بھون اور حکومت کے درمیان کی رسہ کشی ختم ہوگئی ہے۔ چونکہ معاملہ عدالتِ عظمیٰ میں زیرِ سماعت تھا اور فیصلے کے انتظار میں دن گزرتا چلا گیا۔ واضح ہو کہ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق جناب کنور کے ذریعہ بحال کئے گئے تمام وائس چانسلروں اور پرووائس چانسلرو ں کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا اور تمام یونیورسٹیوں میں سینئر فیکلٹی ڈین کو نگراں وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔ اب جب کہ عدالتِ عظمیٰ کا حتمی فیصلہ آگیا ہے تو یہ امید بندھی ہے کہ جلد ہی ریاست کی تمام یونیورسٹیوں میں کل وقتی وائس چانسلروں اور پرووائس چانسلروں کی تقرری ہو جائے گی۔ ساتھ ہی ساتھ عدالت کے فیصلے کی روشنی میں اکیڈمک فلڈ کے ماہرین کو یہ عہدہ مل پائے گا کیوں کہ جسٹس جی ایس سنگھوی کی بنچ نے اپنے فیصلے میں یہ ہدایت دی ہے کہ حکومت وائس چانسلروں کی تقرری کے لئے سرچ کمیٹی تشکیل دے اور یونیورسٹی ایکٹ کے مطابق حکومت اور راج بھون اتفاق رائے سے اکیڈمک وائس چانسلروں کی تقرری کرے۔ عدالت نے حکومت کو ان کاموں کو پورا کرنے کے لئے چار مہینے کی مہلت دی تھی۔ سند رہے کہ سرچ کمیٹی میں تعلیمی شعبے کے دو ماہرین قومی سطح کے گورنر موصوف کے ذریعہ نامزد کئے جائیں گے جبکہ ایک نمائندہ حکومت بہار کا ہوگا۔ ساتھ ہی ساتھ محکمہ اعلیٰ تعلیم کے پرنسپل سکریٹری بھی اس کے ممبر ہوں گے۔ ایک ممبر یو جی سی کے ذریعہ نامزد کئے جائیں گے۔ سرچ کمیٹی ضابطے کے مطابق شعبۂ تعلیم میں نمایاں کارنامہ انجام دینے والے ماہرین کی سفارش پر ہی حکومت اور راج بھون کسی بھی ماہرِ تعلیم کو وائس چانسلر یا پرووائس چانسلر نامزد کر سکتی ہے۔ حکومتِ بہار نے محکمہ اعلیٰ تعلیم کے خصوصی سکریٹری سنجوین سنہا کو سرچ کمیٹی میں نامزد کیا ہے ۔ 
    بہر کیف! اب چونکہ حکومت اور راج بھون کے درمیان تعلقات خوشگوار ہوگئے ہیں اس لئے یہ یقین ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کی روشنی میں ریاستی یونیورسٹیوں میں جلد ہی اکیڈمک وائس چانسلروں اور پرووائس چانسلروں کی تقرری ہو جائے گی اور برسوں سے جو تعطل کا ماحول تھا وہ ختم ہو جائے گاکیونکہ اس وقت تمام یونیورسٹیوں میں نگراں وائس چانسلر کام کر رہے ہیں اور انہیں کل وقتی وائس چانسلر کے جیسا اختیار حاصل نہیں ہے جس کی وجہ سے یونیورسٹیوں میں غیر یقینی صورتحال بنی ہوئی ہے جس کے قدرے مضر اثرات تعلیمی ماحول پر بھی پڑ رہے ہیں۔ اس لئے ریاست میں عدالتِ عظمیٰ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے کیونکہ حکومت اور راج بھون کے درمیان چل رہی رسہ کشی کی وجہ سے قومی سطح پر ریاست کی شبیہ بھی مسخ ہوئی تھی۔ حال ہی میں بہار اسمبلی کے اجلاس میں بھی یہ سوال اٹھایا گیا تھا اور کانگریس کی ممبر اسمبلی ڈاکٹر جیوتی نے یہ کہتے ہوئے ممبرانِ اسمبلی کو حیرت زدہ کر دیا تھا کہ وائس چانسلروں کی تقرری میں ایک سے ڈیڑھ کروڑ کا کھیل ہوا ہے جس پر اسمبلی نے اظہارِ افسوس بھی ظاہر کیا تھا۔ اب جبکہ عدالتی فیصلہ آچکا ہے تو سابق گورنر دیوانند کنور کے ذریعہ بحال کئے گئے تمام وائس چانسلر وں ڈاکٹر شمبھو ناتھ سنگھ (پٹنہ یونیورسٹی)، ڈاکٹر ارون کمار (مگدھ یونیورسٹی گیا)، ڈاکٹر بمل کمار (جے پی یونیورسٹی چھپرہ)، ڈاکٹر رام ونود سنگھ(بی این منڈل یونیورسٹی مدھے پورہ)، پروفیسرشیو شنکر سنگھ ( ویر کنورسنگھ یونیورسٹی آرہ)، پروفیسر کماریش پرساد سنگھ (بہار یونیورسٹی مظفرپور)، ڈاکٹر اروند پانڈے (سنسکرت یونیورسٹی دربھنگہ)، پروفیسر شمس الضحیٰ (مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی پٹنہ)، ڈاکٹر انجنی کمار سنہا ( تلکامانجھی یونیورسٹی بھاگلپور) اور ڈاکٹر تپن کمار شانڈل (نالندہ اوپن یونیورسٹی پٹنہ) کی تقرری ختم ہوگئی ہے اور اب ان تمام یونیورسٹیوں میں نئے وائس چانسلروں کی تقرری کا راستہ ہموار ہوگیا ہے ۔ 

****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 624