donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Articles on Women -->> For Women
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mozaffar Nazneen
Title :
   Musalmano Mein Shadi Byah Aur Zat Beradri Ki Qaid

 

مسلمانوں میں شادی بیاہ اور ذات برادری کی قید  
 
ڈاکٹر مظفر نازنین ، کلکتہ  
(Mob:8444821721)
 
اردوئے ا دب کے مایۂ ناز، باعث افتخار، آسمان شاعری کے درخشاں ستارے ڈاکٹر سر علامہ اقبال  نے کیا خوب کہاہے:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر
آج سوسائٹی میں بہت سے لوگوں کو کہتے ہوئے دیکھا جاتا ہے کہ میرا تعلق فلاں برادری سے ہے۔ کسی انسان کی ذاتی شخصیت کی پیمائش اسکی برادری سے نہیں بلکہ اسکی اپنی ذات سے کی جاتی ہے۔ جسے انفرادیت یا (Individual isation)  کا نام  دیا گیا۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ اچھے اور برے ہر طرح کے لوگ ہر برادری اور ہرقوم میں ملیں گے۔ سرور کائنات ،خاتم الانبیا ، نور مجسم ، پیارے نبی ؐ کا تعلق ہاشمی گھرانے سے تھا۔ پیارے نبی ؐ نے بادشاہی میں فقیری لی اور بے کسوں کی دستگیری کی۔ اسلام ہمیں امیر، غریب ،خوبصورت ، بے پناہ حسین سے لیکر قبول صورت ،قد آور شخصیت سے لیکر پستہ قد ، رنگ روپ اور نسل سے کسی طرح کا امتیاز برتنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام ایک سچا اورنکھر ا ہوا مذہب ہے۔ جس نے مساوات کے حقوق دیئے۔ جہاں نسلی تعصب نہیں پایا جاتا۔ ہم سب شہنشاہ دوجہاں ، تاجدار مدینہ ، حبیب خدا ، سرکار دوعالم احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں۔ ہم خدا کی وحدانیت کوماننے والے ہیں۔ توحید کی امانت ہمارے سینے میں ہے۔ ہم عاشق رسول اور محب نبی ہیں۔ اگر کسی کو اس سے انکار ہے تو وہ اسلام سے خارج  ہے۔ آج ہم اپنی اولاد کو دنیاوی اور دینی تعلیم سے آراستہ  کر رہے ہیں لیکن تعلیم کا بنیاد ی مقصد کیا ہے ؟ تعلیم کا بنیادی مقصد اچھے برے کی تمیززبان وتہذیب کی حفاظت کے ساتھ لب ولہجے کا شائستہ ہونا ہے۔ انداز گفتگو میں حسن ، تلخ باتوں میں شیرنی ، لطافت اور ظرافت کی چاشنی ہو۔ تعلیم کا یہ بنیادی مقصد ہے۔ آج چاہے کوئی مسلم ہو یا غیر مسلم تعلیم کی اہمیت ہر خاص وعام میں بدرجۂ اتم موجود ہے۔ ہر باشعور ذہن تعلیم کے جذبے سے سرشار ہے۔ آج قوم مسلم کو اعلیٰ تعلیم کی ضرورت ہے۔ تعلیم ہی وہ اسلحہ ہے جس نے دنیا کو جنت نشاں بنادیا۔ سلیقہ اور شعار کا براہ راست تعلق تعلیم سے ہے۔ سوسائٹی میں معزز مقام حاصل کرنے کیلئے تعلیم ہی واحد سہارا ہے۔ تعلیم اور صرف تعلیم ہی وہ خوبصورت زینہ ہے جس پر چڑھ کر انسان کامیابی کی بلندیوں کو چھو سکتا ہے۔ اسی کی بدولت چاند اور سیاروں کی تسخیر ہوچکی ہے۔ چاند اور مریخ پرکمند ڈال چکے ہیں۔ آج اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب بچے اور بچیوں کے رشتے کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں تو بیشتر مسلمانوں میں ذات اور برادری کو خاص مد نظر رکھا جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا تعلق فلاں برادری سے ہے اور اس مخصوص برادری کے یہ تقاضے ہیں جن کو پوراکرنا ان کے لئے لازمی ہوتا ہے۔بعض اوقات برادری کے لوگوں سے ان کی مقابلہ آرائی ہوتی ہے کہ کون کس پر سبقت لے جاسکتا ہے۔ اور اس مقابلے آرائی میں جو شادی کی تقریب میں جتنے زیادہ اصراف کریں ان کا شمار معتبر اور متمول شخصیت کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ بعض اوقات برادری میں معقول رشتہ نہ ملنے پرلڑکیوں کی شادی دوسری برادری میں کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ دوسری برادری میں معقول ، موزوں اور مناسب رشتے دستیاب ہیں۔ کچھ روشن خیال والدین اگر ایسا کریں تو انہیں تنقیدی اورمشکوک نظرو ں سے دیکھا جاتا ہے۔کسی کی کردار کشی کی جاتی ہے تو کبھی Social by Cott کیاجاتا ہے۔ ہم نے بہت سی شادی رسم منگنی ، گیٹ ٹوگیدر ،محفل میلادالنبی ؐ اور بہت سی سوشل پارٹی میں لوگوں کو کہتے دیکھا ہے کہ ان کا تعلق ہماری برادری سے نہیں کسی مخصوص برداری کے لوگ دوسری برادری کے لوگوں سے گفتگو کرنا بھی گناہ سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ بڑی شان ، بان سے اپنی برادری کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں شادیوں میں کافی پیسے صرف کئے جاتے ہیں۔ اور بڑا ہی اہتمام کیا جاتا ہے۔ اور اس طرح اپنی عظمت اوربرادری کی عظمت کا اعتراف کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑتے۔ یہ تمام باتیں غیر اسلامی اور غیر شرعی ہیں۔ یہ باتیں اسلامی شریعت کے خلاف جاتی ہیں۔ کچھ سادہ لوح انسان متمول اور باحیثیت لوگوں کی تقلید کرتے ہیں جبکہ ہمیں قرآن اورحدیث کی روشنی میں مطالعہ کرکے کسی نتیجے پر پہنچنا چاہئے۔ یہ فخر یہ انداز جو برداری کی عظمت کیلئے ہوتا ہے۔ خدا اور رسول کو بھی ناپسند ہے۔ اور یہ انداز تکبر انہیں بحرعصیاں میں غرقاب کردیتا ہے۔رشتے کے لئے ہڈیوں کو دیکھا جاتا ہے۔ کہ لڑکے والوں یا لڑکی والوں کا شجرہ ٔنسب کہاں سے ملتا ہے۔ نسب اورحسب کو فوقیت دی جاتی ہے۔ کہاجاتا ہے کہ ہمارا تعلق فلاں گائوں یا شہر سے ہے۔ مثلاًکسی کے آباواجداد بہار یا یوپی سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن آج ان کی بھی یہی حیثیت ہے جیسا کہ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر ؔ کو انگریزی حکومت نے جلاوطن کرکے رنگون بھیج دیا۔ جہاں انہوں نے اپنے لرزیدہ ہاتھوں سے قلم کو جنبش دے کرشکستہ دل اور چشم پرنم اس شعر کو رقم کیا تھا:
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لئے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
شہر نشاط میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جن کے پرکھوں کو کوئے یارمیں دو گززمین نہ ملی اور ایسے بیشمار وطن پرستوں کو  شہر نشاط نے اپنی آغوش میں سمولیا۔ جن ہڈیوں کو وطن عزیز میں، ڈھونڈتے ہیں وہ بوسیدہ ہڈیاں دیار غیر میں مدفون ہیں۔ برادری کو لیکر رشتے کو مسئلہ بنانے کاکوئی جواز نہیں ہے۔ معقول ، معیاری رشتہ ہی اصل مقصد ہے تاکہ زندگی کامیاب اور خوشگوار ہو۔ جوانسان جہاں رہتا ہے اس خاک سے ، اس سرزمین سے اسے والہانہ محبت ، رغبت اورانسیت ہوتی ہے۔ بنگال کی تہذیب اردو اور بنگلہ تہذیب کا منارہ نورہے۔ بس قوم مسلم کے سینے میں خوف خدا ہوتا ہے۔ اس کے سینے میں اسلام کا دل دھڑکتا ہے۔ اسلام ایسی تعلیم دیتا ہے جو علم نافع ، عمل صالح اور اخلاق فاضلہ سے عبارت ہو۔ نکاح کا شرعی حکم ہے۔ حدیث شریف میں ارشاد ہے۔ النکاح من سنتی ، فمن رغب عن سنتی فلیس منی(الحدیث) یعنی نکاح سنت کی پیروی ہے، دولت کی نمائش نہیں۔ امراء ، روساء اور باذوق شادی سے پہلے مختلف قسم کے پروگرام (میوزک ،شادیانے ) کا اہتمام کرکے اپنی ثروت ،جاہ وحشمت کی نمائش کرتے ہیں۔ اسے (Pre-wedding music & song Concert)کانام دیاجاتا ہے۔ ایسا کرکے خدا کی خوشنودی حاصل نہیں ہوتی۔ بلکہ نکاح کو سہل بنانا شرعی حکم ہے۔ پیارے رسول ،  آنحضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو آسان ترین بنانے کا حکم دیا ہے۔ اس طرح سے سنت کی پیروی کرکے خدا اور رسول کی خوشنودی حاصل کی جاسکتی ہے۔ خدا ہرمسلمان کو سنت کی پیروی کرنے کی توفیق عطا کرے۔ چھوت چھات کا بھید بھائو آج بھی ہندوئوں میں ہے لیکن مسلمانوں کی ایک مسجد ہے۔ مسلمان ایک خداکی پرستش کرتے ہیں۔ ایک گھڑے کا پانی پیتے اور ایک ہی صف میں نماز پڑھتے ہیں:
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
خوشی کے پرمسرت موقع (عید الفطر، عیدالاضحیٰ) پر بلاامتیاز امیرو وغریب باہم گلے مل کر بغل گیر ہوکرایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ یہ اسلامی شان ہے۔ اور اس طرح خلوص اور اخلاق کا بہترین نمونہ پیش کرتے ہیں۔ کلچر ، ز بان ، تہذیب کا تعلق تعلیم سے ہے برادری سے نہیں۔ خدا ہم سبھوں کو اسلام کے پرچم تلے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر دنیا و آخرت میں کامیابی اور کامرانی عطا کرے۔ کار ثواب کی توفیق عطا کرے۔ ہم سب ملنسار با اخلاق اور خلوص کے پیکر ہوں۔ نورمجسم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل کریں۔ ان کی اتباع کریں۔ خدائے پاک برتر وبالا ہمیں کامل ایمان عطاکرے تاکہ ہم قوت ایمانی کا پرجوش مظاہرہ کرسکیں:
آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا
 
بشکریہ: مشتاق دربھنگوی
***********************
Comments


Login

You are Visitor Number : 869