donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Articles on Women -->> For Women
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abdul Sattar
Title :
   Kasbe Maash - Taleem Niswan

 

 کسب معاش ۔  تعلیم نسواں 


عبد الستار

 ولی مینشن ،سعد پورہ قلعہ،مظفرپور

 

    کوئی بھی اخبار اٹھا لیں اور خالی جگہوں کے کالم کو دیکھ لیں سرکاری دفتروں کی کوئی بحالی کی خبر ڈھونڈتے رہ جائینگے ۔ ریلوے کے      اشتہار میں گروپ ڈی کی خالی جگہوں کا اشتہار مل جائیگا ۔ہاں دوسرے اشتہار جو نکلتے ہیں وہ صرف کنٹریکٹ پر بحالی کے لئے جنہیں ایک  مشت رقم پر بحال کیا جاتا ہے۔ دوسرے کوئی مراعات جیسے پی ایف،گریچیوٹی، مکان کرایابھتہ ،منہگائی بھتہ یہ سب ان کے لئے عنقا۔ لے دیکر کچھ جگہوں پر چھٹی دی جاتی ہے جو ایک خاص مد ت تک تنخواہ کے ساتھ ۔ خد ا نخواستہ ہاتھ پیر ٹوٹ گئے یاڈ ینگو کے شکار ہو گئے کئی مہینہ بستر پر پڑے رہنا پڑا تو نوکری گئی۔ دوسری طرف ان کنٹریکٹ کے عہدوں کی اہلیت کے لئے جو معیار طے کئے جاتے ہیں و ہ بھی کافی اونچے رکھے جاتے ہیں۔ دکھانے کے لئے کم اہلیت رکھی جاتی ہے مگر ترجیح اونچی ا ہلیت رکھنے والوں کو دی جاتی ہے۔اس طرح کم اہلیت رکھنے والے اس ہدف کو پہنچ ہی نہیں پاتے۔ پھر اس کے بعد طرح طرح کے ریزرویشن کو شامل کیا جا تا ہے۔ ان تمام میں سے جومیرٹ لسٹ تیار کیا جاتا ہے وہ اونچے مار کس لانے والے امیدوار کو حاصل ہو تا ہے ویسے امیدوار کو بھی الگ سے پوآئنٹ دیا جاتا ہے جو کوئی پہلے کا تجربہ ر کھتے ہوں۔ اس طرح وہ تمام امیدوار جو کم نمبر وں یاکم ڈگریوں کے حامل ہوتے ہیں وہ نیچے چھوٹ جا تے ہیں ۔ ان کے لئے کوئی بھی جگہ نہیں رہ جا تی۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ  ع     ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔  معاش کسی کے دروازے پر کھڑے ہوکر آواز نہیںلگاتی بلکہ اسکے لئے بڑی محنت اورلگن کی ضرورت پڑتی ہے۔


    اب جب تعلیم نسواں کی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ان کی تعداد آج بڑھی ہے لیکن جہاں میٹر ک کے امتحان پا س کر نے کی تعداد ۵ ہزار کی ہے تو آگے پڑھنے والی خاتون کی تعد اد بتدریج گھٹتی جا تی ہے۔ ایک سے پانچ خواتین پی جی میں پڑھتی ہیں اور شاذ و نادر ہی کوئی پی ایچ ڈی کر تی ہیں ۔جب کبھی کسی خاتون کے پی ایچ ڈی کر لینے کی خبر اخبار میں پڑھتا ہوں تو نہایت خوشی ملتی ہے اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ قوم کی ایک اور بیٹی نے پی ایچ ڈی کی ڈگر ی حاصل کر لی ہے۔              


    ابھی حا ل ہی میں بکسریہ ٹولہ میں واقع ایک مد ر سہ سے ایک لڑکی کے حا فظ بن جانے اور اسی (۲۰۱۳  کے) ماہ رمضان ا لمبارک
مہینے میںخواتین کی جماعت میں نماز تراویح میں ختم قرآن سنانے کی سعادت نصیب ہوئی اسکے لئے مولاناابرار احمد قاسمی صاحب مبارک  باد کے مستحق ہیں جنہوں نے اپنی کاوش اور محنت سے آخرت کا سرمایہ حاصل کیا ہے ۔ آفرین صد آفرین۔


