donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Articles On State Of India
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Sabir Raza Rahbar
Title :
   Naxalion Ki Takhreebkari Dahshat Gardi Kiyon Nahi

نکسلیوں کی تخریب کاری دہشت گردی کیوں نہیں
 
صابررضا رہبرمصباحی
 
دومارچ ۱۹۶۷؍کومغربی بنگال کے نکسل باڑی سے سرمایہ دارانہ نظا م کے خلاف اٹھنے والی نکسلی تحریک نے چھتیس گڑھ میں گانگریس کی ریلی پرحملہ کرکے ایک بارپھراپنی سنگینی کا احساس کرادیاہے۔اس حملہ میں کانگریس کے ریاستی صدر نند کمار پٹیل اور سابق وزیر مہندر کرما سمیت۲۴؍لوگوں کی موت ہوگئی جبکہ درجنوں افراد سنگین طورپرزخمی ہوگئے۔نکسلیوں کےذریعہ بے گناہوں کے خون سے اپنی تشنگی بجھانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔ اب توہرآئے دن پولیس فورسزکے جوان یاپھر پولیس کا مخبرہونے الزام میں عام آدمی نکسلیوںکے خونی پنجوںکا شکارہوتےرہتےہیں۔ہاں!کسی سیاسی پارٹی کی ریلی پر اس طرح کا حملہ نکسلی تشددکی تاریخ کایہ پہلا واقعہ ضرورہے؛ ورنہ اسی چھتیس گڑھ میں۲۰۱۰ء میں نکسلیوںنے سیکوریٹی فورسیز کی ٹیم پر حملہ کرکے ۷۶؍جوانوںکوموت کے گھات اتاردیاتھا۔اس سے قبل۲۰۰۷ء میں چھتیس گڑھ ہی پولیس کے ایک ناکہ پرحملہ کرکے۵۵؍پولیس اہلکار وںکوہلاک کردیاتھااورڈانتے واڑہ میں نکسلیوںحملے میں۲۴؍افرادکی موت ہوگئی تھی جن میں عام لوگ بھی شامل تھےجبکہ اسی سال جھارکھنڈ میں کے لاتیہار میں نکسلیوںاورسیکورٹی فورسز کےدرمیان تصادم میں جن پانچ فوجیوں کی لاشیں برآمد ہوئی ۔ان میں سے تین کی لاشوں میں ماؤ نواز باغیوں نے دھماکہ خیز مواد لگا دیا تھااورجب ایک فوجی کی لاش ہٹائی گئی تو اس میں زبردست دھماکہ ہوگیااس لاش کے ساتھ پانچ دیگرافرادکی لاشوںکے بھی پرخچے اڑگئے۔دیگرلاشوںکوپوسٹ مارٹم کےلیے رانچی کے سرکاری اسپتال لے جایاگیا جہاںپوسٹ مارٹم کے دوران جوانوں کی لاشوںسے دھماکہ خیز مواد برآمد ہوا،نکسلیوںنے بربریت کی ساری حدیں پارکرتے ہوئے جوان کے پیٹ چیر کراس میں پریشربم نصب کردیاتھاتاکہ آسانی کے ساتھ لاش اٹھانے والے افراد کو موت کی نیند سلادی جائے۔نکسلیوں کےاس انسانیت سوز حرکت کے باوجودحقوق انسانی تنظیموں کے کارکنان اورحکومت کاان کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اختیارکیاجانا سمجھ سے بالاترہے۔
ہندستان میں نکسل زم کا مسئلہ تقریبا پچاس برسوں پرمحیط ہے اور اس کی جڑیں کافی گہری ہوچکی ہیں۔بہار،جھارکھنڈ، مغربی بنگال، چھتیس گڑھ،اور آندھرا پردیش جیسی ریاستوںکےبیشتراضلاع میں اس نےاپنی مضبوط پکڑبنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔
 
جب دومارچ ۱۹۷۶ءمغربی بنگال کے نکسل باڑی میں کانو سانیال نےاپنے ساتھیوںکے ساتھ زمیندارانہ نظام کےخلاف جنگ کااعلان کیااور۲۴؍مارچ کوکسان سبھا کے سربراہ جنگل سنتھال کی قیادت میں زمینداروں پرحملہ کیاگیا تواس وقت انہیں پکڑنے گئی پولیس ٹیم کوتیروکمان سے حملہ کرکےہلاک کردیاگیاتھا لیکن وقتی طورپرپولیس کو اسے کچلنے میں کامیابی حاصل ہوگئی تھی۔مگرابتداء سے ہی اسےملنے والی سماجی وسیاسی حمایت نےپھلنے پھولنے بھرپورموقع دیا اورآج شمال ومشرقی ہند کی ریاستوںمیں وہ اپنی مضبوط گرفت بنانے میںکامیاب ہوگئ ہے۔اس دوران سکیورٹی فورسز اور ماؤ نواز باغیوں یا نکسلیوں کے درمیان کئی بار خوں ریز مقابلے ہوئے جن میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے ۔
 
