donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Articles on Film -->> Filmi News
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Forum Desk
Title : بالی ووڈ کی متنازعہ فلمیں
   Bollywood Ki Mutnaza Filme

 

بالی ووڈ کی متنازعہ فلمیں


    ایکٹر اور ڈائریکٹر کے درمیان سردجنگ ہو یا پھر ہیروئنز کی آپس کی پیشہ ورانہ جلن، تنازعات انڈسڑی کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔  دنیا کی ہر فلم انڈسٹری میں ’’کنٹروورسی‘‘ کا لفظ بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور بالی وڈ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔یہاں بھی کنٹروورسی یعنی متنازعہ ہمیشہ سے ان رہا ہے۔ یہ تنازع کسی بھی طرح کا ہوسکتا ہے۔ 

اکثر اوقات بظاہر چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے شروع ہو کر بڑے تنازعے کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ ایکٹر اور ڈائریکٹر کے درمیان سردجنگ ہو یا پھر ہیروئنز کی آپس کی پیشہ ورانہ جلن، تنازعات انڈسڑی کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔

اگر یہ کسی فلم کے حوالے سے ہو تو فلم میکر یہ بات سوچ کر خوش ہوتا ہے کہ اس تنازعے سے اس کی فلم کو غیرمعمولی شہرت ملے گی۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ تنازعات سے بھر پور متنازعہ فلم باکس آفس پر کامیاب ہو یا نہ ہو وہ لوگوں میں ضرور شہرت حاصل کرتی ہے۔ اسی لیے بعض سر پھرے فلم میکر منفرد اور انتہائی بولڈ موضوعات پر فلمیں تخلیق کرکے شہرت کے ساتھ ساتھ تنقید بھی سمیٹتے ہیں۔ ذیل میں چند ایسی ہی فلموں کا ذکر ہے جنہیں ان کی نمائش سے قبل ہی بھرپور تنازعے کا سامنا کرنا پڑا۔

٭  مدراس کیفے،2013 : جان ابراہیم کی فلم مدراس کیفے کو ریلیز سے پہلے ہی متنازعہ قرار دے دیا گیا تھا۔ اس فلم کی کہانی انڈین آرمی اور سری لنکا کے درمیان ہونے والی سیاست کے گرد گھومتی ہے۔ ریلیز سے قبل جب اس فلم کے ٹریلر سامنے آئے اس وقت تامل سیاسی جماعت نام تامیلر naam tamilar نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور فلم کی نمائش رکوانے کے لیے کورٹ میں پیٹشن دائر کی۔ تامل ناڈو صوبے کی حکومت نے فلم کی بابت مکمل تحقیقات کی کہ آیا اس فلم میں سری لنکن تامل آبادی کو منفی تاثر کے ساتھ پیش تو نہیں کیا گیا؟ اگر ایسا ہوا تو حکومت اس فلم کے خلاف ایکشن لے گی۔ اس کے لیے ایک خاص شو کا اہتمام کیا گیا اور گورنمنٹ کو اس فلم میں کوئی قابل اعتراض بات محسوس نہ ہوئی اور فلم کو بغیر کاٹ پیٹ کے نمائش کے لے پیش کردیا گیا۔ جان ابراہام نے اس فلم میں انڈین آرمی آفیسر میجر وکرم سنگھ کا رول کیا۔ اپنے اس کردار کے حوالے سے وہ بہت خوش ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ میرے اب تک کیے جان والے کرداروں میں یہ سب سے اچھا رول ہے۔ افسوس نمائش سے قبل ہی مشہور ہونے والی اس فلم کو باکس آفس پر خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی۔

٭  آندھی، 1975 :  انڈین سیاست کے گرد گھومتی اس فلم کی کہانی گو کہ متنازعہ نہیں تھی لیکن فلم میں ہندستان کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی نجی اور سیاسی زندگی سے متاثر ہو کر جو کہانی دکھائی گئی، اس نے اس فلم کو متنازعہ بنا دیا۔ فلم میں ترکشواری دیوی کا کردار اداکارہ سچترا سین نے کیا تھا یہ کردار ننانوے فی صد اندرا گاندھی سے متاثر ہو کر تخلیق کیا گیا تھا۔ جب اندرا گاندھی اقتدار میں تھیں تو اس وقت فلم کو مکمل طور پر ریلیز نہیں کیا گیا تھا اور 1975 میں اس فلم کی نمائش پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

