donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Political Articles -->> Election in India 2014
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Iftekhar Rahmani
Title :
   Karam Par Tule Hai.n Sitam Dhane Wale

 

!!کرم پر تلے ہیں ستم ڈھانے والے


برجستہ:  افتخار رحمانی 

سب ایڈیٹر :بصیرت آن لائن ڈاٹ کام 


یہ بڑے حسن اتفاق کی بات ہے کہ جب جب انتخابات کے ایام قریب تر ہوتے جاتے ہیں تمام سیاسی پارٹیاں وعدوں پر وعدے کرتی ہیں اور وہ وعدے جو وفا ہونے سے رہ گئے تھے برق رفتاری کے ساتھ پورے ہونے لگتے ہیں ،راقم ان سیاسی پارٹیوں کے اس تغافل اور تجاہل عارفانہ پر حیران ہوتا ہے کہ آخر یہ کیوں ہوتا ہے کہ کئے گئے وعدے وفا نہیں ہوتے ،اور جب انتخاب کے دن قریب ہوتے ہیں تو اس’’کار عشق ‘‘میں شدت کے ساتھ عمل پیرا ہوتے ہوئے وعدۂ عشق کو پورا کر لیا جاتا ہے ؟ہندوستان جیسے اس عظیم جمہوری ملک کہ جہاں محض ووٹ کی عددی طاقت عوام کی قسمت کا فیصلہ کرتی ہے اور یہ بات بڑے وثوق اور کامل یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس عظیم جمہوری ملک میں عوام اپنی عددی طاقت کا بارہا استعمال کرکے سیاسی مبصرین اور تجزیہ کاروںکو حیران کرچکی ہے کہ مبصرین وتجزیہ نگاروں کے تجزیے ہوا ہوگئے اور عوام کی عددی طاقت نے اپنے کرو فر کا بے مثال مظاہرہ کردیا۔عوام کی عددی طاقت اور پھر انتخاب کے غیر متوقع نتائج نے بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کو اپنے وجود سے ہلکا کردیا اور جس نفس کے ذریعہ حرارت وجود دم بدم قائم تھی یک لخت دم توڑ گئی خواہ کانگریس ہو یا پھر دوسری جماعت ہر ایک کو اس ناتمام عشق کی ضرب کاری کو جھیلنا پڑی ہے کیوں کہ جمہوری اور عددی طاقت کے یہی معنی ہوتے ہیں اور فی الوقت سیاسی پارٹیوں کا وعدوں پر وعدے کرنا اور ایفائے عہد اسی ناتمام عشق کی ضرب کاری کے خوف سے ہے لیکن یہ تمام ’’کارہائے عشق ‘‘اپنے منطقی انجام کو پہونچ کر رہیں گے ،عددی طاقت اسی امر لطیف کی سمت مشیر ہے ۔

