donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Articles on Women -->> For Women
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mozaffar Nazneen
Title :
   Medical and Engineering College Baraye Khwateen

 

میڈیکل اور انجینئرنگ کالج برائے 
 
خواتین کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت 
 
ڈاکٹر مظفر نازنین،کلکتہ
(Mob:8444821721)
 
حالیہ واقعہ نئی دہلی جہاں ایک معصوم دوشیزہ 23سالہ دامنی نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے داعی ٔ اجل کو لبیک کہا اور ہم سے سدا کیلئے دور موت کی آغوش میں چلی گئی۔ اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ صرف ہندستان ہی نہیں پڑوسی ممالک میں بھی زبردست احتجاج کیا گیا۔ مشرق سے مغرب (آسام سے ر اجستھان تک) اورشمال سے جنوب (کشمیر سے کنیا کماری تک ) اس کا چرچا ہے۔ اس درد ناک موت پر تقریباً سبھی ہندستانی خواتین کی آنکھیں نمدیدہ ہیں۔ اہل وطن نے اشکبار آنکھوں سے دامنی کو الوداع کہا ،وہ شرمناک واقعہ جو ہندستان کی راجدھانی دہلی میں ہوا اس کی ہر مکتبہ ٔ فکر کے لوگوں کی جانب سے پر زور مذمت کی گئی۔ شدید عوامی احتجاج میں اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ جس نے پارلیمنٹ کو ہلاکر رکھ دیا۔ دہلی جو ہندستان کا دارالحکومت ہے۔ اس کے تعلق سے شاعر نے کہا تھا:
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو!
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
وہ شہر جس کا شمار دنیا کے بہترین شہروں میں کیا جاتا رہا ہے۔ جہاں ہر روز غیر ممالک سے مختلف مقاصد کے تحت لوگ د ورہ کرتے ہیں۔ وہاں ہر روز کرپشن بڑھ رہی ہے۔ چوری ، رشوت خوری ، ڈاکہ زنی آئے دن کا معمول بن چکا ہے۔ کچھ برسوں قبل نوئیڈا میں بچوں کی چوری اور قتل کی خبر اخبارات کی شہہ سرخیوں میں تھی۔ جب ہندستان 1947 کو آزاد ہوا۔ تو اسی شہر دلی کے لال قلعے کی فصیل پر ترنگا لہرانے لگا۔ یونین جیک اتار لیا گیا اور آزادی ملی۔ جن کے دلوں میں برسوں سے یہ جذبات امڈ رہے تھے:
وہ وقت آنے کو ہے آزاد جب ہندوستاں ہوگا
مبارکباد اس کو دے رہا سارا جہاں ہوگا
علم لہرا رہا ہوگا ہماری رائے سینا پر
اور اونچا سب نشانوں سے ہمارا یہ نشاں ہوگا
15اگست 1947ء کو ہندستان آزاد ہوا اور پنڈت جواہر لال نہرو جیسے روشن خیال لیڈر آزاد ہندستان کے پہلے و زیر اعظم منتخب ہوئے۔ بابا صاحب بھیم رائو امبیدکر کی قیادت میں سیکولرزم اورجمہوریت کی بنیاد پر 26 جنوری 1950کو ہندستانی دستور اساسی کا نیا قانون نافذ ہوا۔ آج آزاد ہندستان میں دامنی کی موت نے ساری قوم کا ضمیر جھنجھوڑ کر رکھ دیاہے۔ یہ المناک واقعہ جمہوریت کے ماتھے پر کلنک ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ حالیہ واقعے سے عام لوگ سہمے ہوئے ہیں۔ جہاں ایک طرف ہم یہ کہتے ہیں کہ لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دی جائے جب ہی معاشرے میں انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ وہاں دوسری جانب بچیوں کو اعلیٰ تعلیم کے خواب شرمندۂ تعبیر ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں۔ کہتے ہیں۔ 
 
