donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Articles on Women -->> For Women
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Syed Ayaz Ahmad Roohvi
Title :
   Khwateen Ke Liye Maqool Dress Code Nafiz Kiya Jaye

 

خواتین کیلئے معقول ڈریس کوڈ نافذ کیاجائے 
 
سـیـد ایاز احـمـد روہــوی   کلکتہ
(Mob.:9339150332)
 
گزشتہ دنوں دہلی میںانسانیت کو شرمندہ کردینے والا واقعہ صرف ہماری تہذیب وتمندن کو ہی شرمسار نہیں کر گیا بلکہ اس واقعے نے ا پنے پیچھے ایسے بہت سارے سوالات چھوڑ دیئے ہیں جن کا جواب ہماری مہذب قوم کے ہر فرد کو دینا ہے۔ سوالوں کے درمیان سب سے اہم سوال یہ ہے کہ حکومت نے اب تک خواتین کی عزت و آبرو کے تحفظ کے لئے کون سی تدابیر اور اصول وضوابط وضع کئے ہیں؟ آبروریزی کے اس شرمناک واقعے کے خلاف کیا ملک کے نوجوانوں اور دوشیزائوں کا انڈیا گیٹ ، جنتر منتر اور پار لیمنٹ کے چکر کا ٹ کر مظاہرہ کرلینا یا پھر موم بتیاں روشن کرکے خاموش احتجاج اور اظہار یکجہتی کی نمائش مسئلے کا حل ہے ؟ کیا ہندستانی فلم اور میڈیا خواتین کی آبروریزی کے واقعے میں اضافے کا ذمہ دار اس بنا پر نہیں ہے کہ وہ ہماری تہذیب و ثقافت کو ناپید کرکے یوروپی کلچر کی نقالی کے فروغ کے تحت ہماری خواتین کو اسکرین پر ایک جنسی تسکین کاسامان بناکر پیش کررہا ہے۔ عصمت دری کے حالیہ افسوسناک واقعہ کے پیش آنے کے بعد پوری قوم حکومت سے مطالبہ کررہی ہے کہ مجرمین کو سزائے موت دی جائے لیکن اس فعل قبیح کے پس منظر میں پوشیدہ سوالات کو اجاگر کرنے سے گریز کیا جارہا ہے۔ آخر ٹی وی اسکرین پرکوئی یہ سوال اٹھانے کی ہمت کیوں نہیں کرتا کہ کیا تنگ لباس خواتین کی حرمت کی پامالی کی اصل وجہ نہیں ہے؟ ہم صرف 16 دسمبر کے واقعہ پر ہی واویلا کیوں مچا ئیں ؟ کیا ایسا واقعہ اپنے ملک میں پہلی بار پیش آیا ہے ؟ کیا یہ ا پنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جب ایسی مذموم حرکت کے ذریعے انسانیت اور ہماری تہذیب کو پامال کیا گیا ہے؟ اس نوعیت کے نہ جانے کتنے سوال ہیں جو ذہن و دل میں کچوکے لگا رہے ہیں۔ حالیہ واقعہ نے بے شک مجموعی طور پر ملک کے فرد کو متاثر کیا ہے اور اس ظالمانہ عمل کے خلاف ملک کے تمام افراد کا ایک آواز ہونا فطری عمل ہے۔ ظالموں کو سخت سزا ملنی ہی چاہئے۔ لیکن کیا ظالموں کو سزامل جانے سے آبرو ریزی کی واردات بند ہو جائے گی ؟ ہندستان کی ایک تحقیقاتی ایجنسی نے اپنے سروے میں بتایا ہے کہ ہمارے ملک میں ہر40 منٹ پر ایک عورت کی عصمت دری ہوتی ہے۔ ہر گھنٹے ایک عورت جنسی استحصال کا شکار ہوتی ہے۔ ہر 25منٹ پر چھیڑخانی کا واقعہ رونما ہوتا ہے۔ بہت ساری واردات اس طرح انجام دی جاتی ہیں جس میں ثبوت کا نام ونشان مٹا دیا جاتا ہے یا پھر متاثرہ خاتون یا اس کا خاندان سماج میں شرندگی کے سبب اس واقعے کو خاموشی سے ہضم کرجاتا ہے۔ ایسے واقعات اپنے ملک میں تقریبا ً روزمرہ کا معمول ہیں لیکن اس بڑھتے واقعے کی وجوہات پر غور وفکر کرنے کے لئے کوئی تیارنہیں۔ مجرموں کو سزا دینے کی بات تو خوب زور وشور سے کی جارہی ہے لیکن حقیقی مجرم کی طرف توجہ د ینے کیلئے کوئی تیار نہیں ہے۔ کوئی مجھے بتائے کہ کیا عریانیت اور فحاشی کی تشہیر ایک مجرمانہ فعل نہیں ہے ؟ کیا ایک مہذب ملک میں فیشن پر ستی کی آڑ میں ہر مہنگی اور جسم کی نمائش مردوں کے جذبات کو بر انگیختہ کرکے انہیں حیوانی عمل کو انجام دینے کی دعوت نہیں دیتی۔ 
 
