donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Articles on Women -->> For Women
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar Me Aurton Ke Liye 35 Feesad Seat Makhsoos Aur Musalman


بہارمیںعورتوں کے لئے ۳۵ فیصد سیٹیں مخصوص

اورمسلمان


٭ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج،دربھنگہ

 ای میل: rm.meezan@gmail.com

Mob.-09431414586


    نتیش کمارکے متعلق اکثر یہ بات کہی جاتی ہے کہ وہ آج کی سیاست میں اس معنی میں اپنی انفرادیت رکھتے ہیں کہ وہ عام روش سے ہٹ کر سیاست کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اپنے انتخابی وعدوں کو بھی پورا کرنے میں دیگر رہنمائوں کے مقابلے اولیت رکھتے ہیں۔ حالیہ اسمبلی انتخاب کے دوران ہی انہوں نے مختلف عام اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ان کی حکومت قائم رہتی ہے تو وہ ریاست کی سرکاری ملازمتوں میں عورتوں کو ۳۵ فیصد ریزرویشن دیں گے۔ حکومت سازی کے بعد بھی کئی جلسوں میںانہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ جلد ہی اپنے اس اعلان کو عملی جامہ پہنائیں گے۔ لہٰذا گذشتہ  ۱۹ جنوری ۲۰۱۶  کو بہار کابینہ کی میٹنگ میں یہ اہم فیصلہ لیا کہ اب بہار سرکار کی تمام ملازمتوں میں عورتوں  کے لئے ۳۵ فیصد سیٹیں مخصوص ہوں گی۔ واضح ہو کہ حال ہی میں نتیش کمارنے محکمۂ پولس کی بحالیوں میں عورتوں کے لئے ۳۵ فیصد ریزرویشن کا اعلان کیا تھا۔ اب جبکہ کابینہ سے تمام ملازمتوں میں عورتوں کے لئے مذکورہ سیٹیں ریزرو کر دی گئی ہیں تو اس کا خاطر خواہ فائدہ عورتوں کو ملے گا۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری معلوم پڑتا ہے کہ بہار ملک کی پہلی ریاست ہے جہاں پنچایت اور بلدیاتی انتخاب میں بھی عورتوں کے لئے ۵۰ فیصد سیٹیں مخصوص ہیں۔ جس کی وجہ سے گذشتہ ایک دہائی سے بہار کی سہ سطحی پنچایتی انتخاب میں عورتوں کی حصہ داری بڑھی ہے اور سیاسی محاذ پر عورتوں نے اپنی زبردست سیاسی موجودگی کا احساس کرایا ہے۔ حالیہ حکومت کے فیصلہ سے سرکاری دفاتر میں بھی عورتوں کی حصہ داری میں اضافہ ہوگا اور اس سے سماجی تانا بانا بھی مستحکم ہوگا۔ کیونکہ ہماری پچاس فیصد آبادی نسواں پر مشتمل ہے اور اگر انہیں مین اسٹریم سے الگ رکھا جائے گا تو حکومت سماجی فلاح کے جس نشانے کو حاصل کرنا چاہتی ہے اسے وہ پورا نہیں کر سکتی۔ شاید اسی لئے نتیش کمار نے اس طرح کا تاریخی فیصلہ لیا ہے۔ مگر اس ریزرویشن پالیسی سے اقلیت طبقے کو خسارے کا بھی امکان ہے کیونکہ اقلیت طبقے میں عورتوں کی خواندگی کی شرح بہت ہی کم ہے اور جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ان میں نوّے فیصد کی سرکاری ملازمت کی طرف توجہ نہیں ہے۔ دوسرا نقصان یہ ہوگا کہ جنرل کوٹہ یعنی پچاس فیصد میں اب ۳۵ فیصد سیٹیں عورتوں کے لئے مخصوص ہوں جائیں گی۔ اس کا خسارہ بھی کسی نہ کسی طرح اقلیت طبقے کو اٹھانا ہوگا۔ مثلاً اس وقت بہار میں جو ریزرویشن پالیسی ہے اس کے مطابق ایس سی ۱۶ فیصد، ایس ٹی ایک فیصد، ای بی سی ۱۹  فیصد اور بی سی ۱۲ فیصد ہے۔ جبکہ جنرل زمرے کے لئے پچاس فیصد ہیں۔ اب جنرل زمرے کے ۵۰ فیصد سیٹوں میں سے ۳۵ فیصد یعنی ۱۷ اعشاریہ ۵ فیصد سیٹیں اسی زمرے کی عورتوں کے لئے مخصوص ہو جائیں گی۔ ظاہر ہے کہ اس کا خاطر خواہ فائدہ انہیں حاصل ہوگا جو سماج میں تعلیمی اعتبارسے مستحکم ہیں۔ غرض کہ اعلیٰ ذات میں برہمن، بھومیہار، راج پوت، کائستھ وغیرہ کیٹوگری کی عورتیں نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں بلکہ سرکاری ملازمتوں کی طرف شروع سے ہی ان کا رجحان رہا ہے اور ان کا ذہن مسابقاتی و مقابلہ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں غیر مسلم طبقے میں پسماندہ طبقے اور منجملہ مسلم طبقے کی عورتوں کو اس کا بہت زیادہ فائدہ نہیں مل پائے گا۔ البتہ مجموعی اعتبار سے عورتوں کے لئے نتیش حکومت کا یہ فیصلہ تاریخی ثابت ہو سکتا ہے۔اسی طرح ایس سی کو جو ۱۶ فیصد ریزرویشن ہے اس میں اب اسی زمرے کی عورتوں کے لئے ۵  اعشاریہ  ۶ فیصد اور ایس ٹی کو ایک فیصد ریزرویشن ہے اس میں اسی زمرے کی عورتوں کے لئے صفر اعشاریہ ۳۵ فیصد مخصوص ہو ںگی۔ انتہائی پسماندہ طبقہ کے لئے اس وقت ۱۹  فیصد ریزرویشن ہے، اب اسی زمرے کی عورتوں کے لئے ۳۵ فیصد یعنی کل ریزرویشن کا ۶  اعشاریہ ۳  فیصد مخصوص ہو جائے گا۔ واضح ہو کہ انتہائی پسماندہ طبقہ کی عورتوں کے لئے پہلے سے جو تین ریزرویشن تھا وہ بھی جاری رہے گا۔ اس لئے سرکاری ملازمتوں میں عورتوں کی حصہ داری کے مواقع زیادہ ہوں گے۔ اگرچہ ہندستان کی دوسری کئی ریاستوں میں بھی عورتوں کے لئے اس طرح کے ریزرویشن کا اہتمام ہے۔ مثلاً گجرات، کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں بھی عورتوں کو ۳۳ فیصد ریزرویشن حاصل ہے۔ لیکن اب جبکہ بہار میں مجموعی طور پر عورتوں کو ۳۵ سے ۳۷ فیصد تک ریزرویشن ملنے کا راستہ ہموار ہو گیا ہے تو اس معاملے میں بھی بہار کو اولیت حاصل ہو گئی ہے۔ یہاں اس باب کا ذکر بھی ضروری ہے کہ بہار حکومت نے شعبۂ تعلیم میں کنٹریکچیول اساتذہ کی بحالی میں بھی عورتوں کو ۵۰ فیصد ریزرویشن دے رکھا ہے۔ اس اعتبار سے بھی نتیش کمار کوملک میں یہ اولیت حاصل ہے کہ وہ عورتوں کی ترقی کے معاملے میں دیگر سیاسی رہنمائوں سے کہیں زیادہ سنجیدہ ہیں۔بالخصوص حالیہ اسمبلی انتخاب میں عورتوں کی ووٹ پولنگ فیصد میں کافی اضافہ ہوا تھا اور اس کا خاطر خواہ فائدہ نتیش کمار کو ملا ہے۔ اس کا بھی انہیں احساس ہے۔اس لئے انہوں نے اپنے انتخابی وعدوں کی کڑی میں عورتوں کے لئے ریزرویشن کو عملی جامہ پہنانے میں پہل کی ہے۔ یوں تو اس نئی حکومت میں نتیش کمارکی کارکردگی سابقہ حکومت سے قدرے مختلف ہے۔ وہ تمام تر محکموں کی کارکردگی میں خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں اور ماہانہ جائزہ میٹنگ کے ذریع متعلقہ محکمہ کی کارکردگی پر نظر رکھتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے اردو کے متعلق بھی کئی اعلانات کئے ہیں اور اس کو عملی صورت دینے کے لئے کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اردو کا مسئلہ کب تک حل ہو پاتا ہے۔اسی طرح ریاست میں شراب بندی کا بھی فیصلہ ایک تاریخی فیصلہ ثابت ہوگاکہ یکم اپریل ۲۰۱۶ ء سے مکمل طور پر دیسی شراب پر پابندی عائد ہو جائے گی۔ کہا جارہا ہے کہ اس کے بعد دیگر غیر ملکی شرابوں کی فروخت پر بھی پابندی لگائی جائے گی۔ بلاشبہ شراب پر پابندی سماجی برائیوں پر روک لگانے میں معاون ہوں گی۔