مسلمانان ہند چونکہ اس جمہوری ملک کے باشندے ہیں اور ان کو یہ حق بہم ہوتا ہے کہ وہ بٍھی اپنی عددی طاقت کا استعمال کریں اور اپنی پسند و ذوق کے موافق اپنا سیاسی نمائندہ منتخب کریں ،مسلمانان ہند ا س کا استعمال اور مظاہر ہ کرتے ضرور ہیں لیکن نصف صدی سے زائد کے عرصہ میں بھی اپنی اس عددی طاقت کو راست طریقہ سے استعمال کرنا نہیں آیا اور نہ ہی کبھی اس کاخیال دامن گیر ہوا کہ اپنی خامیوں کو دور کریں کیونکہ اس عددی طاقت کے راست اور صواب راہ سے استعمال کرنا بھی ایک لازمی فن ہے ۔مسلمان لاریب اس ہندوستان میں کثیر تعداد میں ہیں اور راست طریقہ سے اپنی عددی طاقت کا استعمال کرکے ایک نیا انقلاب لا سکتے ہیں مگر افسوس !غفلت اور در ماندگی کی نحوست کا ایسا اثر واقع ہوا ہے کہ وہ خود اپنے وجوداور اپنی نوائے آفاقی سے بھی یکسر غافل ہوگئے اور اس کو بھی بھول گئے کہ ان کے ہی آباء واجداد تھے جن کو گنگا نے وضو کرایا تھا اور اس سرزمین ہند نے لپک لپک کر استقبال کرتے ہوئے نماز عشق کی دعوت دی تھی ۔مسلمانوں نے واقعی ہر بار اپنی اس طاقت کا استعمال کیا ہے مگر ان کا یہ استعمال کرنا لغو قرار پایاکیونکہ وہ آج تک اپنے سیاسی وجود کو مستحکم نہ کرسکے بلکہ دن بہ دن سیاست کے اس شہر چیستاں کے معموں میں الجھ کر رہ گئے اور یہ الجھنیں اتنی بڑھی کہ اپنے وجود کی بھیک مانگنا اپنا مقدر سمجھ رہے ہیں لیکن اتنا تو ضر ور ہے کہ سیاسی لیڈران ہمارے وجود اور ہماری عددی طاقت کو اچکنے کے فکرو خیال میں ہے اور ان کو اس امر کا علم ہے کہ مسلمانان ہند اپنی عددی طاقت سے انقلاب لا سکتے ہیں بنابریں سیاست کی دورخی پالیسیوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ’’کارہائے عشق ‘‘کے وعدہ ہائے خام خام کیے جارہے ہیں اور ایفائے عہد کی منافقانہ چالیں بھی چلی جارہی ہیں کیوں کہ اگر ان وعدہ ہائے خام خام اور ایفائے عہد کی منافقت ادا نہ کی گئی تو ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کا وجود خطرہ میں پڑ جانے کا اندیشہ ہی نہیں بلکہ قوی امکان ہے لیکن بعض کھلے ذہن و دماغ کے افراد نے اس خواہ مخواہ کی منافقت کی تردید کا اعلان بھی کیا کہ ہم نفاق نہیں جانتے اور اس کھلی ہوئی حقیقت کے بیان واظہار پر ایمان رکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے وجود کو ہی کالعدم قرار دیاجائے اور صدیوںقدیم مسلمہ حقائق کی تغلیط کردی جائے کہ مسلمان کل کی طرح آج بھی پردیسی ہیں جیسے بھاجپا اور دیگر حلیف پارٹیاں ۔غور وخوض اور فکر کا مقام ہے کہ نقصان کا سب سے زیادہ امکا ن منافقوں سے ہوتا ہے جو کھلے دشمن ہیں ان سے خطرات لاحق ہوںگے مگر اس نوعیت کے نہیں جو نوعیت منافق اپنے کشکول جفا میں رکھتے ہیں ۔مسلمانوں کو اس سے احتیاط او رہو شیاری ضروری ہے کیونکہ ہر بار مسلمانوں نے جو اپنی

 ہو شیاری کے با و جو د فریب کھا گئے ا ور اس حقیقت پر آنکھیں آنسو نہیں بلکہ خون روتی ہیں کہ آزادی سے تا دم تحریر اپنے سیاسی و جود کی بقا او رتحفظ کی خاطر در در مسلمان بھٹکتے رہے او رآج تک ان کی دیوانہ وار دیونگی کو منزل نہ مل سکی ۔