افسوس کی بات ہے کہ آج پوری قوم عصمت دری کے بڑھتے واقعے کی ظالمانہ روش سے انتہائی پریشان ، فکر مند اور سراپا احتجاج ہے لیکن اس سے بچنے کی تدابیر کی طرف کسی کی نگاہ نہیں جاتی تاہم اہل فکر اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ ایسی تدابیر کو اپنایا جائے جس سے معاشرہ اس مذموم روش سے پاک ہوسکے۔ زنا باالرضا ہو یا زنابا الجبر دونوں گناہ عظیم ہیں۔ مگر ہمارے ملک ہندستان کی بدنصیبی یہ ہے کہ یہاں اس قدر فحاشی کا کلچر عام ہوگیا ہے کہ زنابالرضا کو گناہ یا قابل جرم نہیں سمجھا جاتا۔ بدقسمتی سے ہمارے برادران وطن اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ زنا بالرضا بھی جبری عصمت د ری کی ر اہ ہموار کرتا ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب میں خصوصی طورپر پر مذہب اسلام میں زنا کاری ایک سنگین جرم ہے خواہ وہ باہمی رضا مندی سے کی جائے یا پھر غیر رضا مندی سے۔ مذہب اسلام دونوں صورت میں زانیوں کو سنگسار کردینے کا حکم دیتا ہے۔ ہمیں سب سے پہلے خواتین کی عصمت وعظمت کی حفاظت اور اسکے تاراج کرنے والے مختلف عوامل پر غور کرنا ضروری ہے۔ اس بات سے شاید ہی کسی کو ا نکار ہوکہ جدید یت کے نام پر آج ہندستانی خواتین یوروپی کلچر کی نقالی کرتے ہوئے فحاشی کے تمام حدود کو پارکررہی ہیں۔ خواتین ایسی تنگ اور عریاں لباس زیب تن کرکے گھر سے باہر نکل کر مردوں کے دوش بدوش چل رہی ہیں جس سے مردوں کے جنسی جذبات کا بھڑکنا لازمی امر ہے۔ عریاں لباس میں ان کی پرکشش ادائیں فحاشی اور جنسی دست درازی کو فروغ دے رہی ہیں۔ آج نوجوان لڑکے لڑکیاں موبائل اور نیٹ پر فحش تصویر یں اور فلم دیکھ کر نہ صرف وقت سے پہلے بالغ ہورہے ہیں بلکہ خوب خوب ذہنی عیاشی میں مبتلا ہورہے ہیں۔مگر افسوس کہ اس کے خلاف ہندستانی عوام کو ئی تحریک چلانے سے قاصر ہیں۔ عوام حکومت ہند سے ایسے قانون کے نفاذ کا مطالبہ کیوں نہیں کرتا جس کی رو سے خواتین کو ایک معقول اور باعزت ڈر یس کوڈ کے دائرے میں لایا جاسکے نیز ذہنی عیاشی فراہم کرنے والی ویب سائٹس اور نیٹ پر لگام کسی جائے۔ فحش فلموں کے ریلیز پر روک لگائی جائے نیز فلموں کے مخرب اخلاق حصوں پر سختی سے سنسر شپ کے عمل کو لاگو کیا جائے۔ جیساکہ ماضی میں ہوا کرتا تھا۔ آج ضرورت ہے کہ جنسی بے راہ روی کے فیشن پر پابندی لگائی جائے ساتھ ہی ساتھ مشرقی تہذیب کو مختلف نوعیت سے فروغ دیتے تنگ اور پرکشش لباس پر سختی سے قدغن لگانے کی ضرورت ہے تاکہ مردوں کے جذبات نہ بھڑکیں۔ الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے عریاں اشتہار کی نمائش پر سنسر لگائی جائے۔ 
 
آج مغربی کلچر کو اپنانے کا نتیجہ یہ ہے کہ عورت محض جنسی لذت حاصل کرنے کاسامان بنکر رہ گئی ہے اور اس کی عزت و آبرو آئے دن نیلام ہورہی ہے جبکہ مغربی ممالک کی خواتین اپنی آزادانہ روش اورکلچر سے بیزار ہوکر دامن اسلام میں پناہ لے رہی ہیں اور نقاب کو اپنا کر خود کو محفوظ محسوس کررہی ہیں۔ وہ اپنے معاشرے کی بے راہ روی اور بدچلنی سے عاجز آکر اسلام کی پاکیزہ آفاقی تعلیم اور خواتین کے متعلق احترام کی واضح ہدایت سے متاثر ہوکر مذہب اسلام کے پیغام اور اس کی آفاقیت سے لگاوٹ محسوس کررہی ہیں نیز اس مذہب میں خود کو محفوظ تصور کرتی ہیں مگر ہمارے یہاں صورتحال اس کے برعکس ہے کہ ہم مغرب کی چھوڑی ہوئی تہذیب کی نقالی کرتے ہوئے اپنی اعلیٰ تہذیبی ورثے کو خیر باد کہہ کر تباہی کو دعوت دے رہے ہیں۔ اوپر سے ستم یہ کہ آزادی نسواں کا راگ الاپنے والے عناصر نے ہماری تہذیبی وراثت کو خواتین کی ترقی میں رکاوٹ کا ذریعہ قرار دیکر حوّا کی بیٹیوں کے ناموس پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ 
 
