donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Articles on Women -->> For Women
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Unknown
Title :
   Films Aur High Society Ismat Dari Ki Asal Wajah

فلمز اور ہائی سوسائٹی عصمت دری کی اصل وجہ 
 
سخت قانون اور پولس سی کچھ نہیں ہونی والا، سماج تبدیل ہو اور نام نہاد تحریک روکی جائی
گزشتہ دنوں اندور کی ایک وکیل کملیش واسوانی نی کورٹ میں ایک عرضی داخل کرکی کہا کہ عورتوں کی خلاف جو بھی جرم ہو رہی ہیں ان کی لئی بہت حد تک ذمہ دار انٹرنیٹ پر آسانی کی ساتھ موجود پورن سائٹ ہیں۔ ابھی اس پر بحث ہو رہی تھی کہ مشرقی دہلی کی گاندھی نگر میں پانچ سال کی بچی کی ساتھ درندگی سی گینگ ریپ کی خبریں آنی لگی اور اس خبر کی درمیان یہ کہیں دب کر رہ گئی۔ جبکہ اگر دیکھا جائی تو وکیل کملیش واسوانی کی یہ بات سو فیصد درست معلوم پڑتی ہی اور ویسی بھی پولس کی تفتیش میں یہ بات سامنی آ چکی ہی کہ 
ملزم منوج نی عصمت دری کی پہلی دوستوں کی ساتھ شراب پی کر بلیو فلم دیکھی تھی۔ پولس کو ملزم منوج کی موبائل میں کئی فحش کلپ بھی ملی تھی۔
 
موجودہ اعداد و شمار بتاتی ہیں کہ آج 20 کروڑ سی زیادہ پورن ویڈیو انٹرنیٹ میں پڑی ہوئی ہیں، جنہیں کوئی بھی ڈاو¿ن لوڈ کرکی دیکھ سکتا ہی۔ ان پورن ویڈیو میں عورتوں کی ساتھ ظلم، پرتشدد رویی، عصمت دری، بچوں کی ساتھ جنسی تعلق وغیرہ دکھائی جاتی ہیں لیکن ہماری سماج اور حکومت کو یہ کیوں نہیں لگتا کہ نادان بچوں کی ذہن پر ان سب کا برا اثر پڑتا ہی اور ممکن ہی کہ اس کی نتیجی میں عصمت دری اور عورتوں کی ساتھ تشدد جیسی جرائم میں اضافہ ہورہا ہی۔
 
2011 کی سروی سی پتہ چلتا ہی کہ ہندستان میں ہر پانچ میں سی ایک موبائل صارفین 3 جی والی اپنی فون پر فحش مواد چاہتا ہی۔ وہیں نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی اعداد و شمار بتاتی ہیں کہ ہندستان میں سائبر جرائم کی فہرست میں پورن سب سی اوپر ہی اور ماہرین کی مطابق اس کو روکنی کی لئی ابھی ہندستان میں کوئی قانون نہیں ہی۔ یہ کتنا عجیب ہی کہ سائبر کرائم روکنی کی لئی حکومت کی پاس کوئی سخت قانون نہیں ہی۔ یہی وجہ ہی کہ جنسی مافیا اب انٹرنیٹ یوزر کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ پہلی وہ آپ کو یہاں سیکس کا علم دیں گی اور موقع پاتی ہی راتوں رات پورن اسٹار بنادیا جائیگا۔
 
ایک رپورٹ کی مطابق لڑکیوں کو اپنی جال میں پھانسنی کیلئی شہروں میں یہ سلسلہ جاری ہی۔ دھنباد میں تقریباً پانچ فحش MMS، جھریا میں درجنوں ایم ایم ایس اور بھورا علاقی میں تین فحش ایم ایم ایس بنائی جانی کی معاملی اجاگر ہو چکی ہیں۔ کئی بلیو فلمیں بنائی جارہی ہیں جسی جنسی مافیا 3000 روپی سی لی کر 5000 روپی تک کی قیمت دی کر خرید لیتی ہیں۔ اس کی بعد اس کا خاطر خواہ استعمال حسب منشا قیمت وصول کر کرتی ہیں۔ دھنباد کی وکیل ورن کمار بتاتی ہیں کہ لڑکی کی جانی پہچانی افراد بھی اس کام میں ملوث ہوتی ہیں۔
 