    کچھ روز قبل ایک ٹی وی کے مخصوص پرواگرام میں مفتی محمد اکمل صاحب نے فرمایا کہ مال (روپیہ ) کی حفاظت کی خاطر اسکا بینک
میں رکھنا جائز ہے او ر اسکی دیکھ بھال کے لئے بینک میں ملازمت کرنا بھی جائز ہے۔ پہلے ایسا دیکھا اور سنا گیا ہے کہ جب ٹی وی ہمارے اکاّ
دکاّ گھروں میں پہلے پہل آیا تھا تو اسے اڈیٹ بوکس یا شیطان کا ڈبہ اور نہ جانے کیا کیا کہا گیا۔ کئی جگہ تو شادی بیاہ کے رشتے ٹوٹے اور بھی نہ جانے کیا کیا ہوا جس سے ہر کوئی الگ اگ قسم سے رو برو ہوا۔ لیکن اس وقت اسے (ٹی وی کو) دین کی اشاعت ، تعلیم دین اور علما ء  و فقہاء کے علاوہ مفتیان کرام سے براہ راست اپنے سوالوں  کے جواب حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہر خاص و عام کو فراہم ہو گیا ہے۔ ملاحظہ کریں کیو ٹی وی کے احکام شریعت پروگرام ود یگر پر وگرام کو۔ اس وقت تو کئی چینل پر دینی معلومات کے پروگرام اور مسلمانوں کے مسائل پر مبنی پروگرام نشر ہو نے لگے ہیں۔پہلے ہمارے گھروں میں سبھی سیریل سے چپکے رہتے تھے لیکن آج کے دور میں مسلم گھرانوں میں خاص طور سے دینی اور شرعی پروگرام د یکھے جا نے لگے ہیں جسکی وجہ سے معاشرہ میں جو تبدیلیاں رو نما ہو رہی ہیں وہ ہر کوئی اپنے چہار جانب دیکھ سکتا ہے۔


    اس وقت قارئین کی خاص توجہ کے لئے ایک حقیقی واقعہ کا ذکر نہایت ضروری سمجھتا ہوں ۔ میں کافی عرصہ قبل اپنے سرکاری دورے پرد ھنباد گیا ہوا تھا جہاں مجھے ایک ہفتہ قیام کرنا تھا۔ درمیان میں ایک دو روز خالی وقت مل رہا تھا لہٰذہ میں وہاں سے ایک روز بوکارو گیا اور ایک روز گریڈیہ چلا گیا۔ وہاں میرے ایک پرانے ملاقاتی رہتے تھے۔ انہوں نے مجھے ایک خاتون کا واقعہ سنایا جس سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ بات یہ ہے کہ ایک پروفیسر صاحب نے اپنی بیٹی کی شادی کلکتہ میں کر دی لیکن لڑکی کے سسرال والے اور داماد اچھے نہ نکلے۔ لہٰذہ ان لوگوں کے در میان کچھ کھٹر پٹر ہونے لگی ۔ وا لد ین اور بھائیوں نے مصالحت کی بے انتہا کوشش کی لیکن اس میں وہ لوگ کامیاب نہ ہو سکے ۔ آخرکار لڑکی اپنے گھر آگئی پھر کبھی نہیںگئی۔ کچھ ن کے بعد اسے ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ لڑکی تعلیم یافتہ تھی پہلے ہی بی اے کر چکی تھی اس سانحہ کے بعد اسنے اپنے وا لدین سے آگے پڑھنے کی اجازت حا صل کر کے سائیکلوجی سے پٹنہ یو نیور سیٹی سے ایم اے کر لیا۔وہ لڑکی مستقبل شناس تھی ۔ جانتی تھی کہ جب شوہر نے ہی دغا دے دیا تو ماں باپ کا سایہ کب تک ساتھ رہیگا اس کے بعد پتہ نہیں بھائیوں اور بھابھیوں کا کیا سلوک روا رہے لہٰذہ ا س نے بڑ ی حقیر سی ایک نوکری سیویکا کی کر لی۔ جس میں پچاس روپیہ روزانہ کی اجرت ملتی تھی وہ بھی پورے ماہ نہیں۔ جب جب پولیو کی خوراک کا دور چلتا اس میں و ہ شریک ہو تی ۔ جب ماںباپ کا سایہ یکے بعد دیگرے اٹھ گیا  تو اسے اپنی دنیا بالکل اندھیری معلوم ہو نے لگی لیکن بھائیوں اور بھابھیئوں نے آنکھیں ٹیڑھی نہیں کی بلکہ اور بھی مشفقانہ برتائو کر نے لگی جب وہ ڈیوٹی پر جاتی تو یہی لوگ اسکی بچی کی دیکھ بھال کر تیں۔ اسی طرح ایک دن اس نے سائیکلوجی کی ہیڈ سے فون پر بات کی اور اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ ان کی سر پرستی میں پی ایچ ڈی کر نا چاہتی ہے ۔ محترمہ پروفیسر صاحبہ نے اس کی بڑ ی ہمت افزائی کر تے ہوئے فورارجسٹریشن کرا نیکا مشور ہ د یا ۔ ا س لڑکی نے انکی ہی نگرانی میں پی ایچ ڈ ی مکمل کیا۔ معا ملہ یہیں پر نہیں ٹھہرجاتا ہے ۔ اس لڑکی نے بی پی ایس سی کی تیاری شروع کی اور اللہ تعلی نے اسے ڈپٹی کلکٹر بنا دیا۔ آ ج اس کی بیٹی ڈی اے وی دھنباد میں پڑھ رہی ہے اور وہ خود بہا رسرکار کی نوکری ذمہ داری اور ایمانداری کے ساتھ نبھا رہی ہے۔  

