donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Articles on Film -->> Filmi News
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Asghar Shamim
Title :
   Shahanshahe Tarannum - Mohammad Rafi


شہنشاہِ ترنم۔ ۔۔۔ محمد رفیع


اصغر شمیم


    ہندوستانی سنیما کے سو سال پورے ہو چکے ہیں ان سو سالوں میں ہندوستانی سنیما کو عروج پر پہنچانے والے متعدد فنکاروں میں ایک نام شہنشاہ ِ ترنم محمد رفیع کا بھی ہے۔ محمد رفیع ہندوستان کے ایک عظیم اور ناقابلِ فراموش گلوکار ہیں۔

    شہنشاہِ ترمحمد رفیع کا نام ذہن میں آتے ہی کانوں میں سُریلی اور خوبصورت آواز کا ایک حسین امتزاج اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ رس گھولتا ہے۔ ایک ثبوت ان کی آواز کے جادو کا یہ ہے کہ محمد رفیع کے گائے ہوئے گیتوں کو آج بھی لوگ اتنی ہی دلچسپی سے سنتے ہیں جتنی نصف صدی یااس سے قبل سنتے تھے۔ آواز کا جادو جگانے والا یہ عظیم گلوگار و فن کار ۳۳ سال قبل اپنے چاہنے والوں سے جدا ہو کر ہمیشہ کے لئے آبدی نیند سو گیا ہے۔ محمد رفیع آسمانِ موسیقی کا ایک ایساروشن ستارہ تھا جو بظاہر اب ہمارے سامنے اپنے ولولے اور خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ موجود نہیں لیکن اس کی مقبولیت، اس کی آواز کا سوزوسحرہمارے جسم و جاں سے اس وقت لپٹ جاتا ہے جب ہم اس کا گیت سنتے ہیں۔ فلمی دنیا کی تاریخ رقم کی جارہی ہے اور آئیندہ بھی کی جائے گی۔ جب اردو گانوں یا ہندوستانی گانوں کا ذکر کیا جائے گا تو محمد رفیع کا نام سنہرے حرفوں سے لکھا جائے گا۔

    محمد رفیع کی پیدائش ۲۴ دسمبر ۱۹۲۴ء کو پنجاب کے کوٹلہ سلطان گائوں میں ہوئی تھی۔ ان کے والد کا نام حاجی علی محمد تھا۔ ان کے چھ بیٹے تھے جس میں محمد رفیع کا نمبر دوسرا تھا۔ رفیع کے بچپن کا نام پھیکو تھا۔ ان کے گائوں میں مہینے میں ایک بار ایک فقیر آتا تھا اور بہت ہی سُریلی آواز میں گاتا تھاجس کے بول تھے۔۔’’فریاد میری سن لے اجمیر والے خواجہ۔۔۔۔بگڑی میری بنا دے اجمیر والے خواجہ۔۔۔۔۔‘‘  اس فقیر کے چلے جانے کے بعد محمد رفیع اُسی سُریلی آواز میں اس گیت کو دہراتے تھے اور اس طرح سے ان کے اندر گانے کا شوق پیدا ہوا۔محمد رفیع کے چچا محمد دین کے دوست عبدالمجید نے رفیع کے اندر چھپے ہوئے فنکار کی شناخت کی اور گیت گانے کے سلسلے میں ان کی ہمت آفزائی کی ۔عبدالمجید کے ساتھ ہی ۱۹۴۴ء میں محمد رفیع لاہور سے ممبئی آئے۔ رفیع نے استاد بڑے غلام علی خاں اور استاد عبدالوحید سے کلاسیکی سنگیت سیکھی بعد میں پنڈت جیون لال اور فیروز نظامی سے جدید سنگیت کی تعلیم حاصل کی۔ سب سے پہلے موسیقار شیام سندر نے پنجابی فلم ’’گل بلوچ‘‘ میں محمد رفیع کو ایک گانا گانے کا موقع فراہم کیاتھا۔ ۱۹۴۴ء میں شیام سندر کی ہی موسیقی میں رفیع نے ’’گائوں کی گوری‘‘ میں پانچ گیت گائے۔ فلم ’’سماج کو بدل ڈالو‘‘ اور ’’جگنو‘‘ کے نغموں نے محمد رفیع کی شہرت کو بلند مقام عطا کیا۔ محمد رفیع نے اپنی ۳۵ سالہ فلمی زندگی میں کئی طرح کے نغمہ گائے۔ رومانی گیتوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے غزل ، قوالی، بھجن اور حب الوطنی سے لبریز نغموں کو اپنی جادوئی آواز سے لوگوں کو دلوں میں جگہ دلوائی۔ ۱۹۴۸ء میں جب گاندھی جی شہید ہوئے تو محمد رفیع نے حسن لال بھگت رام اور راجندر کرشن کے ساتھ مل کر ایک گیت تیار کیا تھا۔’’۔۔سنو سنو اے دنیا والوں ۔۔باپوجی کی امر کہانی۔۔۔۔‘‘ اس گیت کو سُن کر اُس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے محمد رفیع کو اپنے گھر آنے کی پیشکش کی تھی اور اُسی سال یوم آزادی کے موقع پر انہیں نقرئی تمغے سے نوازا گیا تھا۔ محمدر فیع نے اپنی فلمی کیرئیر میں ایسے بے شمار نغمے گائیں ہیں جو آج بھی بے حد مقبول ہیں جتنے وہ پہلے تھے۔ ان کے گائے ہوئے چند سدا بہار نغموں پر ایک نظرڈالتے ہیں۔۔۔۔

 اپنی آزادی کو ہم ہر گز بھلا سکتے نہیں۔۔۔۔۔۔     

   (فلم۔لیڈر)

  کر چلے ہم فدا جان و تن ساتھیوں۔۔۔۔۔

   (فلم۔حقیقت)

 اے دنیا کے رکھوالے سن۔۔۔۔۔

 (فلم۔بیجو باورا)

 اے محبت زندہ باد۔۔۔۔۔۔۔

 (فلم۔ مغل اعظم)

تم مجھے یوں بھلا نہ پائوگے۔۔۔۔ 

 (فلم۔پگلا کہیں کا)
 


****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 540