donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Articles on Film -->> Filmi News
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Unknown
Title : زندگی موت نہ بن جائے سنبھالو یارو
   Zindagi Maut Na Ban Jaye Sambhalo Logo

زندگی موت نہ بن جائے سنبھالو یارو
 
زندگی موت نہ بن جائے سنبھالو یارو ... گزشتہ دنوں جیا خان کی موت کو لے کر بہت کچھ پڑھا، دیکھا، سنا تب ایک ہی خیال رہ رہ کر دل میں آیا کہ آخر کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ ہماری نوجوان نسل اتنی حساس یا شاید یہاں کمزور لفظ کا استعمال کرنا مزید ٹھیک ہو جائے گا ، ہو گئی ہے۔ ذرا سی بات ان کے دل و دماغ پر اس قدر اثر کرنے لگی ہے کہ انہیں اپنی مشکلات سے جدوجہد کرنے سے زیادہ آسان، موت نظر آتی ہے جبکہ میری نظر میں تو خود کشی اگر ایک قسم کی بزدلی ہے، تو دوسری طرف بڑی ہمت کا کام بھی ہے۔
 
کیوںکہ آسان نہیں ہے خود مرنا، اور یہ سوچنا کہ ایسا کون سا طریقہ اپنایا جائے جس سے ایک ہی بار میں کام تمام ہو جائے۔ یقینا یہ قدم اٹھانے کے لئے بھی بہت ہمت چاہئے۔ ہاں یہ بات الگ ہے کہ یہی ہمت اگر زندگی کی جدوجہد میں دکھائی جائے، تو شاید خود کشی کرنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ مگر اتنی ہی سوچ اور سمجھ یا یوں کہیں کہ ہوش اس خودکشی کرنے والے شخص کو کہیں سے مل جائے یا مل پائے، تو وہ بھلا خود کشی کرے ہی کیوں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کہاں کمی ہے، جو لوگ اپنا دکھ اور مسئلہ اپنوں کے ساتھ بانٹنے سے زیادہ موت کو گلے لگانا آسان سمجھنے لگے ہیں۔
 
 لوگ کیا کہیں گے، یا کیا سوچیں گے جیسی باتیں اس قدر حاوی ہونے لگی ہیں کہ لوگ سامنا کرنے کے بجائے مر جانا زیادہ آسان سمجھ رہے ہیں؟ اسی سلسلے میں گزشتہ دنوں میں نے ایک اور خبر کہیں پڑھی تھی کہ ایک بیوی نے اسکائپ پر اپنے شوہر سے بات کرتے  کرتے خود کشی کر لی۔ جب تک وہ اپنی بہن یا ماں باپ کو فون کر کے بتا پاتا، اس کے پہلے ہی اس کی بیوی کی زندگی کا کھیل ختم ہو چکا تھا۔ اب بھلا یہ کون سا طریقہ ہوا بات کو حل کرنے یا ختم کرنے کا، میری سمجھ میں تو یہ نہیں آتا کہ لوگ اس اصول کو کیوں بھولتے جا رہے ہیں کہ جان ہے تو جہان ہے۔
 
میری نظر میں تو ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے، جسے آپس میں بات کرکے حل نہیں جا سکتا۔ بس ٹھنڈے دماغ سے سوچنے کی ضرورت ہوتی ہے۔  پہلے والدین بچوں کو درس دیتے تھے کہ درد ہمیشہ بانٹنے سے کم ہوتا ہے اور خوشی ہمیشہ بانٹنے سے بڑھتی ہے۔ تو کیا اب والدین بچوں کی پروش پر دھیان نہیں دے رہے ہیں ؟ بچے خود کو اکیلا محسوس کررہے ہیں۔
 
شاید اب یہ باتیں ہم اپنے بچوں کو سکھا ہی نہیں پا رہے ہیں۔ اس لئے شاید آج کل کے بچے اندرونی طور پر انتہائی حساس ہوتے جا رہے ہیں۔ آخر اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟ ہماری پرورش، آج کل کا ماحول، معاشرے، قانون، نئی ٹیکنالوجی، انتظامیہ، یا پھرہماری لاپرواہی، مجھے نہیں لگتا ان میں سے کسی بھی ایک وجہ کو مجرم ٹھہرا کر ہم اس سے نجات پا سکتے ہیں کیوںکہ اگر ہم ایسا کرتے ہیں، تو یہ تو وہی بات ہوئی کہ اپنے کئے کا گھڑا دوسروں کے سر پھوڑنا ہوا، ایسا ہی ایک اور قصہ سنا میں نے، گزشتہ دنوں جب امتحان کے نتائج آنا شروع ہوئے تھے۔ ایک باپ نے اپنی بیٹی سے کہا تھا ہم ایک ساتھ بیٹھ کر انٹرنیٹ پر تمہارا نتیجہ دیکھیں گے، صرف ایک منٹ رکو۔ مگر بچوں میں اتنا صبر کہاں، اس بچی سے رکا نہیں گیا۔ والد کے جاتے ہی اس نے کمپوٹر پر اپنا نتیجہ معلوم کیا اور نتیجہ اچھا نہ ہونے کہ وجہ سے ساتویں منزل کی کھڑکی سے چھلانگ لگا کر خود کشی کر ڈالی۔
 
