donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Lalu Nitish Ki Dosti Fire Brigade Ka Farz Ada Karegi

لالو نتیش کی دوستی فائر بریگیڈ کا فرض ادا کرے گی


حفیظ نعمانی

 

نتیش کمار سے لالو یادو کی دوستی اتنی ہی اہم بات ہے جتنی نتیش کمار کی بی جے پی سے علیٰحدگی۔ بہار کے آخری وزیر اعلیٰ ستندر نرائن سنہا کو بھاگل پور کے مسلمانوں کی بددعائوں نے ایسا دفن کیا کہ آدھی صدی ہونے کو آئی کہ بہار میں کوئی کانگریس کا نام لیوا اب نہیں رہا ہے۔ سنہا کے بعد لالو نے اقتدار سنبھالا۔ ہماری ذاتی رائے یہ ہے کہ ملک میں شاید اُن سے بڑا سیکولر کوئی لیڈر نہیں ہوا۔ بہت سے ہندو لیڈر مسلمانوں کے غمگسار ہوئے اُن کی حمایت میں بڑے بڑے بیان دیئے تقریریں کیں لیکن وہ کسی نہ کسی وقت اندر سے کچھ اور نظر آئے۔

لالو کو بہار میں حکومت کا پندرہ برس موقع ملا۔ بیشک انہوں نے سیکولر ہونے کا ہر موقع پر ثبوت دیا لیکن پورے پندرہ برس میں یہ اندازہ ہوگیا کہ وہ حکومت کے لائق نہیں ہیں۔ اُن کے آخری پانچ سال میں بہار کی جو حالت ہوگئی تھی اس نے اُن کی تصویر پر درجنوں داغ لگا دیئے۔ اس کے بعد رہی سہی کسر انہوں نے اس طرح کردی کہ اپنی بالکل بغیرپڑھی لکھی پتنی رابڑی دیوی کو وزیر اعلیٰ بنا دیا۔ اُن کے اسی فیصلے نے انہیں وزیر اعلیٰ سے اپوزیشن لیڈر بنا دیا۔ لالو پرشاد یادو اگر سنجیدگی سے حکومت چلاتے اسے گائیوں بھینسوں کا باڑہ نہ سمجھتے تو وہ آج بھی ایسے وزیر اعلیٰ ہوتے کہ انہیں کسی کو اپنی حمایت کے لئے لانے کی ضرورت نہ پڑتی۔

سیکولر پارٹیوں کے اتحاد کی بات سردیوں میں شروع ہوئی تھی۔ اس میٹنگ میں ملائم سنگھ تھے، نتیش کمار تھے، لالو یادو تھے، دیوگوڑا تھے، پرکاش کرات تھے اور بھی کوئی تھا۔ اس وقت یہ فیصلہ کرلیا گیا تھا کہ اگلے انتخابات پوری سنجیدگی کے ساتھ متحد ہوکر لڑے جائیں گے۔ یہ فیصلہ اس لئے نہیں ہوا تھا کہ بات صرف بی جے پی سے مقابلہ کی تھی۔ بلکہ اس لئے کیا گیا تھا کہ وزیراعظم جس شان سے آئے تھے اور جن سیڑھیوں پر چڑھ کر آئے تھے وہ اُن ہی سیڑھیوں سے اترتے ہوئے نظر آنے لگے تھے۔ اس وقت صرف دو باتیں ایسی تھیں جو اُنہیں ناکام وزیر اعظم ثابت کرنے کا اشارہ دے رہی تھیں۔ ان میں سب سے اہم یہ کہ کالا دھن حلف لینے کے صرف 100  دن کے بعد ہم واپس منگوا لیں گے اور ہر ہندوستانی مالا مال ہوجائے گا۔ ہمارے نزدیک یہ سب سے زیادہ پرکشش وعدہ تھا۔ اور ہندو ووٹر تو اس لئے ٹوٹ پڑے کہ ایک تو مودی ہندوتو کے سب سے بڑے علمبردار تھے اور دوسری بات یہ کہ مسئلہ دولت کا تھا جو خود لکشمی ہے اور جس کی وہ پوجا کرتے ہیں۔ مودی صاحب اس مسئلہ میں جھوٹے اور وعدہ خلاف ثابت ہوئے اور اسی بات نے اُن کا 56  اِنچ والا سینہ 36  اِنچ کا کردیا۔ دوسرا اعلان اُن کا تھا کہ میرے آتے ہی مہنگائی اتنی کم ہوجائے گی کہ کوئی بھوکا نہیں رہے گا۔