      
    اس وقت پی ایچ ڈی کی ڈگری حاص کرنے والی مسلم لڑکیوں کی تعد اد کئی لاکھ ہونگی ان خاتون کو تو کسی نہ کسی کالج میں لکچرار کے عہدے پر فائز ہو جا نا تھا مگر اہلیت کی شرط پھر اور اونچی کر دی گئی ہے۔اب نیٹ کا امتحان پاس کئے بغیر کسی کالج میںلکچرار کی حیثیت سے
تقرری نا ممکن ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی دوسری شرائط ہیں۔ اس لئے مزید اس کے بحث میں جانے سے اچھا ہے کہ اسے یوں کہا جائے کہ یہ جوئے شیر لانے سے کم نہیں ۔ 


     میں اب عنوان کی طرف لوٹتا ہوں ۔ جب ہم اپنے اطراف میں نظر دوڑا تے ہیں تو پا تے ہیں کہ ایک میدان ہم سے پوری طرح  خالی ہے وہ ہے طب  (  میڈیسین ) کا میدان۔ ہمیں زنانہ امراض کے لئے خاتون ڈ اکٹر ہر جگہ مل جائینگی لیکن ہڈی کے امراض کے لئے  کوئی خاتون ڈاکٹر نہیں ہیں ۔ پٹنہ میں پدم بھوشن ڈ اکٹر آر این سنگھ کی طرح کون خاتون ڈاکٹر ہیں۔ آنکھ کی خاتون ڈاکٹر، امراض قلب کے لئے خاتون ڈاکٹر، پیٹ کی بیما ری کے لئے خاتون ڈاکٹر، اسکن ( چمڑے ) کی بیماری کے لئے ، ہرنیا کے آپریشن کے لئے، گو ل بلاڈر سے پتھر نکالنے کے لئے،  اپینڈیکس کے آپریشن کے ئے، ۔۔۔۔۔۔۔     پیس میکر لگا نے کے لئے  ۔۔۔۔   حتیٰ کہ بے ہوش کرنے والے ڈاکٹر بھی صرف مرد ڈاکٹر ہی ہیں جنکے پاس ہماری خواتین کو مجبورا جاناپڑتا ہے۔ لہٰذہ ہمارے معاشرہ کو اس مید ان میں بھی خود کفیل ہو نے کی اشد ضرورت ہے تب ہی تو ہم جیسا سوچتے ہیں ویسا کر سکیںگے ورنہ ہنوز دلی دور است۔ اگر سر سید احمد خاں نے ہمیں صحیح سمت نہ د کھائی ہو تی تو آ ج ہماری حالت جانوروں کی طرح ہوتی۔     


    آج ہمار ی نسل میں خاتون پروفیسر نہ ہو تیں تو ہماری بہنیں اور بیٹیاں یا تو مردانے کالج میں تعلیم پا رہی ہو تیں یا گھر میں بند ہو کر رہ جاتیں۔ہر شہر میں لڑکیوں کے کالج اتنے تو نہیں ہیں کہ جہاں تمام سبجیکٹ ( شعبہ ) کی پڑھائی ہو تی ہو یا پی جی کی پڑھائی کا نظم ہو۔ ایم ڈی ڈی ایم کالج ، مظفرپور ، میں جسکا قیام  ۱۹۴۶ ء میں ہوا یہ شمالی بہار کا سب سے پرانا لڑکیوںکا کالج ہے لیکن پی جی کی تعلیم صرف ۹  سبجیکٹ میں ہی ہو رہی ہے۔ تعلیم نسواں کو اور بھی مو ا ئثر او ر بہتربنانے کے لئے ہماری بہنوں کو انگریزی، ریاضت،معاشیات، سیاست ،نفسیات،    نباتات،کیمیا ئی،جغرافیہ،تواریخ،ایگری کلچر،ماہی پروری،ہوم سائینس،ہوٹل مینیجمینٹ،ادب ( لٹریچر ) مینیجمینٹ،انجینیئرنگ جیسے ہر شعبے میں خواتین کو نہ صرف تعلیم حاصل کرنا چاہئے بلکہ امتیازی پوزیشن حاصل کرنا ضروری ہے کیونکہ بیچ میں رہنے والوں کی پوچھ کہیں بھی نہیں   ہے۔ جن خواتین کے بچے بچیاں جامیعہ ہمدرد ( دہلی ) میں تعلیم پا رہے ہیں ان کو تو معلوم ہی ہو گا کہ وہاں طالب علم کو جو سبق (ہوم ورک )