یوں تونکسلیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ زمین کے حقوق اور وسائل کی تقسیم کی جدوجہد میں مقامی لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیںاوروہ ان قبائلیوں اور غریب لوگوں کے لیے لڑ رہے ہیں جنہیں حکومت نے کئی دہائیوں سے نظر انداز کر رکھا ہے۔دراصل ان کا مقصد ’ایک کمیونسٹ سماج‘ قائم کرنا ہے۔اسی مقصد کےتحت نکسلیوں نے۲۰۰۹ءمیں مغربی بنگال کی راجدھانی کولکاتہ سے محض ۲۵۰؍ومیٹر دور لال گڑھ ضلع پر نکسلیوں نے قبضہ کر لیا تھا جو کئی ماہ تک قائم رہا۔ نکسلیوں نے لال گڑھ کوہندستان کا پہلا ’آزاد علاقہ‘ قرار دیاتھالیکن فورسیزاسے بھی کچلنے میں کامیاب رہی ۔
 
ہمیں سخت حیرت ہوتی ہے ہندستانی سماج کے اس دوہرے نظریے پرکہ جب کوئی غیرملکی کے ذریعہ ہمارے جوان کےسرکاٹ لینے کی خبراڑتی ہےتو ہم اسے انسانیت مخالف اوردرندصفت انسان کے نام سے موسوم کرتےہوئے اس کےخلاف فی الفور فوجی کاروائی کامطالبہ کرتے ہیں لیکن جب مائونواز ہمارے درجنوں فوجی جوانوںکی لاشوںکے چتھڑے اڑاتاہے ،ان کےپیٹ چیر کراس میں دھماکہ خیز مادہ رکھ دیتا ہے پھربھی نکسلیوںکے خلاف نہ توحکوت سخت رخ اختیارکرتی ہے اورنہ ہی ہندستانی سماج کے زندہ دل افراد کا کلیجہ تڑپتا ہے۔جبکہ یہ حقیقت ہے کہ جب تک انسان اپنےگھریلوتشدد سے نہ نپٹ لے بیرونی حملوں کا مقابلہ مشکل ہوتا ہے۔
 
نکسلیوںکے خلاف فوج تعینات کرنے میں خودحکومت پس وپیش میں نظرآتی ہے،اس کی وجہ نکسلیوں کو سماجی سطح وسیاسی سطح پر ملنے والی حمایت ہےلیکن کیا نکسلی جوکچھ کررہے ہیں وہ سب کچھ دہشت گردانہ کاروائیوںکے زمرے میں نہیں آتاہے؟اغوا،رنگداری،قتل،لوٹ اورسرکاری عمارتوںوسڑکوںکی تعمیرمیں لگی جے سی بی مشینوںکوہرآئے دن آگ حوالے کرناوغیرہ یہ کام ہی تونکسلی کررہے ہیں پھر انہیں دہشت گردکیوںنہیں قراردیاجاتااوران کے خلاف سخت کاروائی کو نارواتصورکیوںکرسمجھاجاتاہے۔
 
وزیراعظم ڈاکٹرمنموہن سنگھ کا وہ بیان مجھے اچھی طرح یاد ہے جب انہوںنے دانتے واڑہ میں نکسلیوںکے ذریعہ۷۶؍پولیس اہلکاروںکی ہلاکت کےکچھ دنوںبعدکہاتھاکہ نکسلی ہمارے اپنے ہیں اورحکومت ان سے بات چیت کرنے کیلئے تیارہے۔حکومتی سطح پر نکسلیوںسے مذاکرات کی کوشش کی بھی گئی مگر اس کا ہرنتیجہ صفررہا۔نکسلیوںکے حوصلے اتنے بڑھ گئے ہیںکہ چھتیس گڑھ میں کانگریس کی ریلی پرحملہ کے بعدمرکزی وزیرداخلہ سشیل کمارشنڈے جس دن نکسلیوںکے خلاف سخت کاروائی کرنے کا اعلان کررہے تھے عین اسی وقت نکسلی اسی چھتیس گڑھ میں تقریباً دوگھنٹے تک گاڑیوںکی تلاش لیتے رہے۔جہاں وہ گاڑیوں کوروک کر تلاشی لے رہے تھےوہاں سے محض ۶؍کلومیٹر کی دوری پرفوجی کیمپ ہے۔وہ تلاشی کے دوران جاننا چاہ رہے تھے کہ کہیں کوئی پولیس اہلکار اس گزر رہاہے۔
 
