donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Articles on Women -->> For Women
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Arshad Ali Rashadi
Title :
   Ghar : Sukoon Ka Maskan Ya Pareshaniyon Ki Aamajgah

گھر: سکون کا مسکن یا پریشانیوں کی آماجگاہ ؟
 
محمد اشرف علی رشادی، بنگلور 
 
مولانا دعا کیجئے، گھرمیں داخل ہوتے ہیں توعجیب قسم کی پریشانی ہوتی ہے۔ گھرمیں سکون نہیں ہے، گھر سے باہر رہتا ہوں تو موڈ بہت اچھا رہتا ہے گھر میں داخل ہوتے ہی پتہ نہیں مجھے کیا ہو جاتا ہے کہ غصہ ناک پر ہوتا ہے ، چڑ چڑا پن ، بچوں کو مارنا ، چھوٹی چھوٹی بات پر چیخنا، میری اس حالت کو دیکھ کر بیوی بچے سب پریشان رہتے ہیں پتہ نہیں مجھے کیا ہوگا ، گھرمیں سکون نہیں ملتا دعا کیجئے ، نہ جانے کتنے لوگ اس پر یشانی میں مبتلا ہیں۔ آج حالات اورمعاشرہ کااگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں اور واضح ہوجاتی ہے کہ ہر دن انسانوں کے مسائل میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ چاہے وہ تجارت ہوکہ ملازمت ،زراعت ہوکہ دکانداری ہرمعاملہ میں انسان مسائل میں گھرا ہوا ہے انہی مسائل میں سے گھریلو مسائل بھی ہیں جو بسا اوقات انسان کی زندگی کو تباہی سے دوچار کر دیتے ہیں۔ بہت سے باہر کے مسائل سے نمٹنا آسان ہوتا ہے لیکن گھر کے مسائل کو حل کرنامشکل ہوتا ہے۔ گھرکے مسائل عام طورسے ذہنی تناؤ کا سبب بنتے ہیں۔ کتنے لوگوں کی زندگی گھر کے مسائل میں پھنس کر اجیرن ہوجاتی ہے۔ گھر تو سکون کی جگہ ہے مگر ہماری کم نصیبی کہ گھروں میں سکون کے بجائے پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ بلکہ بعض مرتبہ گھریلو مسائل اس قدر نازک ہوتے ہیں کہ دیگر سخت سے سخت مسائل بھی ان کے سامنے بہت معمولی نظر آتے ہیں۔ اکثر لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ گھرسے باہرکے سنگین سے سنگین مصائب کا سامنا کرسکتے ہیں لیکن گھریلو پریشانیوں کو برداشت کرنا بہت مشکل ہے۔ کتنے افراد ایسے ہوتے ہیں جوبے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں ا ور کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھتے ہیں لیکن گھریلو مسائل کے سبب اور اپنی بہترین صلاحیتوں کا استعمال نہیں کر پاتے ہیں اور پوری زندگی تفکرات وآلام میں بسر کردیتے ہیں۔ گھریلو زندگی میں سب سے زیادہ مسائل ازدواجی تعلقات کے ناخوشگوار ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ کیونکہ جب شوہر اور بیوی کے مابین افہام وتفہیم نہیں ہوتی ، معمولی باتوں پر شکایتوں اور جھگڑوں کی نوبت آتی رہتی ہے تو دونوں ہی کی زندگی سکون سے محروم ہوجاتی ہے۔ پھر یہی عدم سکون زندگی کے دوسرے پہلوؤں پر بھی اثر ڈالتا ہے۔ایسے حالات میں انتہائی ضروری ہے کہ گھر کے ماحول کو پرسکون بنانے کی کوشش کی جائے ۔ ہر شخص اپنے گھر پر اتنی توجہ ضرور دے کہ اس کا گھر سکون کا گہوارہ بنارہے ۔ بیوی بچوں کی ضروریات وخوشی ، والدین کے حاجات و تقاضے ، بہن بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کے حقوق کی تکمیل ان سب پردھیان کے ساتھ توجہ دی جانی چاہئے ۔