 ایسی کئی کیس کورٹ میں چل رہی ہیں، لیکن گواہ نہیں ہونی کی وجہ سی لڑکیوں کو انصاف نہیں مل پاتا۔
یہی نہیں، کرناٹک کی تین وزیر بھی اسمبلی میں بیٹھ کر اسمارٹ پر پورن ویڈیو کو بڑی غور سی دیکھتی ہوئی نظر آئی۔ ان کی اس حرکت کو ٹیلی ویژن کیمری میں قید کر لیا گیا۔ اسمبلی کی مقدس احاطی میں پورنوگرافی دیکھنی کی وجہ سی انہیں وزیر کی عہدی سی ہاتھ دھونا پڑا۔ 
 
مئی، 2011 میں جی این یو کی 22 سالہ طالب علم جناردن کمار نی بھی اپنی دوست کی ساتھ مباشرت کی لمحات کا ویڈیو بنایا اور جب اس کی دوست نی اسی رد کر دیا تو اس نی ویڈیو کو بلیک میل کا ہتھیار بنا لیا۔ 15 جنوری، 2013 کو راجستھان کی ایک ہوٹل میں ٹھہری نو شادی شدہ جوڑی کا فحش ویڈیو بناکر اسی 35 پورن ویب سائٹس پر اپ لوڈ کر دیا گیا، جس کی شکایت نوئیڈا میں کی گئی اور پولس نی جالندھر سی پورن ویب سائٹ کی دو مالکان کو گرفتار کر لیا ہی۔
 
دستیاب اعداد و شمار کی مطابق ہندستان میں تقریباً 30 کروڑ لوگ موجودہ وقت میں انٹرنیٹ کا استعمال کر رہی ہی۔ انٹرنیٹ استعمال کرنی والی زیادہ تر افراد پورن سائٹ کا استعمال کرتی ہیں۔ یہ بات کافی یقین کی ساتھ کہی جا سکتی ہی کہ 100 میں سی 80 افراد 
نی ایسی سائٹس کبھی نہ کبھی ضرور ملاحظہ کی ہوگی لیکن اس کی باوجود حکومت کی اس جانب کوئی توجہ نہیں ہی جبکہ سائبر کرائم کو روکنی کی لئی نیپال کی حکومت نی 60 سی زیادہ پورن سائٹس پر پابندی لگا دی ہی۔ چین میں بھی اس طرح کی سائیٹس پر پابندی ہی۔یہاں تک کہ گوگل کو بھی باہر کا راستہ دکھا دیا گیا ہی لیکن ہماری حکومت ہند تو کان میں تیل ڈال کر سو گئی ہی جسکا خمیازہ آئی د ن معصوم لڑکیوں کو بھگتنا پڑرہا ہی۔
 
ہماری ملک کی حالت تو ایسی ہو گئی ہی کہ گینگ ریپ پر صرف ٹی آر پی و مشاہدات کی لئی چلانی والی میڈیا بھی ہمیشہ فحاشی پروسنی میں لگی ہوئی ہی۔ مشہور و معروف اخبار کی ویب سائٹ سمیت متعددزبانوں کی کئی اچھی خاصی ویب سائٹس نی حد کر دی ہی۔ معروف ویب سائٹس میں اب براہ راست پورن کی ویڈیو دکھانا حد نہیں تو کیا ہی۔ 'خبریں' کی نام پر فحاشی پروسنی والی ویب ساٹس کا کیا کریں؟
 
 یہاں بی شمار سوالات ہیں لیکن سب سی بڑا سوال یہ ہی کہ کوئی اخلاقی تعلیم کی بات کیوں نہیں کرتا؟ کوئی پورن سائٹ پر پابندی لگانی کا مطالبہ کیوں نہیں کرتا؟ جہاں سی ہر گندی سوچ کی شروعات ہوتی ہی۔ آج کل نوی فیصد نوجوان کی موبائل میں پورن فلمیں رہتی ہیں۔ زنا کوئی آسمان سی نہیں ٹپکا ہی۔ اس کی سوچ معاشری میں رہ کر ہی گندی ہوئی ہی۔
 