جس وقت سیکولر پارٹیوں کا پہلا جلسہ ہوا ہے اس وقت ان دو باتوں کو ہی ایسا سمجھا جارہا تھا کہ ان سب نے یہ سوچ لیا کہ اب بی جے پی ایسی ہوگئی ہے کہ اس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ایک سیاست کے لئے نابالغ اروند کجریوال نے دہلی میں انہیں ایسا جھٹکا دیا ہے کہ ان کی کمر کی ہر ہڈی چٹخ گئی ہے۔ انہوں نے سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ دہلی کے الیکشن کو لوک سبھا کے الیکشن کی طرح اپنی موت اور زندگی کا سوال بنا لیا۔ ایک ایسی ریاست کی حکومت جس میں صرف 70  ممبر ہیں اور جس کی سلطنت کا یہ حال ہے کہ صرف وزیر اعلیٰ بننا اسپیکر بننا اور ان محکموں کا وزیر بننا ہے جن کا تعلق صرف فیشن اور روایت سے ہو۔ بلکہ اس حکومت کی حیثیت ایسی ہے جیسے یہ ٹریننگ  کیمپ ہے۔ یہاں ہر محکمہ کا وزیر ہے مگر حکم اس کا نہیں چلتا۔ اس کے وزیر قانون کو پولیس اس طرح گرفتار کرلیتی ہے جیسے کسی گرہ کٹ کو جہاں سے چاہے اُٹھا لیتی ہے اور وہ ملزموں کی طرح اس سڑی گرمی میں اپنے اصلی اور نقلی ہونے کا ثبوت دکھاتا پھر رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب وہ وزیر قانون ہی نقلی اور دکھانے کے دانت جیسا ہے تو اُس کی ڈگری کا کیا اصل ہونا اور کیا جعلی ہونا۔

ایک ایسی کم حیثیت کی اسمبلی کے الیکشن کو مودی صاحب نے صرف اس لئے ناک کا سوال بنا لیا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں صرف جیت درج کرانا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنے نئے ناتجربہ کار اور صدارت کے نااہل و قتل کی سازش کے الزام میں جیل سے ضمانت پر آئے ہوئے امت شاہ کو پوری طرح جھونک دیا اور اب تک کی پوری دہلی کے لئے محترم بے داغ اعلیٰ پولیس افسر کرن بیدی کو بھی ستی ہونے کے لئے اپنے ساتھ لگا لیا۔ لیکن نتیجہ جو ہوا وہ سامنے ہے۔ مودی اور امت تو سامنے آنے پر مجبور ہیں وہ منھ چھپاکر کہاں جائیں؟ لیکن 115  دن ہوگئے ہم نے ہوسکتا ہے آپ نے بھی کرن بیدی کو نہیں دیکھا ان کے ستی ہونے کی تو خبر نہیں آئی لیکن عزت اور شہرت کی ان کی چتا جل کر راکھ ہوگئی۔

ان حالات میں صرف نتیش کمار اور لالو یادو کی دوستی ہی شری مودی کو بہار میں ہرانے کے لئے کافی ہونا چاہئے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ کانگریس اور بایاں محاذ کی سب پارٹیاں ان کی مدد کریں گی۔ ابتدا میں لالو یادو نتیش سے ہاتھ ملانے میں جھجھک رہے تھے۔ وہ انہیں وزیر اعلیٰ ماننے پر بھی تیار نہیں تھے لیکن اللہ نے انہیں عقل دی اور اب وہ پوری صلاحیتوں کے ساتھ نتیش کے گلے لگ گئے ہیں۔ ایسے خلوص کے ساتھ کہ کل انڈیا ٹی وی کے رویش کمار کو 45  منٹ کے انٹرویو کے بعد کہنا پڑا کہ لالو اب وہ لالو نظر آرہے ہیں جنہوں نے کانگریس کو ایسا دفن کیا تھا کہ وہ آج تک اپنی قبر سے باہر نہ آسکی۔ لالو یادو بیشک چارہ گھٹالے کے ملزم ہیں لیکن ان پر جو الزام ہے اس کی حیثیت تمل ناڈو کی جیہ للتا کے مقابلے میں آٹے میں نمک کی برابر ہے۔ عدالت جب ہزاروں کروڑ خردبرد کرنے والی ملکہ کو باعزت بری کرچکی ہے تو لالو کو اس لئے بھلے ہی بری ہونے میں دیر لگے کہ پوری مرکزی حکومت انہیں دشمن سمجھتی ہے لیکن وہ بری ہوجائیں گے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہر قسم کی غلطی کرسکتے ہیں مگر چور اور بے ایمان نہیں ہوسکتے۔