بیوی یا بچے غلط راہ پر تو نہیں ، انکی صحبت غلط تو نہیں ، انکا چال چلن مشکوک تو نہیں ، ان کے اخلاق خراب تو نہیں، ان کا سلوک ،برتاؤ، سخت وکڑوا تو نہیں ، ان میں زیادہ فیشن تو نہیں ، ان کی سوچ وفکر میں تبدیلی تو نہیں ہورہی وغیرہ وغیرہ پر نظر رہنی چا ہئے ۔ اس سے پہلے کے حالات رخ بدلیں یا کسی پریشانی کے اسباب پیدا ہوں، ان کا حل ڈھونڈا جاسکتا ہے مگر غفلت ، سستی یا عدم توجہی برتنے کی صورت میں مشکلات پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ازدواجی زندگی میں مسائل پیدا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لئے میاں بیوی دونوں ازدواجی زندگی کے ہر پہلو پر عمیق نگاہ رکھیں ۔ سب سے پہلے اس سلسلے میں اس بات پرغور کیا جانا چاہئے کہ میاں بیوی کے درمیان اختلافات کیوں پیدا ہوتے ہیں؟ اسکی کئی وجوہات ہیں ،جن میں سب سے بنیادی وجہ دینی معلومات کا نہ ہونا جب علم ہی نہ تو عمل کا کیا سوال ۔ اسلام نے شوہر کابڑا مقام رکھا ہے۔ اتنا اہم مقام کہ اگر بیوی اس مقام کومحسوس کرے اور دل سے اسکو مان لے تو یقینا وہ اپنے شوہر کی خدمت اور اس کی فرماں برداری میں اپنا سب کچھ قربان کردے گی۔ اگر اسلامی تعلیمات سے بیوی آگاہ ہوجائے تویقینا وہ ہر طرح کی اطاعت وفرماں برداری کو ا پنے لئے باعث فخر سمجھے گی، مگر دور جدید میں مغربی تہذیب کے اثر کے نتیجہ میں خواتےن اپنے آپ کومردوں سے کسی طرح کم خیال کرنے کے لئے تےار نہیں ہیں۔ بس اسی فکرکے نتیجہ میں بہت سے اختلافات جنم لیتے ہیں ۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ عورتےں مردوں کے مقابلے میں حقیر نہیں ہیں،بلکہ اسلام نے حقوق کے لحاظ سے انکے درمیان مساوات رکھی ہے۔ تاکہ کوئی ایک دوسرے کو ذلیل یاکمتر نہ سمجھے اور دونوں کے درمیان زندگی پرسکون رہے ۔ گویا حقوق اور انسان ہونے کے لحاظ سے دونوں کے درمیان مساوات ہے، مگر کچھ وجوہات کے سبب عورتوں پر مردوں کو ایک درجہ فضیلت دی گئی ہے۔ فضیلت کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ شوہر عورتوں کو دبانے ستانے لگیں۔ ان پر ظلم وتشدد کرنے لگیں ا ور ان کی حق تلفی کرنے لگیں ۔ بعض مقامات پر ایسا بھی دیکھنے سننے کو ملتاہے کہ بعض شوہر اپنی بیویوں پرز یادتی کرتے ہیں۔ ان کی حق تلفی کرتے ہیں اور ان کو مارتے پیٹتے ہیں۔ شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شوہر ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی بیویوں کے ساتھ کسی بھی طرح کے سلوک کرنے کاحق حاصل ہوگیا مگر یہ سراسر زیادتی ہے اور غلط فہمی ہے۔ اسلام ہرگز کسی شوہر کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ نیک سلوک کی تاکید کرتاہے۔ اگر خدا نخواستہ کسی کو اپنی بیوی پسند نہ آئے یا اسے اپنے معیار کے مطابق دکھائی نہ دے تو بھی صبر و تحمل سے کام لینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ طعنہ کسنے ، گالی گلوچ کرنے اورالزام لگانے کی ہرگز اجازت نہیں دی گئی۔ حتیٰ الامکان مردوں کو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا معاملہ کرنا چاہئے ، ان کے لئے خوش گمانی سے کام لینا چاہئے اورمصالحت کی راہ اختےار کرنی چاہئے۔ 
 
*******************
Comments


Login

You are Visitor Number : 718