سکیورٹی فورسز اورنکسلیوں کے درمیان ہونے والے تصادم میں دوطرفہ نقصان عام لوگوں کا ہی ہوتا ہےیعنی عوام فورس اورنکسلی دونوں کی گولیوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔جہاں ایک طرف سکیورٹی فورسز پر الزام لگتاہے کہ انہوں نے نکسلی کہہ کر عام لوگوں کو نشانہ بنایا ہے، وہیں دوسری جانب ماؤ نواز وں پر الزام ہے کہ انہوں نے بھی پولیس کا مخبر کہہ کر بہت سے بے قصورافراد کی زندگی چھین لی ہے۔گیا میں گزشتہ دنوںنکسلیوںنے ایک مزدورکا اغواکرکے اپنی خودساختہ عدالت میں پولیس کا مخبرہونے کے جرم میں اس کو سزائے موت سنائی ۔اس کی بیوی نکسلیوںکے پائوں پڑکراپنے شوہر کی زندگی کی بھیک مانگتی رہی مگراس کی آنکھوںکے سامنے نکسلیوںنے اس کا سہاگ اجاڑدیااور۱۲؍جون ۲۰۱۳ء کو بہارکے جموئی میں کندن ہالٹ کے قریب ٹرین پر تابڑتابڑفائرنگ کرکے چھ افرادکی زندگی چھین لی۔
 
نکسلیوںکے اس قدرپھلنے پھولنے کی سب سے بڑی وجہ اس کی سیاسی حمایت ہے۔اگراپوزیشن یہ کہتی ہے کہ نکسل زم کانگریس کی دین تو اسے صرف اپوزیشن کا الزام کہہ کر نظراندازنہیں کیاجاسکتا کیوںکہ تاریخی حقائق بھی اس کی گواہی دیتے ہیں۔
 
۱۹۸۲ءمیں تیلگو دیشم پارٹی کے لیڈر این ٹی رامارائونے سب سے پہلے نکسلیوں کی حمایت کرتے ہوئے کہاتھاکہ نکسلی سچے دیش بھگت ہیں ۔حکومت نے انہیں سمجھنےمیں غلطی کی ہے۔انہوںنے وزیراعلیٰ بننے کے بعد نکسلیوںکے خلاف کاروائی کرنے سے پولیس کو منع کردیاتھا۔ان کے زمانے میں نکسلیوںکو اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے سب سے زیادہ مواقع فراہم کئے گئے ۔جبکہ ۱۹۸۹ء میں کانگریسی لیڈر ایم چیننا ریڈی ،این ٹی آر پر سبقت لےگئے اوران سے ایک قدم آگے بڑھ کرتیلگو دیشم کوشکست دینے کے لئے انتخابات میں کھل کر نکسلیوںسے حمایت کا مطالبہ کرڈالا اوروہ جیت بھی گئے۔مسٹرریڈی کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد حیدرآبادمیں نکسلیوںنے ایک عظیم الشان جلوس نکالاتھا جو نکسلی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا جلوس تھا۔آسام میں بوڈودہشت گردی کے ساتھ کم وبیش یہی صورت حال ہے۔
 
آزادہندستان میں سب سے زیادہ عرصہ تک حکومت کرنے والی سیاسی جماعت گانگریس ہے ،اگروہ نکسلیوں کے تئیں ہمدردانہ جذبہ نہیں رکھتی توکیاآج انہیں اپنے سینئرلیڈروںکی قربانی دینی پڑتی۔
 
یہ کتنی عجیب بات ہے اگرکہیں دہشت گردانہ واقعہ ہوتاہے یاپھردھماکہ خیز مادہ برآمدہوتاہے توہماری خفیہ ایجنسیاں اورپولیس اس سے جڑے مسلم نوجوانوں کی نشاندہی کرنے میں سخت تیزی کا مظاہرہ کرتی ہیں حالاںکہ اس سے ان کا کوئی حقیقی تعلق بھی نہیں ہوتاہے جبکہ نکسلی آئے دن قانون وانسانیت کوبازیچہ اطفال بناتا رہتاہے ؛فورسیز اورعام انسانوںکے لہوسے سرعام ہولی کھیلتان نظرآتا ہے پھر ہماری انٹلی جنس ایجنسیاں کو ان کے خلاف نہ توکوئی پختہ ثبوت مل پاتا ہے نہ انہیں ان کے ٹھکانے کا علم ہوپاتا ہے۔
 
نکسلی مسئلہ حل صرف یہی نہیں ہے کہ ان کے خلاف طاقتوںکا استعمال کیاجائے بلکہ اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ ان کے قابل التفات مطالبات پر غوروفکربھی کیاجائے ورنہ غربت واستحصال کی کوکھ سے جنم لینے والی یہ تحریک کبھی بھی خطرناک شکل اختیارکرسکتی ہے،نیپال میں اس نے کس طرح اقتدارپرقبضہ کیا؛یہ کسی پر مخفی نہیں ہے وہ کتنے خطرنال لوگ ہیںاس کا مظاہر ہ وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں۔
 
(مضمون نگار روزنامہ انقلاب ،پٹنہ کے سب ایڈیٹرہیں)
E-mail sabirrahbar10@gmail.com
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 703