donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Articles on Film -->> Filmi News
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Unknown
Title : جان ہتھیلی پر
   Jan Hatheli Par

جان ہتھیلی پر
 
پر دہ سیمیں پر سلمان خان، اکشے کمار، سنجے دت، ریتک روشن اور دیگر ہیروز کو اپنی جان خطرے میں ڈالتے دیکھ کر ناظرین دانتوں تلے انگلیاں داب لیتے ہیں اور ان کی بہادری پر اش اش کر اٹھتے ہیں۔
 
فلم بینوں کی بڑی تعداد اس حقیقت سے واقف نہیں ہے کہ جان پر کھیلنے والے ان کے پسندیدہ اداکار نہیں ہوتے بلکہ ان کے رْوپ میں دوسرے فن کار خطرناک سین فلم بند کرواتے ہیں، جنھیں ’’اسٹنٹ مین‘‘ کہا جاتا ہے۔ فلم انڈسٹری میں ’’اسٹنٹ مین‘‘ کا پیشہ نیا نہیں بلکہ بالی ووڈ کے جنم ہی سے یہ فن کار ہیروز کی جگہ اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے ہوئے آرہے ہیں۔ خطرناک اور سنسنی خیز مناظر ایکشن فلم کی جان ہوتے ہیں۔ ان کے بغیر ایکشن فلم کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ فلم سازی کے شعبے میں ہونے والی جدت کے پیش نظر فلموں میں انتہائی خطرناک مناظر دکھائے جانے لگے ہیں، اور ان تمام مناظر میں اصل ہیرو کے بجائے یہ بہادر فن کار ہی اپنی جان جوکھم میں ڈالتے ہیں۔ ہیروز کی طرح اب بالی ووڈ کی حسینائیں بھی ایکشن رول کرنے لگی ہیں۔ پْرخطر مناظر اصل ہیروئن کے بجائے ’’اسٹنٹ وومن‘‘ فلم بند کرواتی ہیں۔
 
2010 ء میں بطور ہیرو سلما ن خان کی فلم ’’دبنگ ‘‘ کی فقید المثال کامیابی نے ایکشن فلموں کو پھر سے مقبول بنادیا، نتیجتاً ’’اسٹنٹ مین‘‘ کی مانگ بھی بڑھ گئی۔ تاہم فلموں کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کرنے والے ان گْمنام فنکاروں کو برائے نام معاوضہ ادا کیا جاتا ہے۔ فلم ساز آٹھ گھنٹے کام لینے کے عوض انھیں ساڑھے تین سے آٹھ ہزار روپے تک ادا کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں ان کی انشورنس بھی نہیں ہوتی۔ بعض اوقات خطرناک مناظر کی عکس بندی کے دوران اسٹنٹ مین زخمی اور شدید زخمی بھی ہوجاتے ہیں۔
 
ذیل کی سطور میں بالی ووڈ کے صف اول کے اسٹنٹ مین اور اسٹنٹ وومن سے کی گئی بات چیت پیش کی جارہی ہے۔
 
٭آصف مہتا
یہ فن کار عمران ہاشمی اور منوج باجپائی کے باڈی ڈبل کے طور پر کام کرتا ہے۔ آصف سات برس سے اس خطرناک پیشے سے وابستہ ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہوئے انسان کے دل میں خوف گھر کرلیتا ہے۔ اس خوف پر قابو پانے کے بارے میں آصف کہتا ہے،’’فرض کیجیے کہ آپ کو ایک شیشے کے دروازے سے ٹکرانا ہے۔ آپ بس خود کو سمجھاتے رہیے کہ دروازہ شیشے کا نہیں بلکہ تھرموکول سے بنا ہوا ہے۔ آپ اسٹنٹ بھی مکمل کرلیں گے اور جسم پر خراش تک بھی نہیں آئے گی۔ آپ کو بس ذہنی طور پر خود کو اس کے لیے تیار کرنا ہوگا۔‘‘
 
آصف کے والد راشد خان بھی اسٹنٹ مین تھے، مگر آصف ان کے نقش قدم پر چلنے سے گریزاں تھا۔ اسی لیے اس نے آسٹریلیا میں گرافک ڈیزائننگ کی تربیت حاصل کی۔ اسے موٹر ریسنگ کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ ایسی ہی ایک ریس کے دوران آصف کو حادثہ پیش آیا جس نے اس کی زندگی کا رْخ بدل دیا۔ پھر والد کے کہنے پر اس نے اس پیشے میں نام کمانے کی ٹھان لی۔
 