ٹھیک ہی، اب سنئی جناب ہماری پورن اسٹار سنی لیون محترمہ کہتی ہیں "پورن اسٹار کا مطلب ویشیا نہیں ہی۔ شوٹ آؤٹ اٹ وڈالا میں اب محترمہ پر تو گانا بھی فلمایا گیا ہی "لیلی تیری لی لی گی تو لکھ کی لی لی ..." واہ ری ہماری معاشری کی ٹھیکیدار ... اس پر ان کی نظر کب ہوگی؟ اور اگر ہم ایسی ہی دیکھتی رہیں تو ایک دن ضرور یہ لیلی (پورن) ہماری ہندستانی سماج کی لی لی گی، آپ ہم سی لکھ کر لی لیں ...
 
نئی دہلی! ملک میں ریپ کی واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہی۔ شرمناک بات یہ ہی کہ گزشتہ کئی ماہ سی ریپ کی جتنی خبریں آ رہی ہیں ان میں ریپ کا شکار ہونی والی عورتیں نہیں بلکہ چار سی چھ اور آٹھ سال تک کی معصوم بچیاں ہیں۔ دوسری بات یہ ہی کہ ریپ کرنی والی تمام ملزمین گاؤں اور شہروں کی رہنی والی اس طبقی کی ہیں جو بالکل پڑھی لکھی نہیں ہیں۔ ان کا معاشری میں کوئی رول نہیں ہی، ان کی پاس پیسی نہیں ہیں، وہ مزدور ہیں جو روزانہ کماتی ہیں اور روز کھاتی ہیں۔ اس طبقی میں اس قسم کی حیوانیت کہاں سی آئی، اس کا ایک ہی جواب ہی کہ اس طبقی میں اس قسم کی حیوانیت فلمز، ٹی وی پروگرام، ٹی وی پر آنی والی سیریل ، اشتہارات اور ہائی سوسائٹی کی خواتین اور لڑکیوں کی لباس دیکھ دیکھ کر آتی ہی۔ ریاستی اسمبلی میں اس مسئلی پر بحث کرتی ہوئی سماج وادی پارٹی کی رام گوپال یادو، جنتا دل یونائیٹڈ کی شیوانند تیواری، بی جی پی کی نجمہ ہبت اللہ اور کانگریس کی پربھا ٹھاکر وغیرہ کی دلیلوں کو غلط ثابت کرتی ہوئی نامزد ممبر جاوید اختر نی سنیما کی ذریعہ پھیلائی جا رہی جرائم کی بھرپور حمایت کی اور نام نہاد جیسی دلائل کی ذریعہ اگلی دن کی اخبارات میں بھلی ہی اپنی لئی جگہ بنا لی ہو، حقیقت پر وہ پردہ نہیں ڈال سکتی۔ جو لوگ جاوید اختر کی غلط دلیلوں کی حمایت کرتی ہوئی سنیما کی ذریعہ دیئی جا رہی جنس اور جسم فروشی کو بھی ٹھیک اور کہانی کی ضرورت بتا رہی ہیں۔ وہ تو جان بوجھ کر جھوٹ بول رہی ہیں یا پھر ڈھونگ کر رہی 
ہیں۔ ہماری معاشری کی حقیقت یہ ہی کہ خود کو ہائی پروفائل سوسائٹی کا حصہ بتانی والی لوگوں میں جنس کوئی مسئلہ نہیں ہی چونکہ اس سوسائٹی میں ہر کسی کو سب کچھ آسانی سی حاصل ہی، اس لیی اس ہائی سوسائٹی میں ریپ کی واقعات بھی پیش نہیں آتی۔ مڈل کلاس طبقہ اب بھی رواجوں اور سماجی تانی بانی میں پھنسا ہی اس لئی اس طبقی میں بھی کوئی پریشانی نہیں ہی۔ اب رہا نچلا طبقہ جس طبقی کی غیر پڑھی لکھی نوجوان جب فلموں، اشتہارات میں عریانیت ور نغموں کی نام پر نوجوان لڑکیوں کی جسم کی تمام حصی کھلی ہوئی دیکھتی ہیں یا شہروں میں مبینہ ہائی سوسائٹی کی خواتین اور لڑکیوں کی آدھی ادھوری لباس دیکھتی ہیں تو ان پر جنون کی حد تک جنسی کا دورہ پڑتا ہی۔ اسی دورہ کی حالت میں اتا ؤلا ہوکر وہ اتنا خوفناک اور گھناؤنا جرم کر بیٹھتی ہیں۔ انتہا یہ کہ جنس کا دورہ پڑنی سی حیوانیت طاری ہوجاتا ہی اور معصوم بچیوں تک کو اپنی ہوس کا شکار بنانی والی کئی لوگوں کو اپنی بیٹی اور بھتیجی اور بھاوج تک کا خیال نہیں رہتا۔ ایسی واقعات میں پولس اور قانون کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ دہلی میںپندرہ اپریل کو پانچ سال کی معصوم بچی کو ریپ کرنی والی دونوں درندوں منوج اور پردیپ نی بھی گرفتاری کی بعد پولس کو دیئی ہوئی اپنی بیان میں کہا ہی کہ ان دونوں نی شراب پی اور اس علاقی میں ہی کال گرل کی تلاش میں نکلی۔ اتفاق سی انہیں کوئی کال گرل نہیں ملی۔ وہ واپس اپنی کمری پر آ کر بیٹھی ہی تھی کہ ان کی نظر باہر کھیلتی گڑیا پر پڑی تو دونوں نی اسی بہلا کر اٹھا لیا اور اتنا بڑا گناہ کر ڈالا۔ صرف اس گڑیا کی ساتھ ہی نہیں اس سی پہلی گزشتہ سولہ دسمبر کو دہلی کی بس میں جن چھ درندوں نی ایک نوجوان لڑکی کی آبرو لوٹنی اور اسی پیٹ پیٹ کر موت کی منہ میں پہنچانی کا گھناؤنا جرم کیا تھا وہ تمام بھی نچلی طبقی کی ہی تھی۔ جنتا دل یونائیٹڈ کی شیوانند تیواری نی راجیہ سبھا میں ٹھیک ہی کہا کہ نچلی طبقی کی غیر پڑھی لکھی جو نوجوان ریپ جیسی گھناو¿نی حرکتوں میں پکڑی جا رہی ہیں حکومت کو ان کی ذہنی کیفیت سمجھنی کا کوئی بندوبست کرنا چاہئی۔ یہ حرکتیں سماج کی سڑی گلی نظام کا نتیجہ ہیں۔ سخت قانون بنا کر یا پولس کو استعمال کر کی اس پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ انہوں نی ٹھیک ہی کہا ہی کہ محنت مزدوری کرنی کی لئی دور دراز دیہات سی بغیر پڑھی لکھی نوجوان دہلی ممبئی جیسی بڑی شہروں میں آتی ہیں۔ ان کا سامنا ایک بالکل الگ قسم کی دنیا سی ہوتا ہی۔ اس تبدیل شدہ ماحول کی لئی انہوں نی فلموں کی گرتی سطح اور غیر ضروری طریقی سی عورتوں کی استعمال والی ٹی وی اشتہارات کو ذمہ دار قرار دیا۔ پروفیسر رام گوپال یادو اور نجمہ ہبت اللہ سمیت کئی ممبران نی شوانند تیواری کی بات کی تائید کی۔ نجمہ ہبت اللہ نی یہ کہہ کر جاوید اختر کی بولتی بند کر دی کہ ایک آئٹم سانگ میں کم کپڑوں میں رقص کرنی والی لڑکی گانا گاتی ہی جس میں گایا جاتا ہی کہ'' میں ہوں تندوری چکن مجھی وہسکی کی ساتھ ڈکار لو'' یہ گانا کس تہذیب کی عکاسی کرتا ہی اور کیا لڑکیاں تندوری چکن ہیں؟
گزشتہ دسمبر مہینی میں بس میں ہوا ریپ کا معاملہ ہو یا اب معصوم بچی کی ساتھ ہوئی درندگی، دونوں معاملات کی بعد اروند کیجریوال کی غنڈوں کی ٹیم اور دیگر بڑی تعداد میں لوگوں نی دہلی کی سڑکوں پر جو ہنگامی کیی اور پرائیویٹ ٹی وی چینلز نی ان ہنگاموں کو بڑھا چڑھا کر دکھایا اس سی اصل مقصد تو حل نہیں ہوا، پوری دنیا میں ہندستان کی بدنامی ضرور ہوئی ہی۔ یورپ اور امریکہ نی اپنی ملک کی لوگوں کی لئی باقاعدہ ایک ایڈوائزری جاری کرکی یہ مشورہ دی ڈالا کہ لڑکیاں اور عورتیں ہندستان خصوصاً دہلی نہ جائیں۔ تحریک کا یہ کون سا طریقہ ہی کہ پولس ہیڈ کوارٹر میں اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی کی ٹوپیاں لگائی ہوئی پچاسوں غنڈی پہنچ گئی، آخر پولس ہیڈ 
 