ہم ان کو بھی سیکولر تسلیم کرتے ہیں جو ہمارے حقوق کے تحفظ اور جائز حصولیابیوں کے لیے جنگ لڑے اور ان کو بھی سیکولر کہہ کر تائید و تصویب کرتے ہیں کہ وہ کم از کم ہمارے وجود اور ہمارے شعائر اسلامی کے تئیں مخالف تو نہیں ہاں یہ بات سچ ہے کہ وہ سیکولر دل و دماغ اور بے داغ کردار کا مالک ہے جو ہمارے حقوق کی ضمانت لیتا ہے اور اس کی پاسداری بھی کرتا ہے ان کو کیا کہیں جو اپنے تمام وعدوں کے اثبات کے باوجود کھلے ہوئے حقائق کو مشکوک قرار دیکر ہم سے دشمنی کی ٹھان رکھی ہے ۔ہندوستانی جیسے عظیم جمہوری ملک کی سا  لمیت اور بقاء صرف سیکولرزم اور اتحاد میں ہے او رجب تک اتحاد وسیکولرزم متیقن نہ ہو اس کی سا  لمیت کا کوئی بھی ضامن نہ ہوگا ،سیکولرزم ایک جمہوری طاقت ہے اور اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن سیکولرزم اور اتحاد کے فریب میں جتنی بار مسلمانوں کو دھوکہ دیا گیا ہندوستانی تاریخ میں کسی بھی قوم کو نہ دیا گیا ہے اور نہ اس کی کوئی نظیر ملتی ہے ۔ایفائے عہد اسی وقت لازمی تصور کیا جاتا ہے جب فرار کی تمام راہیں مسدود ہوچکیں ہوں تو اس وقت ان منافقانہ سنتوں کو ادا کیا جاتا ہے اسی طرح کا ایک واقعہ کل پرسوں یوپی کی موجودہ حکومت کی وساطت سے پیش آیا جب انتخابی دن قریب ہوگئے تو طوعا و کرہا ایک ناتمام شیخ الہند میڈیکل کالج انعام میں دے کر خوش کردیا کہ ہم نے جو وعدہ کیاتھا آج اس کے وفا کی تکمیل ہے بلاشبہ مسلمانوں کے لیے بڑا انعام ہو سکتا ہے کہ اپنے مذہبی و سیاسی پیشوا کے نام کی یادگار کو دیکھ کر سکون دل اور قرار جگر حاصل کریں لیکن ان لوگوں کے لیے یہ ہرگز بھی انعام نہیں کہا جا سکتا جو آج بھی سیاسی منافقوں کی بے اعتنائی کے شکار ہو کر حقیقت مآل سے برگشتہ ہوگئے ۔ہم یا کوئی بھی کیسے اور کیونکر بے داغ اور صاف شبیہ کے حامل جماعت کہیں کہ جس کی موجود گی میں متعدد جگہ فرقہ وارنہ فسادات ہوئے لاکھوں افراد اپنے مکانات اور عزیز و اقارب سے محروم ہوگئے ابھی کا ہی واقعہ ملحوظ نظر رکھیں کہ مظفر نگر میں قتل عام کی تمام سنتوں کو تازہ کردیا گیا مگر یہ سیکولر جماعت اس وقت متحرک ہوئی جب کشت و خون ، لوٹ مار اور غارت گری کی تمام داستانیں رقم ہوچکی تھیں لاکھوںافراد اپنے خانما ں برباد پر حسرت و رنج کی اشکباری میں مصروف تھے ۔الغرض تمام پارٹیا ں جو سیکولرہونے کی مدعی ہیں اگر ان کے دعوے سچ ہیں تو یہ بھی سچ ہے کہ اس سچائی میں جھول ہے اور ان کا دامن داغ دار ہے ۔انتخابی دن کے قریب تر ہونے کے باعث ہی کہہ لیجئے کہ بھولے ہوئے وعدے یاد آگئے

 اور ایفائے عہد کا ارادہ کر کے تمام گلے وشکووں کو دور کرنے کی ایک کوشش کی جارہی ہے ۔پہلے تو بے اعتنائی ،بے مروتی اور نظر اندازی تھی لیکن اب تو نوازشیں ہی نوازشیں ہیں آخر جگر کی رندانہ کیفیت یاد آگئی         ؎

مری طاقت ضبط کی خیر یارب 
کرم پر تلے ہیں ستم ڈھانے والے 

**********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 548