خوف پر قابو پانے کی آصف کی تیکنیک ایک سین کی عکس بندی کے دوران ناکام ہوگئی اور اسے خاصے زخم آئے۔ آصف کہتا ہے کہ ’’ شوٹ آؤٹ ایٹ وڈالا‘‘ میں منوج باجپائی کا ایک سین ہے جس میں وہ وہیل چیئر پر بیٹھ کر شیشے کے دروازے سے ٹکرا جاتا ہے۔ اس سین کے پہلے ٹیک پر میرے چہرے اور جسم میں شیشے کی کرچیاں پیوست ہوگئی تھیں اور بری طرح خون نکل رہا تھا۔ پھر طبی امداد کے بعد میں نے دوسرے ٹیک میں یہ سین او کے کروایا۔ اگر خود منوج باجپائی اس طرح زخمی ہوجاتا تو یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ اس کی مرہم پٹی کے بعد سے چند گھنٹے کے بعد اس سین کی دوبارہ شوٹنگ کے لیے رضامند کرلیا جاتا۔ اس واقعے کے بعد آصف نے اپنی انشورنس کے بارے میں سوچنا شروع کیا تاکہ زخمی ہوجانے کی صورت میں اس کی گزراوقات بہ آسانی ہوتی ہے۔ ’’ مووی اسٹنٹ آرٹسٹس ایسوسی ایشن‘‘ کے نام سے ان بہادر فن کاروں کی تنظیم بھی موجود ہے مگر اس نے انشورنس کی سہولت کی فراہمی کے سلسلے میں ابھی تک کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
 
 ٭صنوبر پردی والا
یہ فن کارہ ایشوریا رائے، کرینہ کپور، پرینکا چوپڑا، کترینا اور دیگر ٹاپ اسٹارز کے لیے خطروں سے ٹکراتی ہے۔ غالباً وہ بالی ووڈ کی واحد اسٹنٹ وومن ہے۔ صنوبر کا کہنا ہے کہ لڑکیاں اس پیشے میں نہیں آنا چاہتیں، کیوں کہ والدین اور اہل خانہ انھیں خطرات سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیتے۔ صنوبر نے بارہ برس کی عمر سے خطرناک کھیلوں اور کرتبوں میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ صنوبر کی بے خوفی اور بہادری کو دیکھتے ہوئے اس کے والد کے ایک دوست نے اس کی فلم ڈائریکٹر راہل راویل سے سفارش کردی جو ان دنوں اپنی فلم ’’ اور پیار ہوگیا ‘‘ کے لیے ایشوریا رائے کی باڈی ڈبل تلاش کر رہے تھے۔ صنوبر اس بات سے بے حد خوش تھی مگر اس کے والدین اس پر تیار نہیں تھے۔ بالآخر انھیں اپنی بیٹی کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالتے ہی بنی۔
 
صنوبر ان ہی ہدایت کاروں کے ساتھ کام کرتی ہے جو اسٹنٹ مین اور اسٹنٹ وومن کی حفاظت کو بھی مد نظر رکھتے ہیں۔ صنوبر کہتی ہے کہ کچھ ایکشن ڈائریکٹر انھیں اہمیت نہیں دیتے۔ وہ ایک مثال بیان کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ایک فلم میں اس کا سین بہت خطرناک تھا اور جب میں نے اپنے خدشات کا اظہار ڈائریکٹر سے کیا تو اس کا کہنا تھا کہ زخمی ہونا تم لوگوں کے کام کا حصہ ہے۔ چنانچہ اب وہ پرویز، شیام کوشل جیسے ایکشن ڈائریکٹرز کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دیتی ہے جو ان کی حفاظت کو بھی مقدم رکھتے ہیں۔ ایک سین میں اسے ہیلی کوپٹر سے کود کر 80 فٹ نیچے سڑک پر چلتی ہوئی کار میں بیٹھنا تھا۔ صنوبر کا کہنا ہے کہ یہ سین کرتے ہوئے اسے سب سے زیادہ خوف محسوس ہوا تھا۔
 