کوارٹر کی اندر گھس کر یہ لوگ کیا کرنا چاہتی تھی۔ دسمبر میں اسی قسم کی لوگ صدارتی محل میں داخل ہونی کی کوشش کر چکی ہیں۔ ہر تحریک کا کوئی طریقہ ہوتا ہی، جلوس نکالنی اور دھرنا دینی کا بنیادی حق سب کو ہی لیکن پولس کی بھی یہ ذمہ داری ہی کہ وہ صدارتی محل اور پولس ہیڈ کوارٹر جیسی اہم دفاتر کی حفاظت کری۔
 
دہلی میں ہوئی احتجاج کی پیش نظر پولس حرکت میں آئی اور دہلی حکومت غیر ضروری دباو¿ میں آ گئی۔ ان غنڈوں کی خلاف مقدمہ بھی درج نہیں ہو سکا جنہوںنی ریپ کا شکار ہوئی چھ سال کی معصوم بچی کو تلاش کرنی کی بہانی مہرشی دیانند اسپتال پر ہی حملہ کر دیا تھا۔ ان غنڈوں نی'' سائلنس زون ہونی کی باوجود ہسپتال میں وارڈوں کی بند دروازوں کو پیٹ پیٹ کر توڑنی کی کوشش کی اور جم کر نعری بازی کرتی ہوئی تمام مریضوں کو پریشان کر دیا۔ کچھ لڑکیاں بینو راوت کی پیچھی نعری بازی کرتی ہوئی ہسپتال میں داخل ہونی کی کوشش کر رہی تھیں۔
 
 جو خواتین اور لڑکیاں دہلی میں ٹی وی کیمروں کی سامنی نعری بازی کرتی ہوئی سوال کر رہی تھیں کہ لڑکیوں کی لباس پر انگلی اٹھانی والی اب یہ بتائیں کہ آخر چھ سال کی بچی نی کون سی ایسی خراب کپڑی پہنی تھی جس سی بھڑک کر درندوں نی اس کی آبرو لوٹی۔ اس طرح کی سوال کرنی والی خواتین بھی حقیقت پر پردہ ڈالنی کی کوشش کر رہی ہیں کہ نام نہاد ہائی سوسائٹی میں جنسی کوئی مسئلہ نہیں ہی، لیکن خود کو'' ہائی کلاس'' طبقی کا بتانی والی لڑکیوں کی بھڑکاؤ پوشاکیں دیکھ کر ہی منوج اور پردیپ جیسی نچلی طبقی کی لوگ کسی بھی بچی کی ساتھ ریپ کرنی کی گھناو¿نی حرکت کرتی ہیں۔ انہیں بھڑکاؤ لباس پہننی والی لڑکیاں تو مل نہیں سکتیں اس لیی ان کی ہوس کا شکار بھی غریب طبقی کی بچیاں یا عورتیں بنتی ہیں۔ جو لوگ اس حقیقت پر پردہ ڈالنی کی کوشش کر رہی ہیں وہ دراصل جانی انجانی ریپ کی واقعات کو فروغ دینی کی ہی باتیں کرتی ہیں۔ اس لئی شیوانند تیواری کی اس بات پر پوری ملک، حکومت، پولس کو نچلی طبقی کی زنا بالجبر کی ذہنی کیفیت (دماغی حالت) کو تلاش کرنی کا کام ضرور کرنا چاہئی تبھی شاید ان گھناو¿نی حرکتوں کو روکنی میں کامیابی حاصل ہو سکتی ہی۔
***********************
Comments


Login

You are Visitor Number : 1309