دیا جاتا ہے اس کی توثیق انکی والدہ کواپنے پی سی سے خود اپنے پاس ورڈ سے کرنی پڑتی ہے۔ اب وہاں ایسے ہی والدین کے بچے تعلیم پا سکے  نگے جو کمپیوٹر کی تعلیم سے واقف ہونگے۔اب اس طرح کی شرطیں دیگر اسکولوں میں بھی جلد ہی شروع ہو جائے گی۔


    اس وقت میرے ذہن میں بہا ر کی عظیم ہستیوں کے نام آرہے ہیں جو علم کی شمع کی لو سے نہ صرف اجالا پھیلا رہی ہیں بلکہ ہزاروں کو علم عطا کی اور کئیوں کو پی ایچ ڈی کر نے میں مدد پہنچائی ۔ پروفیسر ڈاکٹر قمر جہاں، پروفیسر ڈاکٹر آصفہ واسع، پروفیسر ڈاکٹر شکیلہ رحمن، اہلیہ پرو فیسر ڈ اکٹر شفیع مشہدی،پروفیسر ڈاکٹر ایس کے جبیں ، پروفیسر ڈاکٹر محترمہ مونا میم ،پروفیسر ڈاکٹر نفیس فاطمہ،پروفیسر ڈاکٹر صبیحہ پروین، پروفیسر ڈاکٹر زرینہ رحمن، پروفیسر ڈاکٹر طلعت جہاں ، پروفیسر ڈاکٹر نکہت خانم ، پروفیسر ڈاکٹرصابرہ خاتون، پروفیسر ڈاکٹر تبسم غنی، پرو فیسر ڈ اکٹرعذرا  ولی، پرو فیسر ڈاکٹر شہلا الیاس وغیرہ کے نام تبرکا تحریر کرنے کی سعادت کا شرف حاصل کر رہا ہوں۔ لیکن سب سے اوپر محترمہ سیما علی خان ، پٹنہ ہائی کورٹ کی جسٹس جو چند دن قبل ہی ہم سب سے ہمیشہ کے لئے جد ا ہو گئی ہیں۔ بی بی سی اردو سروس کی دردانہ انصاری اور سلطانہ باجی آج بھی سامعین کے ذہن سے انکی علمی بصیرت کے جادو محو نہیں ہوئے ہونگے۔ میں ایک اور خاتو ن کا نام بڑے خلوص اور احترام کے ساتھ لیتے ہوئے عرض کر نا چاہتا ہوں جواپنی پی ایچ ڈی کی تھیسس میں رقم طراز ہیں  :۔   ــــ۔۔۔۔۔۔


 نا سپاسی ہو گی اگر میں اپنے شریک سفر اور بے پایاں محبت کر نے والے خاوند ڈاکٹر نور ا لاحد سابق مینیجنگ ڈائرکٹر،سیڈس کارپوریشن، پٹنہ کی
خا ک پا کو اپنی آنکھوں کا سرمہ نہ بنا ئوں جنکی رفاقت اور تحر یک نے میری حوصلہ افزائی کی ، میرا علمی ذوق ان ہی کا رہین منت ہے۔ اگر ان کا تعاون نہ ہو تا تو ہر گز یہ مقالہ تکمیل کی منزل سے ہمکنار نہ ہو تا۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔ یہ الفاظ کسی عام خاتون کی زبان سے ادا ہو ہی نہیں سکتے۔ ایسے القاب
صرف کوئی علم کا ڈاکٹر ہی بو ل سکتا ہے  ۔

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 عبد الستار
  ولی مینشن ،سعد پورہ قلعہ،مظفرپور
 ۹۸۳۵۶۶۶۶۲۲ ۔ ۹۸۵۲۹۵۳۷۳۳          

Comments


Login

You are Visitor Number : 1137