donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Articles on Film -->> Filmi News
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Unknown
Title : ڈرنا منع ہے، پر ڈراناجاری ہے ...
   Darna Mana Hai, Per Darana Jari Hai

ڈرنا منع ہے، پر ڈراناجاری ہے ...
 
، سنکی شخص، بھوت پریت، ڈائن، چڈیل وغیرہ وغیرہ الفاظ کو سن کر جسم میں ایک لرزہ طاری ہوجاتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ کوئی آپ کے آس پاس ضرور منڈلا رہا ہے۔ اس  بات کو بخوبی سمجھتے ہوئے بالی ووڈ میں بے شمار ڈرائونی فلمیں بنائی گئیں۔ابتدا میں صرف ایکشن اور رومانس پر ہی فلمیں بنا کرتی تھیں۔ اب ڈر پیدا کرنے والے موضوعات پر فلمیں بننے لگیں جسے'' ہارر جونر'' کے نام سے جانا جانے لگا۔ ناظرین نے ہارر جونر کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور ڈرنے کے لیے تیار ہو گئے۔حالیہ ریلیز فلم 'ایک تھی ڈائن' بھی ہارر جونر کی فلم ہے۔ فلم کافی پسند کی گئی۔ اس میں عمران ہاشمی ایک جادوگر کا کردار ادا کر رہے ہیں، جس میں ان کا ماضی واپس لوٹ لوٹ کر انہیں ڈراتا ہے۔ فلم میں ڈرانے کے پرانے طریقوں کو ہی استعمال کیا گیاہے لیکن فلم میں تب بھی نیا پن ہے۔ باقی کی کہانی آپ دیکھ کر ہی سمجھ پائیں گے کیونکہ ہم آج ہارر فلموں پر ایک نظر ڈالنے والے ہیں۔
 
2013 کی شروعات ہوتے ہی ایک ساتھ کئی ہارر فلمز آئیں اور گئیں، جو زیادہ تر ناظرین کو ڈرانے میں ناکام رہیں اور باکس آفس پر فلاپ ثابت ہوئیں۔ اس کے بعد ہارر فلموں کو لے کر ایک بحث سی چھڑ گئی تھی کہ ڈرانے کے لئے کچھ نیاکرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ آج بھی دنیا کی ہارر فلموں کا فیصد کل فلموں میں صرف 25 ہے اور ہندستان میں تو یہ اور بھی کم ہے۔ 100 میں سے صرف 10 فلمز ہارر کی ہوتی ہیں۔ ایک تھی ڈائن نے ان نئے تجربات کو دکھایا ہے۔
 
ڈرانے کے آغاز
 
ہارر فلموں کا چلن ہندستان میں فلم کی تشکیل کے ساتھ ہی نہیں شروع ہو گیا۔ سن 1913 میں ہندستان میں فلمیں بننا شروع ہوئیں۔ اس کے بعد 1931 میں بولتی فلموں کا دور آیا۔ تب تک محبت، پیار، محبت اور سماجی مسائل پر خوب زور شور سے فلمز بن رہی تھیں، لیکن کسی ڈائرکٹر کی توجہ بھوتیا فلموں کی جانب نہیں جا رہی تھی۔ 1949 میں آئی کمال امروہی کی پہلی فلم 'محل' ہارر موضوع پر بننے والی پہلی ہندستانی فلم تھی۔ اس فلم میں تھے اس وقت کے مشہور سپر اسٹار اشوک کمار اور مدھوبالا۔ فلم باکس آفس پر سپر ڈپر ہٹ ثابت ہوئی، لیکن فلم سے بھی زیادہ شہرت ملی لتا منگیشکر کو، کیونکہ فلم کا گیت 'آئے گا آنے والا' اتنے بہترین طریقے سے جو گایا گیا تھا۔پھر سے ہم آتے ہیں اپنے بھوتیا فلمی موضوع پر۔ محل کے آنے کے بعد ہدایت کاروں کی توجہ ہارر فلموں کی طرف جانے لگی۔ انہوں نے سوچا کہ شائقین کو خوف سے تو ہمیشہ واسطہ پڑتا ہی رہتا ہے کیوں نہ انہیں سنیما ہال میں بلا کر ڈرایا جائے۔ یہاں سے بھوت پریت پر مبنی فلمیں بننا شروع ہوئیں۔
 
40 سے 60 کی دہائی ہارر فلموں کو لے کر بہت ہی سست تھی، لیکن اس وقت بھی کئی ہارر فلمز بن رہی تھیں اور سپر ہٹ بھی ہو رہی تھیں، جس میں ہیمنت کمار کی 1962 میں آئی 'بیس سال بعد' 1965 میں آئی 'گمنام' اور 'بھوت بنگلہ' شامل ہے۔ اس وقت ڈر پیدا کرنے کے لئے ہائی ساؤنڈ کا استعمال کیا جاتا تھا اور زیادہ تر فلموں میں سفید ساڑی میں لپٹی عورت کی طرف سے دہشت پیدا کی جاتی تھی مگر اس کے بعد ایک دوسرا دور بھی آیا۔
 