٭مْنّا
بارہ برس قبل، چھے فٹ دو انچ قد کے حامل مْنّا کو قسمت ممبئی اور پھر ایکشن ڈائریکٹر پرویز خان کے پاس لے آئی۔ اس وقت سے وہ ابھیشیک بچن اور سنجے دت کے باڈی ڈبل کے طور پر کام کررہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایکشن ڈائریکٹر الّن امین کے نائب کے طور پر بھی فرائض انجام دے رہا ہے۔ خطروں سے کھیلنا مْنّا کی فطرت میں شامل تھا اور اسی لیے اس نے یہ پیشہ اختیار کیا، مگر اپنی حفاظت کی طرف سے وہ کبھی غافل نہیں رہا۔ آج بھی وہ ایسے اسٹنٹ کرنے سے انکار کردیتا ہے جن میں اسے جسمانی نقصان پہنچنے کا زیادہ امکان ہو۔ تاہم ان فن کاروں کے لیے انشورنس کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے ہر اسٹنٹ اس کے لیے ایک بڑا رسک ہے۔ مْنّا کا کہنا ہے کہ زندگی میرے لیے دولت سے زیادہ قیمتی ہے۔ آپ اسی صورت میں بے خوفی سے اپنا کام کرسکتے ہیں جب آپ محفوظ ہوں۔
 
مْنّا کا شمار بالی ووڈ کے ٹاپ اسٹنٹ مینوں میں ہوتا ہے، تاہم اسے اس بات پر اعتراض نہیں کہ اس کی محنت کا پورا کریڈٹ ہیرو لے جاتا ہے۔ اس کے برعکس وہ ہیرو کے لیے فکرمند رہتا ہے۔ مْنّا کا کہنا ہے کہ ہمارے جسم پر خراشوں کا آنا معمول کی بات ہے مگر ہیرو کا ’بے خراش‘ رہنا ضروری ہے کیوں کہ اس پر کثیر رقم لگی ہوتی ہے۔ مْنّا کے مطابق اس کے لیے سب سے مشکل اسٹنٹ سین ’’ناک آؤٹ ‘‘ کا وہ سین تھا جس میں سنجے دت کو ایک عمارت کی چودہویں منزل سے نیچے گرتے ہوئے راستے میں سے ایک جھنڈا بھی تھامنا تھا۔
 
٭ریاض شیخ
ریاض کو اس پیشے سے وابستہ رہتے ہوئے ربع صدی گزرچکی ہے۔ اس کے باوجود وہ جسمانی طور پر چاق چوبند ہے اور آج بھی سلمان خان، شاہ رخ، ریتک روشن، اکشے کمار اور دیگر کئی سپراسٹارز کے لیے اسٹنٹ عکس بند کرواتا ہے۔ خطروں سے کھیلنے کا ہنر ریاض کو وراثت میں ملا ہے۔ اس کے والد ناصر شیخ اور بڑے بھائی فیروز بھی اسی پیشے سے وابستہ تھے۔
 
ریاض نے کیریئر کا آغاز گووندا کے لیے اسٹنٹ کی عکس بندی سے کیا تھا اور اب وہ بالی ووڈ کے ٹاپ اسٹارز کے لیے اپنی جان جوکھم میں ڈالتا ہے۔ ریاض کا کہنا ہے کہ خطرناک اسٹنٹ کرتے ہوئے وہ اس بات پر غور کرتا ہے کہ اسے بہترین انداز سے کیسے انجام دیا جاسکتا ہے۔ تاہم کچھ اسٹنٹ ایسے ہوتے ہیں جن کی تکمیل کے دوران بڑے بڑوں کو پسینہ آجاتا ہے۔ ریاض کے مطابق ایسا ہی ایک اسٹنٹ ’’دھوم‘‘ میں تھا۔ اس خطرناک سین میں ریتک روشن کو ایک عمارت کی بتیسویں منزل سے چھلانگ لگاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ ریاض کا کہنا ہے کہ یہ اسٹنٹ کرتے ہوئے وہ بہت ڈر رہا تھا۔ اسٹنٹ مین کو بھی انشورنس نہ ہونے کی فکر لاحق ہے۔ ریاض کے مطابق اگر یہ یقین دہانی مل جائے کہ انھیں کچھ ہوجانے کی صورت میں ان کے اہل خانہ کی دیکھ بھال کی جائے گی تو وہ اسٹنٹ کی عکس بندی کے دوران خود کو زیادہ محفوظ خیال کرسکیں گے۔
 
***********************
Comments


Login

You are Visitor Number : 666