"Proper environment & Proper guidance are needed to arouse the talent"
لیکن Talent ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے Talentکوبروئے کار نہیں لاسکتی ہیں۔ آج ہندستان میں ایسے میڈیکل اور انجنیئرنگ کالج کی ضرورت ہے جو صرف خواتین کیلئے مخصوص ہو۔ جہاں کی فیکلٹی خواتین پر مشتمل ہو۔ اور بلا تفریق مذہب وملت لڑکیاں Medical Education (طبی تعلیم ) حاصل کرسکیںاور قوم وملت کے کام آسکیں۔حالیہ سروے رپورٹ سے عیاں ہے کہ ہندستان میں ڈاکٹر کی کمی ہے۔ یہاں خواتین ڈاکٹروں کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔ خواہ وہ Gynaecology Medicineیا Surgeryہو ہر میڈیکل شعبے میں خواتین ڈاکٹرس کی نمائندگی ضروری ہے۔ ان تمام باتوں کے پیش نظریہ امر قابل غورہے کہ آنے والی نئی نسل کیلئے میڈیکل اور انجنیئرنگ کالج برائے خواتین کا قیام عصر حاضر کی پکار ہے۔ اگر باریک بینی اور حقیقت پسندی سے غورکریں تو صاف شیشے کی طرح ہر پہلو سے عیاں ہے کہ موجودہ تعلیمی معیار میں اضافہ کرتے ہوئے بہت حدتک طالبات کے اخلاقی قدروں کو استوار کرناہے۔ ڈاکٹر، انجنیئر، پروفیسر کے ساتھ ایک شریف ، مخلص ، بااخلاق اور درد مند انسان بنانے کیلئے کلیدی رول اداکرنا ملت اور معاشرے کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔ اورنئی نسل میں شعوری فکر بیدار کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ ان کے اخلاق اطوار اور آداب کی آبیاری کرنا چاہئے۔ 
 
ہندستان کی کثیر آبادی صحت جیسے متعلق پریشانیوں سے دوچار ہیں وزیر صحت انو منی رام د و س نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ہندستان میں تقریبا ً 7لاکھ ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔ دیہی علاقوں میں ڈاکٹرس کی بہت کمی ہے۔ یہ تمام حالات زبان حال سے پکار رہے ہیں کہ ہندستان میں میڈیکل اور انجنیئر کالج برائے خواتین کا قیام اشد ضروری ہے۔ 
 
بلا امتیاز مذہب وملت ہماری بچیاں قوم کی خدمت کیلئے ہمہ وقت کو شاں رہتی ہیں۔ اعلیٰ تعلیم (میڈیکل اور انجنیئرنگ کی تعلیم ) حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ لیکن مخلوط تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کرنا آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اور بچیوں کی صلاحیتوں کو پنپنے سے پہلے ہی ہم اس کا خاتمہ کردیتے ہیں۔ علم وفن کا گہوارہ شہر نشاط میں اہل خیر حضرات کی کمی نہیں۔ اگر مخیرحضرات کا مالی تعاون ہوتو شاید بہت جلد میڈیکل اور انجیئرنگ کالج برائے خواتین کا قیام ممکن ہے۔ ہندستان کا شمار عظیم جمہوری ملک کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ اور صوبہ بنگال وہ ریاست ہے جہاں سے اٹھنے والا ہر ذرہ نیر اعظم ہوتا ہے۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ عزت مآب ممتا بنرجی خواتین کے مسائل بخوبی سمجھتی ہیں۔ ہمیں ان پر فخر ہے۔ محترمہ ممتا بنرجی کی شخصیت عظیم شخصیت ہے۔ وہ ایکتا اور اکھنڈ تا کی علمبردار ہیں۔ انشاء اللہ ہم اگر مل کر کوشش کریں تو مسئلے کا حل ممکن ہے۔ 
 
اس ضمن میں سیاستدانوں ، سماجی قائدین اور دانشوروں کو یکساں طور پر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انشاء اللہ بہت جلد اس کا حل ممکن ہے:
 
اگر کوشش کرے گا تو خدا اس کا ثمر دے گا
تیرا دامن وہی امید کے پھولوں سے بھردے گا
 
مختلف مذہب ، زبان ، تہذیب کے ہوتے ہوئے بھی ہندستان میں کثرت میں وحدت ہے۔ ہمارے دیش ہندستان میں جمہوریت کا پرچم کبھی سرنگوں نہیں ہوا۔ اور پڑوسی ملک کی طرح وطن عزیز پر آمر یت کاسایہ دیکھائی نہیں پڑا۔ ہندستانی جمہوریت کی شان ہے۔ ہمیں اپنی تہذیب کو اوراپنی ثقافت کو سنبھال کر رکھنا ہے۔ خواتین اور اطفال کے تحفظ کیلئے اقدامات کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ ورنہ مغربی تہذیب ، عریانیت ، فحاشیت ہمیں تباہی کے دہانے پرلاکھڑا کرے گی:
تمہاری تہذیب خود اپنے ہاتھوں آپ ہی خودکشی کرے گی
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
خدائے پاک رب العزت ہمیں نیک کام کرنے کی توفیق عطا کرے۔ ہمیں دل ِ درد مند اور حساس ذہنیت عطا کرے تاکہ ملت کے تئیں ہم اپنے فرائض پورے کریں۔ 
 
بشکریہ: مشتاق دربھنگوی
……………………………………………
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 843