یہ دور تھا 70 کی دہائی کی اور رامسے برادرس کا۔  ہارر فلم کے لئے ہی رامسے برادرس کو یاد کیا جاتا ہے، کیونکہ انہوں نے ہی ہارر فلموں کو ایک الگ انداز میں پیش کیا۔ بھٹکتی روحوں کی کہانی کوانہوں نے ناظرین کو پیش کیا جسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ رامسے برادرس نے اپنی پہلی فلم 1972 میں بنائی جس کا نام تھا 'دو گز زمین کے نیچے۔ اس کے بعد رامسے برادرس دروازہ، پرانا مندر، ویرانا اور بند دروازہ جیسی ایک کے بعد ایک ہارر فلمز دیتے ہی چلے گئے جسے ناظرین نے بھی خوب پسند کیا گیا۔
 
رامسے برادرس کے علاوہ بھی بہت سے ڈائریکٹر تجرباتی فلمیں بنا رہے تھے جو بھوتیا یا پوشیدہ طاقتوں پر مبنی تھی۔ اس میں پرنس کوہلی کی 'ناگن' خاص ہے۔ یہ فلم ایک اچھاداری ناگن کی کہانی ہے جسے بھی خاصا پسند کیا گیا۔ 1979 میں 'جانی دشمن' آئی یہ فلم ستاروں سے بھری پڑی تھی جسے اب تک کی بالی ووڈ کی سب سے بڑی ہٹ ہارر فلم کا خطاب حاصل ہے۔اس وقت تک کوئی بڑا اور نامور اداکار ان فلموں میں کام نہیں کیا کرتا تھا، لیکن راجیش کھنہ نے اس روایت کو توڑا۔ انہوں نے 1980 میں آئی 'ریڈ روز' میں عمدہ اداکاری کی۔ اسی کے ساتھ ہی رامسے برادرس کی سامری،تہ خانہ، شیطانی علاقہ جیسی فلمیں بھی آتی رہیں۔ ڈرانے کے لئے نئے نئے طریقے استعمال کئے جانے لگے۔ کبھی کھلونوں کو ہی بھوت بنا دیا جانے لگا یا کبھی خون چوسنے والے کسی چڑیل کوقارئین کو ڈرانے کا ذمہ سونپا گیا۔ رامسے برادرس 90 آتے - آتے ایک دم غائب ہی ہو گئے اور ساتھ ہی بھوتیا فلمز بھی۔
 
نئی صدی اور نئی ہارر فلم
90 کی دہائی اور سال 2000 آتے آتے ناظرین ہارر فلموں کا مزہ ہی بھول گئے۔ ان کے آگے صرف ایکشن اور محبت کے گیتوں سے بھری فلمز ہی چلتی تھیں۔ ہارر فلمز تب ایک آدھ ہی بن رہیں تھیں۔ موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے کامیاب ہدایت کار رام گوپال ورما ہارر فلموں کے بزنس میں کود پڑے۔ انہوں نے 'رات' اور 2003 میں 'بھوت' بنائی جسے ملے جلے تاثرات ملے لیکن اس کے بعد 'ڈرنا منع ہے' اور 'ڈرنا ضروری ہے' جیسی فلمیں بھی انہوں نے بنائیں جسے ناظرین نے سرے سے خارج کر دیا۔ مگر ان ہارر فلموں کے تئیں محبت کم نہیں ہوئی اور وہ فلمیں بناتے گئے۔ہارر فلموں کے معاملے میں بھٹ کیمپ کو زیادہ سمجھدار کہیں گے، کیونکہ انہوں نے ناظرین کی دلچسپی کو سمجھتے ہوئے فلمیں بنائیں۔راز، راز -2، راز -3،ہانٹڈ، ہانٹڈ -2 جیسی فلمیں ان کی کامیابی کی کہانی کہتی ہیں۔ ایکتا کپور نے بھی ہارر فلموں میں طبع آزمائی کی اور 'راگنی ایمیم ایس' فلم بنائی جو ہٹ ہوئی۔ حالیہ 'ایک تھی ڈائن' بھی انہی کی فلم ہے۔
 
سن 2000 کے بعد شروع ہوا ہارر فلموں کا سفر مسلسل آگے کی طرف بڑھ رہا۔ سال 2013 میں اب تک روح، 3 - جی اور ایک تھی ڈائن جیسی ہارر فلمز آ چکی ہیں اور گو گوا گون،جیسی فلمیں آنا باقی ہیں۔40 کی دہائی سے شروع ہوا سفر آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا ہے۔ ڈرانے کے طریقوں میں بہت بدلائو آیا ہے۔ روز نئی نئی ٹیکنالوجی کے آنے سے آواز اور تصاویر کے ذریعے سے زیادہ خوف پیدا کیا جا رہا ہے۔ حقیقی زندگی کی یہ بھوتیا فلمز کتنے قریب ہیں یہ آگے کے لئے موضوع بحث ہے۔
 
************************
Comments


Login

You are Visitor Number : 700