٭  قصہ کرسی کا، 1977 : اندرا گاندھی اور ان کے بیٹے سنجے گاندھی کی زندگیوں پر بنائی گئی ایک اور فلم قصہ کرسی کا 1977 میں ریلیز کی گئی تھی۔ اس فلم کے ڈائریکٹرامرت نہاتا خود اس وقت انڈین پارلیمینٹ کے ممبر تھے۔ ملک میں جاری ہنگامی سورتھال میں اس فلم کی نمائش پر پابندی لگا دی گئی۔ نہ صرف یہ بلکہ فلم کے پرنٹس ضبط کرکے انہیں جلا دیا گیا تھا۔

٭  فنا، 2006 : یوں تو ڈائریکٹر اندر کمار کی اس فلم میں کوئی متنازعہ با ت نہیں تھی اور نہ ہی اس فلم کی کہانی کسی سیاست داں یا سیاست پر مبنی تھی، لیکن جب عامر خان اس فلم کے پروموشن کے لیے گجرات گئے اور وہاں نرمدا ڈیم سے متاثر گاؤں والوں کے لیے اپنی دلی تشویش کا اظہار کیا اور اسی حوالے سے اچھے خاصے بیان بھی دئیے، تو ان کا یہ اقدام وہاں کی سیاسی جماعتوں کو ایک آنکھ نہ بھایا اور انہوں نے گجرات کے عوام کو عامر خان کے خلاف اکسایا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جب فنا پور ے بھارت میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تو گجرات میں اس کی نمائش پر پابندی لگا دی گئی اور وہاں فلم کے پوسٹر کے ساتھ ساتھ عامر خان کے پوسٹر بھی جلائے گئے۔ گجرات کے عوام کے اس عمل سے عامر خان کی فلم فنا کی ٹاپ رینکنگ پر اچھا خاصا اثر پڑا اور فلم باکس آفس پر وہ دھوم نہ مچا سکی جو ہمیشہ عامر کی فلموں کا ٹرینڈ رہا ہے۔

٭مائی نیم از خان، 2010 : بڑے اسٹار اپنی فلموں کے ساتھ ساتھ اس کی تشہیر کے لیے بھی بہت محنت کرتے ہیں اور ان کی تشہیر ہمیشہ بھر پور ہوتی ہے۔ شاہ رخ خان کی اس فلم کو تنازعات کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب وہ اس فلم کے پروموشن کے لیے امریکہ گئے اور وہاں ایئرپورٹ پر امیگریشن والوں نے شاہ رخ کو صرف ان کے نام اور مسلمان ہونے کی وجہ سے ہراساں کیا۔ شاہ رخ نے ایئر پورٹ پر پہنچنے والی اس ذہنی اذیت کو فلم میں بھی ہائی لائٹ کیا۔ اس فلم کی نمائش عالمی سطح پر کی گئی اور فلم کے ایک گانے ’’مولا‘‘ نے اس کی ٹاپ رینکنگ میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔ اسی دوران ایک بار پھر مائی نیم از خان کو کنٹروورسی کا سامنا کرنا پڑا جب شاہ رخ نے ہندستان میں ہونے والے آئی پی ایل میں پاکستانی کھلاڑیوں کے شرکت نہ کرنے کے حوالے سے بیان دئیے اور کہا کہ آئی پی ایل نے پاکستانی کھلاڑیوں کو شامل نہ کر کے غلط کیا ہے۔ شاہ رخ کے اس بیان کا یہ رد عمل سامنے آیا کہ لوگوں نے غصے کے عالم میں سنیماؤں پر حملے کیے اور فلم کے ساتھ ساتھ شاہ رخ کے پوسٹر بھی جلائے۔

٭بلیک فرائڈے، 2004 :

ایس حسین زیدی کی کتاب1993 bombay bombing سے ماخوذ فلم بلیک فرائڈے بنائی گئی۔ اپنی تکمیل کے دو سال تک اس فلم کی نمائش نہیں کی گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت ممبئی دھماکوں کے مجرم عدالت میں تھے اور ان پر مقدمہ چل رہا تھا۔ اس لیے عدالت کا فیصلہ آنے تک اس بلیک فرائڈے کی نمائش روک دی گئی تھی۔