یہ سب سن سن کر میرے ذہن میں یہی سوال اٹھتا ہے کہ خود کشی کرنے والا شخص صرف اپنے بارے میں ہی کیوں سوچتا ہے ہمیشہ؟ کیوں اس کو یہ خیال نہیں آتا کہ اس کی زندگی صرف اس کی نہیں اس سے اور بھی بہت سی زندگیاں جڑی ہیں، جو اس کے جانے کے بعد اس کی یاد میں گھٹ گھٹ کر خود ہی ختم ہو جائیں گی۔ ان سب قصوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مجھے ایسا لگتا ہے کہ کچھ بھی ہو، آج کی تاریخ میں ہمیں اپنے بچوں کو یہ سمجھانا بہت ضروری ہو گیا ہے کہ زندگی کیسی بھی ہو موت سے حسین ہے، موت تو برحق ہے ایک نہ ایک روز آئے گی لیکن اس دوران خدا تعالیٰ نے ہمیں جو زندگی عطا کی ہے اسے بہتر ڈھنگ سے گزارنا ہوگا ۔ کیا خوب کہا ہے کسی شاعر نے :
 
’’مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے‘‘
یہ بات اپنے بچوں کو سمجھانا تمام والدین کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا انہیں تدفین دینا۔ ہمیں ان کے دل میں یہ بات بٹھانا ہی چاہئے کہ جب کبھی ہمیں ایسا لگے کہ ہمارے دکھ درد سے بڑا اور کسی کا دکھ درد نہیں ہے۔ تب وہ ایک بار، صرف ایک بار اپنے دکھ درد کو بھول کر اوروں کی تکلیفوںکو خود اپنی آنکھوں سے دیکھے، سمجھے، ان کو محسوس کرنے کی کوشش کرے۔ تب کہیں جا کر اسے اس بات کا احساس ہوگا کہ دنیا میں صرف وہ اکیلا ہی ایک ایسا انسان نہیں ہے جو دکھی ہے۔
 
میں جانتی ہوں یہ سب باتیں کتابی باتوں کے جیسی ہے اور زیادہ تر معاملوں میںکتابی باتیں عام عوام کی زندگی میں لاگو نہیں ہو پاتیں کیوںکہ کہنا کرنے سے زیادہ آسان ہے مگر ہم کوشش تو کر ہی سکتے ہیں نا، انہیں اپنے ذاتی زندگی میں لانے کی۔ 
 
 بچوں کا دوست بن کر انکے ساتھ رہنا ہوگا تاکہ وہ ہر بات آپ کے ساتھ شیئر کرسکیں۔ بچوں کے ساتھ دینی اور دنیوی معلومات پر گفتگو کریں۔ انہیں بتائیں کہ امید پر دنیا قائم ہے کیونکہ امید ہوگی تبھی مقصد تک پہنچا جا سکتا ہے۔ مگر جو ہے اس میں بھی انسان کو خوش رہنا آنا چاہئے۔ جن کے پاس یہ بھی نہیں ذرا ان کے بارے میں تو سوچو انہیں کیسا لگتا ہوگا۔ تمہارے پاس آج جو نہیں ہے، وہ کل ہو سکتا ہے لیکن جن کے پاس کچھ بھی نہیں ہے ان کی زندگی بہت چھوٹی ہے، جب جو ملے ہنس کر لیتے چلو کیا پتہ کل ہو نہ ہو، مستقبل کے بارے میں سوچو اور موجودہ دور کا بھر پور مزہ لو۔
 
زندگی کے اس فلسفے کو بچوں میں پہنچانا ہوگا جو آج کل جلد باز ہوگئے ہیں۔ انہیں ہر کام عجلت سے اور شارٹ کٹ طریقے سے کرنے کی عادت ہوگئی ہے۔
 
*******************
Comments


Login

You are Visitor Number : 616