     بہرکیف، عورتوں کے لئے سرکاری ملازمتوں میں ۳۵ فیصد ریزرویشن ایک تاریخی فیصلہ ہے۔ جہاں تک اقلیتی طبقے کا سوال ہے تو پہلے ہی ذکر آچکا ہے کہ اس ریزرویشن پالیسی کا خاطر خواہ فائدہ انہیں اسی وقت مل سکے گا جب اقلیتی طبقہ تعلیم نسواں کے تئیں بیدار ہوگا اور شروع سے ہی مسابقاتی ذہن سازی کے تئیں سنجیدہ ہوگا کیونکہ عورتوں کے زمرے میں ان کا مقابلہ جن طبقوں کی عورتوں سے ہونا ہے وہ ان سے سو گنا زیادہ ترقی یافتہ ہیں اور تعلیمی اعتبارسے بھی ان کی شرح زیادہ ہے۔ اگر حکومت مسلمان عورتوں کے لئے کوئی ریزویشن کوٹہ طے کرتی تو شاید اس طبقے کو خاطر خواہ فائدہ ہوسکتا تھا۔ لیکن میرے خیال میں چونکہ ہمارے یہاں مذہب کی بنیاد پر کسی طرح کی مراعات پر سیاست ہونے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی حکومت مسلمانوں کے لئے الگ سے کوٹہ طے کرنے سے کتراتی ہے۔ اور جہاں کہیں اعلان بھی ہو ا ہے تو وہ اعلان قانونی دائو پیچ کی نذر ہو کر رہ گیا ہے۔ البتہ تامل ناڈو میں مسلمانوں کے لئے الگ سے ریزرویشن ہے جس کا خاطر خواہ فائدہ وہاں کے مسلم طبقے کو مل رہا ہے ۔مختصر یہ کہ بہار میں عورتوں کی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے حکومت کا یہ فیصلہ وقت کی ضرورت ہے اور اس سے نہ صرف عورتوںکی تقدیر بدلے گی بلکہ ہمارے سماج کی تصویر بھی بدلے گی۔     


***************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 929