٭بینڈت کوئن، 1994 : مشہور ڈاکو پھولن دیوی کی اصل زندگی پر بنائی جانے والی فلم بینڈت کوئن کو بھی اپنی نمائش سے قبل بے پناہ اعتراضات اور تنازعات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بینڈت کوئن کا کردار اداکارہ سیما بسواس نے ادا کیا تھا۔ فلم میں شامل غیر معمولی تشدد، عریانیت اور بولڈنیس کی وجہ سے انڈین سنسر بورڈ نے اس کی نمائش پر پابندی لگا دی تھی، لیکن اس فلم کے ڈائریکٹر شیکھر کپور نے فلم سنسر بورڈ کو مکمل یقین دہانی کرائی کہ ایسا کوئی بھی سین اضافی طور پر شامل نہیں کیا گیا ہے۔ خود پھولن دیوی نے بھی انہی وجوہات کی بناء  پر فلم کی نمائش رکوانے کے لیے عدالت سے حکم امتناعی بھی حاصل کرلیا تھا، لیکن شیکھر فلم کے حوالے سے اس کے تحفظات کو بھی دور کیا۔

٭  sins(گناہ)، 2005 : sins بالی ووڈ کی ایک اور انتہائی متنازعہ فلم تھی، جس کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ونود پانڈے تھے۔ فلم کی کہانی ایک ایسے کیتھولک پادری کے گرد گھو متی ہے جو ایک نوجوان لڑکی کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ دراصل فلم کی کہانی ایک حقیقی واقعے کو بنیاد بنا کر تخلیق کی گئی۔ 1988میں ہندستانی ریاست کیرالہ میں ایک کیتھولک پادری پر ایک لڑکی کو ہراساں کرنے اور اس کو قتل کرنے کا الزام تھا جو اس پادری کی گرفتاری پر سچ ثابت ہوا۔ sins میں کیتھولک پادری کا کردار اداکار شاہنی آہوجہ نے کیا تھا۔ اسی لیے جب یہ فلم نمائش کے لیے پیش کی گئی تو پورے انڈیا میں کیتھولک پادریوں کی طرف سے شدید احتجاج سامنے آیا۔ فلم کے خلاف مظاہرے کیے گئے اور اسے سنیماؤں سے اتارنے کی کوشش بھی کی گئی۔

٭فائر، 1996 : فلم میکر دیپا مہتہ ہمیشہ بولڈ موضوعات پر فلمیں بناتی آئی ہیں۔1998میں ارتھ، فائر1996اور2005میں واٹر، ان کی ایسی فلمیں تھیں جن پر بہت تنقید کی گئی۔ فلم فائر کی رائٹر اور ڈائریکٹر بھی وہ خود ہی تھیِں۔ فائر دراصل عصمت چغتائی کے ایک ناول سے ماخوذ تھی۔ فلم کے اہم کردار شبانہ اعظمی اور نندیتا داس نے ادا کیے۔ اس فلم کا موضوع انتہائی بولڈ تھا۔ اسی لیے نمائش کے فوراً بعد ہندستان کے ہندو انتہاپسندوں کی جانب سے فائر کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

چیتنا، 1970 : چیتنا کے ڈائریکٹر بی آر اشرا تھے اور انہوں نے اس وقت کے مطابق روایت سے ہٹ کر ایک منفرد موضوع پر فلم چیتنا بنائی، جس کی کاسٹ میں شتروگن سنہا، انیل دھنون اور ریحانہ سلطانہ شامل تھے۔ فلم کا موضوع طوائفوں کی بحالی اور شرفاء کے علاقوں میں ان کی آبادکاری پر مبنی تھا۔ فلم کے بولڈ سین اور ریحانہ سلطانہ کی بے باک اداکاری نے اس فلم کو شہرت دی۔ اسی بولڈ موضوع اور بے باکی نے فلم کو متنازعہ بنادیا۔ فلم بینوں کے سنجیدہ طبقے نے اس کی کھل کر مخالفت کی۔ اسی لیے یہ فلم کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کرسکی۔

***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 530