عورتیں ہمارے گھروں کی زینت ہیں۔ ان کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں اور بلا ضرورت باہر نہ نکلیں اور اگر کسی ضرورت کے تحت باہر نکلنا بھی ہو تو زیب وزینت کرکے نہ نکلیں مذہب اسلام کا یہی حکم ہے اس میں پوشیدہ حفظ و امان کا ا عتراف صداقت پسند غیر مسلم بھی اعلانیہ کرتے ہیں ابھی گزشتہ دنوں اروند کیجریوال اور تاملناڈو میں مشہور مدورائی مٹھ کے مہنت اچاریہ سوامی گل کا دہلی عصمت دری معاملہ کے پس منظر میں یہ برملا اعلان کہ ہندستانی لڑکیاں عصمت دری کی شکار ہونے سے بچنے کے لئے ’’مسلم خواتین کی طرح ’’پردہ ‘‘کا اہتمام کریں ، یقینی طورپر مذہب اسلام میں خواتین کی آبرو کی حفاظت کی عدیم المثال حقانیت کو واضح کرتا ہے۔ اروند کیجر یوال اور سوامی اچاریہ گل مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوںنے خواتین کی آبرو کی حفاظت کے تعلق سے مذہب اسلام کی پاکیزہ ہدایت اور حفاظتی تدبیر کو برادران وطن کے ذہن میں اعلانیہ انتہائی جرأت مندی کے ساتھ گوش گزار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے علاوہ آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت اور راجستھان کے ایک بھاجپائی وزیر نے بھی خواتین کی عریانیت کی سخت لفظوں میں مذمت کرتے ہوئے انہیں معقول لباس زیب تن کرنے کی تلقین کی ہے۔ 
 
زمانہ جاہلیت میں عورتوں کی عادت تھی کہ وہ گھروں میں کم اور باہر ز یادہ ہوتی تھیں اور وہ بھی پورے زیب وزینت کے ساتھ نکلتی تھیں یہی وجہ تھی کہ ان کی عزت وعفت کی کوئی وقعت نہیں ہوتی تھی اسکو قرآن نے زمانہ جاہلیہ سے تعبیر کیا ہے لیکن یہ چیز باعزت اور شرفا کی عورتوں کے لئے مناسب نہ تھی اس لئے اسلام نے انہیں گھروں میں رہنے کا حکم دیا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسلام نے انہیں گھروں میں قید کرکے رکھ دیا ہے اور تعلیم وتربیت اورترقی کے سارے دروازے انکے لئے بند کردیئے۔ ضرورت کے تحت انہیں گھروں سے نکلنے کی اجازت ہے البتہ یہ کہا گیا ہے کہ باہر نکلتے وقت خواتین بنائو سنگار کا اہتمام نہ کریں کیونکہ اس سے کشش پیدا ہوتی ہے اور وہ وحشی لوگوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اگر خواتین مہذب لباس میں ملبوس ہوکر باہر نکلیں تو یقینی طورپر جس مرد کی بھی نظر ان پر اٹھے گی وہ عزت و توقیر کی ہوگی اس کے برعکس اگر لباس تنگ اور نشیب وفراز نمایاں ہونگے تودیکھنے والوں کے دل میں بدخیالی پیدا ہونا فطری امر ہے نتیجتاً اس سے ناموس نسواں کوخطرہ ہونا لازمی ہے لہذا آج کی صورتحال میں ضروری ہوگیا ہے کہ حکومت سختی سے خواتین کے لباس کا ایک معقول معیار متعین کرے اسی میں خواتین کے ناموس کی حفاظت کا راز پوشیدہ ہے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ خواتین کی عریانیت نے ہی عصمت دری کے واقعے میں اضافہ کیا ہے۔ جب تک عریاں لباس ، فحش اشتہارات ، بلیو فلموں اور ملک میں شراب کی بلا روک ٹوک خرید و فروخت پر پابندی عائد نہیں کی جاتی اور ثقافتی اور تہذیبی بیداری کو عام نہیں کیا جاسکتا عصمت دری کے واقعات رونما ہوتے رہیں  گے خواہ مجرمین کو کتنی ہی سخت سزاکیوں نہ دے دی جائے۔ 
…………………………………
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 801