شری نریندر مودی بہار کے الیکشن میں پوری طاقت جھونکنے کے لئے مجبور ہیں۔ اروند کجریوال تو یوں ہی درمیان میں آگئے۔ مودی کی اصل دشمنی تو نتیش کمار سے ہے اور مودی صاحب نتیش کمار کی مخالفت میں کہاں تک جاسکتے ہیں؟ اس کا نمونہ آپ نے اس وقت دیکھ لیا ہوگا جب ایک دلت نہیں مہادلت مانجھی نتیش کے مقابلہ پر کھڑا ہوگیا اور بھول گیا کہ وہ آج جو کچھ ہے نتیش کی ہی بدولت ہے۔ دشمن کا دشمن دوست کے محاورہ پر عمل کرنے میں مودی صاحب نے اپنے کو اتنا نیچے اتار لیا کہ ہفتہ میں دو بار وہ مانجھی سے راز و نیاز کرنے لگے اور انتہا یہ ہے کہ انہوں نے بہار کی صوبائی بی جے پی کو مانجھی کی حمایت میں کھڑا کردیا۔ اور یہ تو آخری درجہ کی بات تھی وہ مانجھی کی مسکراہٹ پر فدا ہوگئے اور اس کی ایسی تعریف کی کہ پوری دنیا دنگ رہ گئی۔ اس لئے کہ وہ مسکراہٹ نہیں تھی منھ کھلا رکھنے اور دانت دکھانے کی بچپن کی بری عادتوں میں سے ایک عادت تھی۔

مانجھی کو نتیش کمار نے پارٹی سے نکال دیا مگر وہ وزیر اعلیٰ کا بنگلہ خالی کرنے پر تیار نہیں ہیں دلت اس ملک کے لئے عذاب بن گئے ہیں۔ وہ اگر بری سے بری حرکت کریں تب بھی کوئی انہیں ٹوکنے کی ہمت نہیں کرتا۔ اگر کسی نے ٹوک دیا تو ہر دلت کے منھ سے ایک نعرہ کہ دلت تھا اسی لئے اس کے ساتھ ایسا کیا اور پھر وہ سیاسی ہتھکنڈہ بن جاتا ہے۔ بہار کے وزیر اعلیٰ بھون میں آم اور لیچی کے درخت لگے ہیں۔ دونوں کی فصل ساتھ آتی ہے۔ کھانے کے ان پھلوں پر ہی مانجھی سیاست کررہے ہیں۔ جبکہ یہ پیڑ لالو جی نے اس وقت لگائے تھے جب وہ وزیر اعلیٰ تھے۔

نتیش کمار اور لالو کی مخلصانہ دوستی پر سب سے زیادہ رام ولاس پاسوان ٹانگیں پیٹ رہے ہیں اور چولھے میں سر دینے پر آمادہ ہیں۔ انہوں نے مودی کو یقین دلایا تھا کہ اب صرف وہ نتیش کمار کو اقتدار سے باہر کراسکتے ہیں۔ اس کی قیمت انہوں نے اپنے اور بیٹے کا ٹکٹ وصول کیا اور خود کو وزیر بنوایا۔ اب اس کا بدلہ دینے کا وقت آیا ہے تو وہ…… کا سا منھ بناکر پیشین گوئی کررہے ہیں کہ دونوں کی دوستی راستے ہی میں دم توڑ دے گی۔ انہیں سب سے بڑا ڈر یہ ہے کہ اگر وہ بہار میں مودی کا کلیجہ ٹھنڈا نہ کرسکے تو پھر ہوسکتا ہے کہ اونٹ اندر اور بَدّو باہر ہوجائے۔ یعنی پاسوان سے وزارت لے کر مانجھی کو دے دی جائے۔ بہار کا الیکشن دہلی، بنگال اور اُترپردیش سے کہیں زیادہ اہم ہے اور اب مودی صاحب کی عزت نہ پاسوان بچا سکتے ہیں نہ مانجھی۔ اس لئے کہ مودی جیسے تیر کی طرح آسمان کی طرف گئے تھے وہ تیر کی طرح ہی زمین کی طرف آرہے ہیں۔ ہرچند کہ وہ جن دھن بیمہ یوجنا، اٹل یوجنا، یوگا ، اوم، سوریہ نمسکار اور گیتا جیسے مسئلے کھڑے کرکے ملک کا ذہن اُلجھانا چاہ رہے ہیں مگر ہمیں اُمید ہے کہ بہار میں جو کہانی لکھی جائے گی وہ دہلی کی کہانی سے کم دلچسپ نہیں ہوگی۔

(